حضرت علی اکبر ؑ کی شخصیت اور شہادت

"علي بن الحسين(ع)" جن کی والدہ کا نام «ليلا بنت ابي مرہ بن عروہ بن مسعود» تھا، اور علي اكبر، کے نام سے مشہور ہیں، خاندان رسول (ص) کے پہلے فرد تھے جنہوں نے امام علیہ السلام سے اذن جہاد مانگا۔

علي اكبر(ع) والد اور والدہ دونوں کی طرف سے شریف ترین سلسلہ نسب کے مالک تھے۔ والد کی طرف سے آباء و اجداد تعارف کے محتاج نہیں ہیں جبکہ آپ کے نانا «عروہ بن مسعود ثقفي» وہ بزرگ صحابی رسول (ص) ہیں جو تبلیغ دین کی راہ میں شہید ہوئے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: «میں نے عيسي بن مريم (ع) کو دیکھا ہے اور عروة بن مسعود ان سے بہت زیادہ شباہت رکھتے ہیں۔ آپ (ص) نے انہیں چار بزرگ عرب مردوں میں سے ایک قرار دیا۔

إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ * ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔

(آل عمران آیات 33 و 34)

خداوند متعال نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین پر برتری اور فضیلت عطاکی یہ ایک ہی نسل ہے ان میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

علی اکبر سپاہ یزید پر حملہ آور ہوئے اور بے شمار یزیدی سپاہیوں کو واصل نار کیا۔ رفتہ رفتہ زخموں کی تعداد جسم مبارک پر بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ پیاس میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

علی اکبر بے تاب ہورہے تھے۔ اسی حال میں ایک شقی نے سراقدس پر وار کیا جس کی وجہ سے علی اکبر کی آنکھوں کے سامنے خون کا پردہ حائل ہوا تب ہی علی اکبر گھوڑے کی پیٹھ پر نہ سنبھل سکے۔

گھوڑے کی گردن کو ہاتھوں کے حلقے میں تھاما ہوا تھا تاکہ زمین پر نہ گریں مگر گھوڑا دشمنوں کے ازدحام اور خنجر وشمشیروں کے واروں کے بیچ علی اکبر کو خیام تک پہنچانے کی بجائے لشکر یزید کے قلب میں لے گیا تھا؛ چنانچہ یزیدی لشکریوں نے گھوڑے کے گرد گھیرا ڈالا اور ہر کوئی دستیاب ہتھیاروں سے شبیہ رسول اللہ (ص) کے جسم مطہر پر وار کرنے لگا۔

پیکر اکبر پر بے شمار وار پڑے اور بقول راوی «فقطعوہ اربا اربا»

ظالموں نے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔

اکبر کی صدائے وداع خیموں میں یوں سنی گئی: «يا ابتاہ عليك مني السلام ــ بابا جان، خدا حافظ میرا آخری سلام قبول کرنا یہ ہیں میرے جد رسول اللہ (ص) جو میرے سرہانے بیٹھے ہیں اور پانی کا بھرا جام مجھے پلارہے ہیں»۔۔۔

امام (ع) سرعت کے ساتھ اپنے نوجوان بیٹے کے پاس پہنچے۔ آپ نے چہرہ بیٹے کے چہرے پر رکھا اور فرمایا: "علی الدنيا بعدك العفا ــ اف و افسوس ہے دنیا پر تیرے جانے کے بعد میرے دلبند!!"...

اس کے بعد ــ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقولہ زیارت نامے کے مطابق ... امام (ع) نے بیٹے کے خون میں سے ایک ہاتھ بھر خون آسمان کی طرف اچھالا اور عجب یہ کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا...

حضرت زينب (س) نے جب یہ حالت دیکھی تو تیزی سے خیام سے باہر آئیں اور فریاد کرکے فرمایا: "يا اخاہ و يابن اخاہ ـ اے میرے بھائی اور اے میرے بھتیجے" اور اکبر کے جسم بےجان پر گرگئیں اور نوجوانوں کو ہدایت فرمائی: «اپنے بھائے کی لاش اٹھاؤ اور خیموں میں پھنچادو" ۔۔۔

ہاں! امام (ع) تمام شہداء کو خود اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے تھے مگر دو شہیدوں کو نہ لاسکے جن کی شہادت نے آپ (ع) کی کمر توڑدی تھی؛

بیٹا علي اكبر (س) ؛ اور بھائی ابوالفضل العباس (ع)

علي اكبر بہت ہی زیادہ نیک خصال و نیک سیرت ہونے کے علاوہ حد درجہ خوش صورت و سیما تھے۔ اور چونکہ نبی اکرم (ص) سے بہت زیادہ شبیہ تھے لہذا جب بھی اصحاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل رسول اللہ (ص) کو ترستا تو ان کی زیارت کرنے کی سعی کرتے۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کاروان عشق مکہ سے کربلا کی جانب آرہا تھا۔ ظہر کے وقت قافلے نے ایک منزل میں پڑاؤ ڈالا۔ امام علیہ السلام پر نیند کی سی کیفیت طاری ہوئی۔ کچھ لمحے بعد سر اٹھا کر فرمایا: "میں ابھی ہاتف کی ندا سن رہا تھا جو کہہ رہا تھا "تم آگے آگے جارہے ہو اور موت تمہارے پیچھے پیچھے آرہی ہے"۔ علی اکبر (ع) نے عرض کیا: "باباجان کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟"

امام علیہ السلام نے جواب دیا: "کیوں نہیں میرے فرزند ‏عزیز‏‏‏‏‏، خدا کی قسم کہ ہم حق پر ہیں"۔

علی اکبر نے پوری جوانمردی اور شجاعت کے ساتھ کہا: "پس ہمیں موت سے کوئی خوف نہیں ہے"

امام (ع) کے وجود شریف پر تحسین کا احساس چھا گیا اور اپنے فرزند کے حق میں دعا فرمائی: "خدا وہ بہترین جزا تجھے عطا کرے جو ایک باپ کی جانب سے بیٹے کو عطاکرتا ہے"۔

امام کی روش یہ تھی کہ شفقت و ترحم کی بنا پر اذن جہاد مانگنے والے کوابتداء میں اذن نہیں دیا کرتے تھے؛ مگر یہاں امام (ع) کی روش مختلف تھی۔

جب علی اکبر نے اذن جہاد مانگا تو آپ (ع) نے فورا اذن دیا۔۔۔ اور یہ رسول اللہ (ص) کی سنت بھی تھی۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کے دیگر راہنماؤں کے برعکس جو اپنے قرابتداروں کو جنگ سے دور رکھتے ہیں - غزوات میں سب سے قریبی افراد کو میدان جنگ روانہ فرمایا کرتے تھے۔

حسين (ع) نے اس کے بعد ایک ناامیدانہ نظر بیٹے سروقد بیٹے کے قد و قامت پر ڈالی اور روئے۔۔۔

امام (ع) نے علي اكبر کو میدان روانہ کرنے کے بعد انگلی آسمان کی جانب اٹھائی اور اپنی مبارک داڑھی ہاتھ میں پکڑ کر خداوند لم یزل و لا یزال کے ساتھ یوں راز و نیاز کیا: "بارخدایا! تو شاہد ہے کہ میں نے ایسا نوجوان اس قوم کے خلاف لڑنے کے لئے میدان روانہ کیا ہے جو خلقت و خُلق و عادات و کلام و گفتار میں تیرے نبی (ص) کے ساتھ سب سے زیادہ شباہت رکھتا ہے۔ ہمیں جب بھی رسول اللہ کی ملاقات کی خواہش ہوتی ہم اس کی طرف دیکھتے اور اس کا چہرہ دیکھ کر اپنا اشتیاق پورا کیا کرتے تھے"۔

امام علیہ السلام نے راز و نیاز کے بعد اس آیت کی تلاوت فرمائی:

الا لعنة الله علی القوم الظالمین - وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون

بشکریہ:۔ مقالات مخصوص معرفت شیعہ

Add new comment