آداب عزاداری
محرم حرام مہينوں ميں آخري مہينہ ہے اس مہينے کي آمد پر اہل بيت کے دل سوختہ شيدائي سوگ و عزا کا سياہ لباس پہنتے ہيں اور عزيزِ فاطمہ (س) کي عزاداري کے لئے تياري کرتے ہيں- وہ سياہ جامہ زيب تن کرکے امام زمانہ (عج) سے اجازت ليتے ہيں کہ ان ايام غم و حزن ميں ان کے جد امجد حضرت سيدالشہداء عليہ السلام کي عزاداري کي مجالس بپا کرکے عزاداري کا حق ادا کريں-
شيعيان آل محمد (ص) اور حسين (ع) کي راہ کے رہرو خدا سے التجا کرتے ہيں کہ انہيں حقيقي عزاداري کي توفيق عطا فرمائے اور روز قيامت انہيں اہل بيت (ع) کي شفاعت سے بہرہ مند فرمائے-
امام رضا عليہ السلام نے يکم محرم الحرام کے دن اپنے ايک صحابي "ريان بن شبيب" سے مخاطب ہوکر فرمايا: اے ابن شبيب! عرب جاہليت کے زمانے ميں محرم الحرام کے ايام ميں جنگ کو حرام سمجھتے تھے ليکن اس امت نے اس مہينے کا احترام پامال کرديا اور پيغمبر خدا (ص) کي حرمت کا پاس نہيں رکھا- امتيوں نے اس مہينے ميں ہمارا خون حلال قرار ديا اور ہماري حرمت کا ہتک کيا اور ہمارے بچوں اور خواتين کو اسير کرديا اور ہمارے خيموں کو نذر آتش کيا اور ہمارے اموال کو لوٹ ليا اور ہمارے حق ميں رسول اللہ (ص) کي حرمت کا لحاظ نہيں رکھا-
اس کے بعد امام رضا عليہ السلام نے ارشاد فرمايا: بے شک يومِ شہادتِ حسين نے ہماري آنکھوں کي پلکوں کو زخمي کرديا، ہمارے آنسۆوں کو رواں کرديا اور ہمارے عزيزوں کو کربلا ميں خوار کيا اور رنج و مصيبت کو روز جزا تک ہمارے خاندان کے لئے ورثے کے طور پر چھوڑا- پس رونے والوں کو حسين عليہ السلام پر رونا چاہئے کيونکہ امام حسين (ع) کے لئے گريہ، گناہان کبيرہ کو مٹا ديتا ہے-
اے ابن شبيب! اگر کسي چيز کے لئے گريہ کرنا چاہتے ہو تو حسين بن علي (ع) پر گريہ کرو، کيونکہ ان کو [اشقياء نے] قتل کيا جس طرح کہ بھيڑ بکريوں کو ذبح کيا جاتا ہے اور امام حسين (ع) کے ہمراہ اہل بيت (ع) کے اٹھارہ افراد کو قتل کيا جو روئے زمين پر بے مثل و بے مانند تھے-
سات آسمان اور زمينيں امام حسين (ع) کي شہادت پر روئيں- چار ہزار فرشتے روز عاشورا امام حسين (ع) کي نصرت کے لئے نازل ہوئے اور ديکھا کہ امام شہيد ہوگئے ہيں چنانچہ پريشان اور غبارآلود قبر امام حسين (ع) کي مجاورت پر مأمور ہوئے اس وقت تک جب حضرت قائم عليہ السلام ظہور فرمائيں اور يہ فرشتے امام قائم کے انصار و اعوان ميں شامل ہوں اور ان کا نعرہ "يالثارات الحسين" ہوگا-
امام رضا عليہالسلام نے آخر ميں ارشاد فرمايا: اے ابن شبيب! اگر چاہتے ہو کہ ہمارے ہمراہ جنت کے اعلي درجات رہو تو ہمارے حزن ميں محزون رہو اور ہماري خوشي ميں خوش رہو اور تم پر واجب ہے ہماري ولايت کيونکہ اگر کوئي شخص کسي پتھر کو سے محبت کرتا ہو خداوند متعال اس کو اسي پتھر کے ساتھ محشور فرمائے گا-
آخلاقي سفارشات
اہل بيت (ع) کے حزن و غم کي آمد پر بہتر يہي ہے کہ عارف واصل مرحوم آيت اللہ ملکي تبريزي رحمۃاللہ عليہ کي سفارش کردہ مراقبات اپنے قارئين کي خدمت ميں پيش کرتے ہيں- محرم الحرام کي آمد پر ان مراقبات کو جاننا اور سمجھنا عارفانہ اور آگاہانہ انداز سے عزاداري کے لئے تياري کا سبب بنتا ہے- البتہ يہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ اس عارف واصل کي اخلاقي سفارشات اگر ايک طرف سے اخلاقي ہدايات اور سيدالشہداء عليہ السلام کے مصائب کے ذکر سے عبارت ہيں تو دوسري طرف سے يہ امام حسين عليہ السلام کي عزاداري کے لئے ايک معيار کا تعين بھي کرتي ہيں تا کہ عزاداران حسيني (ع) اپنے ايمان و اخلاص کے مدارج و مراتب کو بھي پرکھ ليں-
ملکي تبريزي فرماتے ہيں: ائمۂ اہل بيت (ع) کے حبداروں کے لئے بہتر ہے کہ خدا و رسول (ص) سے دوستي اور محبت و وفاداري کي بنا پر، محرم کے پہلے عشرے ميں متغير ہوجائيں، ان کے دل اور ان کے چہروں ميں ان عظيم مصائب کي وجہ سے دکھ اور غم و صدمے کے آثار نماياں ہوں؛ انہيں دنيا کي لذتيں ممکنہ حد تک ترک کرديني چاہئيں، مثلاً کھانے پينے حتي کہ سونے (نيند) اور بولنے تک سے پرہيز کيا جائے مگر ضرورت کي حد تک اور انہيں ايسے شخص کي مانند ہونا چاہئے جو باپ يا بيٹے کے انتقال کي بنا پر صدمے سے دوچار ہوا ہے-
لکھتے ہيں: آل محمد (ص) کے حبداروں کے نزديک ناموس الہي اور پيغمبر صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم اور امام عليہ السلام کي حرمت ان کے اپنے اور اقرباء کي حرمت سے کسي صورت ميں کم نہيں ہوني چاہئے اور لازم ہے کہ خدا، پيغمبر خدا (ص) اور امام معصوم (ع) سے اپني ذات، اپني اولاد اور اقرباء سے زيادہ محبت کريں-
آيت اللہ ميرزا جواد ملکي تبريزي رحمۃاللہ عليہ، جو علم اخلاق ميں امام خميني رحمۃاللہ عليہ کے استاد بھي ہيں، سورہ توبہ کي آيت 24 سے استناد کرتے ہيں جہاں ارشاد رباني ہے: "کہہ ديجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہاري اولاد اور تمہارے بھائي اور تمہارے شريک زندگي اور تمہارے عزيز اور وہ مال جو تم نے جمع کيے ہيں اور وہ کاروبار جس کے مدھم ہو جانے کا تمہيں ڈر ہے اور وہ مکانات جو تمہيں پسند ہيں، اللہ اور اس کے پيغمبر اور اس کي راہ ميں جہاد سے تم کو زيادہ محبوب ہيں تو پھر منتظر رہو، يہاں تک کہ اللہ اپنا فيصلہ صادر کرے اور اللہ بداعمال لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچايا نہيں کرتا ہے"، اور اپنے فرزند کے سلسلے ميں ايک دلچسپ داستان نقل کرتے ہيں اور کہتے ہيں: ميرے چھوٹے بچوں ميں ايک کي حالت يہ ہے کہ وہ محرم کے پہلے عشرے ميں سوکھي روٹي کھاتا ہے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کسي نے بھي اسے ايسا کرنے کي سفارش نہيں کي ہے اور ميرا خيال ہے کہ اس کے اس عمل کا سرچشمہ اس کي باطني محبت ہے-
آيت اللہ ملکي تبريزي کہتے ہيں: اس کے باوجود اگر کوئي شخص پورے عشرہ اول مين يہ عمل انجام نہ دے سکے اس کو تاسوعا اور عاشورا اور گيارہ محرم کي شب سوکھي روٹي کھاني چاہئے اور عصر عاشورا تک کھانا، پينا حتي کہ ديني برادران سے ملاقات تک کو ترک کردے اور اس دن کو گريہ و بکاء کا دن قرار دے-
آيت اللہ ملکي تبريزي محرم الحرام کے پہلے عشرے ميں امام حسين (ع) کے دوستداروں اور حبداروں کو زيارت سيدالشہداء (ع) اور زيارت عاشورا کي سفارش کرتے ہيں اور لکھتے ہيں: اگر انسان اپنے گھر ميں ہي خالص نيت سے امام (ع) کي عزاداري کرسکے، تو وہ ايسا ہي کرے اور اگر ايسا نہيں کرسکتا تو مساجد اور دوستوں کے گھروں ميں ہونے والي مجالس عزا کے انعقاد ميں مدد کريں اور اس بات کو دوسروں سے چھپا کر رکھيں تا کہ اخلاص سے قريب تر اور ريا و خودنمائي سے دور رہے-
آيت اللہ ملکي تبريزي کہتے ہيں: امام حسين عليہ السلام اور اہل بيت (ع) کے ساتھ مواسات اور ہمدردي، آپ (ع) اور آپ (ع) کے خاندان پر وارد ہونے والے ظاہري صدمات و مصائب کي بنا پر ہوني چاہئے ليکن اس بات سے بھي غافل نہيں ہونا چاہئے جو ظاہري صدمات و مصائب امام حسين (ع) پر وارد ہوئے ہيں وہ کسي بھي نبي (ع) اور ان کے جانشينوں اور بني نوع بشر ميں سے کسي بھي فرد پر وارد نہيں ہوئے-
مرحوم آيت اللہ ملکي تبريزي لکھتے ہيں: مذکورہ بالا مصائب و صدمات کو مد نظر رکھ کر امام حسين (ع) کے دوست بھي آپ (ع) سے ہمدردي کے اظہار کے طور پر ايسے اعمال انجام ديں جو اس عظيم مصيبت سے تناسب اور مناسبت رکھتے ہيں، اس طرح سے کہ گويا يہ تمام مصائب ان کي اپني ذات، عزيزوں اور اقرباء و رشتہ داروں پر وارد ہوئے ہيں- کيونکہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق، امام مسلمان کي نسبت اس کي اپني ذات پر ترجيح رکھتے ہيں اور اسي بنا پر آپ (ع) نے يہ عظيم مصيبت قبول فرمائي اور اپنے آپ کو اپنے پيروکاروں پر قربان کرديا تا کہ [اسلامي تعليمات زندہ و پائندہ رہيں، ان کا دين محفوظ رہے اور وہ] ابدي اور دردناک عذاب سے محفوظ رہيں- thanx for abna....
Add new comment