واقعہ کربلا اور طرز فکر
فداحسين عابدي
نوٹ: ہم اس مقالہ ميں اس شبہ کا جواب تلاش کريں گے کہ کيا امام حسين (ع) کي شہادت ميں کوفہ کے شيعوں کا کوئي کردار تھا؟ يا يہ ايک تہمت ہے؟ اس مقالےکے بيشتر مطالب ، محمد رضا ہدايت پناہ کي کتاب،« بازتاب اموي طرز فکر در واقعہ کربلا»، سيد علي ميلاني کی کتاب ،« ناگفتہ ہاي واقعہ کربلا» اور علي اصغر رضواني کي کتاب «واقعہ کربلا وپاسخ بہ شبہات آن» سے اخذ کيا گيا ہے لہذا منابع اور اصل حوالہ کے طالب ہو تو انہي کتابوں کي طرف رجوع فرمائيں ۔
مقدمہ
تاريخ اسلام ميں واقعہ کربلا ايک ايساعظيم واقعہ ہے جس سے کسي کو بھي انکار نہيں ہے۔ يہ حادثہ جس نے بھي سنا خواہ وہ مسلمان ہو يا غير مسلم ،شيعہ ہو يا سني مرتکبين جنايت کي سب مذمت کرتے ہيں۔ يہ جنايت جس نے بھي انجام دي ہے وہ قابل مذمت اور اس کا اسلام سے کوئي تعلق نہيں ہے۔ اب رہ گيا يہ کہ اس واقعہ کا ذمہ دارکون ہے؟ بعض نے شک و شبہ ايجاد کرنے کي کوشش کي ہے۔ جيساکہ واضح ہےواقعہ کربلاساٹھ ہجري ميں يزيدکے برسر اقتدار آنے کے بعد پيش آيا۔ يزيد نے امام حسين (ع) سے بيعت کا مطالبہ کيا۔ آپ نے بيعت کرنے سے انکار کرديا اور مدينہ چھوڑکرمکہ اور مکہ سے اہل کوفہ کي دعوت پر عراق کي طرف جاتے ہوئے کربلا کي سرزمين پرابن زيادکے لشکر کےروبروہوئے۔ امام حسين (ع) کي شہادت کے بعدخاندان رسالت کو قيدي بناکر کوفہ وشام کے بازاروں اور درباروں ميں پھرايا گيا۔بعض افراد جو يزيد کو خليفہ مسلمين سمجھتے ہيں ان کا مزاج يزيدکو امام حسين کے قاتل کے طور پر پہچنوانےکوپسند نہيں کرتا لہذا وہ لوگ کوشش کرتے ہيں کہ اس جنايت کے ذمہ داريزيد کے بجائے کسي اور کو ٹھہرائيں لہذا يہ شبہ ايجاد کرتے ہيں کہ امام حسين (ع) اپنے نانا کي تلوار سے شہيد ہوئے، ابن زياد ، ابن سعد اور شمر حسين (ع)کاقاتل ہے،کوفہ کے شيعوں نے امام کو قتل کرديا ہے۔ دنيا کے تمام شيعہ اپنے اسلاف کے کارناموں سے شرمندگي اور اس جنايت سے التيام کي خاطر عزاداري کرتے ہيں!
اس سوال کا جواب دينے کے لئے ضروري ہے کہ پہلے اس زمانے کے اہاليان کوفہ اور ان کے عقائدکو پہچاناجائے۔
شيعہ کے معنيٰ
لغت ميں شيعہ کسي فرد کي پيروي کرنے، اور قول و فعل ميں اس کے ساتھ ہم آہنگي کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1]
قرآن مجيد ميں جہاں بھي لفظ شيعہ آيا ہے اس سے لغوي معني ٰ مقصود ہے جيساکہ بني اسرائيل کا ايک شخص اور حضرت موسي ٰ (ع)کے پيروکار کے درميان جھگڑاہوا اس کے بارے ميں آيا ہے:“هذا من شيعته وهذا من عدوہ”[2]
اسي طرح حضرت ابراہيم کے بارے ميں آيا ہے:“وان من شيعته لابراهيم”[3] مقصود يہ ہے کہ ابراہيم (ع)کي روش اور آپ کاطريقہ حضرت نوح (ع) جيسا ہے۔[4]
ليکن اصطلاح ميں شيعہ کي مختلف تعريفيں کي گئي ہيں:
1۔ شيعہ يعني وہ افراد جن کا يہ عقيدہ ہے کہ اميرالمؤمنين(ع)خليفہ بلافصل ہيں آپ دوسرے اصحاب سے افضل ہيں اور پيغمبر اسلام (ص)هے آپ کواپنا جانشين بناديا ہيں۔ امامت کا سلسلہ آپ اورحضرت زہراI کے فرزندوں کے ذريعے قيامت تک باقي رہے گا۔ان کے علاوہ کوئي اور عہدہ امامت کا حقدار نہيں ہے۔
اہل سنت کے دانشمند عبدالکريم شہرستاني نے لکھا ہے:“شيعہ وہ لوگ ہيں جو صرف علي (ع)کي پيروي کرتے ہيں اور نص کي بنياد پرحضرت علي (ع)اور ان کي اولاد کي امامت اور خلافت کے معتقد ہيں اوراس نظريے کے مطابق امامت ان کي اولاد کے علاوہ کسي اور کو نہيں ملے گي۔ اگر ان کے علاوہ کوئي اور اس منصب امامت کو سنبھالے تو اس کي امامت ظالمانہ ہے۔”۔ [5]
2۔ شيعہ وہ افراد ہيں جو علي (ع)کو تمام صحابہ سے افضل سمجھتے ہيں ليکن آپ کے خليفہ بلا فصل اور آپ کي امامت کے منصوص من اللہ ہونے کا معتقد نہيں ہيں۔ کبھي ان لوگوں پر شيعہ کا اطلاق ہوا ہے جوحضرت علیAکوصرف عثمان سے افضل سمجھتے ہيں۔ جيساکہ قاضي عبدالجبارکا کہناہے:“واصل بن عطا”کو صرف اس لئے شيعہ کہا گيا ہے کہ وہ حضرت عليAکوعثمان سے افضل سمجھتا تھا۔ کيونکہ اس زمانے ميں عثمان سےعلي(ع)کو افضل کہنے والوں کو شيعہ کہا جاتا تھا”۔[6]
اس تعريف ميں اساسي رکن افضليت ہے اس تعریف کے تحت تمام شيعہ اور اہل سنت ميں سے معتزلہ شیعه کے زمرے ميں آٍتا هے کيونکه يه گروه حضرت عليA کو دوسرے صحابہ سے يا کم از کم عثمان سے افضل مانتا ہے۔
3۔ جو بھي اہل بيت پيغمبرAسے اظہار محبت کرتا ہے اسے شيعہ کہا گياہے ۔ اگرچہ اصل وجوب محبت اہل بيت (ع)کےسارے مسلمان قائل ہيں ليکن جو لو گ اہل بيت(ع) سے محبت کا اظہار کريں يا اس کي ترويج کريں انہيں شيعہ يا رافضي کہا گيا ہے۔ يہ اس زمانے کي بات ہے کہ جس ميں اہل بيتکے مخالف يا متعصب لوگوں کي حکومت تھي ۔ جيساکہ امام شافعي کے اشعار اس بات کي گواہ ہيں:
اذا في مجلس نذکر عليّا يقال وسبطيه وفاطمة الزکية
تجازوا يا قوم هذا فهذا من حديث الرافضية
ان کان حبّ آل محمدرفضاً فللأشهد الثقلان انّی رافضی[7]
جب بھي هم کس مجلس ميں علي،ان کے فرزندوں اور حضرت فاطمه زکيه کا تذکره کرتے هيں تو کها جاتا هے اس بات کو چھوڑدو يه تو راضيوں کي بات هے ۔ اگر علي سے محبت هي راضي هونے کي علامت هے تو ثقلين گواه رهنا ميں راضي هوں!
شیعۀ علی(ع)، اس زمانه میں شيعۀ عثمان يا شيعۀ معاويہ کے مقابلہ ميں کہا جاتا تھا بعد ميں يہ علي(ع) کے ماننے والوں کے لئے اسم خاص کے طور پر استعمال ہونے لگا۔
بعض لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ شيعہ کب وجود ميں آيا اور اس کا جڑيں کہاں سے ہيں؟ حقيقت ميں تشيع حقيقي اسلام کااصلي چہرہ اور شريعت محمدي کا ترجمان ہے۔اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے الگ بحث کي ضرورت ہے۔
کوفہ کا عقيدتي و فکري منظر نامه
کوفہ خليفہ دوم کے زمانے ميں ايران اورعراق کي فتح کے بعد17ہجري ميں تاسيس ہوا۔ فوجي چھاؤني ہونے کي بنا پر افواج اسلام يہاں رہتي تھيں۔ يمن اورحجازکے مختلف قبائل کے لوگ اس شہر ميں بستے تھے ۔ شروع ميں بيس ہزار گھر بنايا گيا ان ميں سے بارہ ہزار قبيلہ يماني اور آٹھ ہزار قبيلہ نزاري کو ديا گيا۔
اہل کوفہ کےحضرت علي (ع)اور خاندان رسالت کے موالي ہونے کي علت مورّخين نے يوں بيان کيا ہے کہ وہاں بسنے والے اکثر يمن کے رہنے والے تھے اور يمن والے پيغمبراسلام 6کے زمانے ميں ہي حضرت علي (ع)سےآشنا تھے کيونکہ حضرت ايک مدت تک وہاں رہے تھے اس کے علاوہ ابن مسعود،عمار ياسر،مالک اشتراور حذيفہ يمان جيسے جليل قدر اصحاب کي تبليغ کے نتيجے ميں کوفہ تشيع کا مرکز سمجھاجانے لگا۔ البتہ عثمان کے قتل تک اہل کوفہ خلفاءکے پيرو کار تھے۔ عثمان کے قتل کےبعد کوفہ ميں دو قسم کے طرز فکروجود ميں آئے ۔ ايک طرز فکريہ تھي کہ علي (ع) عثمان سے افضل ہے اور عثمان کے قتل ميں آپ نہ صرف بے طرف رہے بلکہ عثمان کا دفاع کرتے رہےہيں۔اس طرز فکرکے حاميوں کا عقيدہ تھا کہ حضرت علي (ع)کي بيعت جمہور صحابہ اور تمام لوگوں نے کي ہے لہذا آپ کي حکومت ہر جہت سے آئيني ،قانوني اور شرعي هے۔ اس کے مقابلے ميں دوسري طرز فکر يہ تھي کہ عثمان مظلوم مانه قتل ہوا ہے۔ حضرت علي (ع) نےسکوت اختيار کرکےکم از کم شورشيوں کي حمايت کي ہے۔ اس کے بعد سے اسلام ميں سياسي اور عقيدتي لحاظ سےباقاعدہ دو طرز فکرميں وجود ميں آئيں جوعلوي طرز فکر اور عثماني طرز فکر يا دين علي اور دين عثمان کے نام سے پہچاناگيا۔ بني اميہ، خاص کر معاويہ نےعثمان کے خون کے انتقام کا بہانہ بناکرعلوي طرز فکرکوبڑے شدومد کے ساتھ کچلنے کي کوشش کي اور وہ کسي حد تک اس ميں کامياب بھي ہوئے۔ جنگ جمل اور صفين اسي عثماني طرز فکر کا نتيجہ تھي ۔ [8]
بہر حال قيام امام حسين (ع)کے وقت کوفہ ميں کم از کم دو طرزفکرموجودتھي:علوي طرز فکراوراموي(عثماني) طرز فکر ۔ در حقيقت وہ اموي طرز فکرہي تھي کہ جس نے کوفہ والوں کو امام حسين (ع)کے خلاف ايک پليٹ فارم پرجمع کيا۔ اس کوفہ ميں علوي طرزفکررکھنے والے شيعہ بھي مختلف گروہوں ميں بٹے هوئے تھے۔
شيعيان کوفہ کي اقسام
شيعيان علي(ع) کو چار گروہوں ميں تقسيم کياجاسکتا ہے:
1۔ اعتقادي تشيع
يعني يہ عقيدہ رکھنا کہ اہل بيت(ع)کےلئے امامت و خلافت اور مرجعيت ديني کا منصب خدا وند عالم کي طرف سے ملا ہے۔ خدا کي طرف سےحضرت علي(ع)رسول خدا(ص) کاپہلاخليفہ ہيں۔ اور يہ مطلب قرآن مجيد اور سنت نبوي سے ثابت ہے۔ رسول خدا 6کے زمانے ميں بھي بعض صحابہ ،حديث غدير کي روشني ميں حضرت علي(ع)کورسالت مآب کےحقيقي جانشين سمجھتے تھے۔ يہي عقيدہ رکھنے والے شيعۀ علي(ع) کے نام سے معروف تھے۔
2۔ سياسي تشيع
اس سے مراد وہ شيعہ ہيں کہ جو سياست ميں حضرت علي (ع) کو تمام صحابہ پرترجيح ديتے ہوئے ان کو افضل اور خلافت کا زياده حقدار جانتے تھےاگرچہ اہل بيت کي خلافت کو منصوص من اللہ نہيں جانتے تھے۔ سياسي تشيع کے معتقد لوگ ،حضرت علي (ع)کوخوارج ، اصحاب جمل اورصفين کے مقابلے ميں بھي حق بجانب سمجھتے تھے۔
3۔ حبّي تشيع يا جذباتي تشيع
اس کا مطلب يہ ہے کہ اہل بيت (ع)سےمحبت کا اظہار کرے خواہ ان کي خلافت اور امامت کا منصب خدا کي طرف سے ہونے کا اعتقاد نہ بھي رکھے۔اہل سنت کے علمائے رجال بعض راويوں کو صرف اس جہت سے شيعہ کہتے تھے کہ وہ لوگ حضرت علي (ع) اور آپ کي اولادکے فضائل بيان کرتے تھے جيساکہ شافعي کے بہت سے اشعار ميں آيا ہے اگر اہل بيت (ع)کي محبت کا اظہار کرنا شيعہ اور رافضي هونے کي علامت ہے تو ميں سب سے بڑا رافضي ہوں:
ان کان حبّ الولیّ رفضاً فانّی ارفض العباد
پس ايک زمانے ميں صرف اہل بيت سے اظہار محبت کرنا شيعہ ہونے کي علامت سمجھا جاتا تھا۔
4۔ تشيع علمي(ع)ع) مرجعيت علمي)
تشيع ديني کا مطلب يہ ہے کہ لوگ معتقد ہيں مرجعيت ديني من جملہ مسائل فقہي اورتفسيري اہل بيت (ع)کےلئے ثابت ہےليکن مرجعيت سياسي اور حکومتي ميں اہل بيت کي مرجعيت کے معتقد نہيں ہيں۔[9]
پہلي صدي ميں کوفہ ميں کچھ لوگ اگرچہ حضرت علي کو عثمان سے افضل جانتے تھے ليکن شيخين کي نسبت عليAکي افضليت کے معتقد نہيں تھے۔ يہي وجہ تھي کہ جب اميرالمؤمنين (ع)نےکوفہ ميں نماز تراويح سے منع کرنا چاہا تو وہ لوگ ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے جبکہ سب نے حضرت علي(ع)کي بيعت کي تھي۔
مذکورہ نکات کي روشني ميں سوال يہ پيدا ہوتاہے کہ کوفہ سے امام حسين (ع)کو خط لکھنے والوں ميں کس قسم کے عقيدہ سے تعلق رکھنے والے شيعہ تھے؟
امام حسين (ع)کي شہادت ميں شيعوں کے کردار کو سمجھنے کے لئے اس سوال کا جواب بہت اہم ہے، جب جواب روشن ہو گا تويہ واضح ہوگا امام حسين (ع) کے قتل ميں حقيقي شيعوں کا کتنا کردار تھا۔
کلي طورپرکوفہ سے امام حسين (ع)کوخط لکھنے والوں کے تين گروہ تھے:
1۔ شيعيان کوفہ ۔
2۔ خوارج جو کوفہ ميں زندگي کرتے تھے۔
3۔ بني اميہ کے پيروکار اوراموي طرز فکر رکھنے والے(مفاد پرست طبقه)
شيعيان کوفہ، جنہوں نے امام کو خط لکھا، کم وبيش انہي چار گروہوں ميں سے تھےجن کا ذکر ہوچکا ہے۔۔ البته کوفه میں اس وقت حقيقي شيعہ کتنے تھے يہ بتانا بہت مشکل ہے۔ امام باقر کي ايک روايت کے مطابق کوفہ ميں علي Aکے حقيقي اور اعتقادي شيعہ پچاس افر ادسےزيادہ نہيں تھے۔ ممکن ہے يہ تعداد خاص زمانے کي ہو يا مقصودصرف وہ افراد ہوں جو کامل ترين معرفت رکھتے تھے۔ جيساکہ امام صادق(ع) نے صعصعہ کے بارے ميں فرمايا“ ماکان مع اميرالمؤمنين من يعرف حقه الا صعصعه و اصحابه“؛ امير المؤمنين کےساتھ ان کي حقيقي معرفت رکھنے والا صعصعہ اور ان کے اصحاب کے علاوہ کوئي اور نہيں تھا۔[10]
ليکن تاريخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بني اميہ کي حکومتوں نے حقيقي شيعوں کونابود کرنے کے لئے اپني پوري توانياں اور مکمل رياستي طاقت استعمال کي تھي ۔ معاويہ کي حاکميت کے دور ميں علوي طرز فکرکو ختم کرنے کے لئے تين طريقے اختيار کئےگئے:
1۔حقيقي شيعوں کو چن چن کر قتل کرديا جاتا تھا۔
2۔انہيں کوفہ سے دوسرے شہروں ميں جلاوطن کردياجاتاتھا۔
3۔زندانوں ميں بند کيا جاتا تھا۔
جب ابن زياد کوفہ کا گورنر بنا تو اس نے بھي مخلص شيعوں کوياشہيد کيا يا زندان ميں بند کرديا۔ جيساکہ ہاني اور عمار ياسرکو واقعہ کربلا سے پہلے شہيد کيا گيا اورمختار،حارث اعور، ہمداني،سليمان بن صُرد،مسيب بن نجبہ اور فاعہ بن شدّادجيسے شيعوں کو زندان ميں بند کيا گيا۔کچھ حقيقي شيعوں نے کربلا جاکراپني اپني جانوں کو فرزند زہراI پر قربان کرديا ان ميں حبيب ابن مظاہر اور مسلم ابن عوسجہ سب سے نماياں ہيں۔ ليکن اس کے مقابلے ميں بني اميہ کے ماننے والے بہت تھے۔ اس کے علاوہ خوارج سے تعلق رکھنے والے بھي تھے ان کا بھي واقعہ کربلا ميں نماياں کردار تھا ان ميں سے ايک محمدبن اشعث کندي ہے حضرت مسلم کي شہادت ميں اس کا ہاتھ ہے اور کربلا ميں بھي عمر سعد کے کمانڈروں ميں سے تھا۔
اگر خط لکھنے والوں ميں ايسے افراد بھي تھے جو مخلص اور حقيقي شيعہ تھے تو انہوں نے حضرت مسلم کو تنہا کيوں چھوڑا؟ امام حسين (ع)کي مدد کيوں نہيں کي؟اس لئے کہ ان ميں سے کچھ افراد مسلم کے ساتھ قتل ہوئے بعض افرادکو ابن زياد نے قيد کيا اور بعض کربلاجاکرامام حسين (ع)کے رکاب ميں شہيد ہوئے ۔ اگرچہ اس مطلب کي تفصيل کے لئے الگ تحقيق اور تجزيہ و تحليل کي ضرورت ہے جو اس مقالہ کي گنجائش سےباہرہے۔
پس واضح ہوا کہ امام حسين (ع)کو خط لکھ کر دعوت دينے والوں ميں ايک ہي عقيدہ سے تعلق رکھنےوالے لوگ نہيں تھے بلکہ ايسے افراد بھي تھےجن پر اموي طرز فکر حکم فرما تھي۔ اب ديکھنا يہ ہے اموي طرز فکر سے مراد کيا ہے اور کب سے يہ اصطلاح شروع ہوئي اور کربلا کے معرکہ ميں اس طرز فکرکے سائے ميں جينے والوں کا کيا کردار ہے؟
اموي طرز فکر کاتعارف
يہ ايک سياسي اصطلاح اور ايک مذہبي گروہ کا نام ہے جو عثمان کے قتل کے بعد وجود ميں آيا۔ اہل سنت کے علماء معتقد ہيں کہ عثمان کے قتل کے بعد مسلمان دو اہم سياسي گروہ علوي اور عثماني ميں تبديل ہوا۔ [11]
اس طرز فکرکے مطابق عثمان مظلومانہ قتل ہوا اور حضرت علي (ع)نے شورشيوں کا ساتھ ديا يا کم از کم ان کے مقابلے ميں سکوت اختيارکرکے عثمان کے قتل کي راه هموار کي ۔ حضرت علي(ع) کو انہي شورشيوں نے انتخاب کيا اورچونکہ شام اور بصرہ کے بہت سے لوگوں نے آپ کي بيعت نہيں کي تھي لہذاآپ کي حکومت قانوني اور شرعي نہيں ہے![12]
عقيدےکے لحاظ سے بھي عثماني،جناب عثمان کو علي (ع)سے افضل سمجھتے ہيں حضرت علي (ع)اور اہل بيت کي برتري اور ان کےفضائل کا انکار کرتے تھے اور کسي بھي صحابي کے نقائص کو بيان کرنا حرام جانتے تھے۔ اس قسم کے عقيدہ رکھنے والوں کو عثماني يا شيعہ عثمان کہا جاتا تھا۔ [13]
قتل عثمان کے بعد مسلمانوں کا دو گروہ يعني اموي طرز فکر اور علوي طرز فکرالگ الگ محاذ پر جمع ہوگئے اور کئي مرحلوں ميں ان دونوں ميں ٹکراو ہوا اموي طرز فکر پہلي بار حضرت عايشہ اور طلحہ و زبير کي سربراہي ميں عثمان کے خون خواہي کے بہانےعلوي طرز فکرکے مقابلہ ميں آيا جو جنگ جمل کےنام سے معروف ہے اس جنگ ميں اموي طرز فکر کو شکست ہوئي۔ پھر ايک مرتبہ يہ طرز فکرمعاويہ کي سربراہي ميں صفين ميں علوي طرز فکرکے خلاف اورعثمان کي خونخواہي کے نعرے کے ساتھ دوبارہ ظاہر ہوا ۔ علوي طرز فکرايک بارپھر جيتنے والا تھا ليکن عمروبن عاص نے قرآن کو نيزوں پر بلند کرواکرعلويوں کي فتح کو شکست ميں بدل ديا۔ معاويہ نے چاليس ہجري سے ساٹھ ہجري کے عرصے ميں اموي طرز فکر کي تبليغ کي جال بچھادي اوردوسري طرفسےعلوي طرز فکرکو نابود کرنے کي ہر ممکن کوشش کي۔
اموي طرز فکر کي خصوصيات
عثماني مذہب يا اموي طرز فکر کي کچھ خصوصيات يہ ہيں:
1۔ عثمان کو حضرت علي سے افضل سمجھنا۔ 2۔ حضرت علي A کي بيعت نہ کرنا۔ 3۔ جمل، صفين اور نہروان کي جنگوں ميں لشکر علي Aکا ساتھ نہ دينا۔ 4۔ صفين ميں معاويہ کا ساتھ دينا۔ 5۔ امير المؤمنين A سے بغض اور دشمني کا اظہار کرنا۔ 6۔ حضرت علي A کے خلاف احاديث جعل کرنا۔ 7۔ اميرالمؤمنين A کے لئے ابو تراب اور ان کے ماننے والوں کو ترابيہ سے خطاب کرنا ۔8۔ امو يوں اور مروانيوں کےسياسي اور فوجي عہدوں کو قبول کرنا۔ 9۔بني اميہ سے ہمکاري کرنااوران کے ہم پيمان ہونا۔10۔ شيعوں کي شديد مخالفت اور ان کے قتل و غارت ميں شريک ہونا۔
کوفہ ميں اموي طرز فکر
واضح رہے کہ شيعيان کوفہ سب کے سب محکم عقيدہ کےشيعہ نہيں تھے بلکہ سياسي شيعہ اکثريت ميں تھے۔ عقيدتي شيعه اگرچہ بانفوذ تھے ليکن وہ اقليت ميں تھے۔ سياسي عقيدہ رکھنے والوں سے ممکن ہے کسي بھي وقت حوادث ، سياسي دباؤ، مفادات،خوف اور لالج کي خاطر ان کے افکار اور رفتار بدل جائيں۔
دوسري طرف يہ بھي روشن ہے کوفہ ميں صرف شيعہ نہيں تھےبلکہ مخالف افکار کي کثيرتعداد اس شہر ميں بستي تھي يہي وجہ تھي کہ جب عثمان کے خلاف کوفہ سےآواز اٹھي ہے تو اس کي حمايت ميں کوفہ ہي سے بہت سے لوگ اٹھے ۔ جنگ جمل ميں حضرت عليA کے لشکر ميں بڑي مشکل سے(ع)ع) کم از کم )ايک لاکھ کي آبادي سے صرف بارہ ہزار جنگجوشرکت کرنے کے لئے تيار ہوئے۔ ابو موسيٰ اشعري نےجوعثماني طرز فکرکا مالک اورحاکم کوفہ تھا کوفيوں کو حضرت علي Aکےساتھ جنگ ميں جانے سے روکنے کي بڑي کوشش کي۔ اس سے پتہ چلتا ہےکہ کوفہ ميں اميرالمؤمنينA کي حکومت کو قبول نہ کرنے والے بہت تھے۔ اگرچہ جنگ صفين ميں کوفہ کے لوگ کثير تعداد ميں حضرت علي A کے لشکر ميں حاضر ہوئے ليکن عقيدتي شيعہ نہ ہونے کي وجہ سےاس جنگ کے نتيجے ميں بہت سےفرصت طلب،مفاد پرست اور پختہ عقيدہ نہ رکھنے والے افرادحضرت عليAکے مخالف بن گئے جس کا اظہار آپ نے اپنے بھائي عقيل کو ايک خط ميں يوں بيان کيا ہے:“اب سارا عرب تمہارے بھائي کي مخالفت ميں ہم رائے اورمتفق ہوئے ہيں۔ “
پس يہ بات واضح ہوجاتي ہے کہ کوفہ ميں رہنے والوں ميں صرف اور صرف عقيدتي شيعہ نہيں تھےبلکہ مطلب بالکل برعکس ہے۔ کوفہ ميں حقيقي شيعہ بہت کم تھے جبکہ اموي طرز فکر اور ديگر افکار سے تعلق رکھنے والے زيادہ تھے۔
کوفہ ميں اموي طرز فکر کي ترويج ميں معاويہ کا کردار
معاويہ نے صلح امام حسنA کے بعد شيعہ نشين علاقےخصوصاً کوفہ ميں رہنے والے شيعوں کوجسماني طور پرقتل يا قيدکرکےيا روحاني طور پر مفلوج کرکے اس کي جگہ عثماني طرز فکرکي ترويج کرنے کےلئے مختلف زاوئيے سے کوشش کي ۔ سب سے پہلے معاويہ نے کوفہ والوں سے حضرت علي Aسے برائت (ع)ع)يعني فکري اور عملي طور پر آپ سے دور رهنے) کي بنياد پر بيعت لي اور شيعي اور علوي طرز فکر کو ختم کرکے اموي طرز فکر کو رواج دينے کے لئے مندرجہ ذيل اقدامات کئے۔
1۔ کوفہ کي حاکميت پر اموي افکارکے افرا دکا انتصاب
جيساکہ مشہور مقولہ ہے”الناس علي دين ملوکهم؛لوگ اپنے حکمرانوں کے دين کو اختيار کرتے هيں“۔ ياامير المؤمنينA کا ارشاد ہے :“الناس بامرائهم اشبه منهم باَبآئهم؛لوگ اپنے آبا و اجداد سے زياده اپنے حاکموں کے زياده شبيه هوتے هيں“۔ معاويہ نے ايسے افراد کوگورنر بناياجو عثماني افکارکے مالک تھےاور علوي فکر وعمل سے دشمني رکھتے تھے۔ جيسےعبداللہ بن عمرو عاص، مغيرۃ بن شعبہ، زياد بن ابيہ، ضحاک بن قيس فہري، نعمان بن بشير اور ابن زياد وغيره ان لوگوں نےسن 41 سے ليکر 61 ہجري تک کوفہ پر حکومت کي۔ان بيس سالوں ميں سب کے سب حکمران عثماني مذہب (ع)ع)اموي طرز فکر)سے تعلق رکھنے والے اور حضرت علي سے علي الاعلان دشمني کرنے والے تھے۔
کوفہ کے واليوں نے معاويہ کے حکم پرفضائل علي Aکو نشرکرنےسے روکا اورساتھ ساتھ عثمان کي مظلوميت اور ان کے فضائل پھيلانے پر زور ديا۔ جيساکہ مغيرہ، حجر بن عدي سے کہتا ہے کہ ميں تم سے زيادہ علي کے فضائل سےآگاہ ہوں ليکن کيا کروں معاويہ ان کے فضائل بيان کرنے پر راضي نہيں ہے۔
2۔ کوفہ ميں اموي افکار کي تبليغ
علوي افکار کو ختم کرنے اور اموي افکار کي ترويج کے لئے معاويہ نے دوسرا قدم يه اٹھاياکه بہت بڑے پيمانہ پر پورے عالم اسلام من جملہ کوفہ ميں مسموم جال پھيلايا۔اس مشن کے تحت معاويہ نے بيس سال ميں اس مقصدکو عملي جامہ پہنانے کے لئے مندرجہ ذيل اقدامات کئے۔
1۔ امیرالمؤمنينAپر سبّ ولعن کی بدعت کو رواج دی گئی۔
2۔ فضائل عليA کے بيان پر پابندي لگادي ۔
3۔ شيخين کے فضائل گھڑنے کي آزادي اور ترغيب دي۔
4۔ عثمان کے فضائل ميں احاديث جعل کرنے کي مہم چلائي ۔
5۔ شيعيان علي Aبے دريغ قتل کيا ۔ ان کي جائداد ضبط کي اور ان کے خلاف رياستي دهشت گردي کو فروغ ديا۔
معاويہ نے ايک حکم نامہ ميں اپنے تمام واليوں کو لکھا:“ميں نے اپني حمايت ان لوگوں سے اٹھادي ہے جو عليA اور ان کے اہل بيت کے فضائل بيان کرتاہے”۔
معاويہ نے يہ حکم بھي جاري کرديا جو بھي عثمان کے فضائل بيان کرے اس کو انعامات سے نوازا جائے۔ اس کے بعد عثمان کے فضائل اس قدر بيان کيا گيا کہ آخر ايک حکم کے ذريعے اسےروکوانا پڑا اور کہا گيا کہ اب عثمان کے فضائل بہت ہوگئے ہيں شخين کي فضائل سازي کي جائے۔ ابن ابي الحديد نےابن عرفہ سے،جو اہل سنت کے بڑے محدث، ہيں نقل کيا ہے:“فضائل صحابہ ميں جتني احاديث جعل کي گئي ہيں وہ بني اميہ کے دور ميں بني ہاشم کو سرکوب کرنے کے لئے انجام پاتي هے”۔ [14] اس لحاظ سے معاويہ، صحابہ کرام کو اہل بيت کے مقابل ميں لانے والا پہلا شخص ہے۔
3۔ ڈراؤ دھمکاؤکي سياست
معاويہ نے پروپيگنڈاسياست کے ساتھ ساتھ طمع ولالچ اور اس سے مقصد پورا نہ ہونے کي صورت ميں رعب ووحشت کي سياست سے بھي استفادہ کيا۔ اس سياست ميں مختلف طريقے اپنائے گئے؛تبليغ،دھمکي اور لالچ۔معاويہ نے زيادابن ابيہ کو لکھاکہ “جو بھي عليA کامعتقد ہے اسے قتل کرکے مُثلہ کردو”۔
صحابي رسول حُجر بن عدي جو مستجاب الدعوہ تھے، عمروبن حمق،رشيد ہجري، ميثم تماراور دوسرے سينکڑوں شيعيان عليA،جو علوي طرز فکرسے سرشار تھے انهيں معاويہ کے حکم سے، فجيع ترين طريقے سے قتل کئےگئےصرف اس وجه سے که وه علوي فکر کے حامل تھے۔ سياست يہ تھي کہ علوي افکار رکھنے والوں کو پکڑ کےپہلے ان سے کہا جاتا تھاکہ حضرت علي A سے برائت کرے برائت نہ کرنے کي صورت ميں انہيں قتل يا کم ازکم جلاوطن کيا جاتاتھا۔
4۔ علوي طرز فکررکھنے والوں کي آبادي کي تناسب بدلنے کوشش
بني اميہ کي ايک سياست يہ تھي کہ کوفہ سے علوي افکار کو کم کرنے کے لئے وہاں سے ہزاروں مواليان عليکوعراق کے دوسرے شہروں کي طرف شہر بدرکردياجائے۔ اس منصوبہ کي تکميل کے لئے معاويہ نے زياد بن ابيہ کو انتخاب کيا کيونکہ وہ شيعيان عليA کودوسروں سے بہتر پہچانتا تھا۔ تاريخ بتاتي هے که عراق سے صرف زيادبن ابيہ نے پچاس ہزارعقيدتي شيعوں کو خراسان جلاوطن کرديا اوران کي جگہ پر عراق کے دوسرے علاقوں سے بني اميہ کے ہم نواؤں کو کوفہ لاکر بسايا۔
5۔ افکار اموي کي تقويت
بني اميہ نے ايک طرف سے افکار علوي کو نابود کرنے کي سرتوڑ کوشش کي تو دوسري طرف سے کوفہ ميں اموي افکار پھيلانےاوراپنے حاميوں کي حمايت کرنے سے کسي قسم کا دريغ نہيں کيا۔ اس طرح اموي افکار کي آئےدن تقويت ہونے لگي اور علوي افکار روز بروز کمزورپڑنے لگے۔
ان نکات کو مد نظر رکھ کر يہ سوچنا ہوگا کہ پورے بيس سال کا عرصہ باقاعدہ ايک پروگرام کے ساتھ ايک طرف سےحضرت علي Aکے ماننے والوں کو قتل کيا جائے،قيد خانوں کو مواليان علي A سےبھر ديا جائےاورانہيں شہر سے نکال ديا جائے اور دوسري طرف حديث ساز کارخانے سرگرم ہوں اور زروزور کےذريعے لوگوں کو خريدا جائے توکوفہ ميں علي کے کسي شيدائي کاملنا کرامت سے کم نہيں ہے۔ اس وقت کي شرائط کو مد نظر رکھ کراگرلوگوں نے اپنےعقيدے اور سياست ميں تبديلي لاتے ہوئےعلوي افکار کو چھوڑ کر اموي افکارکي حمايت کي ہو اور اسي کے مروج بن گئے ہوں تو کوئي تعجب کا مقام نہيں ہے۔
معاويہ کي بيس سالہ ثقافتي يلغار نے کوفہ والوں کے افکار پر بہت اثر ڈالا۔ 40 ہجري سے 60 ہجري کے عرصے ميں بني اميہ کي همه جهت جاهلي سياست کي بنا پر بہت سے مجاہدين، جو جنگ صفين ميں امير المؤ منين A کے رکا ب ميں معاويہ سے لڑ رهے تھے، اب وه لشکر معاويہ ميں شامل ہوچکے تھے۔ جيساکہ کہا جاتا ہے عبد اللہ ابن حبيب بن ربيعہ جوکوفہ کے قاريوں ميں شمار ہوتا تھا اور صفين ميں حضرت عليA کےساتھ تھا،ليکن آپ کي شہادت کے بعد عثماني (ع)ع)يعني اموي) ہوا۔ اسي طرح سينکڑوں مثاليں تاريخ ميں مل سکتي ہيں۔
بيس سال کا عرصہ کسي معاشرے کے افکارکو تبديل کرنے کے لئے کم مدت نہيں ہے۔ اميرالمؤمنين A جب 23 سال کے بعد خلافت پر آئے تو آپ کے لئے بھي يہي مشکلا ت تھيں۔ اس وقت کے کم عمر مسلمان، حضرت علي A کو ايک عام مسلمان، رسول خدا 6کے داماد اور چچا زاد بھائي کي حد تک پہچانتے تھے۔
مذکوره بالاحقائق کو سامنا رکھاجائے تو پس يہ کہنا درست نہيں ہے کہ قيام امام حسين Aکے وقت سارا شہر کوفہ اور آپ کو دعوت دينے اور خط لکھنے والے سب کے سب حقيقي شيعہ تھے۔ بلکہ کوفہ کے بہت سے محلوں کے رہنے والے سو فيصدعثماني تھے اور ان کي الگ مساجدتھيں ۔ حضرت عليA، امام حسنA،امام حسين A حتي ٰحضرت زہرا پر لعن کرنے کو اپنے لئے افتخار سمجھنے والي ا قوام اورقبائل اسي کوفہ ميں موجود تھے۔[15]
اس عرصے ميں فکري طورپروہاں کي اکثريت علوي طرز فکرکو بھلاکر اموي طرز فکر کي دنيا ميں زندگي گزاررهي تھي۔لوگ فکري اور عملي دنيا ميں اس حد تک انحطاط کا شکار ہوچکے تھے کہ انهيں اس بات سےبالکل دلچسپي نہيں معاشرے کے حکمران کے لئے کيا کيا شرائط ہوني چاہيں لہذا معاويہ کسي زحمت کے بغير اپنے شرابي بيٹے کو رسول خدا 6کي مسند پر بٹھا سکا اور لوگوں نے بھي اسے خليفہ رسول 6کے طور پر قبول کيا ۔ اگر آج امام حسين Aکاقيام نہ ہوتاتو يزيدبھي دوسرے خلفا کي صف ميں نظر آتا!اور اس کا قول و فعل بھي شريعت کا حصه تسليم کيا جاتا ۔
اسي وجہ سےمغيرۃ بن شعبہ نے جب معاويہ کے سامنےيزيد کي جانشيني کي تجويز رکھي تو ساتھ يہ بھي کہا کہ کوفہ والوں سے بيعت لينےکي ذمہ داري ميں خود ليتا ہوں۔اور يہي وجہ ہےکہ اہل کوفہ مدينہ اور مکہ والوں سے پہلے يزيد کي بيعت پر آمادہ ہوئے۔[16]سب اس بات کي روشن دليل ہے کہ بني اميہ نے کوفيوں کےافکار پر بہت کام کيا تھا۔
واقعہ کربلا ميں اموي مذہب کا کردار
اب تک يہ بات واضح ہوگئي کہ کوفہ ميں بسنے والے شروع سے سب کے سب اهل بيت کے عقيدتي شيعہ نہيں تھے اور 40ہجري سے 60 ہجري تک کے عرصے ميں راي عامه ميں کافي تبديلي آچکي تھي اموي طرز فکرکےبہت سے مدافع اور حامي پہلے سے موجود تھے۔ لہذا انہيں شيعيان اہل بيت کے عنوان سے متعارف کرانا نا انصافي اور حقيقت سے انحراف ہے۔ بلکه حقيقت يہ ہے کہ بلکہ کربلا ميں امام حسين A کے خلاف جنگ ميں جنہوں نے شرکت کي وہ سب اموي طرز فکر کے ترجمان تھے۔
کربلا ميں جانے والے کوفيوں کو دو گروہ ميں تقسيم کرسکتے ہيں۔ ايک گروہ وہ تھاجس کے بارے ميں تاريخ گواہي ديتي ہے کہ وہ اموي طرز فکر سے تعلق رکھتا تھا اوردوسراگروہ جو عقيدتي طور پر مختلف گروهوں سے تعلق رکھتا تھا بلکه وه اپنے کردار ،رفتار اور طرزفکرکي روسے نه صرف علوي اور حسيني نہيں بلکه اهل بيت Gکے سرسخت دشمن تھے۔
پہلےگروہ ميں مندرجہ ذيل افراد کےنام نمونہ کے طور پر پيش کئے جاسکتے ہيں:
1۔ ابوبردہ عوف ازدي:جس نےجنگ جمل ميں شرکت نہيں کي ۔ جنگ صفين ميں حاضر ہوا ليکن مخفيانہ طورپرمعاويہ کو خط لکھاتھا۔ معاويہ کي طرف سے اس کي وفاداري کے صلے ميں اسےشہرفلوجہ ميں زمين اور باغ دياگيا۔ يہ شخص کربلا ميں امام حسين A کےمقابلے ميں آيا۔
2۔ حصين بن نمير: يہ منافق تھا رسول خدا6کے زمانے ميں زکات چوري کرتا تھا۔ رسول خدا 6کوتبوک سے واپسي کے وقت قتل کرنےکي سازش ميں يہ بھي شامل تھا۔ ناصبي تھااور اميرالمؤمنينAپر سبّ کرتا تھا۔ حادثہ کربلا ميں اس کابڑا کردارر ہا۔اس نے کربلا ميں حبيب بن مظاہر کو شهيد کرديا۔يہ پہلا شخص ہے جس نے امام حسين Aکے خيمہ کي طرف تير پھينکا۔ ابن زياد نے شہدا کربلا کے سروں کو اس کے ہاتھوں کوفہ سے شام بھيجا۔
3۔ شريح قاضي: شريح عثماني تھا اس نےعثمان کي بہت مدد کي ہے ۔ حضرت عليAاسے کوفہ کے قاضي القضات کے منصب سے معزول کرنا چاہتے تھےليکن کوفہ کے لوگوں کے اصرار پر معزول نہيں ہوا۔ جب ابن زياد نے ہاني کوگرفتار کيا اور اسے زد کوب کرکے لہولہان کرديااور يہ سن کر جب اس کے قبيلے کے افرادنے ابن زياد کے دار الاماره محاصرہ کيا تويہ قاضي شريح ہي تھا کہ جس نے ہاني کي سلامتي کي گواہي دي اور اس کے نتيجے ميں ہاني اور مسلم شہيد ہوئے۔
4۔ شيبان بن مخرم:يہ شخص نہ صرف عثماني تھا بلکہ اميرالمؤمنين سے اظہار برائت کرتا تھا۔خودنقل کرتا ہےکہ صفين سے واپسي پرجب کربلا پہنچے تو حضرت علي A نے اس کے ساتھ خبر دي کہ اس سرزمين پروہ لوگ شہيد ہوں گے جو تمام شہدائے روئے زمين سےافضل ہيں۔ شيبان کہتا ہے کہ ميں نے کہا کہ خدا کي قسم يہ بھي علي A کي جھوٹي باتوں ميں سے ايک ہے!وہ کہتا ہے کہ ميں نے اپني بات کو ثابت کرنے کے لئے ايک ہڈي کو جو وہاں پڑي ہوئي تھي اسي جگہ پر دفن کردي جہاں علي نے يہ خبر دي تھي ليکن واقعہ کربلا کے بعد ميں نے ديکھا کہ امام حسين A کا جسم اسي جگہ پڑا ہواتھا جہاں علي بيٹھے تھے۔
5۔ عبد اللہ بن مسلم بن سعيد حضرمي:يہ بني اميہ کا ہمنوا تھا۔ حجربن عدي کے خلاف اس نےجھوٹي گواہي دي اور کوفہ ميں بني اميہ کا جاسوس تھا۔ يہ وہ شخص تھاجس نے نعمان بن بشير کي نالائقي کي شکايت کرتے ہوئے يزيد کوخط لکھا اور يزيد نےاس کي تائيد اور جواب ميں لکھا :“کتب اليّ شيعتی من اهل الکوفة؛کوفه ميں موجود ميرے شيعوں نے مجھےخط لکھا هے“۔ اس طرح يزيد نے اس کے اموي ہونے کي تصديق کي ہے۔
6۔ عمر بن سعد: ابن زياد کي فوج کا سپہ سالار تھا اموي طرز فکر کا مالک تھا۔ اس نے حُجر بن عدي کے خلاف جھوٹي گواہي دي، مسلم کےکوفہ ميں آنےکي خبر اس نے يزيد کو دي۔ عمر بن سعدکےاموي ہونے کي دليل کے لئے اتنا کافي ہے کہ بني اميہ کي طرف سے شہر ري کي حکومت کے لئے اسے نامزد کيا هوا تھا۔ کربلا ميں پہلا تير عمربن سعد هي نے چلايا۔
7۔ کثير بن عبد اللہ شعبي: يہ شخص کربلا ميں امام حسين اور عمربن سعد کے درمياں هونے والے کئي مذاکراميں اس نے عمر سعد کي نمايندگي کي۔
8۔ کثير بن شہاب حاثي مذحجي:يہ کوفہ کے قبيلہ مذحجيان کا رئيس تھا۔ اورعقيدےکے لحاظ سے ناصبي تھا ۔ معاويہ کے دستور کي تعميل کرتے ہوئے منبر پر اميرالمؤمنين A کي شان ميں جسارت کرتا اور آپ پر سبّ اور لعن کرتا تھا۔ کوفہ کے سرداروں ميں شمار ہوتا تھا اورمسلم بن عقيل کو شہيد کرنے ميں اس کا بڑاکردار تھا۔يہ کوفہ کے سرداروں ميں سے پہلا شخص تھا کہ جس نے ابن زيادکے حکم پر لوگوں کومسلم کي حمايت سے روکا۔
دوسرےگروہ کے چند نمونے
1۔ شمربن ذي الجوشن: يہ زنا دادہ تھا۔ وہ برص کي بيماري ميں مبتلا تھا ۔ جب امام حسين A نے کربلا ميں اسے ديکھا تو فرمايا:“اللہ اکبر!رسول خدا 6نے سچ فرمايا تھا:“برص ميں مبتلا کتّے کو ديکھ رہا ہوں کہ جوميرے اہل بيت کاخون پي رہا ہے”۔شمر امام حسنA کے لشکر ميں معاويہ کا جاسوس تھا اس کي جنايت کوفہ اور کربلا ميں مشہور ہے۔
2۔ شبث بن ربعي: خوارج کے بزرگان ميں شمار ہوتا تھا۔ امام حسينAکو خط لکھنے والوں ميں سےايک یهی شبث تھا جس نے کربلا کے ميدان ميں اس بات سےانکار کرديا۔ مختلف مراحل ميں اپنا عقيدہ بدلتا رہا ؛ صفين ميں لشکر حضرت عليA ميں تھا اسي لئے بعض نے اسے علوي کہا ہے ۔ شِبث، ابو موسي ٰ اشعري کي طرح،جنگ جمل ميں لوگوں کو لشکر علي Aميں جانے سے روکتا رہا۔ جب امير المؤمنينA نہروان ميں جارہے تھے يہ کسي بہانےسےبعض کوفيوں کے ساتھ لشکر علي Aسے جدا ہوکرکوفہ واپس آيا۔ شبث اور اس کے ساتھيوں نے ايک سوسمار پکڑ کراپنے سامنے رکھا اور امير المؤمنين کو معزول کرکےاميرالمؤمنين کے عنوان سے اس سوسمار کي بيعت کي اور اس سے خطاب کرکے کہا:خدا کي قسم! ہم تجھے علي Aسے زيادہ دوست رکھتے ہيں۔ جب يہ لوگ ايک مجلس ميں داخل ہوئےجہاں حضرت علي A خطبہ دے رہے تھے اورآپ نے اس آيت:“يوم ندعوا کل اناس بامامهم”[17] کي وضاحت کرتے ہوئے فرمايا:“خدا کي قسم!قيامت کے دن آٹھ لوگوں کو اٹھايا جائے گا جبکہ ان کا امام سوسمار ہوگا اگر چاہوں تو ان کا نام بھي بتا سکتا ہوں”۔
شبث ان لوگوں ميں سے تھاجنہيں معاويہ نے امام حسنAکو قتل کرنے پر مامور کياتھاليکن وہ ناکام ہوا۔ اس نے واقعہ کربلا کے بعدامام حسين A کي شہادت کے شکرانے ميں ايک مسجد بنائي۔
3۔ عمروبن حريث:حضرت علي Aکے دور ميں نفاق اور اميرالمؤمنين کے ساتھ دشمني کے علاوہ اس کے کارنامے ميں کو ئي اور چيز نظر نہيں آتي ہے۔ اس نےمعاويہ کے ساتھ حضرت علي کو شہيد کرنے کي سازش کي ليکن ناکام ہوا۔يہي شخص شبث بن ربيعي کے ساتھ امام حسن Aکو شہيد کرنے کي سازش ميں شريک تھا ليکن کامياب نہ ہوسکا اس کےبعد سے امام ہميشہ لباس کے نيچے زرہ پہنتے تھے۔ميثم تمّار کي گرفتاري اور اس کي شہادت ميں بھي ابن حريث کا ہاتھ تھا۔مسلم بن عقيل کي گرفتاري کے لئے بھي عمروبن حريث اور محمد بن اشعث دونوں ساتھ گئے۔
4۔ قيس بن اشعث بن قيس کندي: يہ کوفہ کے اشراف ميں سے تھا۔ کربلا ميں امام حسين A نےاسے بدکار اور فريب کار سے خطاب کيا۔ امام کي شہادت کے بعد آپ کي قميص کو اس نے غنيمت کے طور پر چھين ليا۔
5۔ محمدبن اشعث کندي:آل محمد6 کے خون سے اشعث کے خاندان کے ہاتھ رنگين ہيں۔ يہ خاندان حيلہ گر کے عنوان سےمعروف ہے۔ کربلا ميں قيس بن اشعث نے جب امام حسين A کو امان نامہ قبول کرنے کي تجويز دي تو امام نے فرمايا:“تم اسي کا بھائي ہو جس نے مسلم کو فريب ديا”۔ اشعث کندي حضرت علي Aکوشهيد کرنے ميں بھي ميں شريک تھا جعدہ بنت اشعث نے امام حسن Aکو زهر دي قاتل تھي۔ محمد بن اشعث حضرت مسلم اور امام حسين Aکو شہيد کرنے ميں شريک تھا۔ محمد بن اشعث بني اميہ کے مقرب اورمورد اعتمادا۔ مسلم بن عقيل کے طرف داروں کو متفرق کرنے ميں اس کا بڑا کردار تھا۔
مسلم بن عقيل کو تنہاہ کرنے ميں اموي طرز فکر کا کردار
حضرت مسلم کے کوفہ ميں داخل ہونے کے بعد بعض افراد نے کوفہ کوقابو ميں رکھنے کے سلسلے ميں نعمان بن بشيرکي ناتواني کي رپورٹ يزيد کو دي۔ يزيد نے ابن زيادکے نام ايک خط ميں جن افراد کے اموي اوراموي طرز فکر کے حامل ہونے کي نشاندہي کي ہے ان ميں سے ايک عمرو سعد ہے۔
جب ہاني بن عروہ گرفتار ہوئےاور ابن زياد نے اسے شديد زخمي کيا تو اس کے قبيلے کے افراد نے عمروبن حجاج زبيدي کي سربراہي ميں دارالامارہ کامحاصرہ کيا۔اگرچہ يہ لوگ ہاني کي حمايت ميں نکلے تھے ليکن اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ سب حقيقي شيعہ تھےبلکہ انہوں اپنے سياسي عقيدے کو اسي قيام ميں بيان کيا ہےجيساکہ عمروبن حجاج نے ابن زياد سے مخاطب ہوکر کہا: “ميں عمروبن حجاج ہوں اور يہ مذحجيوں کے شجاعان اوربزرگان ہيں ہم نے خليفہ کي اطاعت اور جماعت سے اپنے آپ کو جدا نہيں کيا ہے”۔
عمرو کے اس اعلان سے پتہ چلتا ہے کہ قبيلہ مذحجيان کے بہت سے لوگوں نے اپنے عقيدے ميں تبديلي نہيں لائي تھي۔ کيونکہ جو لوگ مسلم کي حمايت کررہے تھے وہ يزيد کو خليفہ مسلمين کے طور پر قبول نہيں کرتےتھے ليکن ان لوگوں نے صراحت سے کہا کہ ہم اطاعت خليفہ سے خارج نہيں ہوئے ہيں۔ اس سے پتہ چلتا ہے عمرو کے اطراف ميں جمع ہونے والے مذحج کے قبيلے کے بہت سے لوگ عثماني طرز فکرکے حامل تھے۔يہي وجہ ہے کہ جب جناب مسلم نے قيام کيا تو عمرو بن حجاج دارالامارہ ميں ابن زياد کے ساتھ تھا لہذا جن مذحجيوں نے مسلم کا ساتھ ديا اورجنہوں نے عمروبن حجاج کے ساتھ ہاني کي حمايت کے لئے قيام کيادونوں کے عقيدے جدا تھے۔ابن زياد کے حاميوں ميں سے ايک مسلم بن عمرو باہلي ہے۔ مسلم بن عقيل نے اس کي جسارت کا جواب ديتے ہوئےاس کے عثماني ہونے کو يوں بيان کيا ہے:“اےابن باہلي!…تم جہنم کي آگ ميں جلنے اور کھولتا ہواپاني پينے کا زيادہ مستحق ہوکيونکہ تم نے آل محمد کي پيروي چھوڑ کر آل ابي سفيان کي پيروي انتخاب کو کيا ہے”۔ امام حسين Aنے بھي کربلا ميں ابن سعد کے لشکر سے مخاطب ہوکر فرمايا:“ياشيعة آل ابي سفيان ان لم يکن لکم دين ولا تخافون المعاد فکونو احرارا في دنياکم”۔اے آل ابي سفيان کے ماننے والو!اگر تم لوگ بے دين ہوں اور معاد سے نہيں ڈرتے ہوں تو کم از کم دنيا ميں تو آزاد زندگي کرو”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے قيام مسلم کو ناکام بنانے ميں اموي طرز فکر اور اموي افکار کا بڑا دخل تھا۔
اس کے علاوہ امام حسين Aکو خط لکھنے والوں کےخطوط کےمضمون اور طريقہ کار ميں بھي دوقسم کے طرز فکرنماياں ہيں۔
الف:ايک گروہ شيعيان مخلص کا ہےجن ميں سليمان بن صرد خزاعي، حبيب بن مظاہر،رفاعہ بن شداد اور عبداللہ بن وال نماياں ہيں۔ ان کا خط اس جملہ سے شروع ہوتا ہے:“وجماعة شيعته من المؤمنين”۔
ب:دوسرا گروہ اشراف کوفہ سےتعلق رکھتاہے۔اس گروہ کا پہلے گروہ سے کوئي تعلق نظر نہيں آتا ہے کيونکہ:
اوّلا ً:ان لوگوں کا سليمان کے گھر ميں جمع ہونے والے شيعوں کےساتھ ہونے کا کوئي ثبوت نہيں ہے۔
ثانيا:ًواقعہ کربلا اور توّابين کے قيام ميں بھي شيعوں کے ساتھ ان کي دشمني کے علاوہ کچھ نظر نہيں آتا ہے۔
ثالثا ً: ان لوگوں نے سب سے آخر ميں امام کو خط لکھاہے اوريہ قابل غور بات ہے۔ اس سےپتہ چلتا ہےکہ ان کے خط لکھنے کا مقصدممکنه طور پر بعد ميں بننے والي حسيني حکومت ميں حصه دار بننا تھا جسکي طرف بعد ميں اشارہ کريں گے۔
رابعا ً:ابن زياد کے کوفہ آنے سےپہلےاور اس کي طرف سےکسي قسم کے خطرےکے احتمال سے قبل اشراف کوفہ نے مسلم بن عقيل کي بيعت کي اور نہ هي آپ کي حمايت۔
خامسا ً:اشراف کوفہ نے جو خطوط امام کو لکھےہيں اِن ميں اُن کا نام درج نہيں ہيں ان کا يہ کام سوال برانگيز ہے کيونکہ يہ لوگ کوفہ کےبزرگان ميں شمار ہوتے تھے اور خط لکھنے کي رسم بھي يہ ہےکہ خط لکھنے والے کا نام اور منصب لکھا جاتاہے۔ اگر يہ کام احتياط کے لئے تھا تو شيعوں نے بھي اس پر عمل کيوں نہيں کيا؟يہي وجہ ہے امام نے خط لانے والوں سے پوچھا کہ يہ خط کن لوگوں نے لکھا ہے؟پس اس کا مطلب يہ ہے ان لوگوں نے ايک تير سے دو شکارکئےہيں ۔ اگر امام حسينA کوفہ تشريف ليجاتے اور حکومت بنانے پر کامياب ہوجاتے تو بھي ان کے فائدے ميں تھااورامامA يا کوفہ والوں کي طرف سےکسي قسم کا اشکال وارد نہيں ہوسکتاتھا۔ اگر امام کا قيام شکست سے دوچارہوجاتاتب بھي ان کے نفع ميں تھا کيونکہ ابن زياد يا يزيد کے پاس ان کے امام حسينAکي حمايت کرنےيا دعوت دينے پر کوئي ثبوت نہيں تھا۔ يہي وجہ ہے امام نے کربلا ميں انہي لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمايا: “کيا تم لوگوں نے مجھے خط نہيں لکھا تھا؟”تو انہوں نے انکار کرديا تو امام نے ثبوت کے لئے ان کے خطوط نکال کر نہيں دکھايا۔ ان مطالب سے پتہ چلتا ہے کہ شيعيان کوفہ اور اشراف کوفہ کا راستہ جدا تھا۔يهاں قابل توجه بات يه هے که سليمان بن صرد جو توابين کي رہبري کررہا تھا امام حسين Aکے اصلي قاتلين کےطورپر اشراف اور عرفا [18]کوفہ متعارف کرارہا تھا۔ لہذا جن افراد نےامام کو خط لکھا ہے ضروري نہيں وہ سب شيعہ ہوں۔
سادسا ً: شيعيان کوفہ اور اشراف کوفہ کے خطوط کے مضمون سے بھي يہ روشن ہے کہ ان دونوں گروہ کا اعتقادي اور سياسي طرز فکرايک دوسرے سے جدا تھا۔ سليمان اور ان کے ساتھيوں کے خطوط ميں ايسے نکات ہيں جو ان کے عقيدتي شيعہ ہونے پر دلالت کرتے ہيں۔ جيساکہ ايک خط ميں معاويہ کي موت پر اظہار خوشي کرتے ہوئے معاويہ کے مظالم اور اس کي طرف سے خلافت کے غصب کرنے کا تذکرہ ہے،لکھتے ہيں کہ ہمارا کوئي امام نہيں ہے اور آپ کے علاوہ ہم کسي اور کوامام اور خليفہ قبول نہيں کريں گے۔ ان کا خط اس جملہ سے شروع ہوتا ہے:”للحسين بن علي من شيعته وشيعة ابيه“۔ ليکن اشراف کوفہ کے خطوط کا مضمون اس طرح سے ہے:“باغات سبز ہوئے ہيں، ميوے پک چکے ہيں و…”آخر ميں لکھتے ہيں“ اگرآپ چاہے تو آجائيں لشکر آمادہ ہے”۔
سابعا:يہ بھي ممکن ہے کہ اشراف کوفہ کا امام کو خط لکھنے کا مقصد فريب کاري ہي ہو، تا کہ امام کو شہيد کريں جيساکہ امام حسين نے ايک جگہ فرمايا ہے:“ما کتب الي من کتب الاّ مکيدة لي وتَقرّباً الی ابن معاوية“مجھے لکھے جانے والے بعض خطوط صرف مجھے فريب دينے اور يزيد کوخوش کرنے اور اس سے تقرب حاصل کرنے کي خاطرلکھے گئے ہيں۔ [19]اس کي تائيد نافع بن ہلال کے اس جواب سے ہوتي ہے کہ جب مولانےاس سے کوفہ کي حالت پوچھا تواس نے کہا:“اشراف کوفہ نے بڑي مقدار ميں رشوت لينے کے بعداموي حاکموں کي خدمت کي خاطر آپ کو خط لکھا ہے”۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے اشراف کوفہ کے امام کو دعوت دينے کا مقصديہ تھا کہ کوفہ ميں بني اميہ کے توسط سےشيعوں کو نابودکيا جائے اور اس طرح بني اميہ کا شيعيان علي کو نابود کرنے کا منصوبہ تکميل ہوجائے۔
امام حسين بھي دونوں گروہوں کے مقاصد سے آگاہ تھے لہذا اپنے جوابي خطوط اور کربلا ميں دئيے جانے والے خطبات ميں آپ نے اس کي طرف اشارہ کيا ہے۔ جيساکہ کربلا ميں صرف اشراف کوفہ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہيں کيا تم لوگوں نے مجھے کوفہ آنے کي دعوت نہيں دي تھي؟ کربلا آتے وقت راستے سےصرف شيعيان کوفہ کے نام خط لکھتے ہيں ليکن اشراف کوفہ کا کوئي اس ميں ذکر نہيں ہے جبکہ امام کو دونوں گروہ نے خط لکھاتھا۔ امام چاہتے تھے کہ خيانت کاروں کو رسوا کرے اور دوسري طرف اپنے حقيقي شيعوں کي جان ومال کي حفاظت بھي کرے۔ يهي وجہ هے که ابن زياد کسي وقت بھي امام کو خط لکھنے والے شيعوں کے ناموں کو افشا نہ کرسکا۔
حضرت مسلم کي شہادت کے بعد کوفہ کے شيعوں کے لئے دو راستےتھے۔ يا امام کےکوفہ آنے کا انتظار کرے يا کسي طريقے سے امام کے ساتھ ملحق ہوجائے لہذا امام کو خط لکھنے والے بعض افراد نے اپنے آپ کو کربلا پہنچايا اور امام کے رکاب ميں شہيد ہوئے۔ ان ميں حبيب بن مظاہر، مسلم بن عوسجہ، ابوثمامه صائدي، عابس بن شبيب شاکري، عبداللہ بن سبيع ہمداني، شعيد بن عبداللہ حنفي، مجمع بن عبداللہ عائذي مذحجي، قيس بن مسہر صيداوي، اور نافع بن ہلال دوسرے چار افرادکے ساتھ شب عاشور کو کربلا پہنچے اور امام کو اپني وفاداري کا ثبوت ديا۔
ابن زياد کے اقدامات
ابن زياد نے شيعيان کوفہ کو کربلا جانے سے روکنے کے لئے دو کام انجام دئيے:
الف:کربلاجانے کے تمام راستوں کو بند کرديا اور محافظين کي تعداد بڑھادي تاکہ کوئي امام کي مدد کے لئے نہ جاسکے۔
ب:کوفہ والوں کو نخيلہ کے مقام پر جمع کيا اور انہيں محافظين کے ذريعےمحاصرےميں ليا۔ اور ابن زياد نےبھي بذات خود ان کي نظارت کي۔ لہذا آساني سے کوفہ کے عقيدتي شيعوں پر ہم خيانت کا الزام نہيں لگاسکتے ہيں کہ انہوں نے امام کو شہيد کيا ہے۔ توابين، جنہوں نے بعد ميں قيام کيا انہوں نےکبھي يہ نہيں کہا کہ ہم امام کےقتل ميں شريک تھے بلکہ انہوں نے امام کي مدد نہ کرنے کے جرم کاازالہ کرنےکےلئے قيام کيا ۔ اس سے يہ نتيجہ نکالا جاسکتا ہےکہ اشراف کوفہ اور حقيقي شيعوں کا راستہ شروع سے ہي الگ تھا۔ اشراف کوفہ نے جو طريقہ کار اختيار کيا تھا وہ مفاد پرستي ٍ، فريب اور بني اميہ کے منصوبے کا حصہ تھا۔
کربلا ميں امام حسين کے مقابلے ميں آنے والوں کا تعلق اموي طرز فکر سےہونے کے بہت سے قرائن ہيں ان ميں سے بعض يہ ہيں:
1۔ ابن زياد، عمرو سعد پر زور دے رہا تھا کہ امام کو جتنا ہو سکے جلدي شہيد کردياجائے تاکہ امام کے خطباتفوجيوں کے افکار کو تبديل نہ کرديں۔ اگر سب کے سب شيعہ تھے تو افکار بدلنے کا کيا معني ٰ ہے؟
2۔ صفين ميں جب قرآن کونيزوں پر بلند کيا گيا تو بيس ہزار لوگوں کے افکار بدل گئےاور امام علي A کي مخالفت ميں تلواريں بلندہوئيں ۔ ليکن کربلا ميں امام حسين A قرآن کو ہاتھوں پہ ليکر ميدان ميں آئے اور اپنا مقام اور عظمت بيان کرنے کے باوجود کوئي اموي حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ نہ ہوئے تو يقيناً يہ لوگ جانتےبوجھتے ہوئےاہل بيتGکي دشمني ميں کربلا آئے تھے۔
3۔ کربلا ميں حاضر ہونے والے افراد اموي حکومت سے مقام اور منصب حاصل کرنے کے لئے آئے تھے جيسا کہ مسروق بن وائل کا کہنا ہے کہ ميں ابن زياد کے نزديک مقام حاصل کرنے کے لئے صف اول ميں رہا تاکہ امام حسين کے سر مبارک کو اپنے ہاتھوں سے جدا کروں ليکن ابن حوزہ کے بارے ميں امام کي نفرين اور اس کاانجام ديکھا تو وہيں سے واپس آيااور کہا کہ اس خاندان سےايسي چيز ديکھي ہےلہذاابد تک ان سے جنگ نہيں کروں گا۔
4۔ عاشورکے دن عمرسعد کےلشکر سے يزيد بن معقل اورامام حسينA کے لشکر ميں سے کوفه کے مشهور عالم دين برير بن خضيرکےدرميان گفتگو ہوئي۔ ابن معقل نے کہا:تم نے ديکھ لياکہ خدا نے تجھے يہ دن دکھاديا؟ برير نے جواب ديا:خدا نے تو مجھےسعادت دي ہے وہ تم ہو جو شقاوت اور بدبختي ميں گرفتار ہے۔ اس نے کہا:تم جس طرح اس سے پہلے بھي جھوٹ بولتا تھا اب بھي جھوٹ بول رہا ہے۔کيا تمہيں ياد ہے يہي جھوٹ عثمان پر باندھتا تھا اور کہتا تھا کہ معاويہ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے اور علي حق پر اور حق کي ہدايت کرنے والا ہے؟ برير نے کہا:ميں گواہي ديتا ہوں جو تم نے بيان کيا ہے يہ اب بھي ميرا اعتقاد ہے۔ ابن معقل نے کہا :ميں گواہي ديتا ہوں کہ تم گمراہي پر ہے! برير نے کہا کيا تم مباہلہ کرنے کے لئے تيار ہو؟ اس نے قبول کيا دونوں نےجھوٹوں پر لعنت کي اور کہا ہم ميں سے جو بھي گمراہ ہووہ دوسرے کے ہاتھ سے قتل ہوجائے اس طرح برير نے يزيد بن معقل کو قتل کرديا۔[20]
5۔امام حسين Aکے جان نثاروں ميں سے ايک نافع بن ہلال ہے جب وہ ميدان ميں گياتو اس نے يہ رجز پڑھا“ميں دين عليA کا معتقد ہوں”۔ لشکر دشمن سے مزاحم بن حريث اس کے مقابلہ ميں آيا اور رجز پڑھا اور کہا:“ ميں دين عثمان کا معتقد ہوں”۔[21]
6۔ تاريخ نگاروں نے لکھا ہے:ابن زياد نے عمر سعد کو لکھا:“جس طرح خليفہ مظلوم عثمان پر پاني بند کيا تھا اسي طرح حسين اور ان کے اصحاب پر پاني بند کرو ”۔ [22]
7۔ جب اہل بيت G شام سے مدينہ واپس پہنچے تو بني ہاشم کي عورتوں کے رونے کي آواز سن کر عمروبن اشدق ہنسا اور کہا:يہ مصيبت اور رونا عثمان کي مصيبت کے بدلے ميں ہے۔[23]
کربلا ميں موجود کوفي، امام حسينAکي نظر ميں
امام حسينAنےچند مقامات پر کربلا ميں آنے والے کوفيوں کواموي متعارف کرديا ہے۔ امام حسين A کربلا پہنچنے سے پہلے ابو ہرہ ازدي کوفي سے فرمايا:“جو لوگ ہم پر تلوار نکاليں گے اور شہيد کريں گے وہ باغي گروہ سے ہونگے”۔ يہ رسول خدا6کے اس فرمان کي طرف اشارہ ہے کہ جس ميں آپ نے فرمايا تھا کہ عمار کو ايک باغي گروہ قتل کرے گا۔امام ان دونوں گروہوں کے ارتباط کو بتانا چاہتے ہيں کہ دونوں کا طرز فکرايک ہے۔ امام حسين Aروز عاشورواضح الفاظ ميں لشکر عمرو سعد سے خطاب کرتےہوئے فرمايا:“ياشيعة آل ابي سفيان ان لم يکن لکم دين ولا تخافون المعاد فکونو احرارا في دنياکم”۔ اے آل ابي سفيان کے ماننے والو!اگر تم لوگ بے دين ہو اور معاد سے نہيں ڈرتے ہو تو کم از کم دنيا ميں تو آزاد زندگي کرو”۔شيعہ آل ابي سفيان،يعني دوسرے الفاظ ميں تفکراموي اور عثماني ہے۔ جب اشراف کوفہ واقعہ کربلا کے بعدمختار کے مقابلے ميں آئے تو ان کا نعرہ تھا“البقيه البقيه من ابي تراب الجنةالجنة“[24]يہ لوگ مختاراور اس کے لشکر کے ساتھ جنگ کرنے کو کربلا کے منصوبہ کي تکميل سمجھتے تھے اور جنت کي بشارت دے رہے تھے جس طرح عمر سعد نے کربلا ميں يہ نعرہ بلند کيا “يا خيل الله ارکبي وبالجنةابشري”[25]۔ اس سے بھي واضح ترمختار کے مقابلہ ميں ان کا يہ نعرہ تھا“يالثارات عثمان”۔[26] يہ نکات بتاتے ہيں کہ کربلا آنے والے کس طرز فکرکے مالک تھے۔
اب تک کے مطالب کا خلاصہ يہ ہوا کہ:
1۔ کوفہ ميں کم از کم دو قسم کے طرز فکررکھنے والے لوگ تھے۔ علوي طرز فکرجو اہل بيت کے مخلص شيعہ تھے ۔ دوسرا طرز فکراموي وعثماني۔
2۔ امام حسينکو خط لکھنے والے بھي انہي دو گروہوں سےتھے۔ علوي طرز فکروالے آخر دم تک امام حسين A کے ساتھ رہے اور اپني جانوں کو قربان کرديا۔ اور اموي طرز فکر والوں نے مسلم کو تنہاکيا اور امام حسين کي شہادت ميں بھي انہي کا کردار رہاہے۔
3۔ ہم بھي قائل ہيں کہ جنہوں نے امام کو کوفہ آنے کي دعوت دي تھي انہي افراد نے ہي امام کو قتل کيا ہے ليکن ان سب کا تعلق بني اميہ سے تھا اور ان کے ہم پيالے اور ہم نوالے تھے۔
4۔ قاتلين امام کے کردار اور گفتار ميں سے کوئي چيز شيعوں کے کردار اور گفتار کے مشابہ نہيں ہے اور کوئي بھي ثابت بھي نہيں کرسکتا کہ امام کے قاتلوں ميں سے عقيدتي اور حقيقي شيعہ موجود ہيں۔
5۔ ممکن ہے بہت سے لوگ کسي دين ومذہب پر اعتقاد رکھنےکا دعوي ٰ کريں ليکن اس دين کے اصول اور آئين پر نہ چليں بلکہ اس کا کردار اور گفتار اس دين اور آئين کے خلاف ہو بلکہ وہ اس مذہب کے اصول کو پائمال کرتےہو تو اس کا اس مذہب اور دين کے ساتھ کوئي تعلق نہيں ہے۔ شيعہ مذہب کے بارے ميں بھي يہي قاعدہ ہےکہ ممکن ہے کوئي شيعہ ہونے کا دعوي ٰکرے ليکن اسکا عمل شيعہ مذہب اور اہل بيت کے کردار کے ساتھ کوئي تعلق نہ رکھتاہو۔شيعہ حقيقي فقط وہ افراد ہيں جو دل وزبان اور کردارسے شيعہ اصول اور آئين کے مطابق زندگي گزارديں۔ بنابر اين،شيعہ حقيقي نہ فقط امام کا قاتل نہيں ہوسکتا بلکہ وہ اپني جان کو بھي امام پر قربان کرتا ہے۔ بالفرض اگر کوئي يہ دعوي ٰ کرے کہ امام کو دعوت دينے والے سب شيعہ تھے اور امام حسين Aکوقتل بھي انہوں نے کيا ہےتو در حقيقت اس اشکال ميں تناقض ہے کيونکہ شيعہ امام کش نہيں ہوسکتاہے پس جس نے امام کو قتل کيا ہے وہ شيعہ نہيں ہے۔بالفرض اگر وہ شيعہ تھا بھي تو امام کو قتل کرنے کے بعد وہ شيعيت سے خارج ہوکر دشمن امام اور دشمن تشيع بنا ہےہمارا ان سے کوئي تعلق نہيں ہے ہم تو اسے مسلمان ہي نہيں سمجھتے ہيں۔ ہميں کسي کے نام اور عنوان سے زيادہ اس کے کردار سے دلچسپي ہے ۔ ممکن ہے آج بھي بہت سے لوگ شيعہ پر شيعہ ہونےکا ليبل لگاياہو ليکن عمل ان کا عمل شيعہ والا نہيں ہے تووہ بھي درحقيقت امام حسين Aکے اہداف کے قاتل ہيں۔جيساکہ امام صادق A نے فرمايا:“من اطاع الله فهو وليّّنا ومن عصي الله فهو عدونا؛ جس نے خدا کي اطاعت کي وہ ہمارا دوست ہے اور جس نے خدا کي مخالفت کي وہ ہمارا دشمن ہے۔خدا ہم سب کي عاقبت بخير فرمائے ۔ آمين۔
حواله جات
[1] ۔ علي رباني، درآمدي بہ شيعہ شناسي،ص19۔
[2] ۔ قصص، آيت 15۔
[3] ۔ صافات،83۔
[4] ۔ علي رباني، درآمدي بہ شيعہ شناسي،ص20۔
[5] ۔ علي رباني، درآمدي بہ شيعہ شناسي،ص23؛ بہ نقل الملل والنحل،ج1،ص146۔
[6] ۔ منبع سابق، بنقل المغني في ابواب التوحيد و العدل و الامامۃ،ج2،ص114۔
[7] . دیوان امام شافعی، ص54- 55۔
[8] ۔ بازتاب اموي طرز فکر در واقعہ کربلا، 20-26 سے اقتباس۔
[9] ۔ علي اضغر رضواني، واقعہ عاشورا وپاسخ بہ شبہات،ص254-255۔
[10] ۔ محمد رضا ہدايت پناہ، بازتاب اموي طرز فکر در واقعہ کربلا،ص28_ 29۔
[11] ۔ البتہ اس سے پہلے بھي ايک گروہ حضرت علي کي حقانيت کے معتقد تھے اور سقيفہ کے بعد اس گروہ نے حديث غدير کو عملي جامہ پہنانے کي کوشش کي ليکن ايک مدت کے بعد مصالح اسلام کي خاطر سکوت اختيار کيا لہذا علوي طرز فکرکي پيدائش کو قتل عثمان کے بعدسے جاننا تاريخي حقائق کے خلاف ہے۔
[12] ۔يہ مطلب بھي حقيقت سے دور ہے چونکہ علي A نے عثمان کا مکمل دفاع کياہے حتي ٰ کہ محاصره کے دوران امام حسنA کے ذريعے عثمان کو پاني اور کھانا پہنچاتا رها ہے ۔ اور حضرت علي A کي بيعت بھي تمام مسلمانوں نے مکمل اختيار کے ساتھ کي ہے۔
[13] ۔ بازتاب اموي طرز فکر در واقعہ کربلا،ص 31-32۔
[14] ۔ شرح نہج البلاغہ،ج11،ص44۔
[15] ۔ بازتاب اموي طرز فکر در واقعہ کربلا، ص72۔
[16] ۔ اس کي وجه يه بھي تھي که اهل کوفه کي واضح اکثريت جنگي قبائل کي تھي ان کي ذهنيت چڑھتے سورچ کي پوجا کرنا، طاقتور حاکم کے سامنے سرجھکانا اور درهم و دينار کي پوجا پاٹ کرنا تھي۔
[17] ۔ اسرا، 71۔
[18] ۔ عرفا:عريف کي جمع ہے اور عريف کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو کسي قبيلہ يا گروہ کا بزرگ ، رئيس ہو نيز کسي قوم کا نماينده هو۔
[19] ۔ ناگفتہ ہاي از حقائق عاشورا، 174ص؛ نقل از انساب الاشراف،ج3،ص185۔
[20] ۔ ناگفتہ ہايي از حقائق کربلا نقل از تاريخ طبري، ج5،ص431-433۔
[21] ۔ منبع سابق۔
[22] ۔ ايضا ً۔
[23] ۔ ايضا ً۔
[24] ۔ يعني آل ابي تراب کے ماننے والوں کو قتل کرو اور جنت کي بشارت هو۔
[25] ۔ ايے خدا کے سوارو! سوار هوجاؤ اورتمهيں جنت کي بشارت هو!
[26] ۔ يعني عثمان کي خون خواهي کے لئے!
Add new comment