میر ببرعلی انیسؒ،شاعرِ کربلا

میر ببرعلی انیس
ذاتی زندگی

سن 1874۔ 1802 میر مستحسن خلیق کے بیٹے اور میر حسن دہلوی کے پوتے تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں علوم متداولہ کی تحصیل کی۔ تقریباً چالیس سال کی عمر میں لکھنؤ کی مستقل سکونت اختیار کی۔ اردو مرثیے کو انیس نے اردو کی بڑی صنف سخن بنا دیا۔
[ترمیم] معرکہ انیس و دبیر

لکنھؤ میں انیس و دبیر ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اور انکے حامیوں میں اپنے اپنے ممدوح کی فوقیت ثابت کرنے کے لیئے جو زبانی اور تحریری بحثیں ہوئیں انہوں نے معرکہ انیس و دبیر کو سب سے بڑا ادبی معرکہ بنا دیا۔
[ترمیم] فنی صلاحیتیں

مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ انیس کو مرثیہ خوانی کے فن کا بھی سب سے بڑا ماہر مانا جاتا تھا۔اس طرح کے بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ انہوں نے مرثیے میں جو کچھ بیان کیا وہ سننے والوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا نظر آنے لگا۔
اودھ کی سلطنت ختم ہونے کے بعد انیس نے عظیم آباد، پٹنہ، حیدرآباد، بنارس، آلہ آباد وغیرہ کے بھی سفر کیئے۔ انیس کا ایک بڑا امتیاز یہ ہے کہ انکے خاندان میں سات پشتوں تک شاعری کا سلسلہ قائم رہا۔
میرانیس اُردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے زمین سخن کو آسمان کردیا ہے۔ جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں یکتا ہیں ۔ اوّل تو میر انیس نے اپنی مرثیوں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کر دیا ہے۔ دوسرا انہوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کرکے اس کو اَرفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔
واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعراء نے مذہبی عقیدت کی بنا پر مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کانام سر فہرست ہے اردو کے دکنی دور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے شمالی ہند میں بھی اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا۔ لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لئے مسدس کو مخصوص کر دیا جس کو بعد کے شعراءنے بھی قائم رکھا ۔ سودا کے بعد میر خلیق ، میر ضمیر ، دیگر اور فصیح وغیرہ نے مرثےہ کو ترقی دی لیکن فنی بلندی ، امتیازی خصوصیات کو نکھارنے اور جاذب دل و دماغ بنانے کے لئے ااس صنف کو میرانیس کی ضرورت تھی جنہوں نے مرثیہ کو معراج کمال پر پہنچایا انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر وشاعری کا چرچا تھا ۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔ علاوہ دوسرے اصناف کے مرثیے میں طبع آزمائی کی جارہی تھی۔ میر ضاحک ، میر حسن اور میر خلیق اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔ الفاظ زبان کی صفائی ، اور صحت پر خاص زور تھا ۔ انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنو میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی اور دہلی والوں کی اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا کہ ”بگڑا شاعر مرثیہ گو

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردوکہتے ہیں ۔
انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔“پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اُتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بےجا نہیں

تعریف میں چشمے کو سمندر سے ملا دوں
قطرے کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
ذرے کی چمک مہر منور سے ملا دوں
کانٹوں کو نزاکت میں گل ِ تر سے ملا دوں
گلدستہ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
[ترمیم] مراثی انیس

میرانیس اردو کے سب سے بڑے مرثیہ گو شاعر ہیں ہم سب سے پہلے ان کی مراثی کا تجزیہ فن مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کے حوالے سے کریں گے۔
مراثی انیس کے اجزائے ترکیبی
[ترمیم] چہرہ
چہرہ مرثیہ کا پہلا جزو ہوتا ہے اس کی حیثیت تقریباً ایسی ہی ہے جیسے قصید ے میں تشبیب کی ہوتی ہے چہرہ سے مرثیہ گو اپنے مرثیہ کا آغاز کرتا ہے یہ آغاز مختلف نوعیت کا ہو سکتا ہے۔ مثلا انیس نے مراثی انیس جلد اوّل میں اپنے پہلے مرثیے کا آغاز دعا سے کیا ہے انہوں نے خدا سے دعا کی ہے کہ ان میں و ہ شعر گوئی کی صلاحیت پیدا کر دے چنانچہ وہ کہتے ہیں ۔

یارب ! چمن نظم کو گلزارِ ارم کر
اے ابر کرم ! خشک زراعت پہ کرم کر
تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر
جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میر ے قلم رو سے نہ جائے
میر انیس نے چہرے میں کبھی کبھی اخلاقی قدروں کو پیش کیا ہے ۔ ان اخلاقی قدروں کی وجہ سے مرثیےکی عظمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
[ترمیم] سراپا
مرثیے کا دوسرا جزو سراپا ہوتا ہے جس میں کرداروں کے جسم ، قدو قامت اور خط و خال کا نقشہ کھینچا جاتا ہے میر انیس نے جا بجا مختلف کراروں کا سراپا پیش کیا ہے۔ حضرت امام حسین کے بڑے بیٹے حضرت علی اکبر تھے ۔ وہ بھی نہایت حسین و جمیل تھے میر انیس ان کے بارے میں فرماتے ہیں،

گلدستہ حسین میں اکبر سا گلبدن
قربان جس کے تن کی نزاکت پہ یاسمن
سنبل کو لائے پیچ میں و ہ زلف پر شکن
غل تھا کہ تنگ تر کہیں غنچے سے ہے دہن
مطلب کھلا ہو ا ہے خط سبز رنگ کا
بہ حاشیہ لکھا ہے اسی متن تنگ کا
[ترمیم] رخصت
مرثیہ کا تیسراجزو رخصت ہے جب کوئی جنگ کے لئے جاتا تھا تو اہل بیت اس کو رخصت کرتے تھے جس کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جارہا ہے۔ جناب عون و جناب محمد حضرت زینب کے بیٹے ہیں ۔ اگر چہ کم سن ہیں لیکن شجاعت ان کی سرشت میں داخل ہے ان کی رخصت کا منظر میر انیس یوں بیان کرتے ہیں۔
خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی ، وہ صفدر
منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں
بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں
[ترمیم] آمد
آمد کو ہم مرثیہ کا چوتھا جزو تصور کر سکتے ہیں اس میں مرثیہ گو کردار کی آمد پیش کرتا ہے اور اس کی شان و شوکت پر روشنی ڈالتا ہے میرانیس نے اپنے مرثیوں میں مختلف کرداروں کی آمد دکھائی ہے۔ حسینی لشکر میں سب سے زیادہ بہادر حضرت عباس تھے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا عہد شباب تھا اس لئے ان کے بازئوں میں بچوں بوڑھوں سے زیادہ طاقت تھی اسی بناءپر ان کی آمد مندرجہ ذیل بندوں میں پیش کرتے ہیں،
آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں نہیں راہ پھیر کی
غش آگیا ہے شہ کو یہ ہے وجہ دیر کی
خوشبو ہے دشت ، بادِ بہاری قریب ہے
ہشیار غافلو کہ سوار ی قریب ہے
[ترمیم] رجز
مرثیہ کا پانچواں جزو رجز ہے جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ اپنے آبا واجدادکی شجاعت کا بیان کرتاہے ۔ اور پھر اپنی بہادری کا قصد اعدا کے دل میں بٹھا تا ہے۔ میر انیس نے مختلف کرداروں کے رجز کا ذکر کیا ہے جس کی وضاحت مندرجہ ذیل سطور میں کی جاتی ہے۔ حضرت امام حسین رجز خوانی میں ماہر تھے چونکہ وہ بہت اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے اس لئے ان کی رجز خوانی میں بہت اثر تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اس میں صداقت بھی تھی میر انیس نے ان کی رجز خوانی پر روشنی ڈالی ہے۔

اعدا کی زبانوں پہ یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تو لے ہوئے شمشیر
دیکھو نہ مٹائو مجھے اے فرقہ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلی نہیں یہ کلمہ حق ہے
عالم میں مرقع میں حسین ایک ورق ہے
[ترمیم] جنگ
مرثیے کا چھٹا جزو جنگ کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس میں کربلا کی جنگ کا نقشہ کھینچا جاتا ہے ۔ میر انیس نے عو ن و محمد کی جنگ کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

میدان میں عجب شان سے وہ شےر نر آئے
گویا کہ بہم حیدر و جعفر نظر آئے
غل پڑ گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا
[ترمیم] شہادت
مرثیے کا ساتواں جزو شہادت ہے دراصل شہادت کا سلسلہ میدان ِ کربلا سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسین کو اپنے وطن میں بیعت کے لئے بلایا تو انہوں نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ وہاں اہل ِ کوفہ نے ان کے ساتھ دغا کی اور ان کو شہید کر دیا ۔یہ منظر دیکھئیے،

جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی
جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی
کی شرم خدا سے نہ محمد سے حیا ءکی
مظلوم پہ ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی
پانی نہ دمِ مرگ دیا تشنہ دہن کو
کس ظلم سے ٹکڑے کیا آوارہ وطن کو
[ترمیم] بین
بین کو ہم مرثیے کا آٹھواں جزو تصور کر سکتے ہیں اس حصہ میں شہدائے کربلا پر اہل بیت ماتم کرتے ہیں عورتیں سر کے بال کھول کر فریاد و فغاں کرتی ہیں اور مرد بھی رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں مگر بین کا خاص طور سے تعلق مستورات کی گریہ و زاری سے ہے میر انیس نے بین کے حصے کو بہت مو ثر انداز میں پیش کیا ہے۔
حضرت علی اکبر سب کو عزیز تھے اس کے علاوہ وہ بہت بہادر بھی تھے ان کی شادی کا شوق حضرت بانو اور حضرت زینب کو بہت تھا یہ ارمان بھی اُن کا نہ نکل سکا اس لئے ان کی شہادت کا غم سب کو ہوا۔ اس بین کا ذکر میرانیس نے نہایت مو ثر انداز میں اس طرح کیا ہے۔
آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر
چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر
برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبرِ دے گر
بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر
تھا کون اُٹھاتا جو زمیں سے انہیں آکر
اُٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر

Add new comment