عید غدیر پر اجمالی نگاہ

 

حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت و امامت کےمھم ترین دلائل میں سے مشھور و معروف حدیث ”حدیث غدیر خم“ ھے، اس حدیث کے مطابق حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو خداوندعالم کی طرف سے اپنے بعد امامت کے لئے منصوب کیا۔

اس حدیث کی سند کیسی ھے؟ یہ حدیث کس چیز پر دلالت کرتی ھے؟ اھل سنت اس کے سلسلہ میں کیا کہتے ھیں، اور اس حدیث کے سلسلہ میں کیا کیا اعتراضات ھوئے ھیں؟ ھم اس حصہ میں ان ھی تمام چیزوں کی بارے میں بحث کریں گے۔

واقعہ غدیر

ہجرت کے دسویں سال رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد فرمایا، اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے مسلمانوں کے جمع ھونے کا پیغام، اطراف کے مختلف قبیلوں کو دیا گیا، فریضہ حج کے انجام دینے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی تعلیمات کی پیروی کرتے ھوئے ایک بڑی تعداد مدینہ پھنچ گئی، اور یہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا وہ واحد حج تھا جو آپ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد انجام دیا تھا جس کو تاریخ نے مختلف ناموں سے یاد کیا ھے، جیسے: حجة الوداع، حجة الاسلام، حجة البلاغ، حجة الکمال اور حجة التمام۔

رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے غسل فرمایا اور احرام کے لئے دو سادہ کپڑے لئے، ایک کو کمر سے باندھا اور دوسرے کو اپنے شانوں پر ڈال لیا، اور ۲۴ یا ۲۵ ذی قعدہ بروز شنبہ حج کے لئے مدینہ سے پاپیادہ روانہ ھوئے، آپ نے اپنے اھل خانہ اور تمام ازواج کو عماریوں میں بٹھایا، اور اپنے تمام اھل بیت، مھاجرین و انصار نیز عرب کے دوسرے بڑے قبیلوں کے ساتھ روانہ ھوئے[1]، بہت سے لوگ چھالے پڑنے کی بیماری کے ڈر سے اس سفر سے محروم رہ گئے، اس کے باوجود بھی بے شمار مجمع آپ کے ساتھ تھا، اس سفر میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ۱۱۴۰۰۰/ ۱۲۰۰۰۰/ یا ۱۲۴۰۰۰ یا اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ھے، البتہ جو لوگ مکہ میں تھے اور یمن سے حضرت علی علیہ السلام اور ابوموسیٰ اشعری کے ساتھ آنے والوں کی تعداد کا حساب کیا جائے تو مذکورہ رقم میں اضافہ ھوتا ھے۔

اعمال حج کو انجام دینے کے بعد پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حاجیوں کے ساتھ مدینہ واپسی کے لئے روانہ ھوئے، اور جب یہ قافلہ غدیر خم پھنچا تو جبرئیل امین خداوندعالم کی طرف سے یہ آیہ شریفہ لے کر نازل ھوئے:

< یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۔۔۔>[2]

”اے پیغمبر ! آپ اس حکم کو پھنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ھے۔۔۔۔“

”جُحفہ“ وہ منزل ھے جھاں سے مختلف راستے نکلتے ھیں، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے اصحاب کے ساتھ ۱۸ /ذی الحجہ بروز پنجشنبہ ”مقام جُحفہ“ پر پھنچے۔

امین وحی (جناب جبرئیل) نے خداوندعالم کی طرف سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حکم دیا کہ اصحاب کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کا ولی اور امام کے عنوان سے تعارف کرائیں، اور یہ حکم پھنچادیں کہ ان کی اطاعت تمام مخلوق پر واجب ھے۔

وہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی پھنچ گئے، اور جو اس مقام سے آگے بڑھ چکے تھے ان کو واپس بلایا گیا، پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: یھاں سے خار و خاشاک کو صاف کردیا جائے، گرمی بہت زیادہ تھی، لوگوں نے اپنی عبا کا ایک حصہ اپنے سر پر اور ایک سرا پیروں کے نیچے ڈالا ھوا تھا، اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے آرام کی خاطر ایک خیمہ بنا دیا گیا تھا۔

ظھر کی اذان کھی گئی، اور سب نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی اقتدا میں نماز ظھر ادا کی، نماز کے بعد پالان شتر کے ذریعہ ایک بلند جگہ بنائی گئی۔

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بلند آواز سے سب کو متوجہ کیا اور اس طرح خطبہ کا آغاز کیا:

”تمام تعریفیں خداوندعالم سے مخصوص ھیں، میں اسی سے مدد طلب کرتا ھوں اور اسی پر ایمان رکھتا ھوں، نیز اسی پر بھروسہ کرتا ھوں، برے کاموں اور برائیوں سے اس کی پناہ مانگتا ھوں۔ گمراھوں کے لئے صرف اسی کی پناہ ھے۔ جس کی وہ رھنمائی کردے وہ گمراہ کرنے والا نھیں ھوسکتا، میں گواھی دیتا ھوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، اور محمد اس کے بندہ اور رسول ھیں۔“

خداوندعالم کی حمد و ثنا اور اس کی وحدانیت کی گواھی کے بعد فرمایا:

”اے لوگو! خداوندمھربان اور علیم نے مجھے خبر دی ھے کہ میری عمر ختم ھونے والی ھے۔ اور عنقریب میں اس کی دعوت پر لبیک کہتے ھوئے آخرت کی طرف روانہ ھونے والا ھوں، میں اور تم اپنی اپنی ذمہ داریوں کے ذمہ دار ھیں، اب تمھارا نظریہ کیا ھے اور تم لوگ کیا کہتے ھو؟“

لوگوں نے کھا:

”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے پیغام الٰھی کو پھنچا دیا ھے، اور ھم کو نصیحت کرنے اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑی ۔ خداوندعالم آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائے۔“

پھر فرمایا: ”کیا تم لوگ خداوندعالم کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواھی دیتے ھو؟ اور کیا یہ گواھی دیتے ھو کہ جنت و دوزخ اور قیامت کے دن میں کوئی شک و شبہ نھیں ھے؟ اور یہ کہ خداوندعالم مُردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا؟ کیا تم ان تمام چیزوں پر عقیدہ رکھتے ھو؟

سب نے کھا: ”ھاں (یا رسول اللہ!) ان تمام حقائق کی گواھی دیتے ھیں۔“

اس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”خداوند! تو گواہ رھنا“، پھر بہت تاکید کے ساتھ فرمایا: ”بے شک میں آخرت میں جانے اور حوض (کوثر)پر پھنچنے میں تم سے پھل کرنے والا ھوں، اور تم لوگ حوض (کوثر)پر مجھ سے آکر ملو گے، میری حوض (کوثر)کی وسعت ”صنعا“ اور ”بصری“ کے درمیان فاصلہ کی طرح ھے، وھاں پر ستاروں کے برابر ساغر اور چاندی کے جام ھیں۔ غور و فکر کرو اور ھوشیار رھو کہ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارھا ھوں، دیکھو تم لوگ ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ھو؟۔“

اس موقع پر لوگوں نے آواز بلند کی: یا رسول اللہ! وہ دو گرانقدر چیزیں کونسی ھیں؟

رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”ان میں ثقل اکبر ،اللہ کی کتاب قرآن مجید ھے، جس کا ایک سِرا خداوندعالم کے ھاتھ میں اور دوسرا سِرا تمھارے ھاتھوں میں ھے۔ لہٰذا اس کو مضبوطی سے پکڑے رھنا تاکہ گمراہ نہ ھو۔ اور ثقل اصغر میری عترت ھے، بے شک خداوندعلیم و مھربان نے مجھے خبر دی ھے کہ یہ دونوں ھرگز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے، یھاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ھوں؛ میں نے خداوندعالم سے اس بارے میں دعا کی ھے، لہٰذا ان دونوں سے آگے نہ بڑھنا، اور ان کی پیروی سے نہ رُکنا کہ ھلاک ھوجاؤگے۔“

اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام کے ھاتھ کو پکڑ کر بلند کیا یھاں تک آپ کی سفیدی بغل نمودار ھوگئی۔ تمام لوگ آپ کو دیکھ رھے تھے اور پہچان رھے تھے۔ پھر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس طرح فرمایا: ”اے لوگو! مومنین پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون اولیٰ ھے؟“ ۔

سب لوگوں نے کھا: خدا اور اس کا رسول بہتر جانتا ھے

آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا : ”بے شک خدا وندعالم میرا مولا ھے، اور میں مومنین کا مولا ھوں، اور ان پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ اولیٰ ھوں، اور جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں۔“

اور احمد بن حنبل (حنبلیوں کے امام) کے بقول : پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس جملہ کو چار مرتبہ تکرار کیا۔

اور پھر دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”پالنے والے ! تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے، اس کے ناصروں کی مدد فرما، اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو ذلیل و خوار فرما، اور ان کو حق و صداقت کا معیار اور مرکز قرار دے۔“

اور پھر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: حاضرین مجلس اس واقعہ کی خبر غائب لوگوں تک پھنچائیں۔“

مجمع کے جدا ھونے سے پھلے جبرئیل امین پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر یہ آیہٴ شریفہ لے کر نازل ھوا:

< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا >[3]

”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا۔“

اس موقع پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”اللہ اکبر، دین کے کامل ھونے، نعمت کے مکمل ھونے، اور میری رسالت اور میرے بعد علی (علیہ السلام) کی ولایت پر خدا کے راضی و خوشنود ھونے پر۔“

حاضرین مجلس منجملہ شیخین (ابوبکر اور عمر) نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں پھنچ کر اس طرح مبارکباد پیش کی: ”مبارک ھو مبارک! یا علی بن ابی طالب کہ آج آپ میرے اور ھر مومن و مومنہ کے مولا و آقا بن گئے۔“

ابن عباس کہتے ھیں: ”خدا کی قسم حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سب پر واجب ھوگئی۔“

حسان بن ثابت نے کھا: ”یا رسول اللہ! کیا آپ اجازت دیتے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں قصیدہ پڑھوں؟

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”خدا کی میمنت اور اس کی برکت سے پڑھو“، اس موقع پر حسان کھڑے ھوئے اور اس طرح عرض کیا: ”اے قریش کے بزرگو! پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے حضور میں ولایت (جو مسلم طور پر ثابت ھوچکی ھے) کے بارے میں اشعار پیش کرتا ھوں“، اور اس طرح اشعار پڑھے:

ینادیھم یوم الغدیر نبیّھم بخم فاسمع بالرسول منادیاً

”غدیر کے دن نبی لوگوں کو ندا کررھے تھے اور نبی کی یہ ندا میں بھی سن رھا تھا۔“

اور اس طرح پورا قصیدہ سب کے سامنے پیش کیا۔

ھم نے واقعہ غدیر کو مختصر طور پر بیان کیا ھے کہ جس پر تمام امت اسلامیہ اتفاق رکھتی ھے، قابل ذکر ھے کہ دنیا کا کوئی بھی واقعہ یا داستان اس شان و شوکت اور خصوصیات کے ساتھ ذکر نھیں ھوئی ھے[4]

واقعہ غدیر کی اھمیت

غدیر خم میں حضرت علی علیہ السلام کو مقام ولایت کے لئے منصوب کرنا، تاریخ اسلام کے اھم واقعات میں سے ھے؛ شاید اس واقعہ سے زیادہ اھم کوئی واقعہ ھمیں نہ مل سکے، یہ واقعہ حضرت علی علیہ السلام کی شکل میں پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رسالت اور الٰھی سلسلہ کے باقی رھنے کو بیان کرتا ھے۔

غدیر، اتحاد کی نشانی اور رسالت و امامت کے اتصال کا نام ھے؛ ان دونوں کی اصل ایک ھی ھے، مخفی حقائق کے ظاھر ھونے، پوشیدہ اسرار کے ظاھر ھونے اور لوگوں کی ہدایت اسی غدیرکی راہ میں ممکن ھے۔

غدیر، حق سے بیعت کرنے اور سر تسلیم خم کرنے کا دن ھے، غدیر، لشکر رحمن سے لشکر شیطان کی شکست کا دن ھے۔

غدیر، خورشید عالمتاب کے تاریک بادلوں کے بعد چمکنے کا دن ھے۔

غدیر خم کی جغرافیائی حیثیت

”غدیر“ کے لغوی معنی ایسے گڑھے کے ھیں جس میں بارش یا سیلاب کا پانی جمع ھوکر ایک مدت تک باقی رہتا ھے۔

لفظ ”خم“ کے بارے میں یاقوت حموی، زمخشری سے نقل کرتے ھیں کہ ”خم“ ایک رنگریز کا نام تھا، اور مکہ و مدینہ کے درمیان ”جُحفہ“ میں جو غدیر ھے اسی شخص کے نام سے منسوب ھے[5]

”غدیر خم“ جیسا کہ اشارہ ھوا مکہ و مدینہ کے درمیان ایک مقام کا نام ھے جو مدینہ کی نسبت مکہ سے زیادہ نزدیک ھے اور ”جحفہ“ سے دو میل کے فافصلہ پر ھے[6]

”جحفہ“ مکہ و مدینہ کے درمیان، مکہ کے شمال مغربی میں ایک بڑی بستی تھی جس کو قدیم زمانہ میں ”مھیعَہ“ کہتے تھے، لیکن بعد میں اس کا نام بدل کر ”جحفہ“ کردیا گیا، کیونکہ ”جحفہ“ کے معنی کوچ کے ھیں، اس زمانہ میں تباھی برپا کرنے والے سیلاب آنے کی وجہ سے اس علاقہ کے لوگوں کو کوچ کرنا پڑتا تھا، لیکن یہ علاقہ اب ویران ھے[7]

حدیث غدیر کے صحابہ روای

صحابہ کی کثیر تعداد نے حدیث غدیر کو نقل کیا ھے، اب ھم یھاں پر حروف تہجی کے لحاظ سے ان اصحاب کے اسماء کی فھرست بیان کرتے ھیں، لیکن سب سے پھلے تبرکاً اصحاب حدیث کساء کے اسماء گرامی نقل کرتے ھیں:

 

۱۔ حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام۔

۲۔ دختر رسول، صدیقہ طاھرہ حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا۔

۳۔ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ۔

۴۔ شھید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام۔

الف:

۵۔ ابوبکر بن ابی قحافہ تمیمی۔

۶۔ ابو ذویب خویلد۔

۷۔ ابورافع قِبطی۔

۸۔ ابو زینب بن عوف انصاری۔

۹۔ ابو عمرہ بن عمرو بن مِحصَن انصاری۔

۱۰۔ ابو فضالہ انصاری، جو جنگ بدر میں بھی شریک تھے اور جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شھید ھوئے ھیں۔

۱۱۔ ابوقدامہ انصاری۔

۱۲۔ ابولیلیٰ انصاری، بعض نقلوں کی مطابق یہ جنگ صفین میں شھید ھوئے۔

۱۳۔ ابوھریرہ دوسی۔

۱۴۔ ابو الھیثم بن تیھان، جو جنگ صفین میں شھادت کے درجہ پر فائز ھوئے۔

۱۵۔ ابی بن کعب انصاری خزرجی، بزرگ قراء۔

۱۶۔ اسامہ بن زید بن حارثہ کلبی۔

۱۷۔ اسعد بن زرارہٴ انصاری۔

۱۸۔ اسماء بنت عُمیس خثعمیہ۔

۱۹۔ امّ سلمہ، زوجہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)۔

۲۰۔ ام ھانی، بنت ابو طالب علیہ السلام۔

۲۱۔ انس بن مالک انصاری خزرجی، خادم پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)۔

ب:

۲۲۔ براء بن عازب انصاری اوسی۔

۲۳۔ بریدہ بن عازب انصاری اوسی۔

ث:

۲۴۔ ثابت بن ودیعہ انصاری، ابو سعید خزرجی مدنی۔

ج:

۲۵۔ جابر بن سَمُرہ بن جنادہ، ابو سلیمان سوائی۔

۲۶۔ جابر بن عبد اللہ انصاری۔

۲۷۔ جبلہ بن عمر و انصاری۔

۲۸۔ جبیر بن مطعم بن عدی قرشی نوفلی۔

۲۹۔ جریر بن عبد اللہ جابر بجلی۔

۳۰۔ جندب بن جنادہ غفاری ابوذر۔

۳۱۔ جندع بن عمرو بن مازن انصاری، ابو جنَیدہ۔

ح:

۳۲۔ حبة بن جوین، ابو قُدامہ عرنی بجلی۔

۳۳۔ حُبشی بن جنادہٴ سلولی۔

۳۴۔ حبیب بن بُدیل بن ورقاء خزاعی۔

۳۵۔ حذیفہ بن اٴسید، ابو سریحہ غفاری، موصوف کا شمار اصحاب شجرہ میں ھوتا ھے۔

۳۶۔ حذیفہ بن یمان یمنی۔

۳۷۔ حسان بن ثابت۔

خ:

۳۸۔ خالد بن زید، ابو ایوب انصاری، موصوف روم کے ساتھ ھونے والی جنگ میں شھید ھوئے۔

۳۹۔ خالد بن ولید بن مغیرہ مخزومی، ابو سلیمان۔

۴۰۔ خزیمة بن ثابت انصاری ذو الشھادتین، جو جنگ صفین میں شھید ھوئے۔

۴۱۔ خُویلد بن عمر و خزاعی، ابو شریح۔

ر۔ ز:

۴۲۔ رفاعہ بن عبد المنذر انصاری۔

۴۳۔ زبیر بن عوّام قرشی۔

۴۴۔ زید بن ارقم انصاری خزرجی۔

۴۵۔ زید بن ثابت ابو سعید۔

۴۶۔ زید یا یزید بن شراحیل انصاری۔

۴۷۔ زید بن عبد اللہ انصاری۔

س:

۴۸۔ سعد بن ابی وقّاص، ابو اسحاق۔

۴۹۔ سعد بن جنادہٴ عوفی، پدر عطیہ عوفی۔

۵۰۔ سعد بن عبادہ انصاری خزرجی۔

۵۱۔ سعد بن مالک انصاری، ابو سعید خدری۔

۵۲۔ سعید بن زید قرشی عدوی، یہ عشرہ مبشرہ میں سے ھیں۔

۵۳۔ سعید بن سعد بن عبادہ انصاری۔

۵۴۔ سلمان فارسی، ابو عبد اللہ۔

۵۵۔ سَلَمہ بن عمرو بن الاکوع اسلم، ابو مسلم۔

۵۶۔ سمرہ بن جُندب فزازی، ابوسلیمان۔

۵۷۔ سھل بن حُنَیف انصاری، اوسی۔

۵۸۔ سھل بن سعد انصاری، خزرجی، ساعدی، ابو العباس۔

ص و ض:

۵۹۔ صُدَیُّ بن عجلان باھلی، ابو اُمامہ۔

۶۰۔ ضُمیرہٴ اسدی۔

ط:

۶۱۔ طلحة بن عبد اللہ تَیمی۔

ع:

۶۲۔ عامر بن عُمیر نمیری۔

۶۳۔ عامر بن لیلیٰ بن حمزہ۔

۶۴۔ عامر بن لیلی غفاری۔

۶۵۔ عامر بن واثلہٴ لیثی، ابو الطفیل۔

۶۶۔ عائشہ بنت ابی بکر۔

۶۷۔ عباس بن عبد الملک بن ھاشم، پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے چچا۔

۶۸۔ عبد الرحمن بن عبد ربّ انصاری۔

۶۹۔ عبد الرحمن بن عوف قرشی، زھری، ابو محمد۔

۷۰۔ عبد الرحمن بن یعمر دیلیّ۔

۷۱۔ عبد اللہ بن عبد الاسد مخزومی۔

۷۲۔ عبد اللہ بن بُدَیل بن ورقاء۔

۷۳۔ عبد اللہ بن بشیر مازنیّ۔

۷۴۔ عبد اللہ بن ثابت انصاری۔

۷۵۔ عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب ھاشمی۔

۷۶۔ عبد اللہ بن حنطب قرشی، مخزومی۔

۷۷۔ عبد اللہ بن ربیعہ۔

۷۸۔ عبد اللہ بن عباس۔

۷۹۔ عبد اللہ بن ابی اٴوفی علقمہ اسلمی۔

۸۰۔ عبد اللہ بن عمر بن خطاب عدوی، ابو عبد الرحمن۔

۸۱۔ عبد اللہ بن مسعود ہُذَلی، ابو عبد الرحمن۔

۸۲۔ عبد اللہ بن یامیل۔

۸۳۔ عثمان بن عفّان۔

۸۴۔ عُبَید بن عازب انصاری۔

۸۵۔ عدی بن حاتم ابوطریف۔

۸۶۔ عطیہ بن بسر مازنی۔

۸۷۔ عُقبة بن عامر جُہَنی۔

۸۸۔ عمار بن یاسر عنسّی، ابو الیقظان۔

۸۹۔ عمارہٴ خزرجی انصاری۔

۹۰۔ عمر بن ابی سلمة بن عبد الاسد مخزومی۔

۹۱۔ عمر بن خطاب۔

مخفی نہ رھے کہ حضرت عمر کی حدیث کو حافظ بن مغازلی نے کتاب ”المناقب“[8]میں دو طریقوں سے، اور محب الدین طبری نے ”الریاض النضرة“[9]اور ”ذخائر العقبیٰ“[10] میں ”مسند احمد“ سے نقل کیا ھے، نیز ابن کثیر دمشقی و شمس الدین جزری نے حضرت عمر کو حدیث ”غدیر“ کے روایوں میں شمار کیا ھے[11]

۹۲۔ عمران بن حصین خزاعی، ابو نحید۔

۹۳۔ عمر و بن حمق خزاعی، کوفی۔

۹۴۔ عمرو بن شراحیل۔

۹۵۔ عمرو بن عاص۔

۹۶۔ عمرو بن مرّہ جُہَنی، ابو طلحہ۔

ف:

۹۷۔ فاطمہ بنت حمزہ بن عبد المطلب۔

ق و ک:

۹۸۔ قیس بن ثابت شمّاس انصاری۔

۹۹۔ قیس بن سعد بن عُبادہٴ انصاری۔

۱۰۰۔ کعب بن عجرہٴ انصاری، مدنی، ابو محمد۔

م:

۱۰۱۔ مالک بن حویرث لیثی، ابو سلیمان۔

۱۰۲۔ مقداد بن عمرو کندی، زھری۔

ن:

۱۰۳۔ ناجیة بن عمرو خزاعی۔

۱۰۴۔ نضلة بن عتبہٴ اسلمی، ابو برزہ۔

۱۰۵۔ نعمان بن عجلان انصاری۔

ہ تا ی:

۱۰۶۔ ھاشم بن مِرقال بن عتبة بن ابی وقّاص زھری، مدنی۔

۱۰۷۔وحشنی بن حرب حَبَشی، حِمصی، ابو وَسمہ۔

۱۰۸۔ وھب بن حمزہ۔

۱۰۹۔ وھب بن عبد اللہ سوائی، ابو جحیفہ۔

۱۱۰۔ یعلی بن مرّہ بن وھب ثقفی، ابو مُرازم۔

قارئین کرام! یہ تھے ایک سو دس بزرگ صحابی رسول، جن کے اسمائے گرامی ھم نے نقل کئے ھیں، یقینی طور پر اس سے زیادہ افراد نے اس حدیث غدیر کو نقل کیا ھے، کیونکہ تاریخ کے مطابق سر زمین خم میں ایک لاکھ سے بھی زیادہ صحابی اور حاجی حاضر تھے، لہٰذا حالات کے پیش نظر اس حدیث کے راوی اس سے کھیں زیادہ ھیں، لیکن اھل سنت کی کتابوں کی چھان بین کرنے سے یہ تعداد ملتی ھے۔

حافظ سجستانی (متوفی سن ۴۷۷) نے کتاب ”الدارایة فی حدیث الولایة“ کو ۱۷ جلدوں میں تالیف کیا ھے، جس میں حدیث غدیر کے طریقوں کو ذکر کیا ھے، چنانچہ موصوف نے اس حدیث کو ایک سو بیس صحابہ سے نقل کیا ھے[12]

حدیث غدیر کو نقل کرنے والے تابعین

حدیث غدیر کو ۸۴ تابعین نے نقل کیا ھے، جیسے:

۱۔ ابو راشد خُبرانی، شامی، دمشق میں اپنے زمانہ کے سب سے افضل شخص۔

۲۔ ابو سلیمان موٴذن، جن کا شمار عظیم الشان تابعین میں ھوتا ھے۔

۳۔ ابو صالح سمّان ذکوان مدنی، احمد ابن حنبل نے ان کو ”ثقة ثقة“ کے عنوان سے یاد کیا ھے[13]

۴۔ اصبغ بن نُباتہ تمیمی کوفی۔

۵۔ حبیب بن ابی ثابت اسدی، کوفی، فقیہ کوفہ ۔

۶۔ حکم بن عُتَیبہٴ کوفی، کندی، موصوف کے بارے میں ”ثقة، ثبت، فقیہ“ جیسے الفاظ کھے گئے ھیں(جو ان کی عظمت پر دالالت کرتے ھیں)

۷۔ حُمَید طویل بصری، ان کے بارے میں ”حافظ، محدّث، ثقہ“ جیسے الفاظ کا استعمال کیا گیا ھے۔

۸۔ زاذان بن عمر کندی، بزّار، کوفی، ان کا شمار عظیم الشان تابعین میں ھوتا ھے۔

۹۔ زرّ بن حُبیش اسدی۔

۱۰۔ سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب قرشی، مدنی۔

۱۱۔ سعید بن جُبیر اسدی، کوفی، جو حجاج (ستمگر) کے ھاتھوں شھید ھوئے۔

۱۲۔ سعید بن مسیّب قرشی، مخزومی، احمد بن حنبل نے ان کے بارے میں کھا: سعید کی تمام مرسلات صحیح ھیں۔

۱۳۔ سلیم بن قیس ھلالی۔

۱۴۔ سلیمان بن مھران اٴعمش۔

۱۵۔ ضحاک بن مزاحم ھلالی۔

۱۶۔ طاووس بن کیسان یمان، جَندَی۔

۱۷۔ عائشہ بنت سعد۔

۱۸۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ۔

۱۹۔ عدی بن ثابت انصاری، کوفی خطمی۔

۲۰۔ عمر بن عبد العزیز، اموی خلیفہ۔

۲۱۔ عمرو بن عبد اللہ سبیعی، ھمدانی۔

۲۲۔ فطر بن خلیفہ مخزومی۔

۲۳۔ مسلم بن صُبَیح ھمدانی، کوفی، عطار۔

۲۴۔ نذیر ضبّی کوفی، ان کا شمار بزرگ تابعین میں ھوتا ھے۔

۲۵۔ یحییٰ بن سُلَیم فزاری، واسطی۔

۲۶۔ یزید بن ابی زیاد کوفی۔

۲۷۔ یسار ثقفی، ابو نجیح۔

ان کے علاوہ دوسرے تابعین نے بھی حدیث غدیر کو بیان کیا ھے۔

دوسری صدی میں حدیث غدیر کے راوی

دوسری صدی ہجری میں ۵۶ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| حافظ محمد بن اسحاق مدنی (۱۵۱)

| حافظ سفیان بن سعید ثوری (۱۶۱)

| حافظ وکیع بن جراح (۱۹۶)

تیسری صدی میں حدیث غدیر کے راوی

تیسری صدی ہجری میں ۹۲علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| محمد بن ادریس شافعی۔(۲۰۴)[14]

| احمد بن حنبل شیبانی۔(۲۴۱)[15]

| حافظ محمد بن اسماعیل بخاری (۲۵۶)[16]

| حافظ محمد بن عیسی ترمذی (۲۷۹)

| حافظ احمد بن یحییٰ بلاذری (۲۷۹)[17]وغیرہ

چوتھی صدی میں حدیث غدیر کے راوی

چوتھی صدی (ہجری) میں ۴۳ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| احمد بن شعیب نسائی (۳۰۳)[18]اس حدیث کو ”سنن“ اور ”خصائص“ میں متعدد طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں اکثر صحیح السند ھیں۔

| حافظ احمد بن علی موصلی، ابویعلی، (۳۰۷)[19]

| حافظ محمد بن جریر طبری، (۳۱۰)[20]

ابو القاسم طبرانی، (۳۷۰)[21]،موصوف نے بھی حدیث غدیر کو بہت سے طریقوں سے نقل کیا ھے جس میں سے اکثر صحیح السند ھیں۔

اس کے علاوہ بھی دیگر افراد نے حدیث غدیر کو نقل کیا ھے۔

پانچویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

پانچوی صدی ہجری میں ۲۴ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| قاضی ابی بکر باقلانی، (۴۰۳)[22]

| ابو اسحاق ثعلبی، (۴۲۷)[23]

| ابو منصور ثعالبی، (۴۲۹)[24]

| حافظ ابو عمر قرطبی، (۴۶۳)[25]

| ابو بکر خطیب بغدادی، (۴۳۶)[26]

| ابن مغازلی شافعی، (۴۸۳)[27]

| حافظ حسکانی حنفی، (۴۹۰)[28]

چھٹی صدی میں حدیث غدیر کے راوی

چھٹی صدی ہجری میں ۲۰ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| حجة الاسلام غزالی، (۵۰۵)

| جار اللہ زمخشری، (۵۳۸)[29]

| موفق بن احمد خوارزمی، (۵۶۸) [30]

| ابن عساکر دمشقی، (۵۷۱)[31]وغیرہ

ساتویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

ساتویں صدی ہجری میں ۲۱ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| فخر الدین رازی شافعی،(۶۰۶)[32]

| ابن اثیر جزری، (۶۳۰) [33]

| ابن ابی الحدید معتزلی، (۶۵۵)[34]

| حافظ گنجی شافعی، (۶۵۸)[35]

| حافظ محب الدین طبری شافعی، (۶۹۴) وغیرہ

آٹھویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

آٹھویں صدی ہجری میں ۱۸ علمائے اھل سنت سے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

|شیخ الاسلام جوینی، (۷۲۲)[36]

| جمال الدین زرندی، (۷۵۰)[37]

| قاضی ایجی شافعی، (۷۵۶)[38]

| ابن کثیر شافعی، (۷۷۴) [39]

| سید علی ھمدانی، (۷۸۶)[40]

| سعد الدین تفتازانی شافعی، (۷۹۱)[41]وغیرہ

نویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

نویں صدی ہجری میں ۱۶ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| حافظ ابی الحسن ھیثمی شافعی، (۸۷۰)[42]

| حافظ ابن خلدون مالکی، (۸۰۸)[43]

| سید شریف جرجانی حنفی، (۸۱۶)[44]

| ابن حجر عسقلانی شافعی، (۸۵۲)[45]

| ابن صبّاغ مالکی، (۸۵۵)[46]

| علاء الدین قوشچی، (۸۸۹)[47] وغیرہ۔

دسویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

دسویں صدی ہجری میں ۱۴ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| حافظ جلال الدین سیوطی، (۹۱۱)[48]

| نور الدین سمھودی شافعی، (۹۱۱) [49]

| حافظ ابی العباس قسطلانی شافعی، (۹۲۳)[50]

| ابن حجر ھیتمی شافعی، (۹۷۴)

| متقی ھندی، وغیرہ

گیارھویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

گیارھویں صدی ہجری میں ۱۲ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| زین الدین مناوی شافعی، (۱۰۳۱)[51]

| نور الدین حلبی شافعی، (۱۰۴۴)[52] وغیرہ

بارھویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

بارھویں صدی ہجری میں ۱۳ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| ضیاء الدین مقبلی، (۱۱۰۸) ۔

| ابن حمزہٴ حرّانی، (۱۱۲۰)[53]

|ابی عبد اللہ زرقانی مالکی، (۱۱۲۲)[54] وغیرہ۔

تیرھویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

تیرھویں صدی ہجری میں ۱۲ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| ابو العرفان محمد بن صبّان شافعی، (۱۲۰۶)[55]

| قاضی شوکانی، (۱۲۵۰)

| شھاب الدین آلوسی، (۱۲۷۰)[56] وغیرہ

چودھویں صدی میں حدیث غدیر کے راوی

چودھویں صدی ہجری میں ۱۹ علمائے اھل سنت نے اس حدیث کو نقل کیا ھے، جیسے:

| سید احمد بن زینی دحلان شافعی، (۱۳۰۴) (۳) ????

| سید مومن شبلنجی۔

| شیخ محمد عبدہ مصری، (۱۳۲۳)[57]

| سید عبد الحمید آلوسی، (۱۳۲۴)[58]

| عبد الفتاح عبد المقصود۔ وغیرہ۔

حدیث غدیر کا تواتر

ھر وہ تاریخی اھم واقعہ جس میں امت کے رھبر کی بات ھو، اور بہت کثیر مجمع میں وہ واقعہ پیش آیا ھو، اس بات کا تقاضا کرتا ھے کہ وہ متواتر ھو، مخصوصاً اگر اس واقعہ میں عظیم الشان رھبر الٰھی نے اہتمام کیا ھو اور ھرملک اور ھر شھر کے لوگ اس واقعہ کے شاہد و ناظر ھوں، نیز اس رھبر کی طرف سے اس واقعہ کو نشر کرنے کی مزید تاکید بھی ھو، تو ایسے حالات کے پیش نظر کیا یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ ایسے واقعہ کو ایک دو یا چند لوگ بیان کریں گے؟ یا یقینی طور پر اس واقعہ کی نقل متواتر ھوگی؟ حدیث غدیر اسی قسم کا واقعہ ھے، کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس حدیث کو مختلف اسلامی ممالک اور مختلف اسلامی شھروں کے دسیوں ہزار لوگوں کے مجمع میں بیان کیا اور تاکید فرمائی کہ اس واقعہ کو مسلمانوں کے درمیان بیان کیا جائے۔

حدیث غدیر کے تواتر کا اقرار کرنے والے علماء:

اھل سنت کے اکثر علماء نے حدیث غدیر کے متواتر ھونے کو بیان کیا ھے، جیسے:

۱۔ جلال الدین سیوطی[59]

۲۔ علامہ مناوی[60]

۳۔علامہ عزیزی[61]

۴۔ملاّ علی قاری حنفی[62]

۵۔میرزا مخدوم بن میر عبد الباقی[63]

۶۔محمد بن اسماعیل یماانی[64]

۷۔محمد صدر عالم[65]

۸۔شیخ عبد اللہ شافعی[66]

۹۔شیخ ضیاء الدین مقبلی[67]

۱۰۔ ابن کثیر دمشقی[68]

۱۱۔ ابو عبد اللہ حافظ ذھبی[69]

۱۲۔ ابن جزری[70]

۱۳۔شیخ حسام الدین متقی۔

۱۴۔جمال الدین حسینی شیرازی[71]

۱۵۔حافظ شھاب الدین ابو الفیض احمد بن محمد بن صدیق غماری مغربی۔

موصوف کہتے ھیں: ”حدیث ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے متواتر ۶۰ / طریقوں سے بیان ھوئی ھے، اور اگر سب کی سند بیان کریں تو بہت طولانی فھرست ھوجائی گی، لیکن بحث کامل ھونے کی وجہ سے صرف نقل کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں، اور جو شخص ان سب کی سندوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاھے وہ ھماری کتاب ”المتواتر“ کا مطالعہ کرے۔“[72]

حدیث غدیر کی صحت کا اقرار کرنے والے علماء

بہت سے علماء اھل سنت نے حدیث غدیر کے صحیح ھونے کا اقرار کیا ھے، جیسے:

۱۔ ابن حجر ھیتمی

موصوف کہتے ھیں: ”حدیث غدیر صحیح ھے، اور اس میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نھیں ھے، ایک جماعت جیسے ترمذی، نسائی اور احمد نے اس کو نقل کیا ھے، اور واقعاً اس کے طریقے زیادہ ھیں۔

نیز وہ کہتے ھیں: ”اس حدیث کی بہت سی سند صحیح اور حسن ھیں، اورجو شخص اس حدیث کو ضعیف قرار دینا چاھے اس کی طرف کوئی توجہ نھیں کی جائے گی، نیز اگر کوئی شخص یہ کھے کہ علی علیہ السلام اس وقت یمن میں تھے، تو اس پر بھی توجہ نھیں کی جائے گی، کیونکہ یہ بات ثابت ھوچکی ھے کہ وہ یمن سے واپس آگئے تھے اور حجة الوداع میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ساتھ تھے، اور بعض لوگوں کا یہ کھنا: ”اللّھم وال من والاہ۔۔۔“ جعلی ھے، تو اس کا قول بھی باطل ھے؛ کیونکہ یہ جملہ ایسے طریقوں سے وارد ھوا ھے کہ ذھبی نے اس کے بہت سے طریقوں کو صحیح مانا ھے۔“[73]

۲۔ حاکم نیشاپوری

موصوف نے زید بن ارقم سے حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح مانا ھے، اور وہ اس بات کی وضاحت کرتے ھیں کہ اس حدیث میں شیخین کے نزدیک صحت کے سارے شرائط پائے جاتے ھیں[74]

۳۔ حلبی

موصوف نے حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد کھا:

”یہ ایک ایسی حدیث ھے جو صحیح ھے اور صحیح و حسن سندوں کے ساتھ نقل ھوئی ھے، اور جو شخص اس حدیث کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھے تو اس کی طرف توجہ نھیں کی جائے گی۔“[75]

۴۔ ابن کثیر دمشقی

وہ اپنے استاد ذھبی سے حدیث نقل کرنے کے بعد اس کی صحت کے قائل ھوئے ھیں[76]

۵۔ ترمذی

وہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے مناقب میں اس حدیث ”غدیر“ کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”یہ حدیث حسن اور صحیح ھے۔“[77]

۶۔ابو جعفر طحاوی

موصوف بھی حدیث ”غدیر“ کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”یہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ھے، اور کسی نے بھی اس حدیث کے راویوں پر اعتراض نھیں کیا ھے۔“[78]

۷۔ ابن عبد البرّ قرطبی

موصوف ”عقد اخوت“، ”اعطائے علم “ اور ”غدیر“ کی حدیث کے بارے میں کہتے ھیں: ”یہ تمام روایات ثابت شدہ احادیث میں سے ھیں۔“[79]

۸۔ سبط بن جوزی

موصوف تحریر کرتے ھیں: اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت کہ عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے کھا: ”اصبحت مولای و مولی کلّ موٴمن و موٴمنة“، ضعیف ھے، تو ھم اس کے جواب میں کھیں گے: یہ روایت صحیح ھے[80]

۹۔ عاصمی

وہ اپنی کتاب ”زین الفتیٰ فی تفسیر سورة ھل اٴتی“ میں اس حدیث کے سلسلہ میں کہتے ھیں: ”یہ ایسی حدیث ھے جس کو امت نے قبول کیا ھے، اور اصول کے بھی موافق ھے۔“[81]

۱۰۔ آلوسی

آلوسی اپنی تفسیر میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”ھمارے نزدیک یہ ثابت ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت امیر المومنین (علی بن ابی طالب علیہ السلام) کے حق میں روز غدیر فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“[82]

۱۱۔ ابن حجر عسقلانی

موصوف کہتے ھیں: لیکن حدیث ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“[83]کو ترمذی اور نسائی نے نقل کیا ھے، اس کے بہت سے طریقے ھیں، اور ”ابن عقدہ“ نے تمام طریقوں کو ایک مستقل کتاب میں بیان کیا ھے، اور اس کی بہت سی سند صحیح اور حسن ھے۔“

۱۲۔ ابن مغازلی شافعی

انھوں نے ابو القاسم فضل بن محمد سے حدیث ”غدیر“ کے بارے میں نقل کیا ھے، وہ کہتے ھیں: ”یہ حدیث صحیح ھے جس کو تقریباً ۱۰۰ / اصحاب منجملہ عشرہ مبشرہ نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نقل کیا ھے، اور یہ حدیث اتنی مسّلم ھے کہ جس میں کسی طرح کا کوئی عیب نھیں دکھائی دیتا، صرف حضرت علی علیہ السلام کی یہ فضیلت ھے، ایک ایسی فضیلت جس میں کوئی دوسرا شریک نھیں ھے۔“[84]

۱۳۔ فقیہ ابو عبد اللہ بغدادی (م ۳۳۰)

انھوں نے بھی اپنی کتاب ”الامالی“ میں حدیث غدیر کو صحیح مانا ھے۔

۱۴۔ابو حامد غزالی

موصوف کہتے ھیں: ”(اس حدیث کی) حجت اور دلیل واضح ھے، اور سبھی مسلمانوں نے اس حدیث کی تحریر پر اجماع کیا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے روز غدیر خم تمام حاجیوں کے درمیان فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، اس موقع پر عمر نے کھا: ”مبارک ھو مبارک۔۔۔۔“[85]

۱۵۔ حافظ ابن ابی الحدید معتزلی

موصوف نے اپنی کتاب ”شرح نہج البلاغہ“ میں حدیث غدیر کو حضرت علی علیہ السلام کے فضائل میں مشھور و معروف حدیث شمار کیا ھے[86]

۱۶۔ حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی

وہ کہتے ھیں: ”یہ حدیث مشھور اور حسن ھے، اس کے تمام راوی ثقہ ھیں، اور بعض سند کو دوسری سند کے ساتھ ضمیمہ کرنے سے اس حدیث کی صحت پر دلیل بن جاتی ھے۔“[87]

۱۷۔ شیخ ابو المکارم علاء الدین سمنانی (۷۳۶)

موصوف حدیث غدیر کے ذیل میں کہتے ھیں:

”یہ حدیث ان احادیث میں سے ھے جس کی صحت پر علماء کا اتفاق ھے، لہٰذا آپ کو سید الاولیاء شمار کیا جاتا ھے۔۔۔“[88]

۱۸۔ شمس الدین ذھبی شافعی (۷۴۸)

موصوف نے حدیث غدیر کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھی ھے، چنانچہ انھوں نے اس حدیث کی سند کی چھان بین کرنے کے بعد اس حدیث کی بہت سی سندوں کو صحیح قرار دیا ھے[89]، نیز ”مستدرک حاکم“ کے خلاصہ میں اس حدیث کے صحیح ھونے کا اقرار کیا ھے[90]

اسی طرح موصوف اپنی کتاب ”رسالة فی طرق حدیث من کنت مولاہ“ میں کہتے ھیں:

”حدیث ”من کنت مولا فعلی مولاہ“ ان مواتر احادیث میں سے ھے جس کو پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے قطعی طور پر بیان کیا ھے، اور کثیر تعداد افراد نے اس کو صحیح، حسن اور ۔۔۔ طریقوں سے نقل کیا ھے[91]

اس کے بعد موصوف اس حدیث کے طریقوں کو نقل کرتے ھیں، اور دسیوں طریقوں کے بارے میں صحت، یا قوت یا وثاقت کا اقرار کرتے ھیں۔

۱۹۔ حافظ نور الدین ھیثمی(۸۰۷)

موصوف نے اس حدیث کو مختلف طریقوں سے نقل کیا ھے ، اور حدیث غدیر کی بہت سی سندوں کے رجال کو ”رجال صحیح“ مانا ھے[92]

۲۰۔ شھاب الدین قسطلانی (۹۲۳)

موصوف بھی حدیث غدیر کے ذیل میں کہتے ھیں: ”اس حدیث کے طریقہ بہت زیادہ ھیں، ”ابن عقدہ“ نے اس کے طریقوں کو ایک مستقل کتاب میں بیان کیا ھے اور اس حدیث کی بہت سی سندیں صحیح اور حسن ھیں۔“[93]

۲۱۔ شیخ نور الدین ھروی قاری حنفی (۱۰۱۴)

موصوف اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں: ”یہ ایک ایسی صحیح حدیث ھے جس کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ نھیں کیا جاسکتا، بلکہ بہت سے حفاظ حدیث نے اس حدیث کو متواتر شمار کیا ھے۔“[94]

۲۲۔ شیح احمد بن باکثیر مکی (۱۰۴۷)

وہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں: ”اس روایت کو ”بزّار“ نے صحیح رجال کے ذریعہ ”فطر بن خلیفہ“ سے نقل کیا ھے جو ثقہ ھیں۔۔۔۔“[95]

۲۳۔ میرزا محمد بَدَخشی

موصوف حدیث غدیر کے بارے میں کہتے ھیں: ”یہ حدیث صحیح اور مشھور ھے، اور سوائے متعصب اور منکر کے کہ جس کے قول کا کوئی اعتبار نھیں ھوتا، کسی نے اس میں شک و شبہ نھیں کیا ھے، کیونکہ حدیث غدیر کے بہت سے طریقے ھیں۔“[96]

۲۴۔ ابو العرفان صبّان شافعی (۱۲۰۶)

موصوف حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”اس حدیث کو ۳۰/ اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے روایت کیا ھے، جس کے بہت سے طریقے صحیح یاحسن ھیں۔“[97]

۲۵۔ ناصر الدین البانی

موصوف حدیث غدیر کے بارے میں کہتے ھیں: ”یہ حدیث صحیح ھے جس کو صحابہ کی ایک جماعت نے نقل کیا ھے۔“[98]

البانی اور حدیث غدیر کی سند

البانی نے اپنی معجم ا حادیث ”سلسلة الاحادیث الصحیحة“ جس میں صحیح السند احادیث کو نقل کیا ھے، اور ان کو صحیح مانا ھے، اس حدیث (غدیر) کو بھی نقل کرنے کے بعد کھا ھے: ”حدیث غدیر ، زید بن ارقم، سعد بن ابی وقاص، بریدہ بن حصیب، علی بن ابی طالب علیہ السلام، ابوایوب انصاری، براء بن عازب، عبد اللہ بن عباس، انس بن مالک، ابی سعید اور ابوھریرہ سے نقل ھوئی ھے۔

الف۔ حدیث زید بن ارقم ، پانچ سندوں کے ساتھ نقل ھوئی ھے ، جو سب کی سب صحیح السند ھیں:

۱۔ ابی الطفیل نے زید بن ارقم سے ۔

۲۔ میمون ابی عبد اللہ نے زید بن ارقم سے ۔

۳۔ ابی سلیمان موٴذّن نے زید بن ارقم سے ۔

۴۔ یحیی بن جعدہ نے زید بن ارقم سے ۔

۵۔ عطیہٴ عوفی نے زید بن ارقم سے ۔

حدیث سعد بن ابی وقّاص تین طریقوں سے بیان ھوئی ھیں جن میں سبھی صحیح السند ھیں:

۱۔ عبد الرحمن بن سابط نے سعد سے ۔

۲۔ عبد الواحد بن ایمن نے سعد سے ۔

۳۔ خیثمة بن عبد الرحمن نے سعد سے ۔

ج۔ حدیث بریدہ بھی تین طریقوں سے بیان ھوئی ھیں جن میں سبھی صحیح السند ھیں:

۱۔ ابن عباس نے برید سے ۔

۲۔ فرزند بریدہ نے برید سے ۔

۳۔ طاووس نے برید سے ۔

د۔ حضرت علی علیہ السلام سے حدیث غدیر نو طریقوں سے بیان ھوئی ھیں جن میں سبھی صحیح السند ھیں:

۱۔ عمر و بن سعید نے امام علی علیہ السلام سے۔

۲۔ زاذان بن عمر نے امام علی علیہ السلام سے۔

۳۔ سعید بن وھب نے امام علی علیہ السلام سے۔

۴۔ زید بن یثیع نے امام علی علیہ السلام سے۔

۵۔ شریک نے امام علی علیہ السلام سے۔

۶۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ نے، امام علی علیہ السلام سے۔

۷۔ ابو مریم نے امام علی علیہ السلام سے۔

۸۔ امام علی علیہ السلام کے ایک صحابی نے امام علی علیہ السلام سے۔

۹۔ طلحة بن مصرف نے امام علی علیہ السلام سے۔

ھ۔ حدیث ابو ایوب انصاری ، ریاح بن حارث سے نقل ھوئی ھے، جس کی سند کے سبھی رجال ثقہ ھیں۔

و۔ حدیث براء بن عازب، عدی بن ثابت سے نقل ھوئی ھے جس کے سبھی رجال ثقہ ھیں۔

ح۔ حدیث ابن عباس، عمر بن میمون سے روایت ھوئی ھے جس کی سند بھی صحیح ھے۔

ط۔ حدیث انس بن مالک ، حدیث ابو سعیدہ اور حدیث ابو ھریرہ، عَمیرة بن سعد سے نقل ھوئی ھے جن میں صحیح اور موثق سند موجود ھیں۔

اس حدیث کی مختلف سندوں کو نقل کرنے اور ان کی تصحیح کے بعد البانی صاحب کہتے ھیں :

”اب جبکہ یہ مطلب معلوم ھوگیا ھے تو ھم کہتے ھیں کہ اس حدیث کی تفصیل اور اس کی صحت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ھے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کے پھلے حصہ کو ضعیف قرار دیا ھے اور دوسرے حصہ کے باطل ھونے کا گمان کیا ھے، لیکن میری نظر میں یہ ابن تیمیہ صاحب نے مبالغہ اور حدیث کو ضعیف قرار دینے میں جلد بازی سے کام لیا اور اس حدیث کے طریقوں کو جمع کرنے اور ان میں غور و فکر کرنے سے پھلے ھی فتویٰ دیدیا ھے۔۔۔۔“[99]

 

حدیث تھنیت

اھل سنت کے مشھور و معروف مورخ ”میرخواند“ اپنی کتاب ”روضة الصفا“ میں حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں: ”اس کے بعد رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے مخصوص خیمہ میں تشریف فرما ھوئے اور حضرت علی علیہ السلام کو ایک دوسرے خیمہ میں بیٹھنے کا حکم دیا، پھر تمام لوگوں سے فرمایا: حضرت علی(علیہ السلام) کے خیمہ میں جاکر ان کو تھنیت اور مبارکباد پیش کریں۔

جب تمام مردوں نے حضرت امیر علیہ السلام کو مبارکباد پیش کردی، تو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی ازواج کو حکم دیا کہ وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کے پاس جاکر ان کو مبارکباد پیش کریں، چنانچہ انھوں نے بھی مبارکباد پیش کی، تھنیت پیش کرنے والوں میں حضرت عمر بن خطاب بھی تھے جنھوں اس طرح مبارکباد پیش کی:

”مبارک ھو مبارک اے فرزند ابوطالب! آپ میرے اور تمام مومن و مومنات کے مولا (و آقا) بن گئے۔“[100]

حدیث تھنیت کے اھل سنت راوی

اس مضمون کو اھل سنت کے علمائے حدیث، تفسیر اور تاریخ نے نقل کیا ھے جن میں سے بعض نے اس (حدیث تھنیت) کو مسلمات میں سے مانا ھے، اور بعض دوسرے علماء نے اس کو صحیح سندوں کو ساتھ بعض صحابہ سے نقل کیا ھے، جیسے: ابن عباس، ابی ھریرہ، براء بن عازب اور زید بن ارقم۔

”حدیث تھنیت “کو نقل کرنے والے حضرات کچھ اس طرح ھیں:

۱۔ حافظ ابوبکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ (۲۳۵)[101]

۲۔ احمد بن حنبل (۲۴۱)[102]

۳۔ حافظ شیبانی نسویّ(۳۰۳)[103]

۴۔ حافظ ابو یعلی موصلی(۳۰۷)[104]

۵۔ حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری (۳۱۰)[105]

۶۔ حافظ علی بن عمر دار قطنی بغدادی (۳۵۸)[106]

۷۔ قاضی ابوبکر باقلانی (۴۰۳)[107]

۸۔ ابو اسحاق ثعلبی (۴۲۷)[108]

۹۔ حافظ ابوبکر بیہقی(۴۵۸)[109]

۱۰۔ حافظ ابوبکر خطیب بغدادی (۴۶۳)[110]

۱۱۔ فقیہ شافعی ابو الحسن ابن مغازلی (۴۸۳)[111]

۱۲۔ ابو حامد غزّالی (۵۰۵)[112]

۱۳۔ شھرستانی(۵۴۸)[113]

۱۴۔ خطیب خوارزمی (۵۶۸)[114]

۱۵۔ فخر رازی (۶۰۶)[115]

۱۶۔ ابوالسادات ابن اثیر شیبانی (۶۰۶)[116]

۱۷۔ عزّ الدین ابو الحسن ابن اثیر شیبانی (۶۳۰)[117]

۱۸۔ حافظ ابو عبد اللہ گنجی شافعی (۶۵۸)[118]

۱۹۔ سبط بن جوزی حنفی (۶۵۴)[119]

۲۰۔ محبّ الدین طبری (۶۹۴)[120]

۲۱۔ شیخ الاسلام حمّوئی (۷۲۲)[121]

۲۲۔ نظام الدین نیشابوری[122]

۲۳۔ ولی الدین خطیب[123]

۲۴۔ جمال الدین زرندی[124]

۲۵۔ ابن کثیر دمشقی[125]

۲۶۔ تقی الدین مقریزی[126]

۲۷۔ نور الدین ابن صباغ مالکی[127]

۲۸۔ متقی ھندی [128]

۲۹۔ ابو العباس شھاب الدین قسطلانی[129]

۳۰۔ ابن حجر ھیثمی[130]

۳۱۔ شمس الدین مناوی شافعی [131]

۳۲۔ ابو عبد اللہ زرقانی مالکی[132]

۳۳۔ سیّد احمد زینی دحلان مکی شافعی[133]، وغیرہ۔

موٴلفین حدیث غدیر

قدیم زمانہ سے آج تک بہت سے علمائے اھل سنت نے حدیث غدیر کے سلسلہ میں متعدد کتابیں لکھی ھیں اور ان میں حدیث کی سند کو ذکر کیا ھے، جیسے:

۱۔ محمد بن جریر طبری

موصوف نے کتاب ”الولایة فی طرق حدیث الغدیر“ تالیف کی ھے۔

ابن کثیر کہتے ھیں:

”ابوجعفر محمد بن جریر طبری (صاحب تفسیر و تاریخ) نے اس حدیث (غدیر ) پر (مخصوص) توجہ کی ھے اور اس سلسلہ میں دو جلد کتاب تالیف کی ھے، نیز اس حدیث کے طریقوں اور الفاظ کو جمع کیا ھے۔“[134]

ذھبی کہتے ھیں:

”حدیث غدیر کے طریقوں کے بارے میں ابن جریر کی دو جلد کتاب دیکھی جن میں طریقوں کی کثیر تعداد نے مجھے حیران کردیا ھے۔“[135]

۲۔ حافظ ابن عقدہ

موصوف نے کتاب”الولایة فی طرق حدیث الغدیر“ تالیف کی جس میں اس حدیث کے ایک سو پچاس طریقے نقل کئے ھیں۔

ابن حجر حدیث غدیر کے بارے میں کہتے ھیں: ”اس حدیث کو ”ابن عقدہ“ نے صحیح قرار دیا ھے، اس کے طریقوں کو جمع کرنے میں خاص توجہ دی ھے، اور اس کو ۷۰ یا اس سے زیادہ صحابہ سے نقل کیا ھے۔“[136]

۳۔ ابوبکر جعابی

موصوف نے اس بارے میں کتاب ”من روی حدیث غدیر خم“ تالیف کی ھے اور حدیث غدیر کو ایک سو پچیس طریقوں سے نقل کیا ھے[137]

۴۔ علی بن عمر دار قطنی

گنجی شافعی کہتے ھیں:

”حافظ دار قطنی نے اس حدیث کے طریقوں کو ایک جلد کتاب میں جمع کیا ھے۔“[138]

۵۔ شمس الدین ذھبی

انھوں نے بھی ایک کتاب بنام ”طرق حدیث من کنت مولاہ“ تالیف کی ھے، جس میں اس حدیث کی دسیوں صحیح، حسن اور موثق سندوں کونقل کیا ھے، انھوں نے خود اس کتاب کی طرف اشارہ کیا ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:

”لیکن حدیث ”من کنت مولاہ“ کی بہت اچھی اچھی سندیں ھیں جن کو میں نے ایک مستقل کتاب میں جمع کیا ھے۔“[139]

۶۔ جزری شافعی

موصوف نے حدیث غدیر کے تواتر کو ثابت کرنے کے لئے ایک مستقل رسالہ لکھا ھے جس کا نام ”اٴسنی المطالب فی مناقب سیّدنا علی بن ابی طالب“ قرار دیا ھے اور اس کتاب میں حدیث غدیر کے ۸۰ طریقے نقل کئے ھیں[140]

۷۔ ابو سعید سجستانی

موصوف نے بھی حدیث غدیر کے سلسلہ میں ”الدرایة فی حدیث الولایة“ نامی کتاب لکھی ھے[141]

۸۔ ابو القاسم عبید اللہ حسکانی

موصوف نے اس حدیث کے سلسلہ میں ایک کتاب بنام ”دعاة الہداة الی اداء حق الموالاة“ تالیف کی ھے، جس کی طرف ”شواہد التنزیل“ میں اشارہ کیا ھے[142]

۹۔ امام الحرمین جوینی

قندوزی حنفی نے کتاب ”ینابیع المودة“ میں حدیث غدیر کے سلسلہ میں جوینی کی طرف ایک مستقل کتاب منسوب کی ھے[143]

حدیث غدیر کی دلالت

حدیث غدیر میں لفظ ”مولا“ سرپرست، امام اور اولیٰ بالتصرف کے معنی میں ھے۔ اس مطلب کو مختلف طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے:

۱۔ خود لفظ سے اسی معنی کا تبادر ھونا

لفظ ”ولی“ اور ”مولیٰ“ لغت عرب میں اگرچہ مختلف معنی کے لئے استعمال ھوتا ھے، لیکن جب بغیر کسی قرینہ کے استعمال ھو تو عرب اس کے سرپرست اور اولیٰ بالتصرف کے معنی مراد لیتے ھیں (اور یھی معنی امامت کے ھیں) اور تبادر ، حقیقت کی نشانی ھوتی ھے۔

۲۔ کسی انسان کی طرف اضافہ کی صورت میں تبادر

اگر فرض کریں کہ خود لفظ سے اس معنی کا تبادر نہ ھوتا ھو، تو بھی یہ دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ جب اس لفظ کو کسی انسان کی طرف اضافہ کیا جائے جیسے عرب کہتے ھیں: ولی زوجہ؛ تو اس کے معنی یعنی زوجہ کا سرپرست ھوتے ھیں، یا کھا جاتا ھے: ولی و مولای طفل؛ تو اس سے بچہ کا سرپرست مراد ھوتا ھے۔

۳۔ قرآنی استعمال

قرآن کریم کی آیات کے مطالعہ کے بعد یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ لفظ ”مولا“ اولویت کے معنی میں استعمال ھوا ھے، جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

< فَالْیَوْمَ لاَیُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَلاَمِنْ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاٴْوَاکُمْ النَّارُ ہِیَ مَوْلَاکُمْ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ>[144]

”تو آج تم سے نہ کوئی فدیہ لیا جائے گا اور نہ کفار سے، تم سب کا ٹھکانہ جھنم ھے، وھی تم سب کا صاحب اختیار (اور مولیٰ)ھے اور تمھارا بد ترین انجام ھے۔“

اس آیت میں لفظ مولا ”اولویت“ کے معنی میں استعمال ھوا ھے۔

۴۔ فھم صحابہ

تاریخ کے مطالعہ سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ غدیر خم میں موجود صحابہ نے جب پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا کلام سنا تو سب نے اس حدیث سے سرپرستی، اولیٰ بالتصرف اور امامت کے معنی سمجھے، اور جو لوگ آنحضرت کے زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے اور آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے مقصود اور منظور کو خوب سمجھتے تھے، ان کا یہ معنی سمجھنا ھمارے لئے حجت و دلیل بن سکتا ھے۔ صحابہ کرام کی اس سمجھ پر کسی نے مخالفت نھیں کی بلکہ بعد والی نسلوں نے بھی یھی معنی مراد لئے ھیں اور اپنے اشعار و نظم میں اسی معنی کو استعمال کیا ھے۔

بہت سی عظیم شخصیتوں نے اس حدیث سے سرپرستی کے معنی سمجھے ھیں اور اسی معنی کو اپنے اشعار میں بیان کیا ھے، جیسے معاویہ کے جواب میں حضرت علی علیہ السلام نے جو خط لکھا اور حسان بن ثابت، قیس بن سعد بن عبادہٴ انصاری، محمد بن عبد اللہ حمیری، عبد کوفی، ابی تمام، دعبل خزاعی، حِمّانی کوفی، امیر ابی فراس، علم الہدیٰ وغیرہ۔

کیا ایسا نھیں ھے کہ عمر و ابوبکر نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے خطبہ غدیر اور حدیث غدیر سننے کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں تھنیت او رمبارکباد دی، کیا انھوں نے امامت و خلافت کے معنی نھیں سمجھے تھے ؟!

کیوں حارث بن نعمان فھری نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو برداشت نہ کیا اور خداوندعالم سے عذاب کی درخواست کرڈالی؟ کیا وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و خلافت کو نھیں سمجھ رھا تھا؟

کوفہ میں کچھ لوگ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پھنچ کر عرض کرتے ھیں: ”السلام علیک یا مولانا‘

امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا: ”میں کس طرح تم لوگوں کا مولا ھوں جبکہ تم عرب کے ایک (خاص) قبیلہ سے تعلق رکھتے ھو؟

انھوں نے جواب میں کھا: کیونکہ ھم نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روز غدیر سنا ھے کہ آپ نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔“[145]

۵۔ اشتراک معنوی

ابن بطریق کہتے ھیں: ”جو شخص لغت کی کتابوں کو دیکھے تو وہ اس نتیجہ پر پھنچتا ھے کہ لفظ ”مولا“ کے مختلف معنی ھیں، نمونہ کے طور پر فیروزآبادی کہتے ھیں: ”مولا کے معنی مالک، عبد، آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، قریبی ساتھی جیسے چچا زاد بھائی وغیرہ ، پڑوسی، قسم میں شریک، فرزند، چچا، نازل ھونے والا، شریک، بھانجا، سرپرست، تربیت کرنے والا، یاور، نعمت عطا کرنے والا، جس کو نعمت دی گئی ھو، دوست، پیرو اور داماد کے ھیں۔“[146]

اس کے بعد ابن بطریق کہتے ھیں: ’

’حق یہ ھے کہ لفظ ”مولیٰ“ کے ایک سے زیادہ معنی نھیں ھیں، اور وہ معنی کسی چیز پر اولیٰ اور زیادہ حقدار کے ھیں، لیکن یہ اولویت استعمال کے لحاظ سے ھر جگہ بدل جاتی ھیں، پس نتیجہ یہ ھوا کہ لفظ ”مولیٰ“ ان مختلف معنی میں ”مشترک معنوی “ھے، اور مشترک معنوی، مشترک لفظی سے زیادہ مناسب ھوتا ھے۔“[147]

قارئین کرام! ھم ابن بطریق کے کلام کی وضاحت کے لئے عرض کرتے ھیں:

ھم تھوڑی غور و فکر کے بعد اس نتیجہ پر پھنچتے ھیں کہ ”کسی چیز میں اولویت“کے معنی، ایک لحاظ سے لفظ ”مولیٰ“ کے ھر معنی میں پائے جاتے ھیں، اور ان تمام معنی میں اس لفظ کا اطلاق ”اولویت“ کے معنی کی وجہ سے ھوتا ھے۔

۱۔ مولا کے ایک معنی مالک کے تھے لیکن مالک کو مولا اس وجہ سے کھا جاتا ھے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کرنے میں اولیٰ ھوتا ھے۔

۲۔ ایک معنی عبد کے تھے، عبد بھی اپنے مولا کی اطاعت کرنے میں دوسرے کی نسبت اولیٰ ھوتا ھے۔

۳۔ آزاد کرنے والا اپنے غلام پر فضل و کرم کرنے میں دوسرے کی نسبت اولیٰ ھوتا ھے۔

۴۔ آزاد ھونے والا، دوسروں کی نسبت اپنے مولاکے شکریہ کا زیادہ حقدار ھوتا ھے۔

۵۔ ساتھی ، اپنے ساتھی کے حقوق کی معرفت کا زیادہ حقدار ھوتا ھے۔

۶۔نزدیک ، اپنی قوم کے دفاع کا زیادہ حقدار ھوتا ھے۔

۷۔ پڑوسی ، اپنے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرنے کا زیادہ حقدار ھوتا ھے۔

۸۔قسم میں شریک، اپنے ھم قسم کے دفاع اور اس کی حمایت کا زیادہ حقدار ھوتا ھے۔

۹۔اولاد اپنے باپ کی اطاعت کرنے کی زیادہ حقدار ھوتی ھے۔

۱۰۔ چچا، اپنے بھتیجے کی دیکھ بھال کا زیادہ حقدار ھوتا ھے، وغیرہ۔

نتیجہ یہ ھوا کہ لفظ ”مولیٰ“ لغت عرب میں ”زیادہ حقدار“ کے معنی میں استعمال ھوتا ھے، حدیث غدیر میں لفظ ”مولیٰ“ ”ہ“ کی طرف اضافہ ھونے (یعنی مولاہ) کی وجہ سے چونکہ لوگوں کی طرف اضافہ ھوا ھے لہٰذا اس کے معنی وھی سرپرستی کے ھیں جو امامت کی ھی ردیف میں ھے۔

۶۔ صدر حدیث میں موجود قرینہ

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حدیث ”من کنت مولاہ۔۔۔“ سے پھلے فرمایا: ”الست اولی بکم من انفسکم“[148]، (کیا میں تم لوگوں پر خود تم سے زیادہ حقدار نھیں ھوں؟) تو سب لوگوں نے ایک جواب ھوکر کھا: ”جی ھاں“، اس وقت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”فمن کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“ ، اور ”فمن“ میں ”فاء“ تفریعی ھے یعنی یہ جملہ پھلے والے جملہ کی ایک فرع ھے، درحقیقت پھلے والا جملہ حدیث غدیر کی تفسیر کرنے والا ھے، اس معنی میں کہ (رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ھیں کہ) خداوندعالم نے جو مقام میرے لئے قرار دیا ھے اور مجھے تم لوگوں کا سرپرست قرار دیا ھے، وھی مقام اور عہدہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ھے، اور یھی معنی قرآن کریم سے بھی حاصل ھوتے ھیں، جیسا کہ خداوندعالم نے فرمایا:

<النَّبِیُّ اٴَوْلَی بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ اٴَنْفُسِہِمْ>[149]

”بے شک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی نسبت زیادہ اولیٰ ھیں۔“

قسطلانی مذکورہ آیت کی تفسیر میں کہتے ھیں:

”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مسلمانوں کے تمام امور میں حکم کے نافذ کرنے اور اطاعت کے لحاظ سے زیادہ حقدار ھیں“

ابن عباس اور عطا کہتے ھیں:

جب پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)لوگوں کو کسی کام کا حکم دیں، جبکہ ان کا نفس ان کو کسی دوسرے کام کا حکم دیتا ھو تو وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی اطاعت کے زیادہ حقدار ھیں؛ کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ان کو صرف انھیں چیزوں کا حکم دیتے ھیں اور اسی کام سے راضی ھوتے ھیں جس میں ان کی خیر و بھلائی ھو، برخلاف ان کے نفسوں کے۔۔۔[150]

بیضاوی کہتے ھیں:

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)تمام امور میں مومنین کی نسبت خود ان سے زیادہ حقدار ھیں، کیونکہ آنحضرت دوسروں کے برخلاف اس کام کا حکم نھیں کریں گے جس میں لوگوں کی مصلحت نہ ھو، اور نہ اس کام پر راضی ھوں گے۔“[151]

زمخشری کہتے ھیں:

”پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مومنین کی نسبت دین و دنیا کی ھر چیز میں خود ان سے اولیٰ ھیں، اسی وجہ سے آیہ شریفہ میں مطلق طور پر حکم ھوا ھے اور کسی چیز کی قید نھیں لگائی گئی ھے، لہٰذا مومنین پر واجب ھے کہ ان کے نزدیک آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی شخصیت سب سے زیادہ محبوب قرار پائے، اور ان کا حکم اپنے حکم سے بھی زیادہ نافذ مانیں، نیز آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا حق خود ان کے حق پر بھی مقدم ھو۔۔۔۔“[152]

یھی تفسیر ”نسفی“ اور ”سیوطی“ نے بھی کی ھے[153]

قابل ذکر ھے کہ ”الست اولی بکم من انفسکم“ کا فقرہ بہت سے علماء اھل سنت نے نقل کیا ھے، جیسے: احمد بن حنبل، ابن ماجہ، نسائی، شیبانی، ذھبی، حاکم، ثعلبی، ابونعیم، بیہقی، خطیب بغدادی، ابن مغازلی، خوارزمی، بیضاوی، ابن عساکر، ابن اثیر، گنجی شافعی، تفتازانی، قاضی ایجی، محب الدین طبری، ابن کثیر، حمّوئی، زرندی، قسطانی، جزری، مقریزی، ابن صبّاغ، ھیثمی، ابن حجر، سمھودی، سیوطی، حلبی، ابن حجر مکی، بدخشی وغیرہ۔

۷۔ ذیل حدیث

حدیث غدیر کے ذیل میں متعدد جگہ یہ جملہ بیان ھوا ھے:

”اللھم وال من والاہ ودعا من عاداہ“[154]

(خداوندا! جو (علی علیہ السلام) کی ولایت کو قبول کرے اس کو دوست رکھ ، اور جو ان کی ولایت کو قبول نہ کرے اور ان سے دشمنی کرے ان کو تو بھی دشمن رکھ۔

یہ جملہ جس کو چند علمائے اھل سنت جیسے ابن کثیراور البانی نے صحیح مانا ھے، صرف ”سرپرستی اور امامت“ سے ھم آھنگ ھے ”محبت اور دوستی“ کے معنی سے نھیں، جیسا کہ بعض اھل سنت نے کھا ھے؛ کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کو دوست رکھنے والوں کے لئے آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا دعا کرنا کوئی معنی نھیں رکھتا۔

۸۔ مسلمانوں کو گواہ بنانا

حذیفہ بن اُسید صحیح سند کے ساتھ نقل کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے روز غدیر خم میں فرمایا: ”کیا تم لوگ خداوندعالم کی وحدانیت (لا الہ الا الله“ اور میری نبوت (محمداً عبدہ و رسولہ) کی گواھی دیتے ھو؟ ۔۔۔ تو سب لوگوں نے ایک زبان ھوکر کھا: ”جی ھاں یا رسول اللہ! ھم ان چیزوں کی گواھی دیتے ھیں، اس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”اے لوگو! خداوندعالم میرا سرپرست ھے، اور میں مومنین کا سرپرست اور تم پر تمھارے نفسوں سے زیادہ اولیٰ ھوں، لہٰذا جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (علیہ السلام) بھی مولا ھیں۔“[155]

قارئین کرام! آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کو توحید و رسالت کی گواھی کی ردیف میں قرار دیا یہ خود اس بات کی دلیل ھے کہ حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اسی امامت اور امت کی سرپرستی کے معنی میں ھے۔

۹۔ امام علی علیہ السلام کی ولایت پر دین کا مکمل ھونا

سورہ مائدہ آیت نمبر ۶ ”آیہ ٴاکمال“ کے ذیل میں صحیح السند روایتوں کے مطابق خداوندعالم نے واقعہ غدیر میں رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے خطبہ کے بعد یہ آیہٴ شریفہ نازل فرمائی:

<الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا>[156]

”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا۔“

اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ھے کہ خداوندعالم اس اسلام سے راضی ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پائی جاتی ھو، کیونکہ دین آپ کی ولایت سے کامل ھوا ھے اور نعمتیں بھی آپ کی ولایت کی وجہ سے تمام ھوئی ھیں، اور یہ حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور سرپرستی سے ھم آھنگ ھے، لہٰذا بعض روایات کے مطابق ”آیہ اکمال“کے نازل ھونے کے بعد اور غدیر خم سے لوگوں کے الگ الگ ھونے سے پھلے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:”الله اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایة لعلی من بعدی“[157]

”اللہ اکبر ، دین کے کامل کرنے، نعمتیں تمام کرنے، میری رسالت اور میرے بعد علی کی ولایت پر راضی ھونے پر۔“

۱۰۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کی خبر

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خطبہ غدیر کے پھلے حصہ میں لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیا تھا: ”کانی دعیتُ فاجبت“، (گویا مجھے (خداوندعالم کی طرف سے) دعوت دی گئی ھے اور میں اس کو قبول کرنے والا ھوں) اور بعض روایات کی بنا پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”یُوشِک ان ادعی فاجیب“، (نزدیک ھے کہ مجھے (خداوندعالم کی طرف سے) دعوت دی جائے اور میں بھی اس کو قبول کرلوں)۔

حدیث میں استعمال ھونے والے الفاظ سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ایک بہت اھم خبر دینا چاہتے تھے جس سے پھلے چند چیزیں مقدمہ کے طور پر بیان فرمائیں اور بعد میں اپنی رحلت کی خبر سنائی اور یہ بات صرف امامت، خلافت، سرپرستی اور جانشینی کے علاوہ کسی دوسرے معنی سے ھم آھنگ نھیں ھے۔

۱۱۔پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنا

بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے واقعہ غدیر اور خطبہ کے تمام ھونے کے بعد اصحاب کو حکم دیا کہ ھمیں تھنیت اور مبارکباد پیش کریں۔ کتاب ”شرف المصطفیٰ“ میں حافظ ابو سعید نیشاپوری (متوفی ۴۰۷) کی نقل کے مطابق موصوف اپنی سند کے ساتھ ”براء بن عازب اور ابوسعید خدری“ سے نقل کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

”ھنّؤنی ھنّؤنی، ان الله تعالی خصّنی بالنبوة، و خصّ اھل بیتی بالامامة“

”مجھے مبارکباد پیش کرو، مجھے مبارکباد پیش کرو، کیونکہ خداوندعالم نے مجھے نبوت اور میرے اھل بیت کو امامت سے مخصوص فرمایا ھے۔“

عمر بن خطاب اس موقع پر آگے بڑھ کر حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں مبارکباد پیش کی۔

۱۲۔ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا خوف

علامہ سیوطی نے نقل کیا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”بے شک خداوندعالم نے مجھے مبعوث برسالت فرمایا، اور یہ بات میرے لئے سنگین تھی، میں جانتا تھا کہ جب میں لوگوں کے سامنے اس امر کو پیش کروں گا تو وہ مجھے جھٹلائیں گے، اس موقع پر خداوندعالم نے مجھے تاکید کی کہ اس امر کو آپ ضرور پھنچائیں ورنہ آپ کے لئے عذاب ھوگا، چنانچہ اس موقع پر یہ آیت نازل ھوئی:

<یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ ۔۔۔>[158]

قارئین کرام! پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کیوں خوف زدہ تھے اور کس چیز سے خوف زدہ تھے؟ کیا اس بات کو پھنچانے سے خوف زدہ تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تمھارے دوست اور مددگار ھیں؟ ھرگز ایسا نھیں ھے، بلکہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و ولایت اور سرپرستی کو پھنچانے میں لوگوں سے خوف ز دہ تھے، آپ جانتے تھے کہ قریش حضرت علی علیہ السلام سے خصومت اور دشمنی رکھتے ھیں، کیونکہ یہ اسی شخصیت نے تو ان کے آباء و اجداد کو مختلف جنگوں میں قتل کیا تھا۔۔۔۔

۱۳۔ حارث بن نعمان کا انکار

بعض روایات کے مطابق حارث بن نعمان فھری غدیر کی خبر سن کر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کی: ”اے محمد! تم نے خداوندعالم کی طرف سے ھمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور تمھاری رسالت کی گواھی دیں، تو ھم نے قبول کیا، تم نے ھمیں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا ھم نے اس کو بھی قبول کیا، تم نے روزہ، زکوٰة اور حج کا حکم دیا ھم نے مان لیا، لیکن تم اس پر راضی نھیں ھوئے اور اپنے چچا زاد بھائی کو ھاتھ پکڑ کر بلند کیا اور اس کو ھم پر فضیلت دی اور کھا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، کیا یہ حکم اپنی طرف سیتھا یا خدا وندعالم کی طرف سے ؟ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”قسم اس خداکی جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، میں نے اس حکم کو (بھی) خداوندعالم کی طرف سے پھنچایا ھے“۔ اس موقع پر حارث بن نعمان منھ موڑ کر اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ھوا چلا : ”پالنے والے! اگر جو کچھ محمد کہہ رھے ھیں حق ھے تو مجھ پر آسمان سے پتھر بھیج دے یا مجھے درد ناک عذاب میں مبتلا کردے“۔

چنانچہ وہ ابھی اپنی سواری تک نھیں پھنچ پایا تھا کہ خداوندعالم نے آسمان سے اس پر ایک پتھر نازل فرمایا جو اس کے سر پر آکر لگا اور اس کی پشت سے باھر نکل گیا، اور وہ وھیں واصل جھنم ھوگیا، اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ھوئی:

<سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ >[159]

”ایک مانگنے والے نے واقع ھونے والے عذاب کا سوال کیا ۔“

اس حدیث کو ثعلبی نے اپنے تفسیر میں مذکورہ آیت کے ذیل میں اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ھے۔

اگر حدیث غدیر صرف حضرت علی علیہ السلام کی محبت اور آپ کی نصرت کی خبر تھی تو حارث کو خداوندعالم سے عذاب مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو صرف سرپرستی کی صورت میں ممکن ھے جس کو بعض لوگ قبول نھیں کرنا چاہتے تھے۔

۱۴۔ لفظ ”منصوب “کا استعمال

بعض روایات غدیر خم میں لفظ ”نصب“ بیان ھوا ھے۔

شھاب الدین ھمدانی، عمر بن خطاب سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے کھا: ”رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو ”علَم کے عنوان سے نصب“ کیا اور فرمایا:

”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“۔۔۔[160]

حموینی اپنی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ھیں کہ آپ نے فرمایا: ”خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ مجھے لوگوں پر منصوب کریں۔“[161] جبکہ ھم جانتے ھیں کہ لفظ ”کسی کو نصب یا منصوب کرنا“ امامت اور سرپرستی سے مطابقت رکھتا ھے۔

۱۵۔ تاج شرافت

بعض روایات کے مطابق پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے واقعہ غدیر کے بعد اپنے معروف عمامہ بنام ”شھاب“ کو حضرت علی علیہ السلام کے سر مبارک پر رکھا۔

ابن قیم کہتے ھیں:

”رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا ایک عمامہ بنام ”شھاب“ تھا جس کو آنحضرت نے حضرت علی علیہ السلام کے سر پر رکھا۔“[162]

مسلم بھی نقل کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس عمامہ کو مخصوص دنوں میں جیسے روز فتح مکہ سر پر رکھتے تھے۔[163]

محب الدین طبری، عبد الاعلیٰ بن عدی بھرانی سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے کھا:

روز غدیر خم رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کو بلایا اور ان کے سر پر عمامہ رکھا اور اس کے ایک سرے کو آپ کی کمر پر ڈال دیا[164]

بہت سے علمائے اھل سنت نے حضرت علی علیہ السلام کی تاج پوشی کی حدیث کو روایت کیا ھے، جیسے:

| ابو داؤد طیالسی۔

| ابن ابی شیبہ۔

| احمد بن حسن بن علی بیہقی۔

| ابراھیم بن محمد حموینی۔

| محمد بن یوسف زرندی۔

| علی بن محمد معروف بہ ابن صباغ مالکی۔

| جلال الدین سیوطی۔

|متقی ھندی وغیرہ۔

۱۶۔ اولویت کا لفظ

سبط بن جوزی نے حدیث غدیر میں ”اولویت اور سرپرستی“ کے علاوہ دوسرے معنی کو ردّ کرتے ھوئے کھا: ”پس دسویں معنی معین ھوگئے، لہٰذا حدیث کے معنی یہ ھیں: ”میں جس کی نسبت خود اس کے نفس سے اولیٰ ھوں، پس علی بھی اس کی نسبت اولیٰ ھیں“، اس کے بعد کہتے ھیں: اسی معنی کی طرف حافظ ابوالفرج یحییٰ بن سعید ثقفی اصفھانی نے اپنی کتاب ”مرج البحرین“ میں وضاحت کی ھے، کیونکہ اس حدیث کو اپنے اساتید سے نقل کیا ھے، جس میں یہ بیان ھوا ھے: رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام کا ھاتھ بلند کرکے فرمایا:

”من کنت ولیّہ واٴولی بہ من نفسہ فعلیّ ولیّہ“[165]

”جس شخص کا میں ولی اور اس کے نفس سے اولیٰ (بالتصرف) ھوں پس علی بھی اس کے ولی اور سرپرست ھیں۔“

”ولایت“ پر حدیث غدیر کی دلالت کا اقرار کرنے والے حضرات

اھل سنت کے متعدد علماء نے کافی حد تک انصاف سے کام لیا ھے اور حدیث غدیر میں اس حقیقت کو قبول کیا کہ یہ حدیث حضرت امیر علیہ السلام کی امامت اور سرپرستی پر دلالت کرتی ھے، اگرچہ دوسری طرف سے اس کی توجیہ اور تاویل بھی کی ھے۔ اب ھم یھاں پر ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔

۱۔ محمد بن محمد غزالی

موصوف حدیث غدیر کو نقل کرنے کے بعد کہتے ھیں:

”یہ تسلیم، رضایت اور تحکیم ھے، لیکن اس واقعہ کے بعد مقام خلافت تک پھنچنے اور ریاست طلبی کی محبت نے ان پر غلبہ کرلیا۔۔۔ لہٰذا اپنے بزرگوں (کے دین ) کی طرف پلٹ گئے، اسلام سے منھ موڑ لیااور اپنا اسلام کم قیمت پر بیچ ڈالا، واقعاً کتنا برا معاملہ ھے۔“[166]

اسی مطلب کو سبط بن جوزی نے بھی غزالی سے نقل کیا ھے[167]

۲۔ ابو المجدمجدود بن آدم، معروف بحکیم نسائی

موصوف حضرت امیر کی مدح میں کہتے ھیں:

نائب مصطفی بہ روز غدیر کردہ بر شرع خود مر او را میر[168]

۳۔ فرید الدین عطار نیشاپوری

موصوف بھی حدیث غدیر کے معنی کے پیش نظر کہتے ھیں:

 

چون خدا گفتہ است در خم غدیر

یا رسول الله ز آیات منیر

ایّھا الناس این بود الھام او

زانکہ از حق آمدہ پیغام او

گفت رو کن با خلایق این ندا

نیست این دم خود رسولم بر شما

ھرچہ حق گفتہ است من خود آن کنم

بر تو من اسرار حق آسان کنم

چونکہ جبرئیل آمد و بر من بگفت

من بگویم با شما راز نہفت

این چنین گفت است قہّار جھان

حقّ و قیّوم خدای غیب دان

مرتضیٰ والی در این ملک من است

ھرکہ این سرّ را نداند او زنست[169]

 

۴۔ محمد بن طلحہ ٴ شافعی

موصوف کہتے ھیں: ”۔۔۔معلوم ھونا چاہئے کہ یہ حدیث (غدیر) آیہ مباھلہ میں قول خداوندعالم کے اسرار میں سے ھے جھاں ارشاد ھوتا ھے: <فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ>[170]آیت میں لفظ <اٴَنْفُسَنَا> سے مراد حضرت علی علیہ السلام کی جان ھے، جیسا کہ گزرچکا ھے، کیونکہ خداوندعالم نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی جان اور حضرت علی علیہ السلام کی ان کو ایک ساتھ قرار دیا ھے، اور دونوں کو ایک ساتھ جمع کیا ھے، لہٰذا حدیث غدیر میں جو کچھ بھی مومنین کی نسبت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ثابت ھے وھی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ھے۔ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مومنین کی نسبت اولیٰ، ناصر اور مومنین کے آقا ھیں، لفظ ”مولا“ سے جو معنی بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے ھوسکتے ھیں وھی معنی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی ثابت ھیں، اور یہ ایک عظیم و بلند مرتبہ ھے جس کو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے صرف حضرت علی علیہ ا لسلام سے مخصوص کیا ھے، اسی وجہ سے روز غدیر خم، روز عید اور اولیائے خدا کے لئے خوشی کا دن ھے۔“[171]

۵۔ سبط بن جوزی

موصوف حدیث غدیر کے بارے میں کہتے ھیں:

”اس حدیث کے معنی یہ ھیں: ”جس کا میں مولا اور اس کی نسبت اولیٰ ھوں، پس علی بھی اس کی نسبت اولیٰ (بالتصرف) ھیں۔۔۔۔“[172]

۶۔ محمد بن یوسف گنجی شافعی

وہ کہتے ھیں: ”۔۔۔ لیکن حدیث غدیر خم ،اولیٰ (بالتصرف) اور آپ کی خلافت پر دلالت کرتی ھے۔“[173]

۷۔ سعید الدین فرغانی

موصوف ابن فارض کے ایک شعر کی تشریح کرتے ھوئے کہتے ھیں ، چنانچہ ابن فارض کا شعر یہ ھے:

و اوضح بالتاویل ما کان مشکلاً علیّ بعلم نالہ بالوصیة

فرغانی صاحب کہتے ھیں:

”اس شعر میں اس مطلب کی طرف اشارہ ھوا ھے کہ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ) وہ شخصیت ھیں جنھوں نے قرآن و سنت کی مشکل چیزوں کو بیان کیا اور اپنے علم کے ذریعہ کتاب و سنت کے مشکل اور پیچیدہ مسائل کو واضح کیا ھے، کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان کو اپنا وصی اور قائم مقام قرار دیا ھے جس وقت آپ نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔[174]

۸۔ تقی الدین مقریزی

موصوف نے ابن زولاق سے نقل کیا ھے:

”۱۸/ ذی الحجہ روز غدیر خم سن ۳۶۳ ھ کو مصر اور مغرب کی کچھ جماعتیں اور اُن کے اطرافیان آپس میں جمع ھوکر دعا پڑھنے میں مشغول تھے، کیونکہ وہ دن عید کا دن تھا کیونکہ اس روز حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے عہد کیا اور ان کو اپنا خلیفہ قرار دیا۔۔۔۔“[175]

۹۔ سعد الدین تفتازانی

موصوف حدیث غدیر کی دلالت کے بارے میں کہتے ھیں: ”(مولیٰ) کبھی آزاد کرنے والے، کبھی آزاد ھونے والے، کبھی ھم قسم، پڑوسی، چچا زاد بھائی، یاور اور سرپرست کے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔ جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے: <مَاٴْوَاکُمْ النَّارُ ہِیَ مَوْلَاکُمْ>، یعنی نار جھنم تمھارے لئے سزاوار تر ھے، اس معنی کو ابو عبیدہ نے نقل کیا ھے۔ اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”ایّما امراٴة اٴنکحت نفسھا بغیر اذن مولاہ۔۔۔“، (یعنی وہ عورت جو اپنے مولا کی اجازت کے بغیر کسی سے نکاح کرلے۔۔۔) ، اس حدیث میں لفظ مولا کے معنی ولی اور سرپرست کے ھیں، اس معنی کی مثالیں اشعار میں بہت زیادہ پائی جاتی ھیں، اور عام طور پر لفظ ”مولا“ کے معنی کلام عرب میں متولی، مالک اور اولیٰ بالتصرف کے مشھور ھیں، جن کو بہت سے علمائے اھل لغت نے بیان کیا ھے، اور اس لفظ کا مقصود یہ ھوتا ھے کہ لفظ ”مولا“ اس معنی کے لئے اسم ھے، نہ کہ صفت اور اولیٰ بالتصرف، جس سے یہ اعتراض ھوسکے کہ یہ لفظ اسم تفضیل کا صیغہ نھیں ھے، اور اس معنی میں استعمال نھیں ھوتا۔ ضروری ھے کہ حدیث غدیر میں لفظ ”مولا“ سے یھی مراد لئے جائیں، تاکہ صدر حدیث سے مطابقت حاصل ھوجائے۔ اور یہ چھٹے معنی یعنی ”ناصر“ سے بھی میل نھیں کھاتا؛ کیونکہ ایسا نھیں ھوسکتا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس گرمی کے ماحول اور تپتی ھوئی زمین پر اتنے بڑے مجمع کو جمع کرکے اس معنی کو پھنچائیں، لہٰذا یہ مطلب بھی واضح ھے۔۔۔۔“

موصوف آخر میں کہتے ھیں: ”یہ بات مخفی نہ رھے کہ لوگوں پر ولایت، ان کی سرپرستی، لوگوں کے امور میں تدبیر کرنا اور ان کے کاموں میں تصرف کرنا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی منزلت کی طرح امامت کے معنی سے بھی مطابقت رکھتا ھے۔“[176]

حدیث غدیر کو چھپانے والے

بعض روایات کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک مجمع میں اصحاب سے کھا کہ جو لوگ غدیر میں موجود تھے اور انھوں نے حدیث غدیر کو سنا ھے وہ کھڑے ھوں اور اس مجمع کے سامنے گواھی دیں۔ اصحاب کے ایک گروہ نے کھڑے ھوکر اس چیز کی گواھی دی لیکن بعض اصحاب نے مخصوص وجوھات کی بنا پر گواھی نھیں دی، اور مختلف بھانے پیش کئے، جس کے نتیجہ میں وہ لاعلاج بیماروں میں مبتلا ھوگئے، جن میں سے درج ذیل کا اصحاب کا نام لیا جاسکتا ھے:

۱۔ انس بن مالک: انھوں نے حدیث غدیر کو چھپایا اور برص(سفید کوڑھ) کے مرض میں مبتلا ھوگئے[177]

۲۔ براء بن عازب: یہ حدیث غدیر کو چھپانے کی وجہ سے اندھے ھوگئے[178]

۳۔ زید بن ارقم: یہ بھی حدیث غدیر کو چھپانے کی وجہ سے نابینا ھوگئے[179]

۴۔ جریر بن عبد اللہ بجلی: یہ حدیث غدیر کو چھپانے اور حضرت امیر المومنین پر لعنت کی وجہ سے جاھلیت کی طرف پلٹ گئے[180]

روز غدیر کے روزہ کی فضیلت

خطیب بغدادی صحیح سند کے ساتھ ابو ھریرہ سے نقل کرتے ھوئے کہتے ھیں:

جو شخص ۱۸ ذی الحجہ کو روزہ رکھے، اس کو ۶۰ مھینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا، اور وہ روز غدیرخم ھے، جس وقت پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کا ھاتھ بلند کرکے فرمایا: ”کیا میں مومنین کا ولی اور سرپرست نھیں ھوں؟“، سب نے کھا: ”جی ھاں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)! اس وقت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، عمر بن خطاب نے کھا: مبارک ھو مبارک اے ابوطالب کے بیٹے! تم میرے اور ھر مومن و مومنہ کے مولا وآقا بن گئے، اس موقع پر خداوندعالم نے یہ آیہ شریفہ نازل فرمائی:

< الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی ۔۔۔>[181]

اس حدیث کو خطیب بغدادی نے عبد اللہ بن علی بن محمد بن بشران سے، انھوں نے حافظ علی بن عمر دار قطنی سے، انھوں نے ابی نصر جیشون خلّال سے، انھوں نے علی بن سعید رملی سے، انھوں نے ضمرة بن ربیعہ سے، انھوں نے عبد اللہ بن شوذب سے، انھوں نے مطر ورّاق سے، انھوں نے شھر بن حوشب سے انھوں نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے۔

ء ابوھریرہ: ان روایوں میں سے ھیں جس کی وثاقت اور عدالت پر سبھی اھل سنت نے اجماع کیا ھے۔

ء شھر بن حوشب اشعری: ابو نعیم (اصفھانی) نے ان کو اولیاء میں سے شمار کیا ھے[182]، ان کے بارے میں ذھبی کہتے ھیں: بخاری نے ان کی مدح و ثنا کی ھے، اور احمد بن عبد اللہ عجلی و یحییٰ و ابن شیبہ و احمد و نسوی نے ان کی توثیق کی ھے[183]، اور ابن عساکر نقل کرتے ھیں کہ ان کے بارے میں احمد بن حنبل سے سوال ھوا تو انھوں نے ان کی حدیث کی تعریف کی اور خود بھی ان کی توثیق کی اور اور ان کی مدح و ثنا کی[184] ء مطر بن طھمان ورّاق، ابو رجاء خراسانی: ان کو ابو نعیم نے اولیاء میں سے شمار کیا ھے[185] اور ابن حبان نے ان کو ثقات کا جز قرار دیا ھے، اور عجلی سے نقل کیا ھے کہ وہ بہت زیادہ سچ بولنے والے تھے۔[186]، بخاری و مسلم اور دیگر صحاح نے ان سے روایات نقل کی ھیں۔

ء ابو عبد الرحمن (عبد اللہ) بن شوذب: ان کو بھی حافظ نے اولیاء میں شمار کیا ھے[187]، نیز خزرجی نے احمد اور ابن معین سے نقل کیا ھے کہ وہ ثقہ تھے[188]

ابن حجر نے ان کو ثقات میں سے مانا ھے، اور سفیان ثوری سے نقل کیا ھے کہ وہ ھمارے ثقات اساتید میں شمار ھوتے ھیں، اور ابن خلفون نے ان کی توثیق کو ابن نمیر، ابو طالب،عجلی ، ابن عمار، ابن معین اور نسائی سے نقل کیا ھے[189]

ء ضمرة بن ربیعہ قرشی ابو عبد ا للہ دمشقی: ابن عساکر نے احمد بن حنبل سے نقل کیا ھے کہ وہ ثقہ، امین، نیک مرد اور ملیح الحدیث تھے، اور ابن معین سے نقل ھوا ھے کہ وہ ثقہ تھے[190]نیز ابن سعد بھی ان کو ثقہ، امین اور اھل خیر شمار کرتے ھیں، جو اپنے زمانہ میں سب سے افضل تھے[191]

ء ابو نصر علی بن سعید ابی حملہٴ رملی: ذھبی نے ان کی توثیق کرتے ھوئے کھا ھے: میں نے آج تک ان کے بارے میں کسی سے کوئی بات نھیں سنی،[192] ابن حجر نے کتاب ”لسان المیزان“ میں ان کی توثیق کو اختیار کیا ھے[193]

ء ابو نصر حبشون بن موسی بن ایّوب خلّال: خطیب بغدادی نے ان کی توثیق کی ھے اور ”دار قطنی“ سے حکایت ھوئی ھے کہ وہ صدوق یعنی بہت زیادہ سچ بولنے والے تھے[194]

ء حافظ علی بن عمر، ابو الحسن بغدادی: جو صاحب سنن ھیں اور دار قطنی کے نام سے مشھور ھیں، بہت سے علمائے اھل سنت نے ان کی تعریف کی ھے، خطیب بغدادی نے ان کو وحید العصر قرار دیا ھے[195] اور ابن خلکاان[196] و حاکم نیشاپوری نے ان کی بہت زیادہ تعریف کی ھے۔

حدیث غدیر سے احتجاج

۱۔ احتجاج(۱) امام علی علیہ السلام

حضرت علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد جھاں بھی مناسب موقع دیکھا ھر ممکن طریقہ سے اپنی حقانیت ثابت کی، جن میں سے حدیث غدیر کے ذریعہ اپنی ولایت کو ثابت کرنا ھے۔ ھم یھاں پر چند مقامات کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

الف: روز شوریٰ

خطیب بغدادی حنفی اور حمّوئی شافعی نے اپنی سند کے ساتھ ابی الطفیل عامر بن واثلہ سے نقل کیا ھے کہ انھوں نے کھا: میں شوریٰ (سقیفہ بنی ساعدہ) کے دن ایک کمرہ کے دروازہ کے پاس تھا جس میں حضرت علی علیہ السلام اور پانچ دوسرے افراد بھی تھے، میں نے خود سنا کہ حضرت علی علیہ السلام ان لوگوں سے فرمارھے تھے: بے شک تم لوگوں کے سامنے ایسی چیز سے دلیل پیش کروں گا جس میں عرب و عجم کوئی بھی تغیر و تبدیلی نھیں کرسکتا۔“

اور پھر فرمایا: ”اے جماعت! تمھیں خدا کی قسم، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس نے مجھ سے پھلے خدا کی وحدانیت کا اقرار کیا ھو؟ سب نے کھا: نھیں، اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے (۱)??? احتجاج یعنی کسی کے سامنے دلیل قائم کرنا۔(مترجم)

فرمایا: تمھیں خدا کی قسم، کیا تمھارے درمیان کوئی ایسا شخص ھے جس کے بارے میں پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا ھو:

”من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللّھم وال من والاہ وعاد من عاداہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ، لیبلّغ الشاہد الغائب، غیری؟“

”جس کا میں مولا ھو ں اس کے یہ علی بھی مولا ھے، پالنے والے ! تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی سے دشمنی رکھے، اس کے ناصروں کی مدد فرما، اور ان کو ذلیل کرنے والوں کو ذلیل و خوار فرما، حاضرین مجلس اس واقعہ کی خبر غائب لوگوں تک پھنچائیں۔“

سب نے کھا: خدا کی قسم ، ھرگز نھیں[197]

اس روایت کے مضمون کو اھل سنت کے بہت سے علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا ھے: منجملہ:

ء ابن حاتم شامی[198]

ء ابن ہجر ھیثمی[199]

ء ابن عقدہ[200]

ء حافظ عقیلی[201]

ء ابن عبد البر[202]

ء بخاری[203]

ء ابن عساکر[204]

ء قاضی ابو عبد اللہ الحسین بن ھارون ضبّی(۳۹۸)[205]

ء گنجی شافعی[206]

ء ابن المغازلی شافعی[207]

ء سیوطی شافعی[208]

ء متقی ھندی[209]

ب۔ خلافت عثمان کے زمانہ میں

حمّوئی شافعی اپنی سند کے ساتھ تابعین کی عظیم شخصیت سلیم بن قیس ھلالی سے روایت کرتے ھیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں حضرت علی (صلوات اللہ علیہ) کو مسجد النبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)میں دیکھا ، اور دیکھا کہ کچھ لوگ آپس میں بیٹھے ھوئے ایک دوسرے سے علم و فقہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رھے ھیں۔ جس کے درمیان قریش کی فضیلت اور سوابق کا ذکر ھوا، اور جو کچھ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان کے بارے میں فرمایا تھا، ان کو بیان کیا جانے لگا، اس مجمع میں دو سو سے بھی زیادہ افراد تھے جن میں حضرت علی علیہ السلام، سعد بن ابی وقاص، عبد الرحمن بن عوف، طلحہ، زبیر، مقداد، ھاشم بن عتبہ، ابن عمر، حسن علیہ السلام، حسین علیہ السلام، ابن عباس، محمد بن ابی بکر اور عبد اللہ بن جعفر تھے۔

اور انصار میں سے ابیّ بن کعب، زید بن ثابت، ابو ایوب انصاری، ابو الھیثم بن تھیان، محمد بن سلمہ، قیس بن سعد، جابر بن عبد اللہ، انس بن مالک وغیرہ تھے، حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام اور آپ کے اھل بیت خاموش بیٹھے ھوئے تھے، ایک جماعت نے امام علیہ السلام کی طرف رخ کرکے عرض کی: یا ابا الحسن! آپ کیوں کچھ نھیں کہتے؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: ھر قبیلہ نے اپنی اپنی فضیلت بیان کردی ھے، اور اپنا حق ذکر کردیا ھے، لیکن میں تم جماعت قریش اور انصار سے سوال کرتا ھوں کہ خداوندعالم نے کس کے ذریعہ تمھیں یہ فضیلت عطا کی ھے؟ کیا یہ فضیلت خود تم نے حاصل کی ھے یا تمھاری قوم و قبیلہ نے عطا کی ھے یا تمھارے علاوہ کسی اور نے یہ فضیلت تمھیں دی ھے؟ سب نے عرض کیا: یقینا یہ فضیلتیں ھم کو حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ان کے خاندان کے ذریعہ عطا ھوئی ھیں، اور یہ فضیلت نہ ھم نے خود حاصل کی ھے اور نہ ھماری قوم و قبیلہ نے عطا کی ھے۔ اس موقع پر امام علی علیہ السلام نے اپنے فضائل و مناقب بیان کرنا شروع کئے، اور ایک کے بعد ایک فضیلت کو شمار کرنے لگے، یھاں تک کہ فرمایا: تم لوگوں کو خدا کی قسم! کیا تم جانتے ھو کہ یہ آیہٴ شریفہ کھاں نازل ھوئی:

<یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَاٴَطِیعُوا الرَّسُولَ وَاٴُوْلِی الْاٴَمْرِ مِنْکُمْ >[210]

”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمھیں میں سے ھیں۔“

اور یہ آیت کھاں نازل ھوئی:

<إِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اللهُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ >[211]

”ایمان والو! بس تمھار ولی اللہ ھے اور اس کارسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ھیں۔“

نیز یہ آیت کھاں نازل ھوئی:

<۔۔۔ وَلَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللهِ وَلاَرَسُولِہِ وَلاَالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً ۔۔۔>[212]

”جنھوں نے خدا و رسول اور صاحبان ایمان کو چھوڑ کر کسی کو دوست نھیں بنایا ھے۔“

اس موقع پر انھوں نے کھا: یا امیر المومنین! کیا یہ آیت بعض مومنین سے مخصوص ھے، یا تمام مومنین کو شامل ھے؟

آپ نے فرمایا: خداوندعالم نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ اپنے ”اولی الامر“ کی پہچان کرادو، اور جیسا کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تم لوگوں کے لئے نماز، زکوٰة اور حج کی تفسیر کی ھے اسی طرح ولایت کی بھی تفسیر و وضاحت کی ھے، اور مجھے غدیر خم کے میدان میں خلافت کے لئے منصوب کیا۔

اس موقع پر پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! خداوندعالم نے مجھے ایسے حکم کا فرمان دیا ھے کہ جس کی وجہ سے میں پریشان ھوں کہ اگر میں نے اس حکم کو پھنچایا تو لوگ مجھے جھٹلانے لگیں گے، لیکن (خداوندعالم نے) مجھے ڈرایا ھے کہ اس حکم کو ضرور پھنچائیں، ورنہ آپ کی رسالت کو خطرہ ھے۔

اس موقع پر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حکم دیا کہ اذان کھی جائے، (نماز کے بعد) آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خطبہ میں فرمایا: اے لوگو! کیا تم جانتے ھو کہ خداوندعالم میرا مولا و آقا ھے اور کیا میں مومنین کا مولا و آقا اور ان کے نفسوں سے اولیٰ ھوں؟ تو سب نے کھا: جی ھاں یا رسول اللہ!

اس وقت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے مجھ سے فرمایا: اے علی کھڑے ھوجاؤ، میں کھڑا ھوا تو آپ نے فرمایا: ”جس کا میں مولا ھوں پس اس کے یہ علی مولا ھیں۔“پالنے والے! جس نے ان کی ولایت کو قبول کیا اور ان کو دوست رکھا تو بھی اس کو اپنی ولایت کے زیر سایہ قرار دے، اور جو شخص ان سے دشمنی رکھے اور ان کی ولایت کا انکار کرے تو بھی اس کو دشمن رکھ۔۔۔[213]

ج۔ کوفہ کے مجمع میں

جب حضرت علی علیہ السلام کو کوفہ میں یہ خبر دی گئی کہ کچھ لوگ خلافت کے سلسلہ میں آپ کی حقانیت پر تھمت لگاتے ھیں، تو آپ رحبہ کوفہ میں مجمع کے درمیان حاضر ھوئے اور ان لوگوں کے سامنے حدیث غدیر کو دلیل کے طور پر بیان کیا جو آپ کی ولایت کو قبول نھیں کرتے تھے۔

یہ احتجاج اتنا مشھور اور علی الاعلان تھا کہ بہت سے تابعین نے اس واقعہ کو نقل کیا ھے، اور علماء نے بھی مختلف سندوں کے ساتھ اس واقعہ کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ھے، اب ھم یھاں پر اس واقعہ کے بعض روایوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں:

۱۔ ابو سلیمان موذّن:

ابن ابی الحدید نے اپنی سند کے ساتھ ابو سلیمان موٴذن سے نقل کیا ھے کہ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے یوں احتجاج کیا: ”جس نے بھی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سنا ھو کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، وہ گواھی دے، ایک گروہ نے اس کی گواھی دی، لیکن زید بن ارقم نے اس چیز کو چھپاتے ھوئے گواھی نھیں دی جبکہ وہ جانتا تھا، امام علی علیہ السلام نے اس کے لئے نفرین و لعنت کی کہ خداوندعالم اس کو اندھا کردے، لہٰذا و ہ نابینا ھوگیا، لیکن اندھے ھونے کے بعد وہ حدیث غدیر کی روایت کرتے تھے“[214]

۲۔ اصبغ بن نباتہ[215]

۳۔ حَبَّة بن جُوَین عُرَنی، ابو قدامہ بجلی، صحابی (۷۶ ، ۷۹ھ)[216]

زاذان بن عمر[217]

۵۔ زرّین بن حبیش اسدی[218]

۶۔ زیاد بن ابی زیاد[219]

۷۔زید ابن ارقم [220]

۸۔زید بن یُثیع [221]

۹۔ سعید بن ابی حدّان[222]

۱۰۔سعید بن وھب[223]

۱۱۔ ابو الطفیل عامر بن واثلہ[224]

۱۲۔ابو عمارہ، عبد خیر بن یزید[225]

۱۳۔ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ[226]

۱۴۔عمر و ذی مرّ [227]

۱۵۔عمیرة بن سعد[228]

۱۶۔یعلی بن مرّہ [229]

۱۷۔ ھانی بن ھانی[230]

۱۸۔ حارثہ بن مضرّب[231]

۱۹۔ ھبیرة بن مریم[232]

۲۰۔ ابو رملہ عبد اللہ بن ابی امامہ[233]

۲۱۔ ابو وائل شقیق بن سلمہ[234]

۲۲۔ حارث اعور[235]

گواھی دینے والے حضرات

درج ذیل حضرات نے روز رحبہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لئے حدیث غدیر کی گواھی دی ھے:

۱۔ ابو زینب بن عوف انصاری۔

۲۔ ابو عمرة بن عمرو بن محصن انصاری۔

۳۔ ابو فضالہٴ انصاری۔

۴۔ ابو قدامہ ٴ انصاری۔

۵۔ ابو لیلیٰ انصاری۔

۶۔ ابو ھریرہٴ دوسی۔

۷۔ ابو الھیثم بن تیّھان۔

۸۔ ثابت بن ودیعہٴ انصاری۔

۹۔ حُبش بن جنادہٴ انصاری۔

۱۰۔ ابو ایوب خالد انصاری۔

۱۱۔ خزیمة بن ثابت انصاری۔

۱۲۔ ابو شریح خویلد بن عمرو خزاعی۔

۱۳۔ زید یا یزید بن شراحیل انصاری۔

۱۴۔ سھل بن حنیف انصاری اوسی۔

۱۵۔ ابو سعید سعد بن مالک خُدری انصاری۔

۱۶۔ ابو العباس سھل بن سعد انصاری۔

۱۷۔ عامر بن لیلیٰ غفاری۔

۱۸۔ عبد الرحمن بن عبد ربّ انصاری۔

۱۹۔ عبد اللہ بن ثابت انصاری، خادم رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)۔

۲۰۔ عبید بن عازب انصاری۔

۲۱۔ ابو طریف عدی بن حاتم۔

۲۲۔ عقبہ بن عامر جھنی۔

۲۳۔ ناجیة بن عمرو خزاعی۔

۲۴۔ نعمان بن عجلان انصاری۔

۲۵۔ حافظ ھیثمی نے صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج کیا تو اس موقع پر ۳۰لوگ موجود تھے[236]

چونکہ یہ احتجاج سن ۳۵ ہجری میں ھوا اور حدیث غدیر کو بیان ھوئے ۲۵ سال کا عرصہ گزر گیا تھا، ظاھر سی بات ھے کہ بہت سے وہ اصحاب جنھوں نے حدیث غدیر کو سنا ھوگا لیکن وہ اس احتجاج کے وقت دنیا میں نھیں ھوں گے، اور بہت سے اصحاب جنگوں میں شھید ھوچکے تھے یا بہت سے دیگر ملکوں میں متفرق ھوگئے ھوں گے، اور یہ ۳۰/ افراد وہ تھے جو کوفہ کے علاقہ میں اور وہ بھی ”رحبہ“ نامی مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے حضرت علی علیہ السلام کی خلافت و ولایت کے لئے حدیث غدیر کی گواھی دی۔

د۔ جنگ جمل میں احتجاج

جن مقامات پر حضرت علی علیہ السلام نے حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج کیا ھے ان میں سے جنگ ”جمل“ میں ”طلحہ“ کے سامنے احتجاج بھی ھے۔

حافظ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ نُذیر ضبّی کوفی تابعی سے نقل کرتے ھیں کہ انھوں نے کھا: ھم حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جنگ جمل میں تھے، امام علیہ السلام نے کسی کو طلحہ بن عبید اللہ کے پاس بھیج کر اس کو ملاقات کے لئے بلوایا، چنانچہ طلحہ آپ کی خدمت میں حاضر ھوا، آپ نے طلحہ سے فرمایا: تمھیں خدا کی قسم! کیا تم نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نھیں سنا : ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ، اللّھم وال من والاہ و عاد من عاداہ“؟ تو اس نے کھا: جی ھاں سنا ھے، امام علی علیہ السلام نے فرمایا: تو پھر کیوں ھم سے جنگ کر رھا ھے؟ اس نے کھا: مجھے یاد نھیں آرھا ھے، اور یہ کہتے ھی وھاں سے اٹھ کھڑا ھو[237]

ھ۔ کوفہ میں حدیث سواران

احمد بن حنبل نے اپنی سند کے ساتھ ریاح بن حارث سے نقل کیا ھے کہ انھوں نے فرمایا: کوفہ میں کچھ لوگ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں پھنچ کر عرض کرتے ھیں: ”السلام علیک یا مولانا“،

امام علیہ السلام نے ان سے فرمایا: ”میں کس طرح تم لوگوں کا مولا ھوں جبکہ تم عرب کے ایک (خاص) قبیلہ سے تعلق رکھتے ھو؟

انھوں نے جواب میں کھا: کیونکہ ھم نے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روز غدیر سنا ھے کہ آپ نے فرمایا:

”من کنت مولاہ فعلی مولاہ۔“[238]

و۔ جنگ صفین میں احتجاج

سلیم بن قیس ھلالی، بزرگ تابعی اپنی کتاب میں نقل کرتے ھیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ صفین میں اپنے لشکر کے درمیان منبر پر گئے اور مختلف علاقوں سے آئے ھوئے لوگوں کو اپنے پاس جمع کیاجن میں مھاجرین و انصار بھی تھے، سب کے سامنے خداوندعالم کی حمد و ثنا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا:

”اے جماعت ! بے شک میرے مناقب و فضائل اس سے کھیں زیادہ ھیں جن کا شمار کیا جاسکے۔۔۔۔“

اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام نے تفصیلی طور پر اپنے فضائل بیان کئے جن میں حدیث غدیر کا بھی ذکر کیا[239]

۲۔ حدیث غدیر کے ذریعہ حضرت زھرا (س) کا احتجاج

شمس الدین ابو الخیر جزری دمشقی شافعی نے اپنے سند کے ساتھ ام کلثوم بنت علی علیھما السلام سے نقل کیا کہ انھوں نے فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے نقل کیا کہ (بی بی دو عالم) نے فرمایا:

”اٴنسیتم قول رسول اللّہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) یوم غدیر خم: من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ، و قولہ (ص): انت منّی بمنزلة ھارون من موسی؟“[240]

”کیا تم نے غدیر خم میں حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے قول کو بھلا دیا ھے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: جس کا میں مولا ھوں اس کے یہ علی (علیہ السلام) بھی مولا ھیں، اسی طرح آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا یہ قول: (یاعلی) تم میرے نزدیک وھی نسبت رکھتے ھو جو ھارون کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔“

حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیھما السلام نے بھی حدیث غدیر سے احتجاج کیا ھے[241]

۳۔ حدیث غدیر کے ذریعہ دیگر حضرات کا احتجاج

اھل بیت علیھم السلام کے علاوہ بعض مقامات پر دیگر حضرات نے بھی حدیث غدیر سے احتجاج کیا ھے، جو خود اس بات پر دلالت کرتا ھے کہ مسلمانوں کے درمیان حدیث غدیر ایک مخصوص اھمیت رکھتی تھی، اب ھم یھاں پر بعض ان لوگوں کے اسمائے گرامی بیان کرتے ھیں:

۱۔ عبد اللہ بن جعفر کا حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شھادت کے بعد معاویہ پر حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج[242]

۲۔ بُرد کا عمر بن عاص پر حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج[243]

۳۔ عمر بن عاص کا معاویہ پر حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج[244]

۴۔ عمار یاسر کا جنگ صفین میں عمر بن عاص پر حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج[245]

۵۔ اصبغ بن نباتہ کا حدیث غدیر کے ذریعہ معاویہ کے جلسہ میں سن ۳۷ ہجری میں احتجاج[246]

۶۔ ابو ھریرہ سے ایک جوان کا مسجد کوفہ میں حدیث غدیر کے بارے میں مناظرہ:

اس مناظرہ کو ابو بکر ھیثمی نے اپنی کتاب ”مجمع الزوائد“ میں ابی یعلی ، طبرانی اور بزّار سے دو طریقوں سے نقل کیا ھے جن میں سے ایک طریقہ کو صحیح مانا ھے اور دوسرے طریقہ کی توثیق نھیں کی ھے[247]

۷۔ ایک شخص کا زید بن ارقم پر حدیث غدیر کے ذریعہ احتجاج[248]

۸۔ ایک عراقی شخص کا جابر بن عبد اللہ انصاری سے حدیث غدیر خم کے ذریعہ مناظرہ[249]

۹۔ قیس بن سعد کا معاویہ سے سن ۵۰، ۵۶ میں حدیث غدیر خم کے ذریعہ احتجاج[250]

۱۰۔ دارمیّہ حجونیّہ کا معاویہ سے سن ۵۰، ۵۶ میں حدیث غدیر خم کے ذریعہ احتجاج[251]

۱۱۔ عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنی امیہ کا حدیث غدیر خم کے ذریعہ احتجاج[252]

۱۲۔ خلیفہ عباسی مامون کا فقھاء و علماء کے سامنے حدیث غدیر خم کے ذریعہ احتجاج[253]

 

[1] طبقات ابن سعد، ج۳، ص۲۲۵، مقریزی، الامتاع، ص۵۱۱، ارشاد الساری، ج۶، ص۳۲۹۔

[2] سورہ مائدہ، آیت ۶۷۔

[3] سورہ مائدہ، آیت ۶۔

[4] الغدیر، ج۱، ص۳۱تا ۳۶، طبقات ابن سعد، ج۲، ص۱۷۳، الامتاع، مقریزی، ص۵۱۰، ارشاد الساری، ج۹، ص۴۲۶، سیرہٴ حلبی، ج۳، ص۲۵۷، سیرہٴ زینی دحلان، ج۲، ص۱۴۳، تذکرة الخواص، ص۳۰، خصائص نسائی، ص۹۶، دائرة المعارف، فرید وجدی، ج۳، ص۵۴۲۔

[5] معجم البلدان، ج۲، ص۳۸۹۔

[6] مراصد الاطلاع، ج۱، ص۳۱۵۔ ۴۸۲۔

[7] معجم البلدان، ج۱، ص۱۱۱۔

[8] مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۲، ح۳۱۔

[9] الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۳۔

[10] ذخائر العقبی، ص۶۷۔

[11] البدایة و النھایة، ج۷، ص۳۸۶، اسنی المطالب، ص۴۸۔

[12] المناقب ابن شھر آشوب، ج۳، ص۳۴۔

[13] العلل و معرفة الرجال، ج۳، ص۱۶۱، رقم ۴۷۲۳۔

[14] النھایة، ج۵، ص۲۲۸۔

[15] المسند۔

[16] التاریخ الکبیر، ج۱، ص۳۷۵۔

[17] انساب الاٴشراف، ج۲، ص۱۰۸۔

[18] خصائص النسائی، ص۱۶و ۱۰۔

[19] مسند ابی یعلی، ج۱۱، ص۳۰۷۔

[20] تفسیر طبری، ج۳، ص۴۲۸۔

[21] معجم الاوسط، ج۳، ص۱۳۳۔

[22] التمھید، ص۱۶۹۔

[23] الکشف و البیان، ص۱۸۱۔

[24] ثمار القلوب، ص۶۳۶، رقم ۱۰۶۸۔

[25] الاستیعاب، قسم سوم، ۱۰۹۹۔

[26] تاریخ بغداد، ج۸، ص۲۹۰۔

[27] المناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۵، ح۳۷۔

[28] شواھد التنزیل، ج۱، ص۲۰۱، ح۲۱۱۔

[29] ربیع الابرار، ج۱، ص۸۴۔

[30] المناقب، ص۱۵۴، ح۱۸۲۔

[31] ترجمہ امام علی علیہ السلام، رقم ۵۷۲۔

[32] التفسیر الکبیر، ج۳، ص۶۳۶۔

[33] اسد الغابة، ج۱، ص۳۶۴۔

[34] شرح نہج البلاغہ، ج۱، ص۱۳۔

[35] کفایة الطالب، ص۱۶۔

[36] فرائد السمطین، ج۲، ص۲۷۴۔

[37] نظم درر السمطین، ص۱۰۹۔

[38] المواقف، ص۴۰۵۔

[39] البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۰۹۔

[40] المودة القربی، مودّت پنجم۔

[41] شرح مقاصد، ج۵، ص۲۷۳۔

[42] مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۶۵۔

[43] مقدمہٴ ابن خلدون، ج۱، ص۲۴۶۔

[44] شرح مواقف، ج۸، ص۳۶۰۔

[45] الاصابة، ج۷، ص۷۸۰۔

[46] الفصول المھمة، ص۲۴۔

[47] شرح تجرید، ص۴۷۷۔

[48] تاریخ الخلفاء، ص۱۱۴۔

[49] الصواعق المحرقة، ص۲۵۔

[50] کنز العمّال، ج۲، ص۱۵۴۔

[51] کنوز الحقائق، ج۲، ص۱۱۸۔

[52] السیرة الحلبیة، ج۳، ص۲۷۴۔

[53] البیان و التعریف، ج۳، ص۷۴۔

[54] شرح المواھب، ج۷، ص۱۳۔

[55] الاسعاف در حاشیہٴ نور الاٴبصار، ص۱۵۲۔

[56] روح المعانی، ج۶، ص۱۹۴۔

[57] تفسیرالمنار، ج۶، ص۴۶۴۔

[58] نثر اللآلی، ص۱۶۶۔

[59] الفوائد المتکاثرة فی الاٴخبار المتواترة۔

[60] التیسیر فی شرح الجامع الصغیر، ج۲، ص۴۴۲۔

[61] شرح جامع الصغیر، ج۳، ص۳۶۰۔

[62] المرقاة فی شرح المشکاة، ج۵، ص۵۶۸۔

[63] نفحات الاٴزھار، ج۶، ص۱۲۱۔

[64] نفحات الاٴزھار، ج۶، ص۱۲۶۔

[65] نفحات الاٴزھار، ج۶، ص۱۲۷۔

[66] الاربعین۔

[67] نفحات الاٴزھار، ج۶، ص۱۲۵۔

[68] البدایة و النھایة۔

[69] طرق حدیث من کنت مولاہ۔

[70] اسنی المطالب۔

[71] الاربعین۔

[72] تشنیف الاٴذان، ص۷۷۔

[73] الصواعق المحرقہ، ص۴۲و۴۳۔

[74] مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۰۹۔

[75] السیرة الحلبیة، ج۳، ص۲۷۴۔

[76] البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۸۸۔

[77] صحیح ترمذی، ج۲، ص۲۹۸۔

[78] مشکل الآثار، ج۲، ص۳۰۸۔

[79] الاستیعاب، ج۲، ص۳۷۳۔

[80] تذکرة الخواص، ص۱۸۔

[81] زین الفتی۔

[82] روح المعانی، ج۶، ص۶۱۔

[83] فتح الباری، ج۷، ص۶۱۔

[84] مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۲۶۔

[85] سرّ العالمین، ص ۲۱۔

[86] شرح ابن ابی الحدید، ج۹، ص۱۶۶، خطبہٴ ۱۵۴۔

[87] کفایة الطالب، ص۶۱۔

[88] العروة لاٴھل الخلوة، ص۴۲۲۔

[89] طرق حدیث من کنت مولاہ۔

[90] تلخیص المستدرک، ج۳، ص۶۱۳، ح۶۲۷۲۔

[91] طرق حدیث من کنت مولاہ، ص۱۱۔

[92] مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۴تا۱۰۹۔

[93] المواھب اللد نیّة، ج۳، ص۳۶۵۔

[94] المرقاة فی شرح المشکاة، ج۱۰، ص۴۶۴، ح۶۰۹۱۔

[95] وسیلة المآل فی مناقب الآل، ص۱۱۷۔ ۸۱۱۔

[96] نزل الاٴبرار، ص۵۴۔

[97] اسعاف الراغبین در حاشیہٴ نور الابصار، ص۱۵۳۔

[98] السنة، ابن ابی عاصم، با تحقیق البانی، ج۲، ص۵۶۶۔

[99] سلسلة الاحادیث الصحیحة، ح۱۷۵۰۔

[100] تاریخ روضة الصفا، ج۲، ص۵۴۱۔

[101] المصنف، ج۱۲، ص۷۸، ح۱۲۱۶۷۔

[102] المسند، ج۵، ص۳۵۵، ح۱۸۰۱۱۔

[103] مسند شیبانی نسویّ۔

[104] مسند ابی یعلی۔

[105] جامع البیان، ج۳، ص۴۲۸۔

[106] الصواعق المحرقہ، ص۴۴۔

[107] التمھید، ص۱۷۱۔

[108] الکشف و البیان، سورہٴ مائدہ، آیت نمبر۶۷ کے ذیل میں ۔

[109] الفصول المھمّة، ص۴۰۔

[110] تاریخ بغداد، ج۸، ص۲۹۰۔

[111] مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ص۱۸، ح۲۴۔

[112] سرّ العالمین، ص۲۱۔

[113] الملل والنحل، ج۱، ص۱۴۵۔

[114] المناقب، ص۹۴، فصل۱۴۔

[115] التفسیر الکبیر، ج۱۲، ص۴۹۔

[116] النھایة، ج۵، ص۲۲۸۔

[117] اسد الغابة، ج۴، ص۱۰۸۔

[118] کفایة الطالب، ص۶۲۔

[119] تذکرة الخواص، ص۲۹۔

[120] الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۳۔

[121] فرائد السمطین، ج۱، ص۷۷، ح۴۴۔

[122] غرائب القرآن، ج۶، ص۱۹۴۔

[123] مشکاة المصابیح، ج۳، ص۳۶۰، ح۶۱۰۳۔

[124] نظم درر السمطین، ص۱۰۹۔

[125] البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۲۹۔

[126] الخطط، ج۱، ص۳۸۸۔

[127] الفصول المھمّة، ص۴۰۔

[128] کنز العمّال، ج۱۳، ص۱۳۳، ح۳۶۴۲۰۔

[129] المواھب اللدنیّة، ج۳، ص۳۶۵۔

[130] الصواعق المحرقہ، ص۴۴۔

[131] فیض القدیر، ج۶، ص۲۱۸۔

[132] شرح المواھب، ج۷، ص۱۳۔

[133] الفتوحات الاسلامیة، ج۲، ص۳۰۶۔

[134] البدایة و النھایة، ج۵، ص۱۸۳۔

[135] طبقات الحفاظ، ج۲، ص۵۴۔

[136] تہذیب التہذیب، ج۷، ص۳۳۷۔

[137] الغدیر، ج۱، ص۱۴۵۔

[138] الغدیر، ج۱، ص۱۴۵۔

[139] تذکرة الحفاظ، ج۳، ص۲۳۱۔

[140] الغدیر، ج۱۔

[141] نفحات الازھار۔

[142] شواھد التنزیل، ج۱، ص۱۹۰، ح۲۴۶۔

[143] ینابیع المودة، ص۳۶۔

[144] سورہ حدید، آیت ۱۵۔

[145] ارشاد الساری، ج۷، ص۲۸۰۔

[146] قاموس المحیط، ج۴، ۴۱۰۔

[147] ابن بطریق، العمدة، ص۱۱۴تا ۱۱۵۔

[148] یہ جملہ حدیث غدیر کی بہت سی احادیث میں بیان ھوا ھے۔

[149] سورہ احزاب، آیت ۶۔

[150] ارشادالساری، ج۷، ص۲۸۰۔

[151] انوار التنزیل، بیضاوی، سورہ احزاب آیت ۶ کے ذیل میں۔

[152] الکاشف، ج۳، ص۵۲۳۔

[153] مدارک التنزیل، نسفی، ج۳، ص۲۹۴، تفسیر جلالین، مذکورہ آیت کے ذیل میں۔

[154] مسند احمد، ج۱، ص۱۱۸، مستدرک حاکم، ج۳، ص۱۰۹، و۔۔۔۔

[155] اسد الغابة، ج۶، ص۱۳۶،رقم ۵۹۴۰، تاریخ دمشق، ج۱۲، ص۲۲۶، سیرہٴ حلبی، ج۳، ص۳۷۴۔

[156] سورہ مائدہ، آیت۳۔

[157] البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۱۴، شواہد التنزیل، ج۱، ص۱۵۷۔

[158] در المنثور، ج۲، ص۲۹۸۔

[159] سورہ معارج، آیت ۱۔ ۲۔

[160] مودة القربی، مودت پنجم۔

[161] فرائد السمطین، ج۱، ص۳۱۲۔

[162] زاد المعاد، ج۱، ص۱۲۱۔

[163] صحیح مسلم، کتاب الحج، ح۴۵۱، سنن ابی داود، ج۴، ص۵۴۔

[164] الریاض النضرة، ج۲، ص۲۸۹، اسد الغابةج۳، ص۱۱۴۔

[165] تذکرة الخواص، ص۳۲۔

[166] سر العالمین، ص۳۹تا ۴۰، طبع دار الافاق العربیة، مصر۔

[167] تذکرة الخواص، ص۶۲۔

[168] حدیقة الحقیقة، حکیم نسائی۔”روز غدیر مجھے رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنی شریعت کا حاکم قرار دیا۔“

[169] مثنوی مظھر حق، عطار نیشابوری۔ ترجمہ اشعار: ”جب خداوندعالم نے غدیر خم میں حکم نازل کیا کہ اے میرے رسول!

میرے پیغام کو پھنچادو، اور مسلمانوں کے سامنے اس پیغام کو عام کردو کیونکہ اس وقت یہ رسالت کا سب سے اھم پیغام ھے، لہٰذا رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے کھا کہ میں اس پیغام کو پھنچا کر ھی رھوں گا اور اسرار حق کو آسان کردوں گا، جب جبرئیل امین نازل ھوئے اور اسرار الٰھی کو لے کر آئے کہ خداوندقھار کہتا ھے وہ خدا جو حیّ و قیوم اور عالم الغیب ھے ، مرتضیٰ میرے دین پر والی اور حاکم ھیں، اور جو اس حکم کو قبول نہ کرے وہ مسلمان نھیں ھے۔“

[170] سورہ آل عمران، آیت ۶۱۔ ترجمہ: ”تو کھو کہ (اچھا میدان میں )آوٴ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ھم اپنی عورتوں کو (بلائیں ) اور تم اپنی عورتوںکو اور ھم اپنی جانوں کو، (بلائیں ) اور تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ھم سب مل کر خدا کی بارگاہ میں گڑ گڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں ۔“

[171] مطالب السوٴول، ص۴۴تا۴۵۔

[172] تذکرة الخواص، ص۳۰تا۳۴۔

[173] کفایة الطالب، ص۱۶۶تا۱۶۷۔

[174] شرح تائیہٴ ابن فارض، فرغانی۔

[175] المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار، ج۲، ص۲۲۰۔

[176] شرح مقاصد، ج۲، ص۲۹۰۔

[177] المعارف، ابن قتیبہ، ص۱۹۴، شر ح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۳۶۲۔

[178] احقاق الحق، ج۶، ص۵۶۰، ارجح المطالب، ص۵۸۰۔

[179] شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۳۶۲، السیرة الحلبیة، ج۳، ص۳۳۷۔

[180] انساب الاشراف، ج۲، ص۱۵۶۔

[181] تاریخ بغداد، ج۸، ص۲۹۰، مناقب ابن مغازلی، ص۱۸، ح۲۴، تذکرة الخواص، ص۳۰، فرائد السمطین، ج۱، ص۷۷، ح۴۴، و۔۔۔

[182] حلیة الاولیاء، ج۶، ص۵۹تا۶۷۔

[183] میزان الا عتدال، ج۲، ص۲۸۳، رقم ۳۷۵۶۔

[184] تاریخ مدینہ دمشق، ج۸، ص۱۳۷تا۱۴۸۔

[185] حلیة الاولیاء، ج۳، ص۷۵۔

[186] الثقات، ج۵، ص۴۳۵۔

[187] حلیةالاولیاء، ج۶، ص۱۲۵تا۱۳۵۔

[188] خلاصة الخزرجی، ج۲، ص۶۶، رقم ۳۵۶۶۔

[189] تہذیب التہذیب، ج۵، ص۲۲۵۔

[190] تاریخ دمشق، ج۸، ص۴۷۵۔

[191] الطبقات الکبری، ج۷، ص۴۷۱۔

[192] میزان الاعتدال، ج۳، ص۱۲۵، رقم ۵۸۳۳ و ص۱۳۱، رقم ۵۸۵۱۔

[193] لسان المیزان، ج۴، ص۲۶۰، رقم ۵۸۰۶۔

[194] تاریح بغداد، ج۸، ص۲۸۴، رقم ۴۳۹۲۔

[195] وفیات الاعیان، ج۳، ص۲۷۹، رقم ۴۳۴۔

[196] تذکرة الحفّاظ، ج۳، ص۹۹۱، رقم ۹۲۵۔

[197] مناقب خوارزمی، ص۳۱۳، ح۳۱۴، فرائد السمطین، ج۱، ص۳۱۹، ح۲۵۱۔

[198] الدر النظیم، ج۱، ص۱۱۶۔

[199] الصواعق المحرقة، ص۱۲۶، بہ نقل از دار قطنی۔

[200] الامالی، طوسی، ص۳۳۲، ح۶۶۷۔

[201] میزان الاعتدال، ج۱، ص۴۴۱، رقم ۱۶۴۳، لسان المیزان، ج۲، ص۱۹۸، رقم ۲۲۱۲۔

[202] الاستیعاب، قسم سوم/ ۱۰۹۸، رقم ۱۸۵۵۔

[203] التاریخ الکبیر، ج۲، ص۳۸۲۔

[204] تاریخ دمشق، رقم ۱۱۴۰و ۱۱۴۱ و ۱۱۴۲۔

[205] امالی، ضبّی، مجلس۶۱۔

[206] کفایة الطالب، ص۳۸۶۔

[207] المناقب ، ح۱۵۵۔

[208] جمع الجوامع، ج۲، ص۱۶۵تا ۱۶۶؛ مسند فاطمہ سلام اللہ علیھا، ص۲۱۔

[209] کنز العمّال، ج۵، ص۷۱۷تا۷۲۶، ح۱۴۲۴۱ تا ۱۴۲۴۳۔

[210] سورہ نساء، آیت ۵۹۔

[211] سورہ مائدہ ، آیت ۵۵۔

[212] سورہ توبہ، آیت ۱۶۔

[213] فرائد السمطین، ج۱، ص۳۱۲، ح۳۵۰۔

[214] شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۷۴، خطبہٴ ۵۶۔

[215] اسد الغابة، ج۳، ص۴۶۹، رقم ۳۳۴۱۔

[216] مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ابن المغازلی، ص۲۰، ح۲۷۔

[217] مسند احمد، ج۱، ص۱۳۵، ح۶۴۲؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۷؛ صفة الصفوة، ج۱، ص۱۲۱؛ مطالب السوٴول، ص۵۴؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۱۰ و ج۷، ص۳۴۸؛ تذکرة الخواص، ص۱۷؛ کنز العمّال، ج۱۳، ص۱۷۰، ح۳۶۵۱۴؛ تاریخ دمشق، رقم ۵۲۴؛ مسند علی علیہ السلام، سیوطی، ح۱۴۴ و۔۔۔

[218] شرح المواھب، ج۷، ص۱۳؛ اسد الغابة، ج۱، ص۴۴۱؛ الاصابة، ج۱، ص۳۰۵؛ قطن الازھار المتناثرة، سیوطی، ص۲۷۸۔

[219] مسند احمد، ج۱، ص۱۴۲، ح۶۷۲؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۶؛ البدایة و النھایة، ج۷، ص۳۸۴، حوادث سال ۴۰ ہجری؛ الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۴؛ ذخائر العقبی، ص۶۷؛ تاریخ دمشق، رقم ۵۳۲؛ المختارة، حافظ ضیاء، ج۲، ص۸۰، ح۴۵۸؛ درّ السحابة، شوکانی، ص۲۱۱۔

[220] مسند احمد، ج۶، ص۵۱۰، ح۲۲۶۳۳؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۶؛ المعجم الکبیر، ج۵، ص۱۷۵، ح۴۹۹۶؛ مناقب علی بن ابی طالب علیہ السلام، ابن المغازی، ص۲۳، ح۳۳، ذخائر العقبی، ص۶۷؛ البدایة و النھایة، ج۷، ص۳۸۳؛ حوادث سال ۴۰ ہجری۔

[221] مسند احمد، ج۱، ص۱۸۹، ح۹۵۳؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۲۹، کفایة الطالب، ص۶۳، اسنی المطالب، ص۴۹؛ خصائص امیر الموٴمنین علیہ السلام، نسانی، ص۱۰۱، ح۸۷ و ص۱۰۲، ح۸۸؛ سنن نسائی، ج۵، ص۱۳۱، ح۸۴۷۲؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۵؛ جامع الاحادیث، سیوطی، ج۱۶، ص۲۶۳، ح۷۸۹۹، کنز العمال، ج۱۳، ص۱۵۸، ح۳۶۴۸۷ و ۔۔۔

[222] فرائد السمطین، ج۱، ص۶۸، ح۳۴۔

[223] مسند احمد، ج۱، ص۱۸۹، ح۹۵۳، ج۶، ص۵۰۴، ح۲۲۵۹۷؛ خصائص امیر الموٴمنین علیہ السلام، نسانی، ص۱۱۷، ح۹۸؛ سنن نسائی، ج۵، ص۱۳۶، ح۸۴۸۳؛ اسد الغابة، ج۳، ص۴۹۲، رقم ۳۳۸۲؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۴؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۲۹وج۷، ص۳۸۴؛ المناقب، خوارزمی، ص۱۵۶، ح۱۸۵؛ معجم الکبیر، ح۵۰۵۸؛ معجم الاوسط، ح۱۹۸۷؛ تاریخ دمشق، رقم ۵۱۷تا۵۲۲؛ المختارة، ضیاء مقدسی، رقم ۴۷۹ و ۴۸۰ و ۴۸۱۔

[224] مسند احمد، ج۵، ص۴۹۸، ح۱۸۸۱۵؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۴؛ خصائص امیر الموٴمنین علیہ السلام، نسانی، ص۱۱۳، ح۹۳؛ السنن الکبری، ج۵، ص۱۳۴، ح۸۴۷۸؛ کفایة الطالب، ص۵۵؛ الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۴؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۱؛ نزل الابرار، ص۵۲؛ اسد الغابة، ج۶، ص۲۵۲، رقم ۶۱۶۹؛ ینابیع المودة، ج۱، ص۳۶، باب ۴۔

[225] المناقب، خوارزمی، ص۱۵۶، ح۱۸۵؛ المناقب، ابن المغازلی، رقم ۲۷؛ تاریخ دمشق، رقم ۵۲۰۔

[226] مسند احمد، ج۱، ص۱۹۱، ح۹۶۴؛ تاریخ بغداد، ج۱۴، ص۲۳۶؛ مشکل الآثار، ج۲، ص۳۰۸؛ اسد الغابة، ج۴، ص۱۰۸، رقم ۳۷۸۳؛ فرائد السمطین، ج۱، ص۶۹، ح۳۶؛ اسنی المطالب، ص۴۷تا۴۸؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۰؛ کنز العمال، ج۱۳، ص۱۳۱، ح۳۶۴۱۷؛ مسند بزّار، رقم ۶۳۲؛ مسند علی علیہ السلام، سیوطی، ص۴۶؛ مسند ابویعلی، رقم ۵۶۷؛ جمع الجوامع، ج۲، ص۱۵۵؛ تاریخ امیر الموٴمنین علیہ السلام، ابن عساکر، رقم ۵۱۰؛ المختارة، ضیاء مقدسی، ج۲، ص۲۷۳، رقم ۶۵۴۔

[227] مسند احمد، ج۱، ص۱۸۹، ح۹۵۴؛ خصائص نسائی، ص۱۱۷، ح۹۹؛ سنن نسائی، ج۵، ص۱۳۶، ح۸۴۸۴؛ فرائد السمطین، ج۱، ص۶۸، ح۳۶؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۵؛ کفایة الطالب، ص۶۳؛ المیزان الاعتدال، ج۳، ص۲۹۴، رقم ۶۴۸۱؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۰؛ تاریخ الخلفا، ص۱۵۸؛ کنز العمال، ج۱۳، ص۱۵۸، ح۳۶۴۸۷؛ مسند بزّار، ج۳، ص۳۵، رقم ۷۶۶؛ اسنی المطالب، ص۴۹، المعجم الکبیر، ح۵۰۵۹؛ المعجم الاوسط، ح۲۱۳۰ و ۵۳۰۱؛ تاریخ امیر الموٴمنین علیہ السلام، ابن عساکر، رقم ۵۱۵۔ ۵۱۶؛ جمع الجوامع، ج۲، ص۷۲؛ درّ السحابة، ص۲۰۹.

[228] حلیة الاولیاء، ج۵، ص۲۶؛ خصائص نسائی، ص۱۰۰، ح۸۵؛ سنن نسائی، ج۵، ص۱۳۱، ح۸۴۷۰؛ المناقب، ابن المغازلی، ص۲۶، ح۳۸؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۰و ج۷، ص۳۸۴؛ کنز العمال، ج۱۳، ص۱۵۴، ح۳۶۴۸۰ و ص۱۵۷، ح۳۶۴۸۶۔

[229] اسد الغابة، ج۵، ص۲۹۷، رقم ۵۱۶۲۔

[230] اسد الغابة، ج۳، ص۴۹۲، رقم ۳۳۸۲۔

[231] خصائص نسائی، ص۱۶۷، ح۵۸؛ السنن الکبری، ج۵، ص۱۵۴، ح۸۵۴۲؛ شرح نہج البلاغة، ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۲۸، خطبہٴ ۳۷؛ السیرة الحلبیة، ج۳، ص۲۷۴۔

[232] المعجم الکبیر، ح۸۰۵۸۔

[233] کتاب الموالاة، طبری۔

[234] انساب الاشراف، ترجمہٴ امیر الموٴمنین علیہ السلام، رقم ۱۶۹۔

[235] لسان المیزان، ج۲، ص۳۷۹۔

[236] مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۴۔

[237] المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۴۱۹، ح۵۵۹۴؛ المناقب، خوارزمی، ص۱۸۲، ح۲۲۱؛ تاریخ دمشق، ج۸، ص۵۶۸؛ تذکرة الخواص، ص۷۲، مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۷؛ کنز العمال، ج۱۱، ص۳۳۲، ح۳۱۶۶۲ و ۔۔۔

[238] مسند احمد، ج۶، ص۵۸۳، ح۲۳۰۵۱تا۲۳۰۵۲؛ اسد الغابة، ج۱، ص۴۴۱، رقم ۰۳۸ا؛ الریاض النضرة، ج۳، ص۱۱۳؛ البدایة و النھایة، ج۵، ص۲۳۱ و ج۷، ص۳۸۴تا۳۸۵؛ المجم الکبیر، ج۴، ص۱۷۳، ح۴۰۵۳؛ مختصر تاریخ دمشق، ج۱۷، ص۳۵۴ و ۔۔۔

[239] کتاب سلیم بن قیس، ج۲، ص۷۵۷، ح۲۵۔

[240] اسنی المطالب، ص۴۹۔

[241] ینابیع المودة، ج۳، ص۱۵۰، باب ۹۰؛ کتاب سلیم، ج۲، ص۷۸۸، ح۲۶۔

[242] کتاب سلیم، ج۲، ص۸۳۴، ح۴۲۔

[243] الامامة و السیاسة، ج۱، ص۹۷۔

[244] مناقب خوارزمی، ص۱۹۹، ح۲۴۰۔

[245] شرح ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۰۶، خطبہٴ ۳۵؛ وقعہٴ صفّین، ص۳۳۸۔

[246] مناقب خوارزمی، ص۲۰۵، ح۲۴۰؛ تذکرة الخواص، ص۸۵۔

[247] مسند ابویعلی، موصلی، ج۱۱، ص۳۰۷، ح۶۴۲۳؛ مجمع الزوائد، ج۹، ص۱۰۵۔

[248] ینابیع المودة، ج۲، ص۷۳، باب ۵۶۔

[249] کفایة الطالب، ص۶۱۔

[250] کتاب سلیم، ج۲، ص۷۷۷، ح۲۶۔

[251] ربیع الابرار، ج۲، ص۵۹۹۔

[252] حلیة الاولیاء، ج۵، ص۳۶۴۔

[253] عقد الفرید، ج۵، ص۵۶تا ۶۱۔

 بشکریہ غدیر مشن

Add new comment