کیمیائی ہتھیار اور اسرائیل

تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان و ریسرچ سکالر)

اقوام متحدہ کی جانب سے شام جانے والے کیمیائی ہتھیاروں پر تحقیق کرنے والی ٹیم کو مشورہ ہے کہ وہ شام کی بجائے مقبوضہ فلسطین کی طرف جائے اور مشاہدہ کرے کہ غاصب اسرائیل جو کہ نہ صرف مشرق وسطیٰ کے لئے خطرہ ہے بلکہ پوری عالم انسانیت کے لئے خطرہ بنا ہوا ہے کے پاس کس قدر کیمیائی ہتھیاروں اور WMD کا ذخیرہ ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو ایسے درجنوں شواہد مل جائیں گے کہ جس سے ثابت ہو گا کہ غاصب اسرائیل نے کس طرح اور کب کب فلسطینیوں اور عربوں کے خلاف کیمیائی، نیوکلئر اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں کا آغاز 1948ء سے ہوا تھا جو کہ تا حال جاری و ساری ہے۔ صیہونی درندگی کا آغاز صیہونی غاصب ریاست کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو کھلی آزادی دینے اور فوج میں تشدد اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے اصولوں کو مرتب کرنے سے شروع ہو اتھا جس کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو صیہونیوں نے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا اور آج کے دن تک فلسطینی عوام انہی دہشت گردانہ رویوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر استعمال کیا جانے والا پہلا مہلک ہتھیار بیالوجیکل ہتھیار تھا جسے بعد میں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے بھی ثابت کر دیا تھا۔

1948ء میں صیہونی گینگ نے فلسطینی شہر کو محاصرے میں لے لیا اور یہ محاصرہ طویل مدت تک جاری رہا، اس شہر کی طرف آنے والی پانی سپلائی کی لائن نزدیک ہی ایک گائوں کابری سے آتی تھی، صیہونی دہشت گردوں نے اس پانی کی لائن میں تائیفائڈ نامی کیمیکل کو شامل کر دیا جس کے نتیجے میں اس گائوں کے 55 افراد جن میں برطانوی فوجی بھی شامل تھے بری طرح متاثر ہوئے۔ صیہونیوں کے اس جرم کو صیہونی غاصب افواج نے “Shlach Lachmecha” آپریشن کا نام دیا اور اسے اپنی کامیابی بتایا۔ ریڈ کراس نامی ادارے کی ایک بین الاقوامی کمیٹی کے رکن De Meuron نے مورخہ 6مئی سے19 مئی 1948ء تک ریفرنس نمبر G59/1/GC, G3/82کے تحت متعدد رپورٹس بھیجیں جس میں اپیل کی گئی کہ صیہونیوں کی جانب سے اس شہر میں ٹائیفائڈ پھیلایا گیا ہے جو کہ انسانی حیات کو بری طرح متاثر کر رہا ہے تاہم عالمی برادری اس حوالے سے ممکنہ اقدامات کرے اور فلسطینیوں کی زندگی کو لاحق خطرات سے بچایا جا سکے۔ ایک برطانوی ادارے کے اہلکار کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں De Meuron نے بتایا کہ فلسطینی گائوں میں پھیلنے والا خطرناک وائرس ٹائیفائڈ پانی کے ذریعے پھیلایا گیا ہے جس پر برطانوی ادارے کے اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کی۔ ایک فرانسیسوی شہری لیفٹینٹ Petite جو کہ اقوام متحدہ کا مشاہدہ کار تھا، Petite کا کہنا تھا کہ صیہونی گینگز نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ فلسطینی شہروں اور دیہاتوں پر حملے کئے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں کے گھروں کو لوٹا گیا اور ان کا قتل عام کیا گیا۔ Petite نے بتایا کہ وہ اس بات کا شاہد ہے کہ صیہونیوں نے ایک سو سے زائد شہریوں کے اس کے سامنے اس لئے قتل کیا ہے کہ صیہونی ان کو گھروں سے نکالنا چاہتے تھے اور انہوں نے صیہونیوں کے اس اقدام سے انکار کر دیا۔ Petite نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ کئی ایک فلسطینیوں کو بندوق کی نوک پر سائنائڈ نامی خطرناک کیمیائی مادہ پینے پر مجبور کیا گیا۔ اس حوالے سے محمد فیض سوفی کی مثال دی جا سکتی ہے جس کا تذکرہ Michael Palumbo. نے اپنی کتاب “The Palestinian Catastrophe” میں بھی کیا ہے۔ صیہونیوں نے جو تجربہ 1948ء میں فلسطینیوں کے ساتھ کیا تھا وہی ایک مرتبہ پھر غزہ اور مصر کے ساتھ کرنے کی کوشش کی گئی تھی، صیہونیوں نے دو افراد کو بھیجا کہ وہ اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور کسی طرح مصر سے غزہ آنے والی پانی کی بڑی لائن میں زہر آلود کیمیائی مواد ملا دیں تاکہ غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی ہلاکتیں ہوں البتہ اس مرتبہ صیہونی اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے اور دونوں صیہونی دہشت گردوں کو مصری افواج نے گرفتار کرلیا۔ اس حوالے مصری افواج کے کمانڈر نے 24مئی 1948ء کو 3:20 منٹ پر صیہونی افواج کو ایک خط لکھ کر متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری افواج نے دو صیہونیوں David Horeen اور David Mizrahiکو مصری سرحد سے گرفتار کیا ہے، مصری افواج کے کمانڈر نے لکھا کہ ہم نے ان دونوں صیہونیوں سے تفتیش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کو اسرائیلی فوجی افسر موشے نے بھیجا تھا اور ان کا مقصد مصری افواج کی چھائونیوں اور غزہ کی طرف جانے والی مرکزی پانی کی سپلائی لائن میں زہریلا کیمیائی مواد ملانا تھا۔ ان دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پانی کی لائن میں ٹائیفائڈ ملانا چاہتے تھے اور یہ بھی بتایا ہے کہ دونوں افراد بیس افراد کی ایک بڑی ٹیم کا حصہ ہیں جنہیں یہ کام انجام دینے کے لئے اسرائیلی فوج نے بھیجا ہے۔

“War Diary” نامی کتاب میں بن گوریون کے اس جملے سے اعتراف کا ثبوت ملتا ہے جس میں بن گوریون لکھتا ہے کہ ''چیف آف سٹاف، Yigal Yadin غزہ سے اپنے فوجیوں کو ہٹالو کیونکہ مصری فوج نے دو یہودیوں کو کیمیائی مواد کے ساتھ گرفتار کر لیا ہے اور بن گوریون نے اسے پانی نہ پینے کی ہدایت بھی کی، یہ خط بن گوریون نے 27مئی کو اپنے چیف آف سٹاف کو لکھا تھا۔ ایک اسرائیلی کتاب نویسYeruham Cohen نے اپنی کتاب “ In Daylight and Night Darkness” میں لکھتا ہے کہ دو صیہونیوں Horeen اورMizrahi کو زہریلے موادکے ساتھ گرفتار کر لیا گیا تھا جن کو بعد میں موت کی سزا دے دی گئی۔ یہاں صیہونی جرائم کا سلسلہ نہ رکا اور صیہونیوں نے مصر اور شام پر دوبارہ اسی طرح کا حملہ کر دیا گیا، بائیس جولائی کو فلسطینیوں کی ایک اعلیٰ سطحی عرب کمیٹی نے اقوام متحدہ میں تیرہ صفحات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں لکھا گیا تھا کہ اسرائیل کے پاس ایسے مہلک ہتھیار موجود ہیں جو انسانی حیات کے لئے شدید خطرہ ہیں تاہم عالمی برادری اسرائیل سے ان مہلک ہتھیاروں کو ضبط کر لے ورنہ اسرائیل بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یہ رپورٹ اسرائیل کی جانب سے مصر اور شام میں کلوریا نامی کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے بعد سامنے آئی تھی اور اس پوری داستان کو نیویارک کے ایک ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی Thomas J. Hamilton نے 24جولائی 1948ء کو من و عن شائع کیا تھا۔

واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے شعبہ Center for Counterproliferation Research کے ڈاکٹر W. Seth Carus نے اپنی 220 صفحات پر مشتمل ایک کتاب “Bioterrorism and Biocrimes: The Illicit Use of Biological Agents since 1900” میں لکھا کہ مصر اور شام میں کلوریا نامی خطرناک کیمیائی مواد استعمال کیا گیا تھا جو کہ براہ راست اسرائیل نے کیا تھا، تاہم مصر میں پہلی مرتبہ کلوریا سے متعلق خبر ٹائمز آف لندن نے نشر کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے 1947ء میں مصر میں کلوریا کے استعمال سے 10262 لوگ موت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ ڈاکٹر W. Seth Carus کہتے ہیں شام میں کلوریا کے استعمال کے حوالے سے پہلے خبر نیویارک ٹائمز میں 22 دسمبر1947ء میں شائع ہوئی تھی البتہ اسرائیل کا یہ حملہ محدود پیمانے پر تھا اور دو قصبوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس حملے میں شامی افواج کی بہتر حکمت عملی اور حفاظتی تدابیر کے باعث محدود پیمانے پر 44ہلاکتیں ہوئیں، بعدازاں لبنانی روزنامے نے ایک خبر شائع کی کہ شامی افواج نے کلوریا پھیلانے والے صہیونی فوجی ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے ایک جنرل Moshe Dayan کا بیٹا اپنی یادگار ڈائری میں لکھتا ہے اور اس ڈائری کو سرائیلی روزنامے یدعوت نے شائع کیا ہے، موشے کا بیتا Assi اپنی ڈائری میں لکھتا ہے کہ میرے والد جنرل موشے اکثر گھر میں کچھ ٹیوبز لے کر آیا کرتے تھے جن میں typhus موجود ہوتا تھا، اور موشے نے یہ مواد اردن کے علاقے میں استعمال کیا اور متعدد پانی کی لائن سپلائی میں ملایا گیا، ASSI کہتا ہے ایک دن ایک ٹیوب گھر میں گر کر پھٹ گئی اور اس کی وجہ سے میں شدید متاثر ہوا جس کے بعد مجھے اس بات کا علم ہوا کہ یہ ایک خطرناک اور مہلک زہریلا مواد ہوا کرتا تھا۔ نعیم گیلادی جو کہ ایک عراقی یہودی تھا، نے اپنی داستان بیان کرتے ہوئے اس طرح کہا ہے کہ صیہونیوں کے نزدیک دوسرے درجے کے شہری کی کوئی اہمیت نہیں یہی وجہ ہے کہ میں خود کو بچانے کے لئے صیہونیوں کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں شریک رہا اور کوشش کرتا رہتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کروں تا کہ صیہونیوں کی اعلیٰ درجے کے شہریوں میں شمار کیا جائوں، نعیم گیلادی کا کہنا تھا کہ اسرائیل واحد ایسی ریاست ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں کیمیائی، حیاتیاتی اور دیگر مہلک ہتھیاروں کا استعمال شروع کیا۔ گیلادی کے مطابق صیہونی افواج فلسطینیوں کو ڈرا دھمکا کر، بندوق کی نوک پر ان کے گھروں کو خالی کرنے پر مجبور کرتے تھے اور اس کام کو انجام دینے کے لئے صیہونی اکثر اوقات پانی کی سپلائی لائن میں typhus سمیت دیگر خطرناک بیکٹیریا شامل کر دیتے تھے۔ نعیم گیلادی کی مکمل داستان The Link, Vol. 31 Issue 2, April-May 1998]درج بالا لنک میں شائع ہوئی ہے۔

Avner Cohen جو کہ میری لینڈ یونیورسٹی میں Center for International and Security Studies, and the Program on Security and Disarmaments میں ایک سنیئر ممبر ہیں نے اپنی ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان “Israel and Chemical/Biological Weapons: History, Deterrence, and Arms Control” ہے۔ Avner Cohen کہتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر اور مشق وسطیٰ میں کیمیائی اور دیگر مہلک ہتھیاروں کے استعمال کی بنیادی وجہ بن گوریون کا وہ اصول ہے جس میں گوریون کہتا ہے کہ فلسطینیوں کو قتل کرو، نکال دو چاہے کچھ بھی کرو لیکن اسرائیل میں فلسطینیوں کا دخل نہ ہو۔ گوریون کے اصول کے مطابق فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے نکالنے کے لئے کسی بھی قسم کا ظلم اور بربریت کی ضرورت ہو دریغ نہ کیا جائے۔ بن گوریون کی سفاکیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بن گوریون نے Ehud Avriel کو جو کہ یہودی ایجنسی کا یورپ میں ممبر ہے، اس کو ایک خط لکھا اور کہا کہ مشرقی یورپین یہودی سائنسدانوں کو بھرتی کیا جائے اور ایسے مواد استعمال کئے جائیں جن کے کم سے کم استعمال سے زیاد ہ سے زیادہ افراد کو قتل کیا جائے۔ تاہم Ehud Avrielنے Ernst David Bergmann, Avraham Marcus Klingberg اور Aharon Ephraim Katachalsky, نامی ماہرین کو ہگانہ سے بھرتی کیا جسے بعد میں HEMED کہا جانے لگا اور پھر مزید بعد میں اس کا نام کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار کی وجہ سےHEMED BEIT رکھ دیا گیا۔ یہ برانچ Israel Institute for Biological Research کے حوالے سے مشہور ہے۔

کئی برس تک IIBRخفیہ طور پر کیمیائی مواد کی تیاری میں مصروف عمل رہا لیکن 1992ء میں یہ راز اس وقت افشاں ہوا جب ایک طیارہ پرواز نمبر 1862تل ابیب کے لئے فضاء میں پرواز کرتے ہوئے کیمیائی مواد کی حرارت کے باعث گر کر تباہ ہو گیا جس میں تین عملے کے افراد سمیت ایک مسافر اور ایک سو چودہ ٹن کارگو موجود تھا۔ Dutch تاریخ میں یہ بہت بڑا فضائی سانحہ تھا جس میں 47 افراد جان بحق ہوئے تھے جبکہ 3000 سے زائد افراد کی صحت نازک ہو گئی تھی، ایک طویل مدت تک ہونیوالی تحقیق کے بعد علم ہوا کہ اس طیارے میں سیکڑوں ٹن ایسا مواد تھا جو کہ IIBR کے لئے امریکہ سے لایا جا رہا تھا جو کہ بین الاقوامی قوانین کی سراسر خلاف ورزی تھی۔ آخر کار Dutch کے ایک صحافتی ادارے این آر سی نے 1999میں ایک رپورٹ شائع کر دی جس کے بعد اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کے خفیہ مرکز IIBR کا راز کھلا۔ رپورٹ کے مطابق طیارے میں پچاس گیلن DMMP موجود تھا جو کہ Sarin نامی خطرناک مہلک گیس کے بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ ایک سو چالیس سے زائد بیالوجیکل ہتھیار بھی طیارے میں موجود تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر کیمیائی حملوں کی ایک طویل فہرست ہے جس کے لئے پوری کتاب تحریر کی جا سکتی ہے، فلسطینی جوانوں کی جانب سے شروع ہونے والے انتفادہ کو دبانے کے لئے اسرائیل نے toxins نامی کیمیائی مواد کا استعمال کیا تھا، یہ ایسا کیمیائی مادہ ہے کہ جس کے استعمال کے بعد سانس بند ہونے لگتی ہے اور انسان قے کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسی طرح Gaza Strip نامی ایک ویڈیو ڈاکومنٹری جو کہ ایک امریکی کیمرہ مین James Longley نے بنائی ہے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے کس طرح مغربی کنارے اور غزہ سمیت نابلس اور دیگر شہروں میں مہلک اور کیمیائی ہتھیاروں کا بےدریغ استعمال کیا ہے۔ رملہ میں کینسر کے ایک تحقیقی سینٹر کے ذمہ دار ڈاکٹر خمیس النجار کا کہنا ہے کہ 2003ء سے فلسطینی شہروں میں کینسر کے مرض کی شکایات بڑھ گئی ہیں اور یہ سب اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر مسلسل کیمیائی ہتھیاروں کے حملوں کے مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر خمیس النجار کی رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2000ء تک 3646 افراد جن میںبڑی تعداد خواتین کی ہے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئی ہیں۔

مختلف اداروں کی رپورٹس میں آیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں پر 2001ء سے 2003ء اور 2004ء میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے، جبکہ موساد نے متعدد مرتبہ فلسطینی رہنما خالد مشعل کو قتل کرنے کیلئے بھی کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جبکہ حماس کے ایک رہنما محمود المبوح کو قتل کرنے سمیت یاسر عرفات کو قتل کرنے میں بھی موساد نے کیمیائی ہتھیاروں کی مختلف مقداروں کا استعمال کیا ہے۔ آج پوری دنیا یہ بات اچھی طرح سے جانتی ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں کیمیائی ہتھیاروں کی سب سے زیادہ پیداوار بھی کر رہا ہے اور اسٹاک بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی ٹی وی 2003ء میں اسرائیل کے خفیہ ہتھیاروں کے عنوان سے پوری ڈاکومنٹری بھی نشر کر چکا ہے۔ بہرحال یہ ایک اچھا موقع ہے کہ جب شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی بات چھیڑی گئی ہے تو ضروری ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں موجود کیمیائی ہتھیاروں کو بین الاقوامی نگرانی میں دے دیا جائے اور خصوصاً اسرائیل کو WMD سے پاک کیا جانا انتہائی اہم ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے عنوان سے ہونے والی آئندہ کوئی بھی بین الاقوامی کانفرنس یا کنونشن اس بات کے لئے نہیں ہونے چاہئیے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال، بلکہ اس بات کے لئے ہونا چاہئیے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار اور ان کا ذخیرہ، اور یقینا یہ اہم ترین ہے۔

کیا امن نوبل یافتہ امریکی صدر اوباما یہ بتاسکتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو بین الاقوامی تحویل میں کب دیں گے؟ کیا امریکی صدر جو اپنی تقریروں میں خود کو اور امریکہ کو دنیامیں امن قائم کرنے کا ذمہ دار بتاتے ہیں اسرائیل جیسے خطرناک ملک سے انسانیت کی حیات کیلئے مضر کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار رکوانے اور ذخیروں کو منجمد کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے؟ یقینا اسرائیل شر مطلق ہے اور پوری انسانیت کے لئے خطرہ ہے۔

 

 بشکریہ اسلام ٹائمز

 

 

Add new comment