بصیرت اور دشمن شناسی
سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com
انسان ہمیشہ سے دشمن کے ساتھ نبرد آزما رہا ہے اور آئندہ بھی دشمن رہے گا۔ خصوصا موجودہ زمانے میں اگر ہم اپنی ملت کے مسائل کو مدنظر رکھیں تو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ دشمن شناسی ہے یعنی حقیقی دشمن کی پہچان، دشمن سے مقابلہ کے طریقہ کار اور اسی طرح کے دیگر مسائل۔ اس سے پہلے اس باب میں چند ایک معروضات پیش کی گئی ہیں اور کوشش ہے کہ اس سلسلے میں چند ایک سلسلے مزید پیش کئے جائیں تاکہ دشمن شناسی کے موضوع پر کسی حد تک سیر حاصل بحث ہو سکے۔ امید ہے کہ یہ تمام باتیں مفید اور بارگاہ الہی میں مورد قبول واقع ہوں۔
بصیرت کا مفہوم:
جیسا کہ ہم ظاہری امور میں اپنے کھانے پینے کے دوران، راستہ چلنے کے دوران اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی غلط چیز نہ کھا لیں، راستہ چلتے ہوئی کسی کھائی یا کنویں میں نہ گر جائیں، یا ڈرائیونگ کے دوران خیال رکھتے ہیں کہ کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہو اسی طرح ہمیں اپنی معنوی زندگی اور اجتماعی یعنی معاشرتی زندگی میں بھی اس با ت خیال رکھنا چاہیئے کہ کسی غلط راستے پر نہ چل نکلیں، یا اپنی زندگی میں کسی غلط نظریہ سے متاثر ہو کر اس کے پیرو نہ بن جائیں، یا پھر دشمن کی کسی چال میں آکر اسی کے ہدف کو پورا نہ کربیٹھیں۔ یعنی کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کام ہم انجام دے رہے ہیں وہ وہی کام ہو جو دشمن چاہتا ہو۔ معاشرتی زندگی میں اگر دشمن کی صحیح پہچان نہ رکھتے ہوں اور اس کی چالوں اور منصوبوں سے صحیح آشنائی نہ ہو تو ممکن ہے دشمن ایسا ماحول فراہم کرے یا ہمیں اپنے ہی کسی داخلی مخالف کے ساتھ اس طرح روبرو کر دے کہ اس دوران ہم وہی کام انجام دیں جو دشمن چاہتا ہو ۔
بصیرت عربی زبان کا لفظ ہے ، جو "بصر" سے نکلا ہے یعنی دیکھنا، راستے کی پہچان، کسی معاملے میں سوچ بچار اور غور و فکر کرنا۔
بصرتُ بما لم یبصروا بہ (لغت)
ترجمہ: میں نے دیکھا اس چیز کو کہ جس کو انہوں نے نہیں دیکھا ہوا تھا۔
تبصرّ فی الامر
ترجمہ: اس نے کسی چیز کو اپنی نگاہ میں رکھا، اس نے کوئی فکر کی، سوچ بچار کی، صحیح طور پر جانچ پڑتال کی۔
بصیرت، بصارت:
ترجمہ: دل کی بینائی، دل کی آنکھ۔
قُلْ هذِهِ سَبيلي أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصيرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَني وَ سُبْحانَ اللَّهِ وَ ما أَنَا مِنَ الْمُشْرِكين (یوسف، آیت ۱۰۸)
ترجمہ: "کہہ دو میرا رستہ تو یہ ہے میں خدا کی طرف بلاتا ہوں (یقین و برہان کی بناء پر) سمجھ بوجھ کر، میں بھی (لوگوں کو خدا کی طرف بلاتا ہوں) اور میرے پیرو بھی، اور خدا پاک ہے، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں"۔ خدا کی طرف بلاؤ اور خدا کی طرف جاؤ معرفت اور دل کی آنکھ کے ساتھ۔ پس اگر ہم "بصیرت" کو اردو میں ترجمہ کرنا چاہیں تو"فہم و فراست " کا لفظ اس کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یعنی مسائل کو صرف ان کے ظاہری انداز میں نہ دیکھنا بلکہ ان کی بنیاد اور اساس میں جا کر ان کا مطالعہ کرنا۔ بہت زیاد ہوشیاری سے کام لینا۔ ہمیں افراد، گروہوں، اندرونی اور بیرونی صورتحال پر بہت گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ صحیح طور پر پہچاننے، صحیح طور پر آگاہ ہونے، کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کے ہم دشمن کے میدان میں کھیل رہے ہوں۔ ان تمام باتوں کی پہچان کے بعد ہمیں اپنے "نفس" سے بھی ہو شیار رہنے کی ضرورت ہے، کہیں اپنا نفس ہی دھوکہ نہ دے بیٹھے، کہیں حسد اور نفس کے اندھے پن کے باعث غلط قدم نہ اٹھالیں۔ ان تمام باتوں کا خیال رکھنا یعنی بصیرت کے مطابق عمل کرنا ہے۔
بصیرت کی بنیادی شرائط:
بصیرت کے لئے دو بنیادی شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی کام کے انجام دینے میں یہ دو بنیادی شرائط موجود ہوں تو گویا وہ کام "بصیرت " سے انجام پایا ہے۔
ا۔ موجودہ صورتحال کی شرائط سے آگاہی:
یعنی ہمیں جاننا چاہیئے کہ ہم کن شرائط میں کام کر رہے ہیں؟ موجودہ معاشرے کی صورتحال کیا ہے۔ ہم موجودہ دور میں کن شرائط سے روبرو ہیں یعنی ہمارے زمانے کی موجودہ شرائط کیا ہیں؟ اور اسی طرح ہماری نسبت موجودہ سرزمین اور خطہ کے حوالے سے یعنی جس جگہ زندگی گزار رہے ہیں، کن شرائط کی حامل ہیں؟ خلاصہ یہ کہ بصیرت کی پہلی شرط، زمان اور مکان کی پہچان ہے۔
۲۔ معنوی پہلو کی طرف توجہ:
یعنی ہمیں متوجہ رہنا چاہیئے کہ اپنے عمل میں کہیں اپنے نفس یا ہوا و ہوس کا شکار تو نہیں ہیں۔ کام کو انجام دینے سے پہلے ذرا رک جائیں اور دیکھیں، یہ کام کسی سے حسد، ذاتی منفعت، گروہی تعصب، علاقائی امتیاز، یا کسی منفی صفت کی وجہ سے تو انجام نہیں پا رہا؟ کہیں ہم اپنے اس کام کے انجام دینے سے شیطان کے جال میں تو نہیں پھنس رہے؟ کہیں یہ کام دشمن کی منصوبہ بندی کا حصہ نہ ہو؟ ہمارے اس کام کے انجام دینے سے دشمن خوش ہو گا یا دوست؟ اور یہ کام امام زمانہ (عج) کی خوشنودی کا باعث بنے گا یا ان کی ناراضگی کا؟ یعنی اپنے کام میں خدا کی قربت اور اپنے ایمانی مسائل کو مدنظر رکھیں۔ بقول امام خمینی (رہ) ہمیں چاہیئے کہ ہر کام کو صرف خدا کی خاطر انجام دیں۔
دشمن شناسی میں بصیرت:
دشمن شناسی میں بصیرت کا معنا یہ ہے کہ ہمیں اپنے صحیح دشمن کی صحیح پہچان ہو۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ جو دشمن نہ ہو اس کو دشمن فرض کر لیا جائے اور اصل دشمن سے غافل رہیں۔ یا پھر صحیح دشمن کو جانتے تو ہوں لیکن اس کی صحیح پہچان نہ ہو۔ بعض اوقات ہم مخالف اور دشمن میں فرق کی پہچان نہیں کر پاتے۔ ہم نے دشمن شناسی کے مفہوم کے بیان میں کہا تھا کہ دشمن وہ ہوتا ہے جو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہو یا اگر نقصان کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو تو نقصان پہنچنے کی صورت میں بےپروا رہے اور یہ بات اس کے لئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث سبب نہ بنے لیکن مخالف ضروری نہیں ہے کہ ایسا ہی ہو۔ بعض اوقات مخالف کسی نظریہ یا کسی طریقہ کار کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے لیکن وہ ہمارا نقصان نہیں چاہتا۔ اپنی ظاہری مخالفت کی وجہ سے توجہ کا مرکز بن جاتا ہے لیکن دشمن اپنے اہداف کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اپنی شناخت کو چھپاتا ہے جس وجہ سے وہ آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے اور ایسی صورتحال میں ہم مخالف کو دشمن کی جگہ قرار دے دیتے ہیں۔
پس دشمن شناسی میں بصیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ سب سے صحیح دشمن کی پہچان کی جائے۔ دشمن شناسی میں بصیرت کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح دشمن کی صحیح پہچان کی جائے۔ یعنی ہماری دشمن کے متعلق معلومات اور اطلاعات درست ہوں۔ کمزور دشمن کو مضبوط اور مضبوط دشمن کو کمزور نہ سمجھ بیٹھیں۔ دشمن کے طریقہ کار اور اسکی چالوں اور منصوبوں کو صحیح انداز میں جانتے ہوں۔ دشمن کی طاقت کا صحیح اندازہ لگائیں۔ دشمن شناسی میں بصیرت کا تیسرا تقاضہ یہ ہے کہ اپنے دشمنوں کی درجہ بندی کریں۔ آپ فرض کریں ہم تین قسم کے دشمنوں کے روبرو ہیں۔ ایک وہ دشمن جو ہمارے اہداف اور نظریہ کا دشمن ہے۔ دوسرا وہ دشمن جو ہماری جان کا دشمن ہے ۔ تیسرا وہ دشمن جو ہمارے مال کا دشمن ہے۔ اب دشمن شناسی میں بصیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی اس طرح سے درجہ بندی کریں کہ ہمیں علم ہو ہمارا کونسا دشمن پہلے درجے کا دشمن ہے اور کونسا دوسرے درجہ کا۔ پھر ان تینوں طرح کے دشمنوں میں سے ہم نے کس سے سب سے پہلے نبرد آزما ہونا ہے ، آیا ان تینوں سے ایک ہی وقت میں مقابلے کی ضرورت ہے یا ان سے الگ الگ اوقات میں بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
دشمن شناسی میں بصیرت کا چوتھا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے داخلی دشمن یعنی نفس اور شیطان کی طرف بھی متوجہ رہیں۔ دشمن کے ساتھ دشمنی خدا کی خاطر ہو۔ یہاں امام علی (علیہ السلام) کے اس مشہور واقعہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جب جنگ خندق کے دوران آپ (ع) نے عمرو بن عبدود کو پچھاڑ دیا تو اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی، آپ نے اس کو چھوڑ کر میدان کا ایک چکر لگایا اور دوبارہ اس کو فی النار کیا۔ بعد میں پوچھنے والوں نے پوچھا کہ آپ نے کیوں پہلے اس کو چھوڑ دیا اور پھر بعد میں اس کو قتل کیا۔ تو امام (ع) نے فرمایا جب میں نے اس کو شکست دی تو اس نے میری شان میں گستاخی کی میں نہیں چاہتا تھا کہ اس کے قتل کرنے میں میرا ذاتی غصہ اور غیض و غضب بھی شامل ہو اسی لئے پہلے میں نے اس کو چھوڑ دیا اور پھر دوبارہ پلٹ کر صرف خدا کی خاطر اس کو قتل کیا۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
Add new comment