امام تقی (ع) اور مصری شیعہ
سوال :کیا مصر میں بھی امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ماننے والے موجود تھے؟
جواب : تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے : امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ایک مصری شاگرد علی بن اسباط جب آپ کی امامت کے شروع میں آپ کی زیارت کرنے کے لئے آئے تو آپ کو بہت ہی غور سے دیکھا تاکہ مصر واپس جاکر آپ کے ماننے والوں کو آپ کے متعلق بتائے ، اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں بھی امام کے چاہنے والے موجود تھے ۔
وہ کہتے ہیں : اس وقت مصر میں شیعوں کا نفوذ بہت سے محدثین جیسے محمد بن محمد بن اشعث، احمد بن سھل، حسین بن علی مصری اور اسماعیل بن موسی الکاظم کے ہجرت کرنے اور وہاں پر کارکردگی کی وجہ سے ہوا (١) (٢) ۔
١۔ ڈاکٹر حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدھم ، ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللھی،طبع اول، تہران، موسسہ امیرکبیر، ١٣٦٧ ھ.ش. ،صفحہ ٧٩۔
٢۔ مہدی پیشوائی کی کتاب سیرہ پیشوایان سے منقول ، صفحہ ٥٦٠ ۔
اس کے متعلق آپ کا نظریہ
امام جواد (علیہ السلام) کی امامت کے دوران مصر میں شیعوں کا نفوذ
سوال :مصر میں کس طرح شیعیت منتشر ہوئی ؟
جواب : تاریخی کتابوں میں ذکر ہوا ہے : امام محمد تقی (علیہ السلام) کے ایک مصری شاگرد علی بن اسباط جب آپ کی امامت کے شروع میں آپ کی زیارت کرنے کے لئے آئے تو آپ کو بہت ہی غور سے دیکھا تاکہ مصر واپس جاکر آپ کے ماننے والوں کو آپ کے متعلق بتائے ، اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں بھی امام کے چاہنے والے موجود تھے ۔
وہ کہتے ہیں : اس وقت مصر میں شیعوں کا نفوذ بہت سے محدثین جیسے محمد بن محمد بن اشعث، احمد بن سھل، حسین بن علی مصری اور اسماعیل بن موسی الکاظم کے ہجرت کرنے اور وہاں پر کارکردگی کی وجہ سے ہوا (١) (٢) ۔
١۔ ڈاکٹر حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدھم ، ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللھی،طبع اول، تہران، موسسہ امیرکبیر، ١٣٦٧ ھ.ش. ،صفحہ ٧٩۔
٢۔ مہدی پیشوائی کی کتاب سیرہ پیشوایان سے منقول ، صفحہ ٥٦٠ ۔
بنی عباس کے دربار میں امام جواد (علیہ السلام) کے شیعہ
سوال :کیا بنی عباس کے دربار میں امام جواد (علیہ السلام) کے پوشیدہ سپاہی موجود تھے ؟
جواب : امام جواد (علیہ السلام) اپنے چاہنے والوں کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ وہ حکومت میں اپنا اثر ور سوخ قائم کرکے حساس عہدوں کو حاصل کرلیں، اسی وجہ سے محمد بن اسماعیل بن بزیع اور احمد بن حمزہ قمی کو بنی عباس کی حکومت میں بہت بلند و بالامقام حاصل تھا ۔ نوح بن دراج بھی کچھ دن بغداد میں اور پھر کچھ دن کوفہ میں قاضی رہے ۔
دوسرے بعض شیعہ جیسے حسین بن عبداللہ نیشاپوری ، ""بُست"" اور ""سیستان"" کے حاکم تھے اور حکم بن علیا اسدی ، ""بحرین"" کے حاکم ہوئے ۔ یہ دونوں امام محمد تقی (علیہ السلام) کو خمس ادا کرتے تھے (١) (٢) ۔
١۔ ڈاکٹر حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدھم ، ترجمہ ڈاکٹر سید محمد تقی آیت اللھی،طبع اول، تہران، موسسہ امیرکبیر، ١٣٦٧ ھ.ش. ،صفحہ ٧٩۔
٢۔ مہدی پیشوائی کی کتاب سیرہ پیشوایان سے منقول ، صفحہ ٥٥٩ ۔
امام محمد تقی (علیہ السلام) کے زمانہ میں انجمن وکالت
سوال :امام جواد (علیہ السلام) مختلف علاقوں میں اپنے چاہنے والوں سے کس طرح ارتباط قائم کرتے تھے ؟
جواب : امام محمد تقی (علیہ السلام) اپنی تمام تر محدودیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے وکلاء اور نمایندوں کو مختلف علاقوں میں منصوب کرکے اپنے شیعوں سے ارتباط قائم رکھتے تھے ، عباسی خلیفہ کی پوری حکومت میں آپ نے اپنے نمائندہ بھیج رکھے تھے اور ان کی کارکردگی کی وجہ سے شیعہ طاقت کو منتشر ہونے سے بچاتے تھے ۔ امام علیہ السلام کے نمائندے بہت سے علاقوں جیسے اہواز، ہمدان، سیستان، بُست (١) رے، بصرہ، واسط، بغداداور شیعوں کے علاقوں یعنی کوفہ اور قم میں موجود تھے ۔
مرحوم کلینی نقل کرتے ہیں کہ امام محمد تقی (علیہ السلام) نے بُست اور سیستان کے کچھ شیعوں کی درخواست پر ان علاقوں کے حاکم کو خط لکھا کہ وہ مالیات (ٹیکس) لینے میں شیعوں سے سختی نہ کرے ، ان علاقوں کے حاکم چونکہ امام کے ماننے والے تھے لہذا انہوں نے ان کے ٹیکس کے قرضوں ہی کو صرف معاف نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ جب تک وہ یہاں کے حاکم ہیں ان سے خراج (ٹیکس) نہیں لیں گے ، اس کے علاوہ حکم دیا کہ ان کو ماہانہ خرچ بھی دیا جائے (٢) ۔ (٣)۔
١۔ ابوالفداء (٦٧٢ تا ٧٢١ ھ.ق.) نے لکھا ہے : بُست دریا کے کنارہ واقع ہے اوریہ سجستان (سیستان) کا ایک شہر ہے ۔ بہت بڑا اور نعمت سے سرشار شہر ہے ، اس میں کھجور کے درخت بہت زیادہ ہیں ۔ (تقويم البلدان، ترجمه عبد المحمد آيتى، انتشارات بنياد فرهنگ ايران، 1349 ه". ش، ص 391).
٢۔ فروع کافی، جلد 5، ص 111.
٣۔ گرد آوری از کتاب: سیره پیشوایان، مهدی پیشوائی، ص 559.
Add new comment