امریکی حکومت کا امریکی سینٹ سے ٹکراو

امریکا میں ایوان نمائندگان کے منظور کر دہ دو بلوں کو امریکی سینیٹ کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعدشدید بحران پیدا ہوگیا ہے ۔

خبررساں اداروں کے مطابق امریکا میں متعدد سرکاری ادارے بند ہوگئے ہیں۔ سرکاری سروسزکی بندش کی صورت میں پنشن کی فراہمی میں بھی تاخیرہوگی۔ تاہم صدر اوباما نے ایک بل پردستخط کردیے ہیں، جس کی رو سے فوج کوتنخواہ کی ادائیگی جاری رہے گی۔

دراصل یہ بحران اوباما ہیلتھ کئیر کے قانون پر ایوان اور سینیٹ میں اختلافات کی وجہ سے پیدا ہوا۔ امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین ہیلتھ کئیر کو بل میں شامل کرنے پر رضامند نہیں ہوئے اور بحث و مباحثے کے باوجود اختلاف قائم رہا، اور امریکا میں ایسا ہی شٹ ڈاؤن شروع ہوگیا ہے، جیسا کہ 17 سال قبل ہوا تھا۔ بہت سے سرکاری دفاتر بند ہو گئے ہیں،اور 8 لاکھ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جاسکی ہے۔

ریپبلکن پارٹی اور حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان جاری اس سیاسی کشمکش کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے پٹری سے اُترجانے کا خطرہ ظاہر ہوچکا ہے۔ ماہرین یہ اندیشے ظاہر کررہے ہیں کہ اگر بالفرض امریکی حکومت اور اپوزیشن جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کے درمیان اتفاقِ رائے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا تو چند برس قبل معاشی بحران سے باہرآنے والی امریکی معیشت دوبارہ کساد بازاری کے بھنور میں پھنس سکتی ہے۔

بہت سے مبصرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس مرتبہ ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے اراکین کے درمیان کشیدگی کچھ زیادہ محسوس ہورہی ہے۔ امریکی پارلیمنٹ کے لیے لازم ہے کہ وہ قومی بجٹ کو 30 ستمبر تک پاس کردے، تاکہ امورِ مملکت چلائے جاسکیں۔

گزشتہ چند سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بجٹ کے معاملے پر جب بھی حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان ٹکراؤ کی سی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس صورت میں عموماً کچھ محدود مدت کے بجٹ پاس کر دیے جاتے ہیں تاکہ ملکی امور میں رخنہ پیدا نہ ہوسکے۔

یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ سے کسی قسم کا کوئی بجٹ بھی پاس نہیں کیا گیا تو امریکی حکومت کے پاس نظام مملکت کو چلانے کے لیے شاید ایک ہفتے کے بعد بالکل بھی رقم نہیں ہوگی۔

چنانچہ جیسا کہ خبریں سامنے آرہی ہیں، تمام غیر ضروری ملازمین کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ امریکہ کے تقریباً 21 لاکھ سرکاری ملازمین میں سے تقریباً 7 لاکھ سے اوپر اسی زمرے میں آتے ہیں۔ صرف ہوائی اڈوں میں ہوائی ٹریفک کو منظم کرنے والے، فوجی اور بارڈر سکیورٹی فورس کے لوگوں کو چھوڑ تمام ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔

یہاں تک کہ امریکا کی وفاقی حکومت کی نگرانی میں قائم پارک بھی بند ہو گئے ہیں، اب حکومت نئے پاسپورٹ جاری نہیں کر پائےگی ، بلکہ یہاں تک کہ وہائٹ ہاؤس میں سے بھی کئی ملازمین کو کام پر نہ آنے کے لیے کہہ دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل دسمبر 1995ء میں 28 دن تک ایسی ہی صورتحال جاری رہی تھی، اس وقت امریکا کے صدر بل کلنٹن تھے۔ 2011ء میں بھی اسی طرز کی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا تھا، لیکن پھر معاملات کنٹرول میں آگئے تھے۔

اس مرتبہ یہ جھگڑا بنیادی طور پر صدر براک اوباما کی جانب سے صحت کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ریپبلکن پارٹی ان اصلاحات کی شدید مخالف ہے، اور کسی بھی صورت اس کا نفاذ نہیں چاہتی ہے۔ اوباما کی ان اصلاحات میں سے کئی ایک کو یکم اکتوبر ناٖفذ ہونا ہے۔ ریپبلکن پارٹی کا مؤقف ہے کہ حکومت کا کنٹرول کم سے کم شعبوں میں ہونا چاہیے، اور اس کو کم سے کم معاملات میں ملؤث ہونا چاہئیے۔

زیادہ سے زیادہ امریکی عوام کو طبی سہولتیں بہم پہنچانے کے ارادے کے تحت کی گئیں ان اصلاحات کو اوباما نے ریپبلکن پارٹی کے تعاون کے بغیر ہی پارلیمنٹ سے پاس کرا لیا تھا۔

ریپبلکن پارٹی کے اراکین ان اصلاحات کے پاس ہونے کے بعد سے 42 مرتبہ اس بل کو منسوخ کرنے یا اس میں وسیع تبدیلی کے لیے ووٹ ڈال چکے ہیں۔

اکثر ماہرین کا خیال ہےکہ وہائٹ ہاؤس اور پارلیمنٹ کے درمیان کوئی راستہ نکل آئے گا اور پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کم سے کم تین ماہ کے لیے تو بجٹ پاس کر ہی دیں گے۔ لیکن امریکہ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہو پایا اور سرکاری ادارے بند ہوگئے ہیں۔

شٹ ڈاؤن کے خطرے کو دیکھتے ہوئے صدر براک اوباما نے ممکنہ طریقوں پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ اے پی پی کے مطابق انہوں نے ایسے بل پر دستخط کر دیے ہیں جس سے شٹ ڈاؤن کے دوران بھی فوج کے لیے بجٹ مختص کیا جا سکے گا۔

بشکریہ عالمی اخبار

Add new comment