اجر بقلم قمر رضوی
اجر
قمر رضوی
تین سال پرانی بات ہے۔ میں ایک غیر ملکی فلاحی تنظیم سے منسلک تھا۔ ملازمت کی نوعیت کے پیشِ نظر میرا تبادلہ سکھر ہوگیا۔ لیکن کام کی غرض سے ارد گرد کے علاقوں میں کافی سفر کرنا پڑتا تھا۔ ایک مرتبہ کراچی کی جانب چکر لگا۔ ایامِ عزا چل رہے تھے اور اتفاق سے دن بھی جمعے کا تھا۔ نماز کے وقفے کے دوران میں نماز پڑھنے مسجد چلا گیا۔ جمعہ اور عصر کے دوران اعلانات کا وقفہ ہوا۔ ایامِ عزا ہونے کی بنا پر اعلانات بھی کافی تھے۔ دوسرے اعلانات پر تو اتنا دھیان نہیں گیا لیکن ایک اعلان نے روح میں بجلی سی بھر دی۔ اعلان کے مطابق امریکہ ا سے ایک بہت بڑے اور دیگر لوگوں کی مانند میرے بھی پسنیدیدہ عالم ایک مجلس سے خطاب کرنے کے لئےکراچی تشریف لا رہے تھے۔ انکا دورہ انتہائی مختصر تھا اس لئے وہ صرف اسی مجلس سے خطاب کے لئے یہاں آرہے تھے اور چند گھنٹوں قیام کے بعد انکی کسی اور ملک کی جانب روانگی تھی۔ اعلان سن کر میں بہت خوش ہوا لیکن یہ سوچ کر ساری خوشی ہوا ہوگئی کہ میں تو سکھر میں رہتا ہوں۔ اور جس دن وہ مجلس ہونا تھی، اس دن میرا قیام بھی سکھر میں ہی تھا۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا اور اعلان کرنے والے صاحب زور و شور سے اعلانات کرنے کے ساتھ ساتھ حاضرین کو کار ہائے خیر میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ خاص طور پر اس ایک مجلس کے لئے تعاون پر آمادہ کرنے کے لئے انہوں نے مؤمنین کو اجر و ثواب کی اس نہج پر پہنچا دیا کہ کوئی بھی اپنی جیب میں ہاتھ ڈالے بغیر رہ نہ سکا۔ ان کے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں تازہ ہیں کہ عزاداری وہ عبادت ہے کہ جسکے ثواب کا کوئی پیمانہ یا میزان نہیں ہے۔ اسی ذیل میں انہوں نے آیت اللہ ابراہیم امینی (رح) کا ایک واقعہ بھی سنایا۔ وہ واقعہ کچھ اسطرح سے تھا۔
آیت اللہ ابراہیم امینی (رح) کے فرزند نے ایک مرتبہ انہیں بعد از وصال خواب میں دیکھا۔ وہ جنت کے خوبصورت باغات میں انتہائی مسرور و مطمئن نظر آئے۔ بیٹے نے فوراً عرض کی کہ بابا جان! یہ مقام و مرتبہ مبارک ہو۔ آپکو تو اپنی شہرہ آفاق تالیف (الغدیر) پر یہ انعام مل گیا۔ ہم گناہگار کیا کریں؟ تو جواباً آقائے امینی نے فرمایا کہ نا بیٹا! ابھی تو الغدیر کے اجر کی باری ہی نہیں آئی۔ یہ تو وہ انعام ہے جو سیدالشہداء امام حسین (ع) کی زیارت کے صلے میں عطا ہوا ہے۔ بیٹے نے پھر سے مایوس ہوتے ہوئے استفسار کیا کہ جو امام حسین (ع) کی زیارت کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کیا وہ غریب اس اجر سے محروم رہے گا؟ آیت اللہ امینی (رح) نے جواب دیا کہ نہیں! جو اس عظیم عبادت کی استطاعت نہیں رکھتا، اسکے لئے فرشِ عزاء ہے۔ پس اسے چاہئے کہ مجلسِ عزائے حسینی میں شرکت کرے۔ خدا اس چیز سے بینیاز ہے کہ وہ اسے زیارتِ کربلا کا اجر عنایت فرما دے۔
یہ روح پرور واقعہ سنا کر ان صاحب نے اپنی گفتگو میں مزید اضافہ یہ کیا کہ صرف مجلس میں شرکت ہی نہیں، بلکہ اس سے متعلق کوئی بھی کام انجام دینا مثلاً روشنی کرنا، ہوا کا انتظام کرنا، پانی کا انتظام کرنا، عزاداران کے لئے نیاز کا اھتمام کرنا، دریاں بچھانا، حتٰی کہ چادروں کی سلوٹوں کو ٹھیک کرنا بھی ایسا عظیم اجر رکھتا ہے کہ اسے یا تو خدا جانتا ہے یا وہ ھستیاں جانتی ہیں کہ جنکا ذکر کیا جانا مقصود ہے۔ میرا اپنا یہ تجربہ ہے کہ جب کبھی میں نے اپنے مرحوم والد کے ایصالِ ثواب کی خاطر کسی مجلس کو سپانسر کیا ہے، میرے والد نے بھی خواب میں آکر ملنے والے تحائف کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سو مؤمنین سے میری التماس ہے کہ دامے، درمے، قدمے، سخنے تمام مجالس اور بالخصوص اس مجلس کو دل کھول کر سپانسر کریں کہ جس سے آپکے ہر دلعزیز عالمِ دین خطاب فرمائیں گے۔
میرا یہ عقیدہ ہی نہیں، بلکہ ایمان ہے کہ واقعاً ذکرِ سید الشہداء (ع) کے اجر و ثواب کا معاملہ آیت اللہ امینی (رح) کے واقعہ کے عین مطابق بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ یہ تو محض ہم کم فہموں کو سمجھانے کی خاطر تھا۔ چنانچہ دیگر مؤمنین کی مانند میں نے بھی اپنا بٹوہ نکالا اور اپنی استطاعت کے مطابق ہزار روپے والے دو نوٹ اس خواہش کے ساتھ چندے کی ٹوکری کی نذر کردئے کہ کاش میرے والد مرحوم بھی ان دوہزار روپوں کے بدلے ملنے والے ثواب کا احوال سنانے کسی روز خواب میں آجائیں۔۔۔۔
نماز سے فارغ ہوکر باہر نکلا تو صدقہ، خیرات اور بھیک مانگنے والوں کا ایک اژدھام تھا جو نمازیوں پر پِل پڑا تھا۔ میرا راستہ بھی ایک خاتون نے روکا اور ہاتھ جوڑ کی التجا کی کہ وہ اور اسکی یتیم بیٹی دونوں بیمار ہیں اور دوا اور کھانے کے لیئے کچھ نہیں ہے۔ میں نے بری طرح سے اس پیشہ ور بھکارن کو جھڑکا اور آگے بڑھ گیا۔
دفتر واپسی کے راستے میں میں یہ منصوبہ بندی کرنے لگا کہ ان عالم کی مجلس بھی ایک ہے اور وہ بھی اس دن جب کہ میں سکھر میں ہوں گا۔ کوئی ایسا سلسلہ بن جائے کہ اس دن میں کراچی میں ہی ہوں تو مسئلہ حل ہوجائیگا۔ چنانچہ دفتر پہنچ کر میں نے ان تاریخوں میں زبردستی کراچی کی مصرفیات گھڑنا شروع کردیں تاکہ میں کسی طرح سے مجلس میں پہنچ سکوں۔ لیکن یہ سوچ کر اس پر عمل نہ کرسکا کہ جھوٹ بول کر شرکت کی گئی مجلس کوئی اور مجلس تو ہوسکتی ہے، مجلسِ عزائے حسینی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ دماغ کو جھٹک کر معمول کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ چند روز بعد ہی مجلس کی مقررہ تاریخ مزید نزدیک آگئی اور میں نے سکھر سے ہی مجلس میں جانے کا ارادہ کیا۔ ایک مرتبہ پھر خیال آیا کہ دفتر کی گاڑی لے جاتا ہوں۔ ڈرائیور کو کسی اچھے سے ہوٹل میں کھانا بھی کھلا دوں گا اور کچھ پیسے بھی اسکی مٹھی میں تھما دوں گا۔ کسی کو کیا خبر ہوگی۔ لیکن ضمیر نے ایک مرتبہ پھر یاد دلایا کہ صراطِ مستقیم کے کام بھی مستقیم ہی ہوتے ہیں۔ ان میں ٹیڑھ نہیں ہوتا۔ ضمیر کے باوقت جھنجھوڑنے پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور مجلس میں جانے کی کوئی اور سبیل تلاش کرنے لگا۔ ان عالم کو سننے کے لئے میں ہمیشہ سے ہی بے تاب رہتا تھا اور اب کئی سال بعد انکا پاکتسان تشریف لانا ہوا تھا۔ نجانے پھر کب یہ سنہری موقع نصیب ہوتا۔۔۔ اس لئے میں نے ہر قیمت پر مجلس میں کراچی جانے کی ٹھان لی اور اگلے ہی لمحے رینٹ اے کار والوں کو فون کرکے کل کے لئے ایک گاڑی بُک کروا لی۔ بہت بحث و تمحیص کے بعد چار ہزار روپوں میں بات طے ہوئی اور میں اطمنان کی نیند سو گیا۔
اگلے دن دفتر سے چھٹی کرنے کے بعد میں مجلس میں جانے کے لئے تیار ہوا۔ مقررہ وقت پر گاڑی بھی آگئی۔ سفر چونکہ کچھ طویل تھا لیکن مجلس کا وقت کافی دیر کا تھا اس لئے آرام سے چلتے ہوئے ہم مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی امام بارگاہ پہنچ گئے۔ ایامِ غم میں بھی میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ تھا۔ ایک تو میں اپنے پسندیدہ عالم کو سننے کے لئے اتنی دور سے سفر کرکے آیا تھا۔ دوسرے اس عظیم عبادت کو بجا لانے کی جو روحانی خوشی مجھے مل رہی تھی، اس بنا پر میں اپنے آپ کو روحانی طور پر بہت بلند محسوس کررہا تھا۔ ساتھ ہی دل کے کسی کونے میں یہ خواہش کروٹیں لے رہی تھی کہ کاش مجھے بھی خواب میں اپنے والد کی زیارت ہوجائے۔ انکے انتقال کو دس سال بیت چکے تھے۔ میرے علاوہ تمام گھر والوں کو خواب میں نظر آچکے تھے۔ میں نے جب بھی کوئی نیک کام کرنا چاہا، اسکا ثواب انہی کی روح کو ایصال کیا لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ بھی میرے خواب میں تشریف لاتے۔ لیکن اس مرتبہ قوی امید تھی کہ اس عظیم مقصد پر کاٹی گئی مشقت اور خرچ کئے گئے چھ ہزار روپے ضرور کسی خوبصورت نتیجے کا روپ دھاریں گے۔ یہ سب کچھ سوچ کر میں دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے اس فرشِ عزاء کی سفید چاندنی پر جابیٹھا جسکی سلوٹوں کو دور کرنا بھی اجرِ عظیم کا باعث تھا۔ کچھ دیر بعد میرے سامنے منبر پر وہ شخصیت براجمان تھی کہ جسکے خطاب کو سننے کے لئے ایک دنیا بیتاب رہتی تھی۔ میں بھی ہزاروں عزاداران میں سے ایک تھا جو بہت دور سے صرف انکو سننے کے لئے آیا تھا، سو میں اپنے آپ کو دیگر عزاداران سے افضل محسوس کرنے لگا۔ اسی احساس کے تحت میں روحانی فضاؤں میں پرواز کرنے لگا۔ عالم اپنا خطاب جاری رکھے ہوئے تھے۔ سامعین و حاضرین داد و تحسین اور نعروں کے تحائف لٹا رہے تھے۔ جبکہ میں اجروثواب کے پیچ و خم میں الجھا ہوا خود پسندی کی منازل طے کررہا تھا کہ مجلس اختتام پذیر ہوگئی۔
مجھے افسوس ہونے لگا کہ اس مجلس کے لئے کتنا انتظار کیا تھا اور یہاں تک آنے اور واپس جانے کے لئے کتنی صعوبت کاٹی تھی لیکن مجلس تھوڑی دیر میں اختتام پذیر بھی ہوگئی۔۔۔ لیکن مجھے اس چیز کا انبساط بہر حال تھا کہ اپنے تئیں جو میں کرسکتا تھا سو کیا۔ خدا سے دعا کی کہ وہ میری اس سعی کو شرفِ قبولیت بخشے اور مجھے اپنے مرحومین کے ایصالِ ثواب کے ایسے مزید مواقع مہیا فرمائے۔
واپسی پر میں مجلس کے نکات کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا تاکہ تازہ تازہ حاصل کئے گئے اپنے علم کو مستحکم بھی کروں اور بعد میں ہونے والی ملاقاتوں میں دیگر لوگوں کو بھی بتا سکوں۔ ٹیک لگا کر زرا سی دیر کو سستانے کے لئے آنکھیں موندیں تو خیالات میں ابا جان شکریہ ادا کرتے نظر آئے۔ میں زیرِ لب مسکرانے لگا۔ لیکن یہ تو محض میرا ذاتی خیال تھا۔ پھر بھی مجھے ایک امید تھی کہ وہ خواب میں ضرور تشریف لائیں گے۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔ میں روزانہ اسی امید پر سوتا اور ساری رات عجیب و غریب جگہوں کی سیریں کرتا اور عجیب و غریب مناظر کو دیکھتا ہوا اگلی صبح بیدار ہوجاتا لیکن ابا جان نے تو جیسے آنکھیں ہی پھیر لی تھیں۔ میں بھی اپنی معمول کی زندگی میں مصروف ہو گیا۔ ایامِ عزاء بھی ختم ہوگئے اور دیگر امور کی مانند مجلس کا یہ سفر بھی میری یادداشت سے آہستہ آہستہ معدوم ہوتا چلا گیا۔
چند مہینوں بعد ایک مرتبہ پھر کراچی چکر لگا۔ اتفاق تھا یا کچھ اور کہ دن بھی جمعے کا تھا۔ میں جمعہ پڑھنے کی نیت سے مسجد گیا۔ نماز سے فارغ ہوکر باہر نکلا تو ہمیشہ کی طرح بھکاریوں کا اژدھام تھا۔ وہ " پیشہ ور بھکارن" جس نے پچھلی مرتبہ اپنی یتیم اور بیمار بیٹی کے ہمراہ میرا دامن پکڑا تھا، آج ایک درخت کے نیچے تنہا بیٹھی تھی۔ میں بے دھیانی سے چلتا ہوا دفتر واپس آیا اور معمول کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ دن بھر کا سفر اور دفتر کی کمرتوڑ مشقت کے بعد رات کو گہری نیند سو گیا۔ فجر کے آس پاس ڈرا اور چیخ مار کر اٹھ بیٹھا۔
ابا جان خواب میں آئے تھے۔ انکے ہاتھ میں ہزار روپے والے کچھ نوٹ تھے اور وہ ایک بچی کے جنازے کے سرہانے غمگین بیٹھے تھے۔
--
Add new comment