قرطاس و قلم کا واقعہ

حجة الاسلام سعید داودی
ترجمہ: سید ذیشان حیدر نقوی

۱۔ حدیث قلم و دوات کی سند
اس کی داستان اس طرح ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی عمر کے آخری ایام میں کچھ اصحاب عیادت کے لئے آپ کے پاس تشریف لائے ، تو آپ نے فرمایا: ”میرے لئے قلم و دوات لاؤ ! میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھنا چاہتا ہوں جس کے بعدتم ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔“لیکن بعض اصحاب نے آپ کے حکم کی مخالفت شروع کی اور یہ نوشتہ لکھنے میں مانع بن گئے ۔
اس حدیث کو صحیح بخاری (۱) میں چھ مقامات اور صحیح مسلم (۲) میں تین مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ،یہ دونوں کتابیں اھل سنت کی معتبر روائی کتابیں ہیں ۔
اس داستان کا ابتدائی حصہ مسلم نے اپنی صحیح میں اس طرح بیان کیا ہے:
سعید بن جبیر کا بیان ہے: ابن عباس نے کہا: یوم الخمیس و ما یوم الخمیس، ثم جعل تسیل دوموعہ حتی راٴیت علی خدیہ کانھا نظام اللو ء لو، قال : قال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)ائتونی بالکتف والدواة ۔او اللوح والدواة ۔اکتب لکم کتابا لن تضلوا بعدہ ابدا؛جمعرات کا دن کیسادردناک دن تھا(۳) یہ کہہ کر ابن عباس رونے لگے یہاں تک کہ ان کے انسو مروارید کی مانند رخساروں تک آگے ۔اور کہا کہ رسول خدا نے فرمایا: ”میرے لئے قلم و دوات لایا جائے تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسا نوشتہ تحریر کر دوں جس کے بعد تم ہر گز گمراہ نہ ہوگے...“(۴) ۔
اس داستان کے ابتدائی مرحلے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو اصحاب اس وقت آپ کی خدمت میں موجود تھے ، انہوں نے آپ سے محبت و الفت کی بنیاد پر آپ کی اس خواہش کے مطابق قلم و دوات کو حاضر کیا ، تاکہ آپ ان کے لئے وصیت نامہ تحریر فرمائیں؛ اس لئے کہ ایک طرف پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی اطاعت سب پر واجب تھی ، اور دوسری جانب یہ نوشتہ ابدی ھدایت اور گمراہی سے نجات کا سبب تھا، اور تیسری جانب چونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) مریض تھے اور آپ دنیا کو خیر باد کہنے والے تھے لہذا ایسے موقع پر آپ جو کچھ بھی فرماتے وہ جامع کلمات مخصوص ھدایت کی طرف راہنمائی کرتے ،اس لئے بغیر چون و چرا کے آپ کے حکم کی تعمیل کرنا چاہیے تھی ، اور وقت کے جانے سے پہلے قلم و دوات حاضر کرنا چاہیے تھا ؛ لیکن تعجب کا مقام یہ ہے کہ اس وقت بعض اصحاب اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو گئے ۔
در حقیقت بعض افراد کا رد عمل یقین آور نہیں ہے لیکن حقیقت یہی ہے، چونکہ اس کا تذکرہ صحیح کتابوں اور تاریخ کی معروف کتابوں آیا ہے ۔
اس روایت کے مطابق ، آں حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی موجودگی میں یہ اختلاف اور نزاع شروع ہوگیا تھا، بعض کہتے تھے کہ قلم و دوات لایا جائے ، بعض کہہ رہے تھے ،اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جن لوگوں نے قلم و دوات لانے کی مخالفت کی تھی ان کے نام بعض روایتوں میں ذکر نہیں ہوئے ہیں (۵) لیکن بعض دوسری روایتوں میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت عمر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوگئے ۔
من جملہ کتابوں میں صحیح بخاری میںبیان کیا گیا ہے: جب رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے قلم و دوات کا مطالبہ کیا تو عمر نے کہا : ” ان النبی غلب علیہ الوجع !! و عندکم القرآن ، حسبنا کتاب اللہ “؛ پیغمبر پر بیماری کا غلبہ ہے (جس کی وجہ سے قلم و دوات کا مطالبہ کر رہے ہیں )جبکہ قرآن تمہارے پاس ہے ،ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے ۔(۶)
بخاری نے دوسری جگہ اپنی ایک کتاب میں عمر کے بارے میں اس بات کو ذرا سے فرق کے ساتھ ذکر کیا ہے؛اور لکھتے ہیں:ابن عباس کا بیان ہے : جس وقت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی بیماری نے شدت اختیار کی توآپ نے فرمایا: ائتونی بکتاب اکتب لکم کتابا لا تضلوا بعدہ، قال عمر:ان النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) غلب علیہ الوجع و عندنا کتاب اللہ حسبنا ؛ میرے لئے ایک کاغذ لایا جائے تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوگے ۔عمر نے کہاکہ نبی پر بیماری غالب ہو گئی ہے ، کتاب خدا کافی ہے ،جو کہ ہمارے پاس ہے(۷) ۔
صحیح مسلم میں بھی تین مقامات میں ایک مقام پرمخالفت کرنے والے کا نام عمر ذکر کیا ہے ۔ (۸) ۔
ولی با توجہ بہ شباھت دیگر گفتارھا با یکدیگر د کہ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ عمرنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے قول کی مخالفت کی ہے ۔اگر کسی روایت میں ” فقالوا“ یا ”فقال بعضھم “ آیا ہے تو ظاہر ہے کہ اس وصیت نامہ لکھنے کی مخالفت کرنے والوں میں ایک حضرت عمر بھی تھے ۔
جیسا کہ اس بات کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے کہ اس داستان کو بخاری نے چھ مقامات پر اور مسلم نے تین مقامات پر اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، اور ان روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کی اس مخالفت پر کچھ لوگوں نے عمر کی حمایت کی اور بعض افراد ان کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو گئے ۔
اس واقعے کو اھل سنت کے دوسرے بہت سے دانشمند افراد نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے(۱۱)لیکن ہم صرف ان روایات کومورد بحث قرار دے رہے ہیں جنہیں صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ذکر کیا گیا ہے ، چونکہ یہ دونوں کتابیں اھل سنت کی صحیح ترین کتابیں شمار کی جاتی ہیں ۔

۲۔وہ تعبیرات جو رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی مخالفت میں کہی گئی ہیں ۔
ہم اس مقام پر تنھا ان کلمات کے بارے میں گفتگو کریں گے جو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے فرمان کی مخالفت میں کہے گئے ہیں،اورہم اس بات کو مکرر بیان کریں گے کہ یہ تمام امور بھی صحیح بخاری اور مسلم میں موجود ہیں ۔
ایک مقام پر اس طرح آیا ” فقال بعضھم: ان رسول اللہ قد غلب علیہ الوجع ، عندکم القرآن ، حسبنا کتاب اللہ “(۱۲)
اور دوسرے الفاظ میں اس آیا ہے :” فقال عمر : ان رسول اللہ قد غلب علیہ الوجع ، و عند کم القرآن ، حسبنا کتاب اللہ“(۱۳)
اور ایک دوسرے مقام پر ان جیسے الفاظ میں اس طرح بیا ن کیا گیا :” فقال عمر : ان النبی قد غلب علیہ الوجع ، وعندکم القرآن ، حسبنا کتاب اللہ“(۱۴)
اور ایک جگہ اس طرح نقل کیا گیا ہے : ” قال عمر: ان النبی غلب علیہ الوجع ، و عندنا کتاب اللہ حسبنا “(۱۵)
ان تمام تعبیرات کے مطابق عمر نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو نوشتہ لکھنے سے روکنے کے لئے اس طرح کہا:”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) پر بیماری کا غلبہ ہے ( نعوذ باللہ وہ نہیں جانتے کہ کیا کہہ رہے ہیں)اور قرآن جو تمہارے پاس ہے ،ہماری اور تمہاری ھدایت کے لئے کافی ہے ۔
اس کے علاوہ پانچ مقامات پر لفظ ”ھجر“ (نعوذ باللہ ھذیان بکنا) کا استعمال کیا گیا ہے، اگرچہ بعض جگہ اس کو سوالیہ انداز میں اور ایک مقام پر خبر کے طور پر استعمال کیا گیا ۔
ایک جگہ اس طرح آیا ہے : فقالوا: اھجر رسول اللہ (۱۶) اور دو جگہوں پر اس طرح آیا :” فقالوا ماشانہ ؟ اھجر ؟استفھموہ (۱۷) ۔
اھل لغت بھی جب ا س لفظ کوبیمار کے لئے استعمال کرتے ہیں تو ”ھذیان بکنے “کے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔فیومی نے مصباح المنیر میں لکھا ہے :” ھجر المریض فی کلامہ ھجرا ایضا خلط و ھذی؛بیمار نے اپنی گفتگو میں ھذیا ن بکا، یعنی غیر مربوط باتیں کیں اور ھذیان بکااور بے سر و پیر کی باتیں کیں“(۱۸) ۔
اور لسان العرب میں بھی اس طرح آیاہے: ”الھجر : الھذیان والھجر بالضم: الاسم من الاھجار و ھو الافحاش و ھجر فی نومہ و مرضہ یھجر ھجرا:ھذی“ھجر ھذیان بکنے کے معنی میں ہے اور ھجر ضمہ کے ساتھ اسم مصدر ہے اور نا مناسب سخن کے معنی میں ہے،اور جب اس لفظ کو کسی سوئے ہوئے یا بیمار آدمی کے لئے استعمال کیا جاتاہے تو اس کے معنی یہ ہیں :اس نے خواب میں یا بیماری کے عالم میں ھذیان بکا، اور غیر مربوط الفاظ کہے(۱۹) ۔
سچ تو یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) جو اللہ کے بھیجے ہوئے نمائندے ، خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان رابط کی حیثیت رکھتے ہیں ،یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اپنی زبان پر اس طرح کے کلمات جاری فرمائیں ۔؟!! جبکہ قرآن آپ کی شان اس طرح بیان کرتا ہے:” ما ینطق عن الھواء “ (وہ اپنی مرضی سے کبھی کلام نہیں کرتے “(۲۰)اور ” وما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا “ (رسول جوبھی تمہیں عطا کرے اسے لئے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے باز رہو)(۲۱)اور دوسری جگہ آپ کی شان اس طرح بیان کرتا ہے کہ ” فالیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنة او یصیبم عذاب الیم“ جو لوگ اس کے حکم کی نا فرمانی کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں فتنہ ان کے دامن گیر نہ ہو جائے، یا دردناک عذاب ان تک نہ پہنچ جائے(۲۲) ۔

۳۔ آپ کے حضور میں اختلاف اور نزاع
ان تمام نا زیبا گفتگو کے علاوہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے محضر مبارک میں بعض اصحاب نے اختلاف ، نزاع اور کشمکش کا ماحول پیدا کیا گیا، ایک گروہ نے عمر کی حمایت کی جبکہ دوسری طرف لوگوں کا ایک گروہ عمر کی مخالفت کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو وصیت نامہ لکھنے دیا جائے ۔
جیسا کہ صحیح بخاری کی بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے : ” فاختلفوا و کثر اللغط “؛ انہوں نے (حضور(ص) کی موجودگی میں) جھگڑا اور شور و غل شروع کردیا(۲۳) ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی چار روایتوں میں آیا ہے :” فتنازعوا ولاینبغی عند النبی تنازع “انہوں نے جھگڑا اور شورو غل کیا ،جبکہ ان کا یہ عمل پیغمبر کی موجودگی میں مناسب نہیں تھا ۔(۲۴) ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی تین روایتوں میں معمولی سے اختلاف کے ساتھ اس طرح نقل ہوا ہے : فاختلف اھل البیت فاختصموا ، فکان منھم من یقول:قربوا یکتب لکم النبی کتابا لن تضلوا بعدہ ، و منھم من یقول ما قال عمر ؛ گھر میں جو لوگ تھے ان میں اختلاف ہوا اور ایک دوسرے سے لڑنے لگے ، ان میں کچھ لوگ کہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے لئے قلم دوات لاؤ تاکہ وہ تمہارے نوشتہ لکھیں جس کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ عمر کی بات کو دہرا رہے تھے(کہ پیغمبر پر بیماری کا غلبہ ہے )(۲۵) ۔
یہ تمام مطالب مکمل طور پر اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ لوگوں نے اس طرح کی باتوں کے ذریعے پیغمبر کے حضور میں جھگڑا اور اختلاف کا ماحول پیدا کیا ۔

۴۔نزاع کے وقت پیغمبر کا رد عمل
اصحاب کے نازیبا عمل اور آپس میں جھگڑے کے مقابلے میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے جو رد عمل پیش کیا وہ قابل غور ہے، صحیح بخاری اور مسلم کے مطابق دو قسم کے رد عمل پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے پیش فرمائے :
۱۔آپ نے فرمایا: قوموا عنی ولا ینبغی عندی تنازع ؛میرے پاس سے چلے جاؤ (دورہو جاؤ) میرے حضور میں اختلاف اور نزاع مناسب نہیں ہے(۲۶) ۔
ان الفاظ کے ذریعے اصحاب کے اس نازیبا عمل اور کردار سے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا ناراض ہونا ظاہر ہوتا ہے ۔
۲۔ جس وقت اختلاف اور جھگڑا شروع ہوا اور پیغمبر کو نازیبا الفاظ کہے جانے لگے تو آپ نے فرمایا: ” ذرونی فالذی انا فیہ خیر مما تدعونی الیہ “ ، مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اس لئے کہ میں جس حال میں ہوں (جب آپ آخری وقت میں اپنے رب کو یاد فرمارہے تھے)اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم مجھے (نازیبا الفاظ کے ذریعہ )پکار رہے ہو(۲۷) ۔

۵۔ابن عباس کے حزن و ملا ل کا سبب کیا تھا؟
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی پانچ روایتوں کے مطابق ،جس وقت ابن عباس اس روز کی داستان کو بیان کرنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے افسوس کا اظہار کرتے ہیں اس کے بعد اس دن کے واقعے کو بیان کرتے ہیں، مثال کے طورپر صحیح بخاری کی روایت ہے کہ سعید بن جبیر کہتا ہے کہ ابن عباس کہتے تھے : ” یوم الخمیس و ما یوم الخمیس؛ جمعرات کا دن کیسادرد ناک دن تھا ؟! اس کے بعد سعید بن جبیر اضافہ کرتے ہیں کہ ثم بکی حتی بل دمعہ الحصی؛ اس کے بعد ابن عباس رونے لگے اور اتنا روئے کہ ان کے آنسو زمین کے کے سنگریزوں پر گرنے لگے(۲۸) ۔
ظاہر ہے ابن عباس کا افسوس اور ان کے فراوان اشکوں کا سبب پیغمبر کی توہین اور آپ کو نوشتہ تحریر کرنے سے باز رکھنا تھا، اس لئے کہ اگر پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نوشتہ تحریر فرماتے تو امت آپ کے بعد گمراہی سے محفوظ ہو جاتی۔
اس حادثے کے بارے میں صحیح بخاری اور مسلم کی دیگر چار روایتوں میں آیا ہے :ابن عباس اس حادثے کو نقل کرنے کے بعد آخر میں اس بات پر بہت زیادہ اظہار تاسف کرتے ہیں کہ لوگوں نے پیغمبر کو نوشتہ تحریر کرنے سے باز رکھا ۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے جسے عبید اللہ بن عبد اللہ ، ابن عباس سے نقل کرتے ہیں ، ابوعبید اللہ کہتا ہے کہ ابن عباس اس دن کے حادثے کی تفصیل اور پیغمبر کو وصیت لکھنے سے باز رکھنے کے بارے میں بیان کرنے کے بعد ہمیشہ کہتے تھے: ان الرزیة کل الرزیة ما حال بین رسول اللہ و بین ان یکتب لھم ذلک الکتاب ، من اختلافھم و لغطھم ؛مصیبت اوربھاری نقصان کا مقام ہے، در حقیقت مکمل نقصان یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اختلاف ،ھنگامے اور نزاع کے سبب پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو وصیت لکھنے نہیں دی(۲۹) ۔

۶۔ کیا اس قسم کے الفاظ کی نسبت پیغمبر کی طرف دی جا سکتی ہے ؟
صحیح بخاری اور مسلم کے شارحین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) چاہے بیمار ہوں یا صحت مند، ہر حال میں معصوم ہیں ۔
ابن حجر عسقلانی ”قرطبی “ سے نقل کرتے ہیں :اس حدیث میں ”ھجر“ سے مراد بیمار انسان کا کلام ہے جو صحیح کلام نہیں کرتا ہے، اس لئے اس کے کلام کو اہمیت نہیں دی جاتی ، اس کے بعد وہ اضافہ کرتے ہیں: ووقوع ذلک من النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) مستحیل لانہ معصوم فی صحتہ و مرضہ ، لقولہ تعالی ”وما ینطق عن الھوی“ و لقولہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ”انی لا اقول فی الغضب و الرضا الا حقا “؛ اس طرح کا کلام یا ھذیان بکنا پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی ذات گرامی کے لئے محال ہے ؛ اس لئے کہ آنحضرت بیماری اور سلامتی دونوں حال میں معصوم ہیں ۔چونکہ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کی شان میں فرماتا ہے : ”وہ (پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ) اپنی ھوا و ہوس کے مطابق کوئی بھی کلام نہیں کرتا“ اور خود رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اپنے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتے ہیں:--”میں چاہے غم کے عالم میں ہوں یا خوشی و مسرت کے، سوائے حق کے کوئی کلام نہیں کرتا “(۳۰) ۔
بدر الدین عینی بھی کتاب ”عمدة الباری “میں جو صحیح بخاری کی شرح ہے ، بعینہ اس مطلب کو بیان کرتے ہیں(۳۱) ۔
معروف دانشمند ”نووی“ صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:” اعلم ان النبی معصوم من الکذب و من تغییر شئی من الاحکام الشرعیة فی حال صحتہ و حال مرضہ“؛ یاد رکھو! نبی کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے ، اور نہ ہی کسی حکم شرعی کو بدلتا ہے چاہے وہ بیمار ہو یا صحت مند(۳۲) ۔
متعدد آیات جن کا اشارہ سابق میں کیا جا چکا ہے ، ساتھ ساتھ یہ تمام شواھد اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کا مقام اس بات سے کہیں بلند کہ وہ اپنی زندگی کے کسی گوشے میں اس قسم کے نازیبا الفاظ اپنی زبان پر لائیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اھل سنت کے بعض علماء نے اس مسلم مسئلے کی توجیھات پیش کی ہیں جو یقینا ایک تعجب خیز امر ہے ۔!!
جبکہ یہ مسئلہ اس قدر واضح اور روشن ہے کہ اس کی توجیہ نہیں کی جاسکتی ، اگر چہ بہترتھا ان تمام غیر منطقی توجیھات کے بجائے اپنی پیش داوری کے قطع نظر یہ کہتے کہ ایک بڑی غلطی فلاں شخص سے سر زد ہوئی ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ان سے خطا ممکن ہے ، چونکہ وہ معصوم نہیں ہیں ۔
جیسا کہ کتاب ”فتح الباری فی شرح صحیح البخاری“ جو اھل سنت بھائیوں کی ایک اھم کتاب ہے اس میں اس طرح نقل کیا گیا ہے:”علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عمر کا یہ قول”حسبنا کتاب اللہ (قرآن ہمارے لئے کافی ہے) ان کی قوی فقہ اور دقت نظر کی طرف نشاندھی کرتاہے!!“(۳۳)سوال یہ ہے کہ کیا ان کا یہ جملہ”پیغمبر پر بیماری کا غلبہ ہے“ بھی ان کی قوت فقہ اور دقت نظر کی طرف اشارہ کرتا ہے؟!
اس کے علاوہ کیا کتاب خدا بغیر سنت پیغمبر کے کافی ہو سکتی ہے ؟ جبکہ نماز کی رکعتوں کی تعداد ، زکاة کا نصاب، طواف کی تعد اد ،سعی کی تعداد اور اس کے علاوہ بہت سے احکام جن کو صرف سنت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے ذریعے سمجھا گیا ہے، (کیا ان تمام امور کی نفی ان کے قوت فقہ اور دقت نظر کی دلیل ہے؟)کیا واقعیت کا اعتراف ان تمام غیر منطقی توجیھات سے بہتر نہیں ہے؟

۷ ۔مھم ترین مسئلہ !
اگر ان تمام نا مناسب اور حیرت انگیز واقعات کا مطالعہ کریں جن کو کتاب صحیح بخاری میں چھ مقام پر اور صحیح مسلم میں تین مقام پر ذکر کیا گیا ہے تو ایک اھم سوال یہ پیش آتا ہے ، کہ آخر وہ کون سی مھم چیز تھی جس کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)لکھنا چاہتے تھے؟(یا وہ کون سا حکم تھا جس کو آپ لوگوں تک پہنچانا چاہتے تھے؟) جس کے نتیجے میںآپ کو اس قدر شدید مخالف کا سامنا کرنا پڑا ؟!
۱۔یقیقنا اس امر کا تعلق پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کی آخری زندگی سے تھا ۔
۲۔مسئلہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا ، کہ اگر اس پر عمل کیا جاتا تو ہر قسم کی گمراہی اور اختلاف سے محفوظ رہا جا سکتا تھا ۔
۳۔ظاہر ا یہ مسئلہ بعض اصحاب جو اس وقت پیغمبر کے حضور میں موجود تھے ان کے لئے خوشایند کا باعث نہیں تھا ۔اوروہ اس کے مخالف تھے ۔
ہم اگر غور کریں تو قاری عزیز کو حتما اس بات کا تبادر ہوگا کہ یہ مسئلہ سوائے مسئلہ خلافت و ولایت کے کچھ اور نہیں ہو سکتا ، کس کی خلافت ؟ علی علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کی خلافت ؟!
ہم اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) جب علی( علیہ السلام) کی ولایت کا تعارف امت کو مختلف بیانات خصوصا غدیر کے واقعے کے ذریعے ،کرا چکے تھے، اور چاہتے تھے کہ امر امامت و خلافت کو آپ کے لئے ثابت کریں ۔اس کے علاوہ اس کی جانب پیغمبر کی دیگر احادیث جیسے حدیث ثقلین جو آپ نے اپنی عترت کے بارے میں ارشاد فرمائی تھی اشاری کرتی ہیں ،ان تمام باتوں کے مدنظر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات میں خداوند عالم کی رضا کے مطابق حدیث غدیر اور حدیث ثقلین کے بارے میں کوئی نوشتہ تحریر کرنا چاہتے تھے ۔
قاری عزیز ! مزید ایک بار اور اس مقالے کا مطالعہ کریں ،ہم کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے بہتر ہے کہ پڑھنے والا خود فیصلہ کرے ۔
والسلام علی من اتبع الھدی
محرم الحرام ۱۴۲۹ ھ۔ق
دی ماہ ۱۳۸۶.
1 . صحیح بخارى، کتاب العلم، باب 39 (باب کتابة العلم)، حدیث 4; کتاب الجهاد والسیر; باب 175، ح 1; کتاب الجزیة، باب 6، حدیث 2; کتاب المغازى، باب 84 (باب مرض النبى ووفاته)، ح 4; سابقہ باب، ح 5; کتاب المرضى، باب 17 (باب قول المریض قوموا عنى)، حدیث 1 .
2 . صحیح مسلم; کتاب الوصیة،باب6، ح 6; سابقہ باب، ح 7; سابقہ باب، حدیث 8.
3 . ا یہ واقعہ جمعرات کے دن پیش آیا، طبری کے مطابق پیر کے روز پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیا سے رخصت ہوئے (یعنی اس واقعے کے چار دن کے بعد ). طبری سن گیارہ ھجری کے واقعات کے بارے میں لکھتے ہیں : تمام مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت ہوئی وہ پیر کا دن تھا ۔ فتح الباری میں بھی ابن حجر لکھتے ہیں آن حضرت جمعرات کے دن بیمار ہوئے اور پیر کے دن اس دنیا سے رخصت ہو گئے. (جلد 7، صفحہ 739) .
4 . صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 7 .
5 . صحیح بخارى، کتاب الجهاد و السیر، باب 175، حدیث 1; کتاب الجزیه، باب 6، حدیث 2; کتاب المغازى، باب 84 (باب مرض النبى و وفاته)، حدیث 4 و 5; صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 6 و 7 .
6 . صحیح بخارى،کتاب المرضى،باب17 (باب قول المریض قوموا عنى)، حدیث 1.
7 . همان مدرک، کتاب العلم، باب 39 (باب کتابة العلم)، حدیث 4 .
8 . صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 8 .
9 . صحیح بخارى، کتاب المغازى، باب 84، حدیث 4 و صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 6 و 7 .
10 . صحیح بخارى، کتاب المغازى، باب 84، حدیث 5 .
11 . مراجعہ کریں: مسنداحمد، ج 1، صفحہ 222، 293، 324، 325 و 355; ج 3، صفحہ 346; مسند ابى یعلى، ج 3، صفحہ 395; صحیح ابن حبان، جلد 8، ص 201; تاریخ طبرى، جلد 3، ص 193; کامل ابن اثیر، جلد 2، صفحہ 185 اور دیگر کتابیں .
12 . صحیح بخارى، کتاب المغازى، باب 84، حدیث 5 .
13 . صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 8 .
14 . صحیح بخارى، کتاب المرضى، باب 17، حدیث 1 .
15 . سابقہ حوالہ، کتاب العلم، باب 39 (باب کتابة العلم)، حدیث 4 .
16 . صحیح بخارى، کتاب الجهاد و السیر، باب 175، حدیث 1 .
17 . سابقہ حوالہ، کتاب المغازى، باب 84، حدیث 4 و صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 6 .
18 . مصباح المنیر، لفظ هجر.
19 . لسان العرب، لفظ هجر.
20 . نجم، آیه 3 .
21 . حشر، آیه 7 .
22 . نور، آیه 63. ابن کثیر لکھتے ہیں: «ضمیر «امره» رسول خدا (صلى الله علیه وآله و سلم) کی طرف پلٹتی ہے» اور مزید لکھتے ہیں قرآن مجید میں اعلان ہوتا ہے : (أَنْ تُصِیبَهُمْ فِتْنَةٌ) اس کے بعد لکھتے ہیں : «اى فى قلوبهم من کفر او نفاق او بدعة; (رسول اللہ کی مخالفت فتنہ کا سبب بنتی ہے ) یعنی اس قسم کے لوگوں کے دل کفر، نفاق ، اور بدعت کے شکار ہو جاتے ہیں ». (تفسیر ابن کثیر، جلد 5، صفحہ 131)
23 . صحیح بخارى، کتاب العلم، باب 39، حدیث 4 .
24 . صحیح بخارى، کتاب الجهاد والسیر،باب175، حدیث 1;کتاب المغازى،باب 84، حدیث 4; کتاب الجزیه، باب 6، حدیث 2; صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 6.
25 . صحیح بخارى، کتاب المرضى، باب 17، ح 1; کتاب المغازى، باب 84، ح5; صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 8.
26 . صحیح بخارى، کتاب العلم، باب 39، حدیث 4. بعض روایتوں میں تنھا لفظ «قوموا» آیا ہے:سابق حوالہ، کتاب المغازى، باب 84، حدیث 5; کتاب المرضى، باب 17، حدیث 1; صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 8 .
27 . صحیح بخارى، کتاب الجزیه، باب 6، حدیث 2; کتاب المغازى، باب 84، حدیث 4; کتاب الجهاد والسیر، باب 175، حدیث 1 (اس حدیث میں کلمہ «ذرونى»کے بجائے کلمه «دعونى» آیا ہے). صحیح مسلم ، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 6،میں بھی اس طرح ایا ہے ۔ قال: «دعونى فالّذى أنا فیه خیر».
28 . صحیح بخارى، کتاب الجزیه، باب 6، حدیث 2. اسی طرح کا مضمون دوسری چند روایات میں بھی آیا ہے ; ر.ک: صحیح بخارى، کتاب الجهاد والسیر، باب 175، حدیث 1; کتاب المغازى، باب 84، حدیث 4 (ابن عباس کے گریے کے ذکر کے بغیر ); صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 60، حدیث 6 و حدیث 7 .
29 . صحیح بخارى، کتاب المرضى، باب 17، حدیث 1 ; اسی مضمون کی روایت : کتاب العلم، باب 39، حدیث 4; کتاب المغازى، باب، 84، حدیث 5; صحیح مسلم، کتاب الوصیة، باب 6، حدیث 8 .
30 . فتح البارى، ج 7، صفحہ 739 .-740
31 . عمدة القارى، ج 12، صفحہ 388 (دارالفکر، بیروت، طبع اوّل، 2005 م).
32 . صحیح مسلم، بشرح الامام محیى الدین نووى، ج 4، صفحہ 257 .
33 . صحیح بخارى، کتاب المرضى و صحیح مسلم، کتاب الوصیة.فهرست منابع
1. قرآن کریم
2. تاریخ طبرى، محمد بن جریر طبرى، مؤسّسه اعلمى، بیروت، طبع چهارم، 1403ق.
3. تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر دمشقى، دارالاندلس، بیروت، 1996 ق.
4. صحیح ابن حبان، ابن حبان، تحقیق شعیب الأرنؤوط، مؤسسة الرسالة، طبع دوم، 1414ق.
5. صحیح بخارى، ابوعبدالله محمّد بن اسماعیل بخارى، تحقیق صدقى جمیل العطّار، دارالفکر، بیروت، طبع اوّل، 2005م.
6. صحیح مسلم، ابوالحسین مسلم بن حجّاج نیشابورى، تحقیق صدقى جمیل العطّار، دارالفکر، بیروت، طبع اوّل، 2004م.
7. صحیح مسلم شرح محیى الدین نووى، شرکة ابناء شریف الأنصارى، بیروت، 2007م.
8. عمدة القارى شرح صحیح بخارى، بدرالدین عینى، دارالفکر، بیروت، طبع اوّل، 2005م.
9. فتح البارى، احمد بن على بن حجر عسقلانى، مکتبة العبیکان، ریاض، طبع اوّل، 1421ق.
10. الکامل فى التاریخ، ابن اثیر جزرى، تحقیق أبى الفداء عبدالله القاضى، دارالکتب العلمیة، بیروت، طبع سوم، 1418ق.
11. لسان العرب، ابن منظور افریقى، دار صادر، بیروت، طبع اوّل، 1997م.
12. مسند ابى یعلى، ابویعلى موصلى، تحقیق حسین سلیم اسد، دارالمأمون للتراث، طبع دوم.
13. مسند احمد، احمد بن حنبل، دار صادر، بیروت.
14. مصباح المنیر، فیّومى، تصحیح محمد عبدالحمید، 1347ق.

Add new comment