کتاب کافی کے بارے میں ایک تجزیہ
کتاب کافی کا شمار ،حدیث کی اہم کتابوں میں ہوتا ہے اور یہ شیعوںکی کتب اربعہ کی پہلی کتاب ہے جس کو ابوجعفر محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی (م ٣٢٩ ق) نے لکھی ہے ۔ کلینی کا شمار دنیائے اسلام کے اہم ترین محدثین میں ہوتا ہے اور ان کو «ثقة الاسلام« کا لقب دیا گیا ہے ، انہوں نے اس گرانبہا اور معتبر کتاب کوتالیف کرنے کے لئے دنیائے اسلام کے مختلف شہروں اور دیہاتوں جیسے خراسان، ایران،شام، عراق اور سعودی عرب کا سفر کیا اور اہل بیت(علیہم السلام) کے شاگردوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو (جو کہ اصول اربعمائة کے نام سے مشہور تھیں) حاصل کرکے حدیثوں اور اہل بیت (علیہم السلام) کی تعلیمات کو جمع کیا ۔
حقیقت میں یہ کتاب سب سے پہلی ایسی کتاب ہے جو تمام ابعاد کے لحاظ سے جامع ہے اور اس میں اعتقادی، فقہی ، اخلاقی، تفسیر ، تاریخ سے متعلق تمام مسائل کو جمع کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ اس کی روایتوں کی تعداد تمام صحاح ستہ کے برابر بلکہ ان سے زیادہ ہے ۔ کلینی نے اپنی کتاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے : اصول دین «اصول کافی« ، فروع دین «فروع کافی« اور متفرقہ جس کو «روضہ کافی« کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے ۔
کلینی نے اس کتاب کو بعض ان شیعوں کی درخواست پر لکھا ہے جو کہ متعدد اور مختلف روایتوں کی وجہ سے مسائل اور اسلامی حقایق کو دقیق طور پر تشخیص نہیں دے سکتے تھے ، اس بناء پر انہوں نے اس کتاب کو دین کے تمام علوم کو ایک جگہ جمع کرنے کے ہدف کے ساتھ تالیف کی تاکہ اس کی بنیاد پر اہل بیت (علیہم السلام) کے احکام پر عمل کرنا شیعوں کے لئے آسان ہوجائے اور اسی جامعیت کی وجہ سے اس کا نام «کافی« رکھا ، یعنی دوسری کتابوں سے کفایت کرنے والی کتاب۔
کتاب کے مباحث اور مطالب مندرجہ ذیل ہیں :
کلینی نے تمام کلی مطالب کو «کتاب» کے نام سے بیان کیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کتاب میں موضوع سے متعلق متعدد عناوین کو« باب« کے نام سے ذکر کیا ہے ، انہوں نے کافی کے تمام ابواب کے ذیل میں تقریبا سوالہ ہزار احادیث کو چہاردہ معصومین (علیہم السلام) سے ذکر کیا ہے اور ان سب کو استناد کے ساتھ ذکرکیا ہے ۔
اصول کافی میں ترتیب کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابیں ہیں :
١۔ کتاب العقل والجھل ۔ ٢۔ کتاب فضل العلم ، اس میں بائیس باب ہیں ۔ ٣۔ کتاب التوحید ، اس میں اعتقادی اہم مسائل سے متعلق چالیس باب ہیں۔ ٤۔ کتاب الحجة ،اس کتاب میں تقریبا ایک سو تیس باب امامت اور ولایت کے مختلف مسائل کے بارے میں بیان کئے ہیں اوراس کے آخر میں بیس باب ائمہ علیہم السلام) کی سوانح حیات کی تاریخ کے متعلق «ابواب التاریخ« کے عنوان سے ذکر کئے ہیں ۔ ٥۔ کتاب الایمان والکفر ،اس میں تقریبا دو سو بیس باب مختلف مسائل جیسے ایمان، اخلاق، تزکیہ نفس اور سیر و سلوک کے بارے میں بیان کئے ہیں ۔ ٦۔ کتاب الدعا ،اس میں تقریبا ساٹھ باب دعائوں کے سلسلہ میں ذکر کئے ہیں ۔ ٧۔ کتاب فضل القرآن ، اس میں تیرہ باب قرآن کریم کی قرائت کی فضیلت اوراس سے متعلق مسائل کے سلسلہ میں بیان کئے ہیں ۔ ٨۔ کتاب العشرة (المعاشرة) ، اس کتاب میں تقریبا تیس باب آداب معاشرت اور مسلمانوں کے اجتماعی حقوق کے مختلف مسائل کے بارے میں بیان کئے ہیں ۔
فروع کافی میں چھبیس کتابیں ہیں جن میں طہارت سے لے کر دیات تک فقہ کے تمام ابواب موجود ہیں جو کہ پانچ جلدوں پر مشتمل ہیں ۔
روضہ کافی میں وعظ و نصیحت ، خطبہ ، تاریخ اور مختلف احادیث کو بیان کیا گیا ہے اوراس میں تقریبا چھے سو (بطور دقیق ٥٨٦) احادیث کو جمع کیا ہے ۔ مجموعی طور پر کتاب کافی میں چونتیس کتابیں اور تین سو چھبیس باب ہیں ، یہ کتاب اپنی تالیف کے زمانہ سے لے کر آج تک مقبول رہی ہے اور تمام شیعہ اور اہل سنت اس کی تائید کرتے ہیں اور پوری تاریخ میں بزرگ علماء نے اس کی تدریس کی ہے ۔عام لوگوں کے درمیان مشہور یہ ہے کہ اس کتاب کو امام زمانہ (ارواحنافداہ) کے چوتھے نائب (یعنی ابوالحسن علی بن محمد سمری(رضوان اللہ تعالی الیہ) نے امام علیہ السلام کے سامنے پیش کی اورآپ نے اس کی تائید میں فرمایا : «الکافی کاف لشیعتن« (یعنی کتاب کافی ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے ۔ اس بات کو شیعوں کے بزرگ علماء نے قبول نہیں کیا ہے اوراس واقعہ کی کوئی اصل و اساس نہیں ہے ، شیعوں کی روایات کے درمیان صرف ایک عبارت ، حرف «کاف« کی تفسیر کے لئے سورہ مریم کی پہلی آیت (کھیعص) کے ذیل میں موجود ہے جس کے متعلق امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے : «کاف،کاف لشیعتن« یعنی اس آیت میں حرف کاف ، ہمارے شیعوں کے لئے کافی ہے اور شاید بعض نادان افراد نے اس عبارت کو تحریف کرکے «الکافی کاف لشیعتن« کردیا ہے ۔
بہر حال یہ کتاب چاہے اس کی امام زمانہ (ارواحنا فداہ) نے تائید کی ہو اور چاہے انہوں نے اس کے متعلق کچھ بیان نہ فرمایا ہو ، اصول اربعہ کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اوراس کتاب کا علمی اعتبار ہر روایت کے شروع میں اس کی استناد کے طریقہ تحقیق کے قابل ہے ۔
اس کتاب کی بہت زیادہ شرحیں تعلیقہ اورحواشی جات لکھے گئے ہیں جن میں سب سے اہم مندرجہ ذیل ہیں :
١۔ جامع الاحادیث والاقوال ، شیخ قاسم بن محمد الوندی (م ١١٠٠ ق) ۔
٢۔ الدر المنظوم من کلام المعصوم ، جس کو شہید ثانی کے پوتے شیخ علی بن محمد بن حسن بن زین الدین (م ١١٠٤ ق) نے لکھی ہے ۔
٣۔ مرآة العقول فی شرح اخبار الرسول ، علامہ محمد باقر مجلسی ۔
٤۔ الوافی ، فیض کاشانی ۔
٥۔ شرح ملا صدرا (صدر الدین محمد بن ابراہیم نیشاپوری) اس کتاب کو اصول کافی کے بعض حصوں پر لکھا ہے ۔
٦۔ شرح مولی صالح مازندرانی جو کہ اصول اور روضہ کافی کی شرح ہے ۔
کافی کے متعلق بہت زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں جس کی مفصل وضاحت «کنگرہ شیخ کلینی« کے عنوان سے ایک مجموعہ میں لکھی گئی ہے جس کو دار الحدیث نے شائع کیا ہے ۔
کافی میں ضعیف روایات بھی پائی جاتی ہیں اور ہر روایت کے متعلق اس کی اسناد کی طرف رجوع کیا جائے ۔
الکافی کے عنوان سے اور بھی بہت سی کتابیں شیعہ اوراہل سنت علماء نے لکھی ہیں جن کو اس کتاب کافی سے اشتباہ نہیں کرنا چاہئے ۔
ان میں سے بعض کتابیں یہ ہیں :
١۔ الکافی فی الفقہ ، اس کتاب کو صلاح حلبی نے چوتھی ا ور پانچویں صدی میں اہل بیت (علیہم السلام) کی فقہ میں لکھی ہے ۔
٢۔ الکافی فی فقہ المالکی ، ابن عبدالبر۔
٣۔ الکافی فی فقہ الحنبلی ۔
البتہ اس کتاب پر بعض جاہل اور متعصب وہابیوں نے طعن و تشنیع اور تحریف کی ہے اور اس کی عومانہ اور غیر علمی تحقیق جاہلوں کے سامنے پیش کی ہے جبکہ اہل سنت کے بزرگ علماء جیسے ابن اثیر، سمعانی، خطیب بغدادی، ابن عساکر ، ابن حجر عسقلانی اور ذھبی نے شخصیات اور کتابوں کے متعلق اصولی تحقیقات انجام دی ہیں جن میں کتاب کافی اوراس کے مولف کی تائید کی ہے ۔
یہ کتاب متعدد بار اسلامی ملکوں جیسے لبنان، عراق اور ایران میں شائع ہوئی ہے اور آج یہ کتاب تمام علمی مراکزاور کتب خانوں یہاں تک کہ سی ڈی وغیرہ میں موجود ہے ۔
اس کے علاوہ کتاب کافی اپنی خاص اہمیت کی وجہ سے دنیا کے مختلف زندہ زبانوں جیسے فارسی ، انگریزی اور اسپانیا میں ترجمہ ہوئی ہے ۔
بشکریہ :۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سا ئٹ دفتر آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
Add new comment