لاشیں بے گناہوں کی۔۔۔۔سید عبدالحمید عدم
رواں ہیں رہروؤں کے قافلے صحرائے وحشت سے
یہ کیسے لوگ ہیں لڑنے چلے ہیں دیو فطرت سے
وہ ظُلمت ہے کہ ہیبت کا فرشتہ کانپ جاتا ہے
وہ تاریکی ہے شیطانوں کا دل بھی خوف کھاتا ہے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
اسی سنسان تاریکی کے وسعت گیر دامن میں
اسی سنسان خاموشی کے بے تنویر مسکن میں
جرائم کے ہلاکت آفریں ہیجان پنہاں ہیں
لباسِ آدمی میں سنگ دل حیوان پنہاں ہیں
یہ وہ انساں ہیں جن سے آدمیت خوف کھاتی ہے
یہ وہ وحشی ہیں جن سے بربریت خوف کھاتی ہے
یہ غارتگر، لٹیرے، راہزن ہیں کاروانوں کے
یہ ہیروں ہیں سیہ کاری کے شیطانی فسانوں کے
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
یہ جنگل ایک گہوارہ ہے خونی وارداتوں کا
یہ صحرا ایک میداں ہے جنونی وارداتوں کا
یہاں کا ذرہ ذرہ ظلم و سفاکی کا مظہر ہے
یہاں کا آسماں اک نیلگوں خاموش پتھر ہے
نیاموں سے نکل آتی ہیں جب خونریز شمشیریں
برستی ہیں اندھیرے میں جب آتش ریز شمشیریں
تھکے ماندے مسافر جب یہاں فریاد کرتے ہیں
غریب انسان جب یوں بیکسی کی موت مرتے ہیں
زمیں پر رقص جب کرتی ہیں لاشیں بے گناہوں کی
سنی جاتی ہیں جب مظلوم آہیں بے گناہوں کی
سکونِ بیکراں میں کوئی ہنگامہ نہیں اُٹھتا
زمیں و آسماں میں کوئی ہنگامہ نہیں اُٹھتا
Add new comment