ایرانی سفارتکاری
سحر صدیقی
عین اس وقت جب شام کی صورت حال نے دنیا بھر کے امن پسند حلقوں کو تشویش اور فکر مندی میں مبتلا کر رکھا تھا ، ایران کی قیادت نے اپنی نتیجہ خیز سفارت کاری سے خطہ میں امن کے فروغ کی امید کو یقین میں تبدیل کر دیا ۔ ہوا یوں کہ تہران نے واشنگٹن کے ساتھ انتہائی محتاط لیکن پر اعتماد رویہ اختیار کرتے ہوئے خط و کتابت کا سلسلہ شروع کیا اور امریکی صدر کو باور کرایا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے جس سے خطہ کے امن کو کوئی خطرہ لا حق نہیں ہے ۔ یہ حقیقت بھی اجاگر کی گئی کہ ایران عالمی امن کی صور تحال کو بہتر بنانے کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس رکھتا ہے بلکہ وہ اس باب میں عملی اور ٹھوس اقدامات کا متمنی اور خواہاں بھی ہے ۔ اگرچہ تہران کی طرف سے دمشق کو نمایاں سفارتی اور اخلاقی حمایت فراہم کی گئی لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے عالمی حلقوں میں ایران کو پشیمانی یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ امریکہ نے شام پر عسکری یلغار کی تیاریاں مکمل کرتے ہوئے انتہائی اقدام کا عندیہ دیا تو روس کی طرف سے اس کی بھرپور مزاحمت کی گئی جبکہ بعض مغربی ممالک نے (امریکہ کا حلیف اور حامی ہونے کے باوجود ) اس فیصلہ اور سوچ کی مخالفت کی۔ ایسے میں ایران کو اپنے موقف کی وضاحت اور تشریح کا ایک نہایت مناسب موقع میسر آیا جس سے ایرانی قیادت نے بڑی فہم و فراست اور دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے بھرپور اور ہمہ جہت استفادہ کیا۔
ساری دنیا کو تو معلوم رہا لیکن امریکہ اور اسرائیل نے اس سے ہمیشہ انکار اور گریز کیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے ۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد نے کئی بار واضح طور پر اعلان کیا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام کسی کے خلاف عسکری مہم جوئی کی خاطر استعمال نہیں ہو گا لیکن ان کی ایسی باتوں کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ جواب میں دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا گیا ۔ اسرائیل کی حکومت نے تو یہاں تک ہرزہ سرائی کی کہ وہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسی انداز اور شدت کے ساتھ حملہ کرے گی جس طرح اس نے ماضی میں عراق کے ایٹمی پروگرام اور تنصیبات کے سلسلہ میں کیا تھا ۔ عالمی میڈیا کے توسط سے ایسی اطلاعات بھی منظر عام پر آتی رہیں کہ اسرائیلی فضائیہ کومذکورہ حملہ کے لئے تیاری اور مشق کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ امریکہ نے اگرچہ ایسے کسی حملہ کی بظاہر حمایت تو نہیں کی لیکن اس کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور حوصلہ افزائی کے واضح اشارے سامنے آتے رہے ۔ اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کی خاطر ایران کی حکومت نے بھی بجا طور پر ممکنہ یقینی اقدامات کئے اور اس سلسلہ میں کوئی شور شرابا نہیں کیا گیا ۔
ایران کے موجودہ صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے 3اگست 2013ءکو اپنا منصب سنبھال کر عالمی برادری کو یقین دلایا کہ تہران اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کرے گا ۔ انہوں نے یہ ارادہ بھی ظاہر کیا کہ ان کی حکومت اپنے عالمی مخالفین کے ساتھ محاذ آرائی اور کشیدگی سے حتی الامکان گریز کرے گی ۔ چونکہ ڈاکٹر حسن روحانی ماضی میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہونے والے عالمی سطح کے مذاکرات میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے رہے لہذا ایران کے صدر کی حیثیت سے جب انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو دنیا بھر کے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ان خیالات کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈاکٹر حسن روحانی کو ایک اعتدال پسند لیڈر کے طور پر نہ صرف تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت اور تجربہ کے تناظر میں ان سے بے پنا ہ توقعات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ یہ توقعات اس وقت نہایت فکر انگیز اور قابل تحسین تصور کی گئیں جب حال ہی میں ایک امریکی ٹی وی چینل کیساتھ انٹرویو کے دوران صدر حسن روحانی نے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہا کہ ان کا ملک کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گااور انہیں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔انہوں نے امریکی صدر اوباما کی جانب سے انہیں بھیجے گئے خط کو تعمیری اور مثبت قرار دیا۔ادھر وائٹ ہاﺅس نے اس امر کی تصدیق کی کہ صدر اوباما اور صدر روحانی کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا ہے ۔
امریکی صدر باراک اوباما اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان خطوط کے تبادلے کے بعد دونوں رہنماﺅں کے درمیان اقوام متحدہ میں ملاقات کا امکان ہے ۔ 1997ءکے ایرانی انقلاب کے بعد امریکی اور ایرانی صدور کی پہلی ملاقات ہو گی۔ اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف کے درمیان بھی ملاقات ہو گی۔ دریں اثناءغیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے صدر حسن روحانی کو امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے اور طویل عرصے سے جاری دشمنی ختم کرنے کا ٹاسک دیا ہے ۔ ایران کے سابق جوہری مذاکرات کار حسین موسویان نے اس بات کا انکشاف ایک مضمون میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے بارے میں امریکہ اور ایران دونوں میں مکمل اتفاق رائے موجود ہے اور دونوں ملک ایسے ہتھیاروں کے استعمال کو سنگین جرم قرار دیتے ہیں۔ ایران سابق عراقی صدر صدا م حسین کے دور میں آٹھ سال تک اس طرح کے ہتھیاروں کا نشانہ بنتا رہا ہے ۔اگرچہ ایران چاہتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کو تباہ کن اسلحہ سے پاک خطہ قرار دینے کے لئے عالمی برادری سے تعاون کرے لیکن اس سلسلہ میں صرف ایران پر ہی دباﺅ ڈالنا کافی اور نتیجہ خیز نہیں ہو گا ۔
دوسری جانب نیٹو سربراہ اینڈرس فوگ راسموسن نے اپنے بیان میں کہا کہ ایرانی قیادت نے ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا بیان دے کر اعتماد بڑھا دیا ہے ۔ یہ فیصلہ اور اقدام ایران کے اپنے مفادات کے حق میں ہے ۔ ایران کی نئی قیادت ایٹمی پروگرام پر عالمی برادری کے خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کے لئے جو اقدام اٹھا رہی ہے وہ خوش آئند ہے اوراس سے تنازعہ کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ راسموسن نے مزید کہا کہ ایرانی قیادت کے بیان سے عالمی برادری کے ساتھ ان کے تعلقات میں بہتری آئے گی اور اعتماد سازی کا عمل آگے بڑھے گا۔
یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کے لئے کسی غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے کہ اگر ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی اور امریکہ کے صدر باراک اوباما کے درمیان ملاقات اور مذاکرات کامیاب رہتے ہیں تو اس سے عالمی سطح پر کئی تبدیلیاں رونما ہوں گی جن کے نتیجہ میں نہ صرف ایران پر عائد موجودہ اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے امکانات روشن ہوں گے بلکہ خطہ میں ایران کے اہم کردار کے کئی پہلو اجاگر ہوں گے ۔ ایران کو روس سمیت کئی مغربی ممالک کی ایسی سفارتی حمایت حاصل ہے جس سے اس نے نہ صرف ماضی میں واشنگٹن کے شدید دباﺅ کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے بلکہ وہ آئندہ بھی اس سلسلہ میں استقامت کے ساتھ مثالی کردار ادا کرتا رہے گا ۔ ایرانی قیادت نے اپنی سفارتی کوششوں اور حکمت عملی سے بلاشبہ عالمی سطح پر حالات کا دھارا تبدیل کیا ہے بلکہ اس نے اپنی نتیجہ خیز سفارت کاری سے یہ بات سچ ثابت کر دکھائی ہے کہ اگر دانشمندی اور دور اندیشی سے کام لیا جائے تو منزل قریب اور آسان ہو جاتی ہے ۔
بشکریہ عالمی اخبار
Add new comment