انسان اداس اور بازار گرم ہے
پرانا زمانہ بھی کیا زمانہ تھا،دن بھر کی محنت و مشقت کے باوجود لوگ راتوں کو گھنٹوں اکٹھے بیٹھ کر
گپ شپ لگاتے تھے،کہیں موسیقی سنی جاتی اور کہیں اشعار کی محفل سجتی، کہیں ختم صلوات و قرآن ہوتا ، کہیں قصے کہانیاں سنائی جاتیں، کہیں رشتہ دار بیٹھ کر اپنے پرانے جھگڑے نمٹاتے اور کہیں بیٹھ کر نئے رشتے استوار کئے جاتے۔محفل جو بھی ہوتی اور بزم جہاں بھی سجتی،موسم گرمی کاہوتا یا سردی کا اور رُت خوشی کی ہوتی یا غم کی، نشست و برخاست کا لطف حالی،سعدی،شاہ عبداللطیف بھٹائی،بلھے شاہ،سلطان باہو،میاں محمد بخش اور وارث شاہ کے کلام سے ہی دوبالا ہوتاتھا۔
آہستہ آہستہ ہماری مجالس و محافل میں "گلستان و بوستان"،کلام بلھے شاہ" اور سیف الملوک " کی جگہ کمپیوٹر نے لے لی۔ راتوں کی نشستیں سکڑنے لگیں اور لوگ خشک پتوں کی مانند بکھرتے چلے گئے ۔۔۔پس یوں سمجھئے کہ انسان تنہا ہوتا گیا۔۔۔اس کی محفلیں اجڑ گئیں اور غم خوار غمِ روزگار میں مشغول ہوگئے۔انسان کی اس تنہائی نے ایک گلوبل ویلیج کو تشکیل دیا۔اس ویلج میں انسان بظاہر تنہاہے لیکن در حقیقت وہ ایک بہت بڑی بھیڑ اور ایک بہت بڑے ہجوم میں کھو گیاہے۔اس کے ہر طرف اور ہر لمحے نظریاتی جنگ،نفسیاتی کشمکش،احساساتی یلغار اور ہیجانی تصادم جاری ہے۔آج کے انسان کی راتیں بظاہر پر سکون ہیں لیکن در حقیقت ان راتوں کے پردے میں افکارو عقائد کی ایک قیامت برپاہے۔اس الیکٹرانک دنیا نے انسان کے احساسات و جذبات کو کچل کے رکھ دیاہے۔انسان کو موجودہ آئی ٹی کے دور میں پھر ایسے ہی میاں محمد بخش اور وارث شاہ کی ضرورت ہے جو آئی ٹی میں جکڑے ہوئے انسان سے آئی ٹی کی زبان میں کلام کریں اورمشینی انسان کو وحشتوں سے نکال کر محبتوں کے درس پڑھائیں۔آج آئی ٹی کا گرم بازار کسی سعدی ،باہو اور عباللطیف کا منتظر ہے۔۔۔بازار گرم ہے اورانسان اداس ہے دوستو۔۔۔کچھ کرو کچھ سوچو
Add new comment