مثالی لوگ

 

 

ترجمہ: افتخار علی جعفری

 

شیخ حسن شحاتہ کی شخصیت
علامہ شیخ حسن شحاتہ شیعہ ہونے سے پہلے اہلسنت و الجماعت کے بزرگ عالم دین تھے، الازھر یونیورسٹی کے معروف استاد اور قاہرہ کی ایک بڑی مسجد کے امام جماعت تھے، آپ نے اہلبیت علیہم السلام خاص طور پر امیر المومنین علی علیہ السلام سے عشق و محبت کی بنا پر شیعہ مذہب اختیار کر لیا تھا۔
سالہا سال ہزاروں لوگوں نے قاہرہ میں صہیونی سفارت خانہ کے مقابلے میں واقع مسجد میں شیخ حسن شحاتہ کی اقتدا میں نمازیں پڑھیں اور نماز جمعہ کے خطبوں اور تقریروں سے مستفیذ ہوئے۔ شیخ ہمیشہ انہیں راہ حق اور ولایت اہلبیت علیہم السلام کی طرف دعوت دیتےرہے، ظالموں، منافقوں اور گمراہ فرقوں سے دوری اختیار کرنے کی تاکید کرتے رہے اور صہیونیت کو ان کے سفارت خانہ کے سامنے ذلیل و رسوا کرتے رہے یہی وجہ تھی مصر کے سیکیورٹی دستے ان مقامات پر سخت سیکیورٹی نافذ کرتی تھے جہاں آپ تقریر کر رہے ہوتے تھے۔
علامہ شیخ حسن شحاتہ نہ صرف الازھر کے علماء میں سے شمار ہوتے تھے بلکہ اس یونیورسٹی کے بہت سارے اساتذہ جیسے شیخ طنطاوی آپ کی شاگردی میں رہ چکے ہیں۔ شیخ طنطاوی آپ کے شاگردی کے بعد آپ کے قریبی دوستوں میں سے ہو گئے تھے اور آپ کو بخوبی جانتے تھے اور آپ کی امیر المومنین علی علیہ السلام سے خاص ارادت کی گواہی دیتے ہیں۔ اگر چہ اس زمانے میں شیخ حسن شحاتہ شیعہ نہیں تھے بلکہ اہلبیت علیہم السلام کے محب اور اہلسنت کے پیروکار تھے۔ اس کے باوجود اپنے اساتذہ اور شاگردوں سے ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے: ’’جو کچھ تمہارا دل چاہتا ہے کہو لیکن یاد رکھو پیغمبر اکرم(ص)، امیر المومنین علی، فاطمہ زہرا اور حسنین علیہم السلام ایک شجرہ ہیں کہ جس کی شاخیں اور پھل بھی ایک ہیں‘‘۔

شیخ حسن شحاتہ کے لیے شیعہ ہونا آسان کام نہیں تھا اتنی بڑی یونیورسٹی کا استاد اور اتنی بڑی شخصیت بہت آسانی سے اپنا مذہب نہیں بدل سکتی ہے۔ شیخ شحاتہ ۵۰ سال تک اس مشکل اور کشمکش میں گرفتار رہے یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آل و سلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ(ص) انہیں امیر المومنین (ع) کی پیروی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ سچا خواب دیکھنا تھا کہ شیخ شحاتہ نے کھلے عام اپنے باطنی عقیدہ کا اعلان کر دیا جس نے مصر میں ایک بم دھماکے سے بھی زیادہ زوردار دھماکہ کر دیا اور نہ صرف شیخ خود مذہب تشیع کے پیروکار ہوئے بلکہ ہزاروں مصریوں کو اپنے ساتھ قافلے میں لے کر صراط مستقیم پرآ گئے۔ مصر کے بعض پاکدل اور محبت اہلبیت (ع) رکھنے والے افراد کے لیے ہدایت کی ایک چنگاری ہی کافی تھی کہ وہ راہ ہدایت کو پا لیں جبکہ شیخ حسن شحاتہ تو ایک شمع بن کر روشن ہوئے تھے۔
علامہ شیخ شحاتہ کی تبلیغی تقریریں اور خطبے عاشقان اہلبیت (ع) کا ورد زبان جبکہ وہابیت اور دشمنان اہلبیت(ع) کے قدموں کو مصر سے اکھاڑنے کا بہت بڑا ذریعہ بن گئے۔ اسی وجہ سے تکفیری فرقے نے مصر میں شیعت کے خلاف کھلے عام تبلیغ اور شیخ شحاتہ کے ساتھ جنگ شروع کر دی۔ دین حق کی تبلیغ میں آپ کی شجاعت اس بات کا باعث بنی کہ حسنی مبارک کے دور میں سلفی عہدہ داروں کی شکایت پر ۱۹۹۶ میں آپ کو ’’ ولایت امیر المومنین (ع)کی ترویج ‘‘ کے جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ممنوع الخروج کر دیا گیا۔
صحیح ہے کہ شیخ شحاتہ کے لیے اعلانِ دینِ حق بہت مہنگا ثابت ہوا، الازھر سے نکال دیا گیا، امام جماعت کے عہدہ سے معزول کر دیا گیا، جیل میں کئ دن کاٹنے پڑے، ملک سے باہر جانا ممنوع ہو گیا لیکن مصریوں کے دلوں میں شیخ شحاتہ کی محبت مضبوط جڑیں پکڑ گئی۔ اب مصری انہیں امام جماعت کی حیثیت سے نہیں، الازھر کے استاد کی حیثیت سے نہیں بلکہ امامِ شیعیانِ مصر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ انہیں باطل کے مقابلے میں حق کا علمبردار سمجھتے تھے۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد میڈیا سے کسی قسم کی گفتگو اور انٹرویو دینے پر پابندی عائد ہو گئی۔ اس کے باوجود میڈیا پہلے سے زیادہ ان سے انٹرویو لینے کا مشتاق ہو گیا۔ حتی مصر کے سرکاری ٹیلیویژن نے سب پر سبقت اختیار کی اور آپ کا انٹرویو لے کر فخر محسوس کیا۔
ممنوعیت کے باوجود آپ کے ٹیلیویژن کے پروگرام پہلے سے زیادہ شہرت اختیار کر گئے۔ رہائی کے بعد سب سے پہلا انٹرویو اس ملک کے سرکاری ٹی وی چینل نے آپ کی زندگی ، شیعہ ہونے اور اہلبیت علیہم السلام کی نسبت عقائد کے سلسلے میں ایام محرم میں نشر کیا۔

تفصیلی انٹرویو
شہید علامہ شیخ حسن شحاتہ کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو جسے رسالہ’’ المنبر‘‘ نے نشر کیا ہے:
۔ برائے مہربانی اپنے اور اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں بتائیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداوند عالم، پیغمراکرم(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے لطف و کرم سے سختیوں اور پریشانیوں کے پچاس سال گزارنے کے بعد اب کشتی نجات پر سوار ہوا ہوں اور خدا کی مہربانی سے ولایت امیر المومین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے سامنے تسلیم ہو گیا ہوں کہ جو میرے لیے سب سے زیادہ اہم چیز اور قابل فخر ہے۔
میں حسن بن محمد بن شحاتہ بن موسی العنانی ہوں۔ ۱۹۶۵ عیسوی میں مصر کے صوبہ ’’الشرقیہ‘‘ کے گاوں ’’ہربیط‘‘ میں پیدا ہوا۔ میرے والد نے شکم مادر سے ہی مجھے قرآن کی تعلیم دینا شروع کر دیا تھا یعنی میری والدہ کو قرآن کی تلاوت کرنے کی تلقین کرتے تھے جس سے مجھ پر قرآن کا کافی اثر ہوا۔ دو سال کی عمر میں مجھے مکتب میں بھیجا اور شیخ عبد اللہ العویل کے پاس میں نے قرآن کی تعلیم حاصل کی۔ پانچ سال کی عمر میں میرے والد نے قرآن کریم پر جو حاشیہ نگاری کر رکھی تھی میں اسے پڑھ سکتا تھا۔

 

پانچ سال کے بعد ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ’’شیخ محمد موسی شنب‘‘ اور ’’شیخ عبد الحلیم عبد النبی اسماعیل‘‘ کے پاس گیا۔ ان دو اساتید بزرگوار کے پاس مقدماتی تعلیم حاصل کرنے کے بعد الازھر میں داخلہ لیا۔
۱۵ سال کا نہیں ہوا تھا کہ میری تالیف ’’ احیاء علوم الدین‘‘ منظر عام پر آ گئی۔ مختلف تالیفات کے علاوہ ایک شعری مجموعہ ’’ سراج الامۃ فی خصائص السادۃ الائمہ‘‘ بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔
میں نے دینی تبلیغ کا سلسلہ بہت جلدی شروع کر لیا تھا اس لیے کہ میرے والد ہمیشہ ہمارے سامنے اہلبیت (ع) سے عشق و محبت کی باتیں کرتے تھے انہوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت بہت اچھے انداز میں ہمیں پہچنوائی تھی۔ وہ کہتے تھے: ’’بیٹا امیر المومنین علی (ع) پیغمبر اسلام کے سب سے بڑے حامی اور ناصر تھے جب علی پیغمبر کے ساتھ ہوتے تھے تو کوئی انہیں اذیت کرنے کی جرات نہیں کر پاتا تھا‘‘۔
سب سے پہلی مرتبہ میں نماز جمعہ کا خطبہ دینے کے لیے اس وقت منبر پر گیا جب ابھی ۱۵ سال کا نہیں ہوا تھا۔
پانچ سال میں نے اپنے گاوں ’’ الاشراف‘‘ میں نماز جمعہ پڑھائی۔ اس کے بعد امام جماعت کے عنوان سے ایک اور گاوں میں گیا۔ دو سال وہاں نماز جمعہ پڑھائی اور اہلبیت (ع) کے دشمنوں اور وہابیوں کا سختی سے مقابلہ کیا۔

اس کے بعد ۱۹۷۸ میں ملک کے ایک فوجی کیمپ میں ان کی معنوی ہدایت اور رہنمائی کرنے اور انہیں نماز وغیرہ پڑھانے کے عنوان سے میری ڈیوٹی لگی۔ اس دوران میں نے ایک قصیدہ لکھا جس کا عنوان تھا’’ الدرۃ البھیۃ فی مدح العترۃ النورانیۃ‘‘۔ اور ’’ فاتحۃ الکتاب‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ اور اپنے اس تبلیغی دور میں کچھ عیسائی بھائیوں کو مسلمان کرنے پر کامیاب بھی ہوا۔
۔اپنی زندگی کے اہم ترین مراحل کو خلاصہ کے طور پر بیان کر سکتے ہیں۔
۱: ایک ماہ رمضان میں صہیونیت کے خلاف جہاد میں شرکت۔
۲: صوبہ الشرقیہ کے گاوں الدورامون میں جو اخوان المسلمین اور وہابیت کا گڑھ ہے وہاں پر جوانوں کے درمیان کلاسیں منعقد کر کے ۹۰ جوانوں کو شیعہ بنانے میں کامیابی۔
۳: قاہرہ کا دور جو ۱۹۸۴ سے ۱۹۹۶ تک کو تشکیل دیتا ہے جس میں میں نے ’’کوبریٰ‘‘ کے علاقے میں امام جمعہ کے عنوان سے تبلیغ کی۔ یہاں تک کہ سابقہ ڈکٹیٹر حکومت کے سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا۔ اس دور میں نماز جمعہ کے علاوہ ریڈیو قرآن اور پبلیک ریڈیو سے پروگرام دیتا تھا، قاہرہ میں سمینار اور دیگر کانفرنسوں میں شرکت کرتا تھا۔ اس کے علاوہ ہر ہفتہ ’’ اسماء اللہ الحسنی‘‘ کے عنوان سے ٹی وی پر ایک پروگرام پیش کرتا تھا۔
امیر المومنین(ع) اور ائمہ اطہار(ع) کی نسبت اپنی وفاداری کا اعلان کب کیا؟
اس وقت جب میرا سینہ صبر سے لبریز ہو گیا۔ مشکلات نے مجھے گیر لیا تو میں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کی ولایت کا اقرار اور دشمنان اہلبیت(ع) سے برائت کا اعلان تمام منبروں، ٹی وی کے پروگراموں اور مطبوعات میں کرنا شروع کر دیا۔ اسی وجہ سے ربیع الثانی، ۱۴۱۶ھ مطابق ۱۹۹۶ ء کو گرفتار ہو گیا۔ مجھ پر صرف یہ الزام تھا کہ میں نے ولایت امیر المومنین علی علیہ السلام کا اعلان کیا ہے۔

۔مہربانی کر کے اس سلسلے میں مزید وضاحت کیجیے۔
میں بچپنے سے عشق اہلبیت(ع) میں پروان چڑھا ہوں لیکن ایک لمبے عرصے کے بعد حق اور حقیقت میرے لیے آشکار ہوئی۔ تقریبا ۱۹۹۴ میں نے ایک سچا خواب دیکھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ پیغمبر اسلام (ص) ایک پہاڑ کی بلندی پر تشریف فرما ہیں کہ اتنے میں امیر المومنین(ع) بھی پہنچ جاتے ہیں اور آپس میں باتیں کرنے لگتے ہیں جبکہ میں بھی ان کی باتوں کو سن رہا اور سمجھ رہا ہوتا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اسلام(ص) علی علیہ السلام کو کسی کام کے لیے بھیجتے ہیں اور اپنے بائیں ہاتھ سے میری طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ جاوں۔ میں علی علیہ السلام کے پیچھے چل پڑتا ہوں۔ علی علیہ السلام آگے آگے اور میں ان کے پیچھے پہاڑ سے نیچے اترنا شروع ہوتے ہیں۔ جہاں میں گرنے لگتا ہوں آپ اپنے ہاتھ کے اشارے سے مجھے گرنے سے بچا لیتے ہیں۔ خواب سے اٹھنے کے بعد میں سمجھ گیا کہ میں نے حقیقت کو پا لیا ہے اور امیر المومنین (ع) کے پیچھے چل کر میری تمام مشکلات آسان ہو گئی ہیں۔ میں نے اس خواب کے بعد ولایت امیر المومنین (ع) کا کھلے عام اعلان کر دیا اور دشمنان اہلبیت(ع) کو ہر جگہ رسوا کرنا شروع کر دیا۔ اگرچہ اظہارحق نے میرے سامنے دنیوی اعتبار سے مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا تھا لیکن میری معنوی مشکلات دور ہو گئیں تھیں۔
۔اس کے بعد آپ کو گرفتار کر لیا گیا؟
جی تین مہینے میں جیل میں رہا اس کے بعد رہا ہو گیا۔
۔کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے شہادت امام حسین علیہ السلام کے سلسلے میں مجالس برپا کر کے گویا ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف انقلاب لانے کی تلاش و کوشش کی؟
بنی امیہ نے خدا ان پر لعنت کرے روز عاشور کو اس ملک میں عید منانے کی رسم رائج کر رکھی تھی۔ عاشور کے دن کی مناسبت سے مختلف طرح کی جھوٹی حدیثیں مثلا اس دن نیا لباس پہننا، رشتہ داروں کو ملنا، غسل کرنا، روزہ رکھنا وغیرہ مستحب ہے گڑھ رکھی تھیں۔ میں جب عاشور کے دن ان خرافات کو دیکھتا تھا تو میرا دل کباب ہو جاتا تھا۔ جب میں یہ دیکھتا تھا کہ لوگ عاشور کو جشن منا رہے ہیں، مخصوص قسم کی میٹھائی تقسیم کر رہے ہیں تو میں سخت کبیدہ خاطر ہوتا تھا سب سے زیادہ اس بات سے کہ میں ان چیزوں کو روک نہیں پا رہا ہوں۔ آخر کار میں نے فریاد بلند کی: اے لوگو! تم کس دن جشن منا رہے ہو تم کس دن میٹھائیاں تقسیم کر رہے ہو جس دن نواسہ رسول کو پیاسا ذبح کیا گیا؟ میں نے خود اس دن مجالس عزا برپا کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ میں نے کچھ دوست تیار کئے جن کی مدد سے ہم محرم کے تمام ایام میں روز و شب گریہ و ماتم کرتے تھے، مجالس مناتے تھے، سیاہ لباس پہنتے تھے اور جب ہم نے مسجد راس الحسین علیہ السلام کے پاس مجالس عزا کا سلسلہ شروع کیا تو حکومت ہمارے اوپر ٹوٹ پڑی اور ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کر دیں۔

۔کیا وہ اس حد تک امام حسین (ع) کی مجالس سے ڈرتے تھے؟
کیا آپ کی نظر میں مجالس امام حسین (ع) نے طول تاریخ میں طاغوت اور ظالموں کے قدموں میں لڑکھڑاہت پیدا نہیں کی ہے؟
۔شعائر حسینی کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
شعائر حسینی بھی دیگر عبادات کی طرح دینی عبادت ہے اور خالص گریہ جو معرفت اور شناخت کی بنا پر ہو وہ یقینا آتش جہنم کے مقابلہ میں سپر اور ڈھال ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ ائمہ اطہار(ع) کے ایام ولادت و شہادت کو منایا جائے۔ آپ کی نظر میں کیا ممکن ہے کہ ایک عاقل انسان اپنے محبوب کی یاد کے بغیر زندگی گزار سکتا ہے؟
میں بعض مسلمانوں کے اس عمل سے بہت متعجب ہوتا ہوں کہ انہوں نے اہلبیت(ع) کی یاد کو فراموش کر دیا ہے جبکہ ہم عیسائیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کس شان و شوکت سے حضرت عیسی(ع) کی یاد مناتے ہیں۔ یہودی اپنے بزرگان کی یاد مناتے ہیں کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا لیکن ہم اپنے امام کی یاد منانے اٹھتے ہیں تو ہر طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگتی ہیں!۔
۔اہلبیت(ع) کا شریعت میں کیا مقام ہے؟
اہلبیت(ع) کا شریعت میں مقام رہبری اور امامت کے عنوان سے ہے۔ اہلبیت (ع) اصلِ ہستی اور ماہیتِ ہستی ہیں وہ ہدایت کے ستارے ہیں لہذا خدا اور پیغمبر(ص) کی اطاعت کے بعد ان کی اطاعت سب پر واجب ہے بلکہ یہ ان کی اطاعت کا وسیلہ ہیں۔
اہلسنت کے بعض فرقے قائل ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) کی بعض ازواج بھی اہلبیت(ع) میں شامل ہیں آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟
اہلبیت(ع) وہی اہل کساء اور ۹ امام جو نسل امام حسین (ع) سے ہیں وہی ہیں ان کے علاوہ کوئی بھی صحابی یا پیغمبر کی زوجہ اہلبیت (ع) میں شامل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں موجود احادیث واضح طور پر ثبوت ہیں۔
۔کیا اہلبیت(ع) کی کسی ایک فرد کو دوسرے پر مقدم کیا جا سکتا ہے؟
یقینا ایسا نہیں ہے، اہلبیت(ع) کے تمام افراد اللہ کی حجتیں ہیں اور تمام ملائکہ اور جن و بشر اہلبیت(ع) کی مدح و ثنا کرتے ہیں۔
۔ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جو پیغمبروں کو اہلبیت(ع) سے برتر سمجھتے ہیں؟
اہلبیت(ع)، رسول اسلام (ص) کے بعد سب سے افضل ہیں یعنی پیغمبر اسلام کے علاوہ تمام پیغمبروں اور فرشتوں سے افضل ہیں۔ لہذا مقام و منزلت کے لحاظ سے صرف رسول(ص) سب سے بالاتر مقام پر فائز ہیں ان کے بعد اہلبیت اطہار(ع)۔
آپ کی نظر میں امت اسلامی کی اہلبیت(ع) کی نسبت کیا ذمہ داری ہے؟
اہلبیت (ع) کی نسبت امت اسلامی کے دوش پر ایک عظیم ذمہ داری رکھی گئی ہے۔ امت اسلامی کو اس بات پر مکمل عقیدہ رکھنا چاہیے کہ عصمت تامہ کے مالک صرف اہلبیت(ع) ہیں اور اس امر پر عقیدہ رکھنے کے لیے انہیں دشمنان اہلبیت(ع) سے برائت حاصل کرنا ہو گی۔
۔جب دشمنان اہلبیت(ع) کی بات آتی ہے کہ تو آپ کا لہجہ تلخ اور تیز ہو جاتا ہے۔
وہ اس سے بھی بدتر کے لائق ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے پیغمبر(ص) نے تمام انبیاء سے زیادہ اذیت و آزار برداشت کی۔ ان کے بعد آپ کے بھائی، امیر المومنین (ع) کی جب باری آئی تو ان پر ہر طرح کا ظلم و ستم کیا گیا، آپ کا حق چھینا گیا۔ آپ کے بعد حضرت زہرا(س) اور آپ (س) کی اولاد کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ آپ(س) کا پہلو شکستہ کیا گیا، گھر کو آگ لگائی جس کی وجہ سے آپ کے شکم میں جناب محسن(ع) کی شہادت ہوئی۔
صحابہ کے بارے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟
صحابہ ایک جعلی اور من گڑھت لفظ ہے قرآن اور احادیث میں اس لفظ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ یہ صحابہ کون لوگ ہیں؟ کیا وہ لوگ ہیں جو مشکلات اور سختیوں میں امیرالمومنین(ع) کے پاس پناہ لیتے تھے؟ یا وہ لوگ ہیں جنہوں نے امیر المومنین (ع) پر مصائبکے پہاڑ توڑے؟ میں تیار ہوں صحابہ کے بارے ان لوگوں کے ساتھ میڈیا پر مناظرہ کروں جو صحابہ کا دفاع کرتے ہیں۔
۔حقیقت محمدیہ کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
حقیقت محمدیہ پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کے اسرار میں سے ایک سر ہے۔ حقیقت محمدیہ بالاترین حقیقت کائنات ہے۔
۔شیعہ امامیہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
شیعہ امامیہ اہل ایمان، اہل اصلاح اور روئے زمین پر بہترین اور برترین مخلوق ہیں۔ میں خداوند عالم سے دعا کرتا ہوں کہ ان کا حصہ بن جاوں۔ تشیع فقہ اسلامی، آزادی، شجاعت اور جوانمردی کا بہترین مدرسہ ہے۔ شیعہ امیر المومنین(ع) کے مدرسہ کے شاگرد، ابا عبد اللہ الحسین (ع) کا لشکر، امام صادق علیہ السلام کے ہاتھوں ہدایت یافتہ اور وارثان ائمہ معصومین(ع) ہیں لیکن مجھے شیعہ علماء سے شکوہ ہے۔
کیا شکوہ ہے؟
مجھے ان سے یہ شکوہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اس صحیح اور سچے دین کی ویسے تبلیغ نہیں کی جیسے انہیں کرنا چاہیے تھی۔ شیعہ علماء ان واقعات کے پاس سے آسانی سے گزر جاتے ہیں کہ جن میں جاہل اور نادان افراد دوستداران اہلبیت(ع) کو اپنے حملات کا نشانہ بناتے ہیں۔ دشمن امام حسین (ع) پر رونے کی بنا پر ہمیں سرزنش کرتے ہیں۔
کیا امامتِ مفضول کو قبول کرتے ہیں؟
ہز گز نہیں، چونکہ پانی کے ہوتے ہوئے تیمم باطل ہے۔
۔ان لوگوں کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جو اجداد پیغمبر(ص) کو کافر سمجھتے ہیں؟
پیغمبر اکرم (ص) کے تمام اجداد تا حضرت آدم سب کے سب یکتا پرست اور موحد تھے اور یہ بات قرآن اور سنت سے ثابت ہے۔
۔مصر میں تشیع کے سلسلے میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟
مصر کے لوگ فطرتا اہلبیت(ع) کو چاہنے والے ہیں لیکن وہابیت کے کچھ عناصر اس ملک میں وجود میں آگئے ہیں جو لوگوں کو منحرف کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امام حسین (ع) پر گریہ کرنا جہنم کا باعث ہے۔ میں آپ کو حقیقت بتاوں، مصر کے لوگوں میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ صرف معرفت اور آگاہی کی کمی ہے۔ اگر ہم انہیں اہلبیت(ع) کی صحیح معرفت دلائیں تو وہ آسانی سے قبول کر لیں گے اور اگر ٹھیک طریقے سے انہیں دشمنوں کی پہچان کرائیں تووہ ان سے برائت طلب کریں گے۔
۔ماضی میں الازھر یونیورسٹی شیعہ امامیہ کے ساتھ میانہ روی سے پیش آتی تھی لیکن ان سالوں میں افراطی پہلوکچھ زیادہ نظر آ رہا ہے۔ حتی وہاں کے ایک ذمہ دار شخص سعودی عرب کے ایک رسالہ’’ المجلہ‘‘ میں اپنی گفتگو کے دوران شیعوں کی اصلیت کو یہودیوں سے نسبت دیتے ہیں! آپ کا اس سلسلے میں کیا نظریہ ہے؟
الازھر کے قدیم علماء کے درمیان بعض اعتدال پسند شخصیات تھیں جیسے شیخ عبد اللہ الشیراوی، شیخ محمد عبدہ، شیخ سلیم البشری اور شیخ شلتوت وغیرہ۔ لیکن اب ایسی کوئی شخصیت اس یونیورسٹی میں نظر نہیں آتی۔ اسی وجہ سے بعض ایسی باتیں یا تو جہالت کی بنا پر کرتے یا اگر جانتے ہیں تو جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں۔
۔اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں اپنے سفر کے بارے میں بتائیں۔
میں نے بہت سارے سفر کئے ہیں اور سب کی وضاحت یہاں پر بیان نہیں کر سکتا۔ مصر کے اندر تقریبا میں تمام صوبوں میں گھوما ہو۔ اور خارج از مصر، میں نے پورے ۶ سال ابو ظبی میں ٹیلیویژن سے قرآن کا درس دیا ہے۔ اس کے علاوہ مسجد الحرام میں وہابی علماء سے مناظرے کئے ہیں۔ یورپی ممالک جیسے جرمنی، برطانیہ، کنیڈا اور امریکہ کا سفر کیا ہے اور ان ممالک میں ہونے والی بعض کانفرنسوں میں شرکت کی ہے۔
۔آخر میں آپ عالم اسلام کو کیا پیغام دیں گے؟
میں دنیا کے تمام مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتا ہوں کہ ولایت امیر المومنین(ع) اور ائمہ طاہرین(ع) سے متمسک ہوں اور دشمنان اہلبیت(ع) سے بیزاری اختیار کریں اور ہمیشہ اپنے اعمال کی انجام دہی میں تعقل اور تدبر سے کام لیں۔

مظلومانہ شہادت
رواں سال ۱۵ شعبان ۱۴۳۴ ھ مطابق ۲۳ جون ۲۰۱۳ کو شب ولادت امام زمانہ علیہ السلام مصر کے صوبہ الجیزہ کے گاوں ابوالنمرس کے علاقے ابو مسلم میں منعقد پروگرام پر سلفی تکفیریوں نے حملہ کیا اور اس پروگرام میں موجود شیخ حسن شحاتہ کو خاص طور پر اپنے بہیمانہ حمالات کا نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں نے شیخ شحاتہ اور ان کے بھائی سمیت ۵ افراد کو شہید کر دیا۔
ایک عینی شاہد یاسر یحییٰ کا کہنا ہے: جب علاقے کے سلفی تکفیری پروگرام میں شیخ حسن شحاتہ کی شرکت پر مطلع ہوئے تو جس گھر میں پروگرام منعقد تھا اس کے مالک مکان سے کہا کہ شیخ شحاتہ کو انہیں تحویل دیا جائے لیکن مالک مکان نے قبول نہیں کیا تو حملہ آوروں نے پروگرام پر دھاوا بول دیا۔
یاسر یحییٰ نے مزید بتایا: علاقے کے لوگوں نے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے گھر پر حملہ کیا مکان کی دیوار توڑ کر گھر میں گھس گئے اور پروگرام میں موجود افراد کو مار پیٹ کرنا شروع دیا۔ ان کا اصلی ٹارگٹ شیخ شحاتہ تھے۔
لبنان کے ٹی وی المنار کی رپورٹ کے مطابق ولادت امام زمانہ (ع) کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں ۳۰ کے قریب شیعہ افراد موجودہ تھے جبکہ سینکڑوں حملہ آوروں نے وحشیانہ حملہ کر کے علامہ شیخ حسن شحاتہ سمیت ۵ افراد کو شہید کر دیا اور شیخ شحاتہ کی لاش کو سڑک پر گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور گھر کو نذر آتش کر دیا۔

بشکریہ ابنا

Add new comment