ہمارے خارجہ تعلقات عزت، حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں۔ایرانی زیردفاع

ٹی وی شیعہ (ویب ڈیسک)اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے العالم کے پروگرام "مِن طهران" میں بات چیت کرتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں میں رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ کی مجوزہ "بہادرانہ لچک" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: رہبر انقلاب نے اس سے قبل فرمایا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیاد تین اصول ہیں: عزت، حکمت اور مصلحت اور یہ بہادرانہ لچک بھی شاید اسی قول کی دوسری تعبیر ہو۔
انھوں نے کہا: یہ تین اصول اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ تعلقات پر حاکم ہیں جن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی؛ اور بہادرانہ لچک کے معنی یہ ہے کہ ایران کے قومی اصول، اہداف اور مفادات ثابت ہیں اور ہم اپنی تزویر (یا اسٹریٹجی) کو بھی ناقابل تغیر سمجھتے ہیں تاہم سب اپنی روشیں آزماتے ہیں تاکہ ملکی مفادات زیادہ سے زیادہ ہوں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو عوام کی مکمل اور وسیع حمایت حاصل ہے اور ہم اپنی معاشی اور دفاعی صلاحیتوں کے بدولت دنیا میں مؤثر کھلاڑی کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور اسی کھیل کا ایک پہلو مذاکرات ہیں۔
انھوں نے کہا: ایران کا ایک اصول یہ ہے کہ ہمیں مذاکرات کی میز پر کمزور فریق نہ سمجھا جائے؛ ایران عزت و قوت کے عروج پر مذاکرات کے لئے تیار ہے جو نہ تو کوئی پیشگی شرط قبول کرتا ہے اور نہ ہی دھونس دھمکی سے خائف ہوتا ہے اور مدمقابل فریق سے کسی قسم کا خوف و خطر محسوس نہيں کرتا۔
انھوں نے کہا: تسلط پسند نظام ہمارے نظام اور مفادات کا خیرخواہ نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے مفادات کی فکر ہے۔ بہادرانہ پالیسی کے معنی یہ ہیں کہ فریق مقابل کو تسلیم کرنا چاہئے کہ برابری کی سطح پر، ہم پر کوئی بھی موضوع ٹھونسنے کے بغیر، بین الاقوامی قانون میں کسی بھی سیاسی ـ حکومتی نظام کے تسلیم شدہ حقوق کو پامال کئے بغیر، مذاکرات کی میز پر آکر بیٹھ جائے۔ اگر ان شرطوں کو مدنظر رکھا جائے تو ہم مذاکرات کی مخالفت نہيں کریں گے۔
انھوں نے بہادرانہ سفارتکاری کے حوالے سے سپاہ پاسداران اور سفارتی حلقوں کے درمیان ممکنہ اختلاف کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: جو پالیسی رہبر معظم کی طرف سے آتی ہے نظام اسلام کے تمام ارکان اور تمام شعبوں کے لئے نافذالعمل ہوتی ہے اور اسلامی نظام عزم راسخ کے ساتھ رہبر انقلاب کی پالیسیوں کی پیروی کرے گا اور رہبر معظم بھی نگرانی کررہے ہیں اور اگر کوئی کمی ہو تو خبر دار کریں گے اور کسی کے ساتھ اس حوالے سے رعایت نہیں برتیں گے۔
امریکہ لڑنے کی قوت نہیں رکھتا
بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے امریکیوں کی طرف سے میز پر جنگ اور سفارتکاری کے آپشنز رکھنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خطے اور دنیا کی سطح پر حالیہ 20 برسوں کے حالات کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ان برسوں کے دوران امریکیوں کی فوجی مداخلتوں نے اولاً از کم یہ درس امریکی افواج اور سیاستدانوں نیز امریکہ کے حلیفوں کو دیا کہ جنگ کے اخراجات اس کی آمدنی سے زيادہ ہیں، ثانیاً میدان جنگ میں اترنے کا فیصلہ آسان ہے لیکن اس سے کامیاب ہوکر خارج ہونے کی کوئی ضمانت نہيں ہے۔
انھوں نے کہا: امریکی سیاستدان سرحدوں کے باہر کسی جنگ کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی اب ان کے پاس اس کی طاقت ہے چنانچہ اب وہ کسی سیاسی نظام کا تختہ الٹ کر اس پر قابض نہيں ہوسکتے؛ اور پھر اگر کوئی فضا یا زمین سے کوئی میزائل پھینکے تو یہ عسکری قوت کی علامت نہیں بلکہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنا ارادہ خطے کے کے ارادے پر مسلط کرے اور اس کا فیصلہ اور ارادہ غالب ہو۔
انھوں نے کہا: اسرائیل نے ابتداء ہی سے امریکیوں کو اکسانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایران کے خلاف عسکری اقدام کرے لیکن امریکیوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اتنے بھی بےعقل نہیں ہیں؛ بلکہ وہ حقائق کا تجزیہ کرتے ہیں؛ چنانچہ ماننا پڑے گا کہ صہیونی لابی ہمیشہ امریکہ کو ایران کے خلاف اکساتی ہے اور ایران کے خلاف یہ دھمکی کہ "جنگ کا آپشن میز پر ہے" کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسی کی دہائی میں ایران کے خلاف صدام کی آٹھ سالہ جنگ کے زمانے سے اب تک یہ دھمکی دہرائی جاتی رہی ہے۔
انھوں نے کہا: جو کچھ صدر روحانی نے اس بارے میں کہا اور اسلامی جمہوری نظام کا موقف بھی وہی ہے وہ یہ ہے کہ "طاقت اور دھمکی کی زبان سے کسی کے ساتھ مذاکرات نہيں کئے جاسکتے، اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات برابری کی فضا میں بغیر کسی دھونس دھمکی کے، باہمی احترام کے ماحول میں، منعقد ہوں اور ایک فریق کا ارادہ دوسرے فریق پر مسلط نہ کیا جائے اور ہر مذاکرات کا نتیجہ جیت ـ جیت کی صورت میں برآمد ہونا چاہئے"۔ ہمارے خیال میں ایک طرف سے جنگ کی دھمکی اور دوسری طرف سے مذاکرات کی دعوت قابل قبول نہیں ہے۔
مذاکرات برائے مذاکرات کا دور گذر چکا ہے
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر دفاع نے ـ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ "کیا صدر روحانی اوباما سے ملاقات کریں گے؟" ـ کہا: صدر روحانی کا کہنا تھا کہ سفارتی دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ ابتداء میں امریکیوں نے ملاقات کے امکان کو مسترد کیا لیکن اب کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لغے تیار ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات کا دور گذر چکا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد ہو اور مذاکرات کے بعد کسی اقدام کا آغاز کیا جاسکے۔
ایران میں جوہری توانائی کے عسکری استعمال موضوع زیر بحث نہیں ہے
بریگیڈیئر جنرل حسین دہقان نے پرامن جوہری پروگرام سے ہٹنے کے بارے میں مغربی طاقتوں کے الزامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ایران کی طرف سے پرامن جوہری پروگرام سے انحراف کا امکان، امریکیوں کے ہاتھ میں ایک حربہ ہے اور امریکی بین الاقوامی ایٹمی انرجی ایجنسی کے توسط سے اسی حربے کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ہم شرعی حوالے سے جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جاسکتے، اور رہبر انقلاب اسلامی کے فرامین اسلامی نظام کے تمام شعبوں اور حصوں کے لئے شرعی فریضہ سمجھے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان کے فرامین کی خلاف ورزی نہيں کرسکتا۔
انھوں نے کہا: امریکہ کے تمام سیکورٹی اداروں نے بھی ایک رپورٹ شائع کی کہ کوئی بھی ثبوت موجود نہيں ہے کہ ایران نے پرامن جوہری پروگرام سے عسکری استعمال کی طرف کوئی انحراف کیا ہو۔ اب مغربی فریقوں کو کیوں ایسے تصورات میں الجھنا چاہئے۔
انھوں نے کہا: وزارت دفاع کے منصوبے گہرے تجزیئے، تزویری نگاہ اور طویل المدت اہداف پر مبنی ہیں اور سلامتی کے حوالے سے گرد و پیش کے حالات اور قومی سلامتی کے لئے قابل تصور خطرات کو مدنظر رکھ کر تسدیدی پالیسی اور ہمہ جہت دفاع کی بنیاد پر مچتلف قسم کے ہتھیار تیار کرتی ہے۔
انھوں نے کہا: ہم جدید ہتھیار اور ساز و سامان تیار کررہے ہیں جو ہماری مسلح افواج کی برتری کی ضمانت دیں اور ہم مؤثر تسدید (Detterence) کی طرف آگے بڑھیں۔ ہم نے فضائیہ کے حوالے سے ایک گائیڈڈ ہوائی جہاز دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی، دشمن کے طیاروں کا مقابلہ کرنے اور جنگی مشن انجام دینے کے لئے بنایا ہے اور اس کی طویل المدت پرواز، پرواز کی بلندی اور رفتار کو بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔
..................بشکریہ ابنا

Add new comment