کمال اخلاق
ٹی وی شیعہ ریسرچ سیکشن
ابراھیم بن عباس کہتے ھیںکہ: میں نے کبھی بھی حضرت امام رضا علیہ السلام کو اپنی باتوں سے کسی پر جفا کرتے ھوئے نھیں دیکھا، اور کبھی نھیں دیکھا کہ کسی کی بات ختم ھونے سے پھلے اس کی بات کو کاٹ دیں، کسی کی حاجت کو ردّ کرتے ھوئے نھیں دیکھا کہ جو آپ کی طاقت میں ھوتی تھی، اور آپ نے کبھی بھی ساتھ بیٹھنے والے کے سامنے پیر نھیں پھیلایا اور کبھی بھی اپنے غلاموں اور خادموں کو نازیبا الفاظ نھیں کھے اور کبھی آپ کو تھوکتے ھوئے نھیں دیکھا اور کبھی بھی آپ کو ہنستے ھوئے نھیں دیکھا بلکہ آپ کی ہنسی تبسم کی حد تک ھوا کرتی تھی۔
جب بھی خلوت میں تشریف فرما ھوتے تھے اور کھانے کا دسترخوان آپ کے سامنے بچھایا جاتا تھا غلاموں یہاں تک کہ محافظوں اور کارندوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے،آپ رات میں سوتےکم تھے اور رات میں عبادت زیادہ کرتے تھے، اکثر راتوں میں صبح تک بیدار رہتے تھے، بہت زیادہ روزہ رکھتے تھے ،آپ ہر ماہ کی پھلی، پندرھویںاور آخری تاریخ کا روزہ کبھی نھیں چھوڑتے تھے ، آپ زیادہ تر صدقہ اور نیک کام رات کی تاریکی میں انجام دیتے تھے، اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ آپ جیسی فضیلت رکھنے والے کسی شخص کو دیکھا ھے تو اس کا یقین نہ کرنا۔![1]
غریبوں کو کھانا کھلانا
معمر بن خلاد کہتے ھیںکہ: جب حضرت امام رضا علیہ السلام کھانا تناول فرمانا چاہتے تھے تو ایک بڑی سینی آپ کے لئے لائی جاتی تھی اور آپ اس سینی کو دسترخوان کے پاس رکھتے تھے اور دستر خوان پر موجود اچھے اور بہترین کھانوںسے تھوڑا تھوڑا اٹھاکر اس بڑی سینی میں رکھتے تھے ، اس کے بعداسی سینی کو غریبوں کے لئے بھیج دیا کرتے تھے اور پھر اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرماتے تھے:
< فَلاَاقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ>[2]
”پھر وہ (تیزی سے) گھاٹی پر سے کیوں نھیں گذرا۔“
اور پھر فرماتے تھے: خداوندعالم جانتا ھے کہ تمام انسانوں میں غلام کو آزاد کرنے کی طاقت نھیں ھے، لہٰذا ان کے لئے جنت کے راستہ کو غریبوں کو کھانا کھلانا قرار دیا ھے۔[3]
انسان کی عزت
بلخ کے رہنے والے ایک شخص کا کہنا ھے کہ: میں خراسان کے سفر میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے ساتھ تھا، ایک روز کھانے کے وقت جب آپ نے سبھی سیاہ و سفید غلاموں کو اپنے دسترخوان پر جمع کیا میں نے امام علیہ السلام سے کہا: میں آپ پر قربان! اگر ان لوگوں کا دسترخوان الگ کردیتے تو زیادہ مناسب ھوتاآپ نے فرمایا: خاموش ھوجا! خداوندعالم ایک ھے، ماں باپ بھی ایک ھیں اور اعمال کی جزا بھی ایک ھی ھے۔[4]
سفر میں مجبور ھونے والے کی مدد
الیسع بن حمزہ کہتے ھیں: میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں تھا اور آپ سے گفتگو کر رہا تھا، آپ کی بزم میں بہت سے لوگ جمع تھے جو آپ سے حلال و حرام کے سلسلہ میں سوالات کر رھے تھے کہ اچانک ایک بلند قامت شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں آیااور اس نے کہا: یا بن رسول الله! آپ پر میرا سلام ھو، میں آپ اور آپ کے آباء و اجداد کے دوستداروں میں سے ھوں، حج سے واپس لوٹ رہا تھا کہ میرا زاد راہ ہاتھوں سے نکل گیا اور اب میرے پاس سفر کے خرچ کے لئے کچھ باقی نھیں بچا ھے، اگر آپ مجھے اپنے شہر تک جانے میںمیری مدد کریں تو یہ خداوندعالم کی مدد ھوگی، اور جب اپنے شہر پہنچ جاؤں گا آپ کی عطا کردہ رقم کو آپ کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، کیونکہ میں صدقہ کا مستحق نھیں ھوں۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا تم پر رحمت کرے، بیٹھ جاؤ، اور پھر میری طرف رخ کرکے مجھ سے گفتگو کرنے لگے ۔جب دوسرے لوگ آپ کے پاس سے اٹھ گئے اور وہ، سلیمان جعفری، خثیمہ اورمیرے علاوہ کوئی اور باقی نہ رہا توامام علیہ السلام نے فرمایا: کیا مجھے اجازت ھے کہ حجرہ میںجاوٴں، اس موقع پر سلیمان جعفری کی طرف رخ کرکے فرمایا: اے سلیمان! خداوندعالم نے تمہارے کام کو مقدم کیا ھے، اس کے بعد اٹھے اور حجرہ میں وارد ھوگئے، کچھ دیر کے بعد واپس آئے، دروازہ بند کیا اور اپنے ہاتھوں کو اوپر سے باہر نکالا اور فرمایا: خراسانی کہاں ھے؟ خراسانی نے کہا: میں یہاں ھوں، فرمایا: یہ دو سو دینار لے لو، اپنے سفر کے لئے خرچ کرو اور اس سے برکت حاصل کرو، لیکن اس رقم کو میری طرف سے صدقہ نہ دینا، اور اب یہاں سے چلے جاؤ کہ میں تمھیں نہ دیکھوں اور تم مجھے نہ دیکھو!!
اس کے بعد وہ شخص چلا گیا، سلیمان نے امام علیہ السلام سے عرض کی: میں آپ پر قربان! آپ نے سخاوت اور مہربانی کی،لیکن اپنے چہرے کوکیوں چھپا لیا تھا؟ فرمایا: اس خوف کی وجہ سے کہ سوال کرنے کی ذلت و خواری کو کہ میں نے اس کی حاجت پوری کردی ھے، اس کے چہرے پر نہ دیکھوں، کیا تم نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) کی حدیث نھیں سنی کہ مخفی طور پر نیکی کرنے کا ثواب ستّر حج کے برابر ھے، ظاہر طور پر برائی کرنے والا ذلیل و رسوا ھوتا، مخفی طور پر برائی کرنے والا بخش دیا جانے والا ھے کیا ھم سے پھلے بزرگوں کا قول نھیں سنا ھے!
”مَتیَ آتِہِ یَوماً لِاٴَطلُبَ حَاجَةً
رَجعْتُ اِلَی اٴھلِی وَوَجْھِی بِمائِہِ“۔[5]
مزدور کی مزدوری
سلیمان بن جعفر جعفری کہتے ھیں: کسی کام کی وجہ سے حضرت امام رضا علیہ السلام کے ساتھ تھا میں نے گھر پلٹنا چاہا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: ھمارے ساتھ چلو، اور آج رات ھمارے یہاں قیام کرو۔
چنانچہ میں امام علیہ السلام کی ساتھ روانہ ھوگیا اور غروب آفتاب کے وقت ھم امام علیہ السلام کے گھر پہنچے، آپ نے اپنے غلاموں پر ایک نظر ڈالی جو مٹی سے چار پایوں کے اصطبل یا کوئی دوسری چیز بنارھے تھے،اچانک آپ نے ایککالے شخص کو دیکھا جو آپ کے غلاموں میں سے نھیں تھا، فرمایا: یہ شخص کون ھے جو تمہارے ساتھ کام کر رہا ھے؟ غلاموں نے کہا: ھماری مدد کر رہا ھے اور ھم اس کو کچھ دیدیں گے، امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا تم نے اس کی مزدوری طے کرلی ھے ؟انھوں نے کہا: ھم جتنا بھی دیدیں گے وہ راضی ھوجائے گا، امام علیہ السلام یہ جواب سن کر بہت خشمگین ھوئے اور تازیانہ لیکر ان کی طرف بڑھے اور اس کوتاھی کی ان کو سزا دی ۔
میں نے کہا: میں آپ پر قربان! آپ کیوں اتنا پریشان ھوتے ھیں؟ فرمایا: میں نے ان غلاموںکو مکرر منع کر رکیا ھے کہ کسی کی مزدوری طے کئے بغیر کام پر نہ لائیں! تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ اگر کوئی شخص مزدوری طے کئے بغیر تمہارے لئے کام کرے اگر تین برابر بھی اس کی مزدوری میں اضافہ کروگے تو بھی سمجھے گا کہ اس کی مزدوری کم دی ھے، لیکن اگر مزدوری طے کرلو اور بعد میں اس کو ادا کردو تو تمہاری وفا داری پر شکر گزار ھوگا، اور اگر اس کو مزدوری تھوڑی بڑھا کر دیدی ، تو اپنے حق کو پہچانتے ھوئے اسے معلوم ھوگا کہ تم نے مزدوری زیادہ دی ھے۔[6]
توحید میں اخلاص
ابو صلت ہروی کہتے ھیں: جب حضرت امام رضا علیہ السلام ایک سیاہ و سفید خچّر پر سوار ھوئے اور نیشاپور میں وارد ھوئے تو اس وقت میں امام علیہ السلام کے ساتھ تھا، نیشاپور کے علماء اور دانشور حضرات امام علیہ السلام کے استقبال کے لئے آئے۔
جب آپ ”محلہ مربعہ“ میں پہنچے تو لوگوں نے آپ کے خچّر کی لگام لے لی اور کہا: اے فرزند رسول!آپکو اپنے پاک و پاکیزہ آباء و اجداد (صلوات الله علیھم اجمعین) کے حق کا واسطہ آپ ان سے کوئی حدیث ھمارے لئے بیان کریں۔
امام علیہ السلام جو اونی ردا پہنے ھوئے تھے؛ اپنا سر محمل سے نکالا اور فرمایا: ھمارے والد محترم موسی بن جعفر علیھما السلام نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والد محترم محمد بن علی علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین علیھما السلام سے، انھوں نے اپنے والدمحترم جوانان جنت کے سردار امام حسین علیہ السلام سے، انھوں حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام سے انھوں نے رسول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) سے حدیث نقل کی ھے کہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا کہ : جبرئیل روح الامین نے خدائے عزّ و جلّ سے مجھے خبر دی ھے کہ : بے شک میں خدا ھوں، میرے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، میرے بندو! میری عبادت کرو اور تمھیں معلوم ھونا چاہئے کہ تم میں سے جو شخص ”لا الہ الاَّ الله “ کی شہادت کے ساتھ ملاقات کرے درحالیکہ اس (شہادت) میں اخلاص سے کام لے تو وہ میرے قلعہ میں وارد ھوگیا ھے، اور جو شخص میرے قلعہ میں داخل ھوگیا وہ میرے عذاب سے نجات پاگیا، لوگوں نے سوال کیا: یا بن رسول الله! خدا کی شہادت میں اخلاص سے کیا مراد ھے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا کی اطاعت، رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم) کی اطاعت اور ھم اھل بیت علیھم السلام کی ولایت۔[7]
کریمانہ خط
بزنطی بیان کرتے ھیں کہ: میں نے وہ خط پڑھا جوامام رضا علیہ السلام نے حضرت امام جواد ( امام محمد تقی) علیہ السلام کو بھیجا تھا، جس میں تحریر تھاکہ: اے اباجعفر! مجھے معلوم ھوا ھے کہ جب آپ بیت الشرف سے باہر نکلتے ھیں اور سواری پر سوار ھوتے ھیں تو خادم آپ کو چھوٹے دروازے سے باہر نکالتے ھیں، یہ ان کا بخل ھے تاکہ آپ کا خیر دوسروں تک نہ پہنچے،میں بعنوان پدر اور امام تم سے یہ چاہتاھوں کہ بڑے دروازے سے رفت و آمد کیا کرو۔
اور جب سواری پر سوار ھو تو اپنے پاس درھم و دینار رکھ لیا کرو تاکہ اگر کسی نے تم سے سوال کیا تو اس کو عطا کردو، اگر تمہارے چچا تم سے سوال کریں تو ان کو پچاس دینار سے کم نہ دینا، اور زیادہ دینے میں خود مختار ھو، اور اگر تمہاری پھوپھیاں تم سے سوال کریں تو ۲۵/ درھم سے کم نہ دینا اگر زیادہ دینا چاھو تو تمھیں اختیار ھے۔ میری آرزو ھے کہ خدا تم کو بلند مرتبہ پر فائز کرے، لہٰذا راہ خدا میں انفاق کرو ،اور خدا کی طرف سے تنگدسی سے نہ ڈرو![8]
دو پیراہن اور مال کا انفاق
ریان بن صلت کہتے ھیں کہ: میں خراسان میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے دروازہ پر تھا، میں نے معمر سے کہا: تم میرے مولا و آقا کے پاس جاؤ اور ان سے کھو کہ ان کے پیراہنوں میں سے ایک پیراہن مجھے عطا کردیں اور ان درھموں میں سے عطا کریں کہ جن کا نام سکّہ ھے۔ معمر نے کہا: میں فوراً ھی امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا، چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طرح کلام کا آغاز کیا: اے معمر! ریان یہ نھیں چاہتے کہ میں اسے اپنا پیراہن دوں اور اپنے درھموں میں سے اسے بخش دوں؟ میں نے کہا: سبحان الله! یہ بات وھی ھے جس کو ابھی ابھی اس نے دروازہ پر کھی ھے!
حضرت امام رضا علیہ السلام مسکرائے اور پھر فرمایا: بے شک مومن کامیاب ھے، اس سے کھو : میرے پاس آجائے، چنانچہ وہ آئے اور مجھے امام علیہ السلام کے بیت الشرف میں لے گئے، میں نے امام علیہ السلام کو سلام کیا، امام علیہ السلام نے جواب دیا، اس کے بعد امام علیہ السلام نے اپنے پیراہنوں سے دو پیراہن طلب کئے اور مجھے عطا کئے، اور جب میں آپ کی خدمت سے رخصت ھونے لگا تو تیس درھم بھی مجھے عنایت کئے۔[9]
بھاری قرض کی ادائیگی
ابو محمد غفاری کہتے ھیں کہ : میرے اوپر قرض کی بھاری رقم تھی، میں نے اپنے دل میں کہاکہ : اس قرض کی ادائیگی کا راستہ صرف میرے مولا و آقا ابو الحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام سے مدد لینے کے علاوہکچھ نھیں ھے،میں صبح کے وقت امام علیہ السلام کے بیت الشرف آیا اور اذن ورود طلب کیا، مجھے اجازت ملی، جب میں وارد ھوا، امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: اے ابا محمد! میں تمہاری حاجت کو جانتا ھوں، تمہارا قرض ھمارے ذمہ ھے۔
جب رات ھوگئی، کھانا لایا گیا اور ھم نے کھانا کھایا، امام علیہ السلام نے فرمایا: رات میں ھمارے یہاں قیام کروگے یاچلے جاؤ گے؟ میں نے کہا: اے میرے مولا و آقا! اگر میری حاجت کو پوری کردیں تو جانا میرے لئے بہتر ھے، امام علیہ السلام نے کچھ مقدار پیسے اٹھائے اور مجھے دئے۔
میں امام علیہ السلام کے نزدیک گیا اور چراغ کے پاس جاکر، میں نے دیکھا کہ سرخ وزرد دینار ھیں، میرے ہاتھ میں پھلا دینار تھا اس پر لکھے ھوئے نقشہ کو دیکھا تو گویا لکھا ھوا تھا: اے ابا محمد! دینار پچاس ھیں، ۲۶ دینار تمہارے قرض کی ادائیگی کے لئے اور ۲۴ دینار تمہارے اھل خانہ کے خرچ کے لئے ھیں،دوسرے روز صبح کے وقت جب میں نے دیناروں پر غورکیا تو اس دینار کو نھیں دیکھا، اور ان پچاس دینار میں سے بھی کچھ بھی کم نھیں ھوا۔!![10]
[1] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۸۴، باب۴۴، حدیث۷؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۹۱، باب۷، حدیث۴۔
[2] سورہٴ بلد (۹۰)، آیت، ۱۱۔
[3] اصول کافی، ج۴، ص۵۲، باب فصل اطعام الطعام، حدیث۱۲؛ المحاسن، ج۲، ص۳۹۲، باب۱، حدیث۲۹؛ وسائل الشیعة، ج۲۴، ص۲۹۲، باب۲۶، حدیث ۳۰۵۲۸؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۹۷، باب۷، حدیث۱۱۔
[4] اصول کافی، ج۸، ص۲۳۰، حدیث یاجوج وماجوج، حدیث۲۹۶؛ وسائل الشیعة، ج۲۴، ص۲۶۴، باب۱۳، حدیث۳۰۵۰۴؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۰۱، باب۷، حدیث۱۸۔
[5] اصول کافی، ج۴، ص۲۳، باب من اعطی بعد المساٴلة، حدیث۳؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۰۱، باب۷، حدیث۱۹۔
[6] اصول کافی، ج۵، ص۲۲۸، باب کراھة استعمال الاجیر، حدیث۱؛ وسائل الشیعة، ج۱۹، ص۱۰۴، باب۳، حدیث۲۴۲۴۷؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۰۶، باب۷، حدیث۳۴۔
[7] امالی، طوسی، ص۵۸۸، حدیث۱۲۲۰؛ مجموعہ ورام، ج۲، ص۷۴؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۲۰، باب۱، حدیث۱۔
[8] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۸، باب۳۰، حدیث۲۰؛ مشکاة الانوار، ص۲۳۳، الفصل الرابع فی السخاوة؛ بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۰۲، باب۵، حدیث۱۶۔
[9] قرب الاسناد، ص۱۴۸؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۲۹، باب۳، حدیث۱۔
[10] عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۱۸، دلالة اخری، حدیث۲۹؛ بحار الانوار، ج۴۹، ص۳۸، باب۳، حدیث۲۲۔
بشکریہ صادقین
Add new comment