شیعہ اور پاکستان

بلاشبہ 23 مارچ 1940کومینارپاکستان پرمنعقدہونے والاعظیم الشان جلسہ قیام پاکستان کی تحریک میں اہم سنگ میل ثابت ہوا۔اوریوں برصغیرکے مسلمانوں کوعلیحدہ مملکت کے حصول کی جدوجہدکرنے کاموثرپلیٹ فارم فراہم ہوا اورتحریک پاکستان کی لہرمیں ایک نئی تازگی پیداہوئی،بالآخرمسلم لیگ کے اکابرین اورعوام الناس کی مسلسل کوششوں اورقربانیوں کی بدولت اگست ۱۹۴۷کووطن عزیز پاکستان کاقیام عمل میں آگیا۔یہ دنیاکے نقشہ پرقائم ہونے والی پہلی اسلامی ریاست تھی جوکہ خالصتاًاسلام کے نام اورنظرے پرمعرض وجودمیں آئی۔لیکن افسوس سے کہناپڑتاہے کہ تشیع کے حوالے سے جن نامورشخصیات نے اس مملکت کے قیام میں گراں قدرخدمات سر انجام دی تھیں آج ان کی نسلوں کے لیے پاکستان کی سرزمین تنگ کردی گئی ہے۔ وطن عزیزپاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بنیادپرشیعان حیدرکرارسے زندہ رہنے کاحق چھین لیاگیا ہے۔ جن شیعہ شخصیات نے تمام ترمذہبی تعصبات سے بالاترہوکر قیام پاکستان کی جدوجہدمیں موثراورجاندار کرداراداکیاتھاآج انہی کے بچوں کو شیعہ ہونے کے جرم میں زبردستی موت کی وادی میں دھکیلاجارہاہے۔ تاریخی حقائق سےثابت ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں سب سے زیادہ اہم کرداراہل تشیع کاتھااوراکابرین اہل تشیع سے لے کرایک عام سے کارکن تک کسی نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ تاریخ کے ان سنہرے اوراق سے چند اقتباسات پیش کیے جاتےہیں۔
جسٹس سید امیرعلی
۱۸۸۴ميں جسٹس سيدامير علي کي کوششوں سے کراچي ميں بھي ايک مدرسہ قائم کيا گيا جوعلي گڑھ کي طرزپرتھا اوراس کا نام ’’سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ رکھا گيا۔ قائد اعظم محمد علي جناح بھي اسي مدرسہ کے طالب علم رہے ہيں۔اسي طرح کاایک مدرسہ بنگال ميں ہگلي کے مقام پر قائم ہوا۔ جس کا ايک حصہ امام باڑہ کے لئے مختص تھا۔
سرسیداحمد خان
مسلمانوں کي انتہائي کسمپرسي، ابتري اور زوال و انتشارکی حالت سے متاثر ہوکر سرسيد احمد خان نے 1890 ميں ’’کميٹي خواستگارانِ ترقي تعليم مسلمانانِ‘‘ قائم کي۔ اس کميٹي نے فيصلہ کيا کہ مسلمانوں کي اعليٰ تعليم کے لئے ايک کالج کھولا جائے۔ يہي وہ فيصلہ تھا کہ جس نے مسلمانانِ ہند کے سوچنے کے انداز بدل ڈالے۔ چنانچہ ’’محمڈن کالج فنڈ کميٹي‘‘ قائم کی گئي۔ اس فنڈ ميں سرمايہ کي فراہمي اورپھر يونيورسٹي کے قيام عمل ميں جن شيعيانِ عليٴ نے نماياں خدمات انجام ديں، ان ميں سالارِ جنگ حيدرآباد خليفہ محمد حسن، وزيرِ اعظم پيٹالہ نواب صاحب رام پور،سرفتح علي قزلباش، مہاراجہ سر محمد علي خان محمود آباد، مولوي سيد حسين علي بلگرامي، بہادر حسين بخش، مير تراب علي آگرہ اورجسٹس سيد اميرعلي شامل تھے۔
مخالفين
حيرت کی بات يہ ہے کہ سرسيد احمد کے خلاف جومحاذکھڑاہوااُس ميں مولاناقاسم (سرپرست ديوبند)،مولانا رشيداحمد گنگوہي، مولانا حالي، شبلي نعماني اور ابوالکلام آزاد جيسے علماء شامل تھے۔ سرسید کےخلاف اٹھنے والی آوازاتنازورپکڑ گئي کہ  ان مذکورہ علماء نے آپ کے خلاف فتاويٰ بھي جاري کئے اور آپ کو لامذہب، کرسچين، دہريا، کافر، دجال وغيرہ کہہ کر مخاطب کيا گيا۔ یہاں تک کہ جب شديد مخالفت کا سامنا ہوا تو سر سيد احمد خان نے پورے ہندوستان کو چھوڑ کر ’’علي گڑھ‘‘ کو منتخب کيا جس کے متعلق وہ خود بتاتے ہيں کہ۔ يہ شہر آگرہ۔۔ بھرت پور کے علاقے میں سادات کي بستيوں کے قريب ہے جس کے سردار شيعہ ہيں۔ مجھے یہاں کے تمام لوگوں اور ان کي اولاد سے بھت زيادہ توقع ہے کہ يہ سب لوگ دل کی گھرائيوں سے مدرسہ کے حامي اورسرپرست رہيں گے۔ يہی ایک خاص وجہ تھی جس کی وجہ سے ميں نے علي گڑھ کاانتخاب کیا اور اسی  وجہ کوسب سے اعليٰ اور مقدم سمجھتا ہوں، ميں نہايت مضبوطي اوریقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شمال اورمغرب کےتمام اضلاع ميں، مجھے کوئي دوسري جگہ نظرنہ آئي۔ بس انہی وجوہات سے ميں نے دارالعلوم بنانے کے لئے علي گڑھ کو مناسب مقام سمجھا۔ اپني رپورٹ کو اس بات پرختم کرتا ہوں کہ ’’علي گڑھ‘‘ ايک پيارانام ہے۔ ہمارے پيغمبر اکرم کايہ قول مشہور ہے کہ ’’انامدينۃ العلم وعلي بابھا‘‘لہذا مین نےفیصلہ کیاکہ’’مدرسۃ العلوم‘‘جو ہم مسلمانوں کا درحقيقت پہلاعلمی دروازہ ہوگا علي گڑھ ميں ہي ہونا چاہيے۔   مقالات سرسیدج۱۶ص۷۶۴۔۷۷۱
محمد علی جناح:
قائد اعظم محمد علي جناح برطانيہ کي پرعشرت زندگي چھوڑ کرمسلمانانِ ہند کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے ہندوستان تشريف لائے اور اس کے بعد مسلمانوں کے ہردلعزيز ليڈربن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی مدابرانہ قیادت ہی قیام پاکستان کی کامیابی کا سرچشمہ ثابت ہوئی۔آپ ايک غيرمتعصب شيعہ تھے۔ مذہبِ اہلِ بيت سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھي آپ نے کسي فرقے کي ضرور ت سے زيادہ حمايت نہيں کي۔
تبليغي شيعہ
قائد اعظم محمد علي جناح نہ صرف يہ کہ اثنائ عشري شيعہ تھے بلکہ انھوں نے آغا خان کو يہ ترغيب دلائی کہ وہ اسماعيليوں کي سربراہي سے سبکدوش ہوکراثناعشري جماعت ميں شامل ہوجائيں۔ (شاہراہِ پاکستان صفحہ ٥٢٠)
شفيق بريلوي صاحب نے اپني کتاب ’’محمد بن قاسم سے محمد علي جناح تک‘‘ شائع کردہ نفيس اکيڈمي کراچي کے صفحہ ١٠٥ کے مقابل نکاح کے رجسٹر سے قائد اعظم کے نکاح کے اندراج کا عکس شائع کيا ہے جس ميں آپ کو ’’محمد علي ولد جينا خوجہ اثنائ عشري‘‘ تحريرکيا گيا ہے ۔
محبتِ رسول ۰
جنابِ رسول اسلام سے والہانہ عقيدت کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ قائد اعظم فرماتے ہیں کہ میں نے ’’لنکن ان‘‘ يونيورسٹي ميں صر ف اس لئے داخلہ ليا تھا کہ اس کے دروازے پردنيا کے ممتاز قانون دانوں میں کي فہرست ميں پيغمبر۰کا نام شامل تھا۔ (قائد اعظم ميري نظرميں صفحہ۴ ١٦(
محبتِ عليٴ
اسي طرح  سے حضرت علي کی يومِ شہادت پردنيوي کاروبارسے لاتعلقي سےان کی عقيدت اوراصول پسندي کا اظہارہوتا ہے۔
راجہ صاحب محمود آباد:
پاکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ کہتے ہيں، پاکستان سرسيد احمد خان کي تعليمي خدمات،قائد اعظم کي رہنمائي اورراجہ صاحب محمود آباد کي دولت کے مرہونِ منت ہے۔
راجہ صاحب محمود آباد ریاست محمود آباد کے والی تھے جوکہ لکھنو سے 30 میل دور شیعہ اکثریت ریاست تھی آپ کے والد گرامی سرمحمد علی خان مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ ٓپ کے والد ’’مہاراجہ علي محمد خاں‘‘، نے ايک دفعہ کانپورمسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپني پوري رياست پيش کردي تھي۔ لوگوں نے کہا بھي ’’آپ بلاامتياز سب کي ضمانت دے رہے ہيں، ان کي اکثريت سے آپ واقف بھي نہيں ہيں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کے بچانے کے لئے ميري رياست ختم ہوجائے تو ميں اسے معمولي سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کي تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لئے ميں اپني جان اور آن کے لئے بھي خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔
آپ کي دريادلي
راجہ صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحريکِ پاکستان ميں اپني دولت کو لٹايا ہے اس کي مثال مشکل سے ملتي ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي،مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر آپ کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنو ميں محفلوں کو گرماتا۔جب آپ نے مسلم ليگ ميں شموليت اختيار کي تویہ ایک قسم سےگورنر’’سرہنري ہيگ‘‘ کے ساتھ ٹکرکے مترادف تھا۔ اسی وجہ سےآپ کو بلاکردھمکي دي گئي کہ اگرآپ نے مسلم ليگ نہ چھوڑي تو رياست ضبط کرلي جائے گي۔ ليکن آپ پراس کا کوئی اثرنہ ہوا بلکہ شعلہ آتش اورتيزہوگيا۔
لوگوں کي خدمت
راجہ صاحب مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اورشايد خدمت کي يہ ميراث ان کو اپنے والد مہاراجہ محمد علي خاں سے ملي تھي۔ یہی وجہ تھی کہ راجہ صاحب ایک طرف سےمسلم ليگ کے تمام جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تودوسري طرف ذاتي طورپرہربيکس و نادارکي مدد کے لے ہمہ وقت تيار رہتے۔ جب آپ کےبيٹے ’’سليمان مياں صاحب‘‘ کي ولاد ت ہوئي تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ ديا۔ مگرآپ نے عجيب انداز سے اللہ کي اس نعمت کا شکرادا کيا۔ وہ اس طرح کہ رياست کي تمام ٢٤ تحصيلوں سے کل ايسے آدميوں کي فہرست منگوائي جو موتيا کے مرض کا شکارتھے۔ چنانچہ انھوں نے گيارہ سو اٹھاون 1158 مريضوں کو اپنے علاقے کے کيمپ ميں ٹھہرايا اور تمام لوگوں کا مفت آپريشن ڈاکٹر ٹي پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروايا ۔
قائد اعظم کي انسان شناسي
قیام پاکستان کی تحریک میں آپ کی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ آپ قائد اعظم کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں مالی، اخلاقی مدد فراہم کرنے میں بہت زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح متعدد مواقع پر آپ کے وجود کو باعث افتخار قراردیا۔اور آپ کي صلاحيتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کومسلم ليگ کا خزانچي مقررکيا ليکن راجہ صاحب اس اہم منصب کے ساتھ ساتھ اپني شعلہ بياني سے بھي نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے، يوں زباني خرچ کے ساتھ ساتھ جيبي خرچ کي ذمہ دارياں بھي انجام ديتے رہے۔
ليکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپني رياست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان ميں تين فيکٹرياں لگانے کي پيشکش بھي ہوئي ليکن آپ نے اسے ٹھکرا ديا۔ اپني زندگي کے آخري ايام بڑي کسمپري کے ساتھ جو کي روٹي اور بسوں ميں سفرکرتے ہوئے گزارے
وہ محوِ نالہ جرسِ کارواں رہے
يارانِ تيزگام نے محمل کو جا ليا
سرآغا خان سوئم:
آپ آغا خان فیملی سے تعلق رکھنے والے نہایت ہی پڑھے لکھے اورامیر افراد میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں بہت زیادہ مالی مدد فراہم کی۔ آپ تحریک پاکستان میں قائداعظم کے شانہ بشانہ رہے۔
مرزا ابوالحسن اصفہانی:
آپ قائداعظم کے نہایت ہی قریبی دوست شمارہوتے تھے۔ آپ نے مسلم لیگ کوفعال اورمضبوط بنانے میں بہت اہم کردارادا کیا۔ آپ نے قائداعظم کی خواہش پرانگریزی اخبار ڈان کا اجراء کیا۔ 1945ء کے مسلم لیگ کے اسمبلی کے الیکشن مہم کے انچارج تھے۔ آپ اعلیٰ تعلی یافتہ اورمعاشرے میں بہت بلند مقام کی حامل شخصیت شمار ہوتے تھے۔
راجہ غضنفر علی خان:
آپ قائداعظم کے دیرینہ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ آپ قائداعظم کے ہراول دستہ کے اہم رکن شمارہوتے تھے۔ آج بھی اہل علاقہ آپ کی خدمات پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔
مرزا احمد اصفہانی:
مرزا احمد اصفہانی نے قائداعظم کے کہنے پرمسلم بینکاری نظام کا آغازکیا اورمسلم کمرشل بینک کی بنیاد رکھی۔ آپ نے ہرمشکل موقع پرمسلم لیگ کے فنڈ میں خطیر رقم بطورچندہ دی۔ قائداعظم اکثروبیشترمسلمانوں کی فلاح وبہبود اورمعاشی ترقی کے لیے آپ کے ساتھ مشاورت کیا کرتے تھے۔
سرآدم جی داﺅد:
مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آپ کی شاندار خدمات کا اعتراف متعدد مواقع پر قائداعظم نے اپنی تحریروں میں فرمایا۔ آپ کا شمار سرکردہ افراد میں ہوتا تھا۔ آپ نے قائداعظم اورمسلم لیگ کو پھیلانے اوراس کی مضبوطی کیلئے اہم کردارادا کیا۔
نواب فتح علی خان قزلباش:۔
آپ اس وقت لاہور کے سب سے بڑے نواب شمارہوتے تھے۔آپ نے پنجاب کے دل لاہورمیں قیام پاکستان کے لیے بھرپورکردارادا کیا۔ لاہورمیں مسلم لیگ اورقائداعظم کی تمام تنظیمی سرگرمیوں کا اہم مرکزقزلباش ہاﺅس ہی ہوا کرتا تھا۔
سید محمد دہلوی:۔
سیدمحمددہلوی اپنے دورکے شیعہ مکتب کے بڑے رہنماوں میں سےایک شمارہوتے تھے۔علم وحکمت کے بہارچمن میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بہت ہی مثبت اورجاندار کردارادا کیا۔
علامہ ابن حسن جاچوروی:۔
علامہ ابن حسن جاچوروی کا شمارنامورعالم دین میں ہوتا تھا۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بہت شاندار کرداراداکیا۔قائداعظم آپ کی صلاحیات کے بہت زیادہ معترف تھے۔ آپ نے شیعہ قوم کے شعورکواجاگر کرنے میں بہت اہم کردارادا کیا تھا۔
مولانا حسین بلگرامی آف اودھ پورہ:۔
آپ اہل تشیع کے ممتازعالم دین تھے اورقیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ حصہ لیا۔
سید وزیر حسن آغا:۔
آپ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری تھے اورقیام پاکستان کی تحریک میں بہت سے مواقع پرانتہائی خدمات سرانجام دیتےرہے۔ آپ مسلم لیگ کے اہم مرکزی راہنما اورقائداعظم کے معتمد خاص شمار ہوتے تھے۔
سید علی امام آف پٹنہ:۔
آپ کا نام تحریک پاکستان کے اہم ترین اکابرین میں شمارہوتا ہے۔
سید حسن امام آف پٹنہ:
آپ کا شمار بھی تحریک پاکستان کے اہم ترین اکابرین میں ہوتا ہے۔
سیٹھ محمد علی حبیب (حبیب بینک والے)
آپ قیام پاکستان کی تحریک میں بڑے فعال تھے،متعدد مواقع پرقائداعظم اورمسلم لیگ کی مالی معاونت کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے بجٹ کے لیے قائداعظم کی انتہائی خطیررقم سے معاونت کی۔
اس کے علاوہ آغا محمد اشرف قزلباش، سید مراتب علی شاہ، میجر حسن بلگرامی، سرہارون، نواب فتح علی سیال، خان بہادر سیدآل نبی (یوپی)، ابراہیم رحمت اللہ (بمبئی)، سید سلطان احمد(بہار)، سید رضا علی (یوپی)،غلام علی چھاگلہ(سندھ)،  سید محمد محسن (ڈھاکہ)، نواب سید محمد اسماعیل(بہار)، راجہ آف سلیم پور (یوپی) ، سید محمد مہدی پیر
پور(یوپی)،  سید جعفر امام (بہار)، سید آل نبی، سید مقبول حسین گویال(بہار)، مولانا مرزا احمد علی(لاہور)، علامہ حسین الوری، سید ذیشان حسین شاہ کرنال، سید مہدی علی(علی گڑھ)، پروفیسر اجمل رضوی (راولپنڈی)
خواتین میں :
مس فاطمہ جناح،بیگم مرزامحمد اصفہانی،بیگم علی امام،بیگم ہارون،بیگم قزلباش،بیگم وزیرحسن آغاکا کردارتحریک پاکستان میں نمایاں مقام رہا ہے.                                                                                                                                                                                                                         اسی طرح صوبہ سرحد میں شیعہ بنگش سادات اورطوری قبیلہ،بلوچستان میں ہزارہ جات،چنگیزی شیعہ بلوچ ، سندھ میں تالپورخاندان،سادات، بلوچ،مہر، پنجاب میں بلوچ، سادات اوردیگر تمام اہم علاقوں سے ہراقوام سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔

آج قیام پاکستان کی جدوجہد میں روزوشب صرف کرنے والے افراد کی نسلوں کوکبھی مسجد بم دھماکوں کی نظر کردیاجاتا ہے تو کبھی مومن پورہ کے قبرستان میں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی جلوسوں پرفائرنگ ہوتی ہے توکبھی خواتین کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے۔ سانحہ ٹھیری میرواہ سندھ، سانحہ مومن پورہ لاہور، سانحہ میلسی، سانحہ گلگت، سانحہ کرم داد قریشاں، سانحہ ہنگو، سانحہ پارہ چنار، سانحہ پشاور، سانحہ راولپنڈی، سانحہ کراچی، سانحہ کوئٹہ، سانحہ ملہو والی،سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان، سانحہ بھکر، سانحہ سیالکوٹ سمیت مختلف واقعات میں سیکڑوں علمائے کرام، انجینئرز،ڈاکٹر، پروفیسرز اوربے گناہ مومنین شہید کردئےگئے اورابھی تک یہ دہشت گردی کا نہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی دہشت گرد مجرم کوعبرتناک سزا نہیں دی جا سکی۔ قاتل اکثرگرفتار ہوئے، قبال جرم بھی ہوا مگرمجرمان باعزت بری ہوتے رہے ۔آج بلوچستان کے غیور ہزارہ جات، چنگیزی اورسادات خاندان کے افراد یہ سوچتے ہیں کہ قیام پاکستان کی جدوجہد اسلامی ریاست کے لیے تھی یا محض فرقہ واریت، انتہا پسندی کے فروغ کے لیے؟ ۔ آج سندھ ،پنجاب ، شمالی علاقہ جات، اورکزئی ایجنسی اورکرم ایجنسی کے شہداءکے ورثاءضرور سوچتے ہوں گے کہ شاید ہمیں قیام پاکستان کی تحریک میں شاندار کردار اور بے لوث قربانیاں دینے کے جرم میں بے گناہ شہید کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ نظریہ قیام پاکستان کے وقت تو نہ تھا۔
آج بھی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لینے والی قوم عصرحاضر میں بھی وطن عزیزپاکستان کے استحکام ،سالمیت اوربقاءکی جنگ لڑرہی ہے۔ بشکریہ شفقنا

Add new comment