اسلام آباد مجرموں کی جنت ہے۔ حکومت کااعتراف
ٹی وی شیعہ(نیوزڈیسک)ایک عرصے سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں عام شہریوں کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔غیرملکی جرائم پیشہ افراد آسانی کے ساتھ لوگوں کو لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کا کہناہے کہ یہ لوگ سرکاری اساروں کی ناک تلے اپنادھندہ کرتے ہیں اور متلقہ اداروں کو بھتہ دیتے ہیں۔اس حوالے سے اسلام آباد اور راولپنڈی کو مجرموں کی جنت بھی کہاجاتاہے۔
گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ، چوہدری نثار علی خان نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسلام آباد کے قرب و جوار میں واقع کچی آبادیوں میں تقریباً ایک لاکھ غیر ملکی آباد ہیں جن میں سے اکثر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
وقفہ سوالات کے دوران انہوں نے گمبھیر لہجے میں ایوان کو بتایا “اگر میں نے آپ کو تمام حقائق بتا دیے تو آپ میں سے بہت سوں کی نیندیں اُڑ جائیں گی۔ یہ لوگ وفاقی دارالحکومت میں ہونے والے تمام قسم کے جرائم میں ملوث ہیں”۔
انہوں نے زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں تاہم انہوں نے کہا کہ بری امام اور سیکٹر ڈی-12 ان کے معروف مقامات ہیں۔
نومنتخب ارکین قومی اسمبلی کے لیے شاید یہ بیان کسی انکشاف سے کم نہ ہو۔ تاہم اسلام آباد کے شہریوں کے لیے “خطرناک غیر ملکی عناصر” کی ان کے علاقوں میں موجودگی، کی یہ لعنت ایک عرصے سے ان کے لیے روزمرہ کا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
چوہدری نثار نے ایوان کو بتایا “وزارت داخلہ میں اپنا منصب سنبھالنے کے فوری بعد، میں نے کچی آبادیوں میں مقیم افراد کی رجسٹریشن کے پراسیس کا آغاز کروایا جو کہ چند مشکلات کے باوجود، مکمل ہو چکا ہے”۔
ان کہنا تھا کہ ابتدا میں مختلف افراد اور حلقوں نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے یہ تصور عام کرنے کی کوشش کی کہ رجسٹریشن کا عمل ناممکن ہو گا اور اگر ہم نے اس عمل کی تکمیل میں احتیاط سے کام نہ لیا تو شہر میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال خراب بھی ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ انہوں نے پولیس افسران کو ہدایات جاری کر دی تھیں کہ وہ اس عمل کی انجام دہی کے دوران کسی بھی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہ لائیں اور رجسٹریشن کا عمل جلد از جلد مکمل کروائیں۔ انہوں نے اس موقع پر اس بات پر تاسف کا اظہار بھی کیا کہ پچھلی حکومتوں نے اسلام آباد کے مضافات میں غیر قانونی آبادکاری کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وجہ سے اب وزارت داخلہ کو ایسے اقدامات اُٹھانے پڑ رہے ہیں، جن کے ذریعے شہر کو ناپسندیدہ عناصر اور افراد سے پاک کیا جاسکتا ہے۔
چوہدری نثار نے غیر ملکیوں کی قومیت کے حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں تاہم انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ ان غیر ملکیوں کو ان کے اپنے آبائی وطن بھجوانے کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزین سے مدد لی جائے گی، تاہم انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ یہ ایک مشکل کام ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی وزارت ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے جس کے تحت غیر ملکیوں کی ‘نقل و حرکت’ پر نظر رکھی جائے گی۔
وزارت داخلہ اور مقامی انتظامیہ میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مشتبہ ‘غیر ملکیوں’ میں سے زیادہ تر کا تعلق افغانستان سے ہے اور یہ سب ایک عرصے سے اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ان غیر ملکیوں کو نکالنا یقیناً آسان نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے انہوں نے بدنام زمانہ آئی-11 کی افغان بستی کی بھی مثال دی۔ غیر ملکیوں میں دیگر افراد کا تعلق وسطی ایشیائی اور افریقی ممالک سے بتایا جاتا ہے۔
شہر کی ایک پولیس افسر کے مطابق، افغان پناہ گزینوں نے باقاعدہ گینگز بنا لیے ہیں جو کہ دارلحکومت میں ہونے والے جرائم مثلاً کار چوری، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقی زیادہ تر منشیات کی اسمگلنگ اور جعلی کرنسی کے دھندے میں ملوث ہیں۔
تاہم وزیر داخلہ نے پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی، ڈاکٹر عارف علوی کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ غیر ملکی افراد پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں میں بھی چھپے ہو سکتے ہیں.
Add new comment