روسی صدر کاکالم

شیعہ ٹی وی:۔ریسرچ ڈیسک:۔

اسداللہ غالب
روسی صدر پوتن بھی کالم نگار بن گئے۔نائن الیون کی برسی پر نیو یارک ٹائمز نے ان کی ایک مختصر تحریر شائع کی جس نے شام میں جاری حالیہ بحران کا دھارا توبدل ہی دیا ہے تاہم اس سے امریکہ کو دنیا میں من مانی روکنے کا واضح پیغام بھی مل گیا ہے۔
امریکہ شام کے خلاف جارحیت کے ارتکاب کے لئے تلا ہوا تھا، سلامتی کونسل نے اسے اس امر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، امریکہ کے اتحادی برطانیہ کی پارلیمینٹ نے بھی اس جارحیت کی حمایت نہیں کی، امریکی صدر کو شک ہوا کہ اسے کانگرس سے بھی نئی جنگ چھیڑنے کااختیار نہیں ملے گا، سو اس نے عالمی سطح پر لابی شروع کر دی تاکہ ہر چہ بادا باد، شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔شام کے باغیوں کو امریکی سی آئی اے کھلم کھلا ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔ حکمت عملی یہ تھی کہ پہلے شام میں مداخلت کاجواز بنایا جائے اور پھر چڑھائی کر دی جائے۔
دنیا سانس روکے اس لمحے کا انتظار کر رہی تھی جوافغانستان اور عراق پر قیامت ڈھا چکا تھا، اب شام کی باری آنے والی تھی۔
روسی صدر پوتن نے کمال حکمت اور تدبر کا مظاہرہ کیا ، اس نے کوئی آٹھ سو الفاظ پر مشمل ایک کالم لکھا جسے نیویارک ٹائمز نے عین نائن الیون کی برسی کے روزشائع کیا، امریکیوںکے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہو، نیو یارک ٹائمز کو امریکی عوام کا دشمن کہنے والے میدان میں کود پڑے لیکن امریکیوں کی بڑی تعداد نے روسی صدر پوتن کی تحریر کی حمایت بھی کی۔
روسی صدر نے چند ماہ میں صدر اوبامہ کی فرعونیت کے چہرے پر دوسرا تھپڑ رسیدکیا ہے۔ ا س سے پہلے وہ امریکی راز افشا کرنے والے سنوڈن کو پناہ دے چکا ہے۔
روس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے دوست ممالک کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے اور امریکہ کی طرح اپنے حلیفوں کو ساتویں بحری بیڑے کا چکمہ نہیں دیتا۔
روس نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ اب بھی ایک عالمی طاقت ہے اور وہ دنیا میں طاقت کے توازن کو درہم برہم ہونے سے بچا سکتا ہے۔
میںنہیں جانتا کہ امریکی صدر شام پر حملے کے ارادوں کوپایہ تکمیل تک پہنچا کے رہیں گے اور اگر یہ نوبت آتی ہے تو کیا روس اپنی فوجی طاقت کے ساتھ شام کے ساتھ کھڑا ہو گا اور کیا شام اس تباہی سے بچ جائے گا جس سے عراق اور افغانستان دو چار ہو چکے ہیں لیکن صدر پوتن نے امریکہ کو جس انداز سے للکارا ہے، اسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
پوتن کی تحریر کئی لوگ پڑھ چکے ہوں گے، مگر میں یہاں اس کا مفہوم ضرور دہرانا چاہتا ہوں ۔ صدر پوتن لکھتے ہیں :
شام کے حالیہ واقعات نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں امریکی عوام سے براہ راست مخاطب ہوں۔
ہم دو ملکوں کے مابین تعلقات اتار چڑھاﺅ کا شکار رہے، سرد جنگ کے دور میں ہم ایک دوسرے کے حریف تھے لیکن اس سے قبل ہمارے اتحاد نے دنیا کو نازی بہیمیت سے نجات دلائی۔اسی موقع پر اقوام متحدہ کی تشکیل کی گئی تاکہ آئندہ ایسی تباہی کو روکا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے پیچھے نظریہ ،یہ تھا کہ جنگ اور امن کے لئے اتفاق رائے سے فیصلے کئے جائیں ، امریکی تجویز پر سلامتی کونسل میں مستقل ارکان کو ویٹو کا حق دیاگیا۔
کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اقوام متحدہ کا حشر لیگ آف نیشنز جیسا ہو۔یہ اسی صورت میں ہو گا جب طاقتور ممالک اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو نظر انداز کرتے ہوئے من مانی کرنے لگ جائیں۔
عالمی رائے عامہ اور پوپ جیسی مذہبی شخصیات بھی شام پر امریکی حملے کی حامی نہیں مگر امریکہ ممکنہ طور پر اس راستے پر گامزن نظر آتا ہے۔اس سے مزید جانی نقصان ہو گا، تشدد کا دائرہ شام سے نکل کر پھیل جائے گا۔دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے گی۔
شام میں جمہوریت کے احیا کے لئے جنگ نہیں ہو رہی۔یہ تو حکومت اور باغیوں کے مابین جنگ ہے۔القائدہ کے جنگجو بھی اس میں شامل ہیں۔امریکہ نے النصرت فرنٹ کو اس جنگ میں جھونک رکھا ہے ، یہ ایک اندرونی تنازعہ ہے جسے بیرونی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ مغربی ملکوں سے بھی لوگ وہاں جا کر لڑ رہے ہیں اور روس کے لوگ بھی شام کا رخ کر رہے ہیں اور اندیشہ یہ ہے کہ وہ شام کے بحران سے فراغت پا کر اپنے ملکوںکے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ جیسے لیبیا میں لڑنے والوںنے مالی کا رخ کر لیا تھا۔
روس کی کوشش یہ نہیں کہ شام کی حکومت کو بچایا جائے بلکہ ہم بین الاقوامی قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں۔ہم تنازعے کے حل کے لئے سلامتی کونسل کو استعمال کرنے کے حق میں ہیںتاکہ دنیا میں قانون کی حاکمیت قائم رہ سکے اور انتشار پیدا نہ ہو ۔قانون تو قانو ن ہے، ہمیں اس کی پابندی کرنا ہو گی خواہ یہ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔آج کے بین الاقوامی قانون کے تحت جنگ یا تو دفاع کے لئے جائز ہے یا سلامتی کونسل کے فیصلے کے تحت جنگ چھیڑی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ کوئی بھی راستہ مروجہ عالمی قوانین کے تحت جائز نہیں اورا سے جارحیت تصور کیا جائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ شام میں زہریلی گیس استعمال ہوئی۔لیکن کئی شواہد ایسے ہیں کہ اسے حکومت نے نہیں ،باغیوںنے استعمال کیا تاکہ ان کے سرپرستوں کو مداخلت کا بہانہ مل سکے۔
دوسرے ملکوں میں فوجی مداخلت کرنا امریکہ کی عادت بن گئی ہے ۔کیا اس سے امریکہ کو دور رس فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ مجھے تو اس بارے شک ہے۔دنیا کے کروڑوں لوگ اب امریکہ کو جمہوریت کے ماڈل کے طور پر نہیں دیکھتے۔وہ امریکہ کو ایک ایسی طاقت تصور کرتے ہیں جو وحشیانہ انداز اختیار کرتی ہے۔جو دھمکاتی ہے کہ یا ہمارا ساتھ دو، ورنہ ہمارے دشمنوں کے ساتھ کھڑے تصور کئے جاﺅ گے۔
لیکن طاقت کے استعمال کا کوئی فائدہ سامنے نہیں آسکا ، افغانستان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ عراق میں مسلسل خون بہہ رہا ہے۔لیبیا میں انتشاربرپا ہے۔امریکہ میں لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم ایک غلطی کو کیوں دہرا رہے ہیں۔
ہمیں طاقت کے استعمال سے گریز کرنا ہو گا۔اور مہذب انداز میں تنازعات کے پر امن حل تلاش کرنے کی عادت اختیار کرنا ہوگی۔اگر ہم شام کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کر سکیںتو اس سے باہمی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔یہ ہماری مشترکہ کامیابی ہو گی۔
مجھے صدر امریکہ کے اس موقف سے اختلاف ہے کہ امریکہ کو دنیا میں کوئی منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ رجحان بے حد خطر ناک ہے کہ کوئی اپنے آپ کو منفرد سمجھنے لگ جائے۔دنیا میں بڑے ملک بھی ہیں ، چھوٹے بھی ہیں ، امیر بھی اور غریب بھی۔کہیں جمہوریت راسخ ہو چکی ہے اور کہیں جمہوریت کے لئے جدو جہد جاری ہے۔ہر ملک کی پالیسی میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جب ہم خدا کی نعمتوں کے طلب گار ہوتے ہیںتو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خدا نے ہم سب کو برابر پیدا کیا۔
یہ ہے روسی صدر پوتن کی وہ تحریر جو نئے دور کے میگنا کارٹا کی حیثیت رکھتی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت

Add new comment