اے پی سی ،ایک تبصرہ ایک جائزہ
سید قمر رضوی
مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے سو دنوں کے اندر اندر ایک اہم، فیصلہ کن اور مستقبل گر صورتِ حال سامنے آگئی ہے۔ برسوں سے جاری آئیں بائیں شائیں کو ٹائیں ٹائیں فش کرتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس کا نہ صرف انعقاد ہوگیا، بلکہ برسوں کا بنا بتنگڑ سلجھ کر مشترکہ اعلامیے کی صورت میں سامنے بھی آگیا۔ پاکستان میں موجود بہت سارے فریق اس کانفرنس کا حصہ بنے، سر جوڑ کر بیٹھے، ایک کے کان کی جوں دوسرے کے کان پر رینگوائی اور یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ پچاس ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کا خون پینے والے عفریت کو میز پر بٹھا کر رہے سہے مظلومین کا خون پینے اور ان کی ہڈیوں کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگانے کے لئے آسان راہیں مہیا کی جائیں گی۔
اب تک یہ سب کرنے میں خاصی دقت اور مشقت کا سامنا تھا۔ اسلحہ خریدنا، اس اسلحے کو محفوظ طریقے سے محفوظ مقامات میں محفوظ کرنے کے لئے راہ میں حائل بیسیوں قسم کے اداروں کو خریدنا، اسی اسلحے کی مدد سے راہ چلتے پاکستانیوں کو اغوا کرنا، انکے ورثا سے تاوان وصول کرنا، اس تاوان سے مزید ذرائع خریدنا، ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے خودکش و پلانٹڈ حملے کرنا، عام و خاص پاکستانیوں کو ذبح کرنا، فرار ہوکر چوہے کی مانند بل میں جاکر چھپنا، اسکے بعد اپنی کارگزاری کا اعلان کرنا اور حکومت کی جانب سے آئندہ ایسا کام کرنے کی اجازت نہ دینے کے بھاشن سن کر قہقہے لگانا اور پھر فرصت سے اگلی کارروائی کی تیاری کرنا۔۔۔۔ اب جبکہ اے پی سی منعقد ہوچکی ہے تو گویا ان تمام جھنجھٹوں سے یکسر آزادی مل گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ چند دنوں میں آزاد، فعال اور مستعد ترین گروہ کے نام سے "کالعدم" کے کلنک کا ٹیکہ بھی عدم کو سدھار دیا جائے۔۔۔
اس حکومت کی منطقیں تو عقل میں نہیں سماتیں لیکن اس اقدام نے ہر پاکستانی کی طرح میری عقل میں بھی چند سوالات کو جنم دیا ہے کہ جنکے جوابات بھی خود ہی سمجھ میں آگئے۔ ان سوالات و جوابات کی کسوٹی کے اختتام پر ایک نیا پاکستان وجود میں آتا دکھائی دے رہا ہے۔ ویسے نئے پاکستان کا خواب تو کسی اور جماعت نے دیکھا تھا لیکن یہ تو مقدر کی باتیں ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی پیدا ہونیوالے سوالات کی۔ ایک سوال جو اس ضمن میں ابھرا وہ یہ تھا کہ جب منتخب اور بھاری اکثریت والی حکومت موجود ہے، معاملات کو دیکھنے اور طے کرنے کے لیے حزبِ اقتدار و اختلاف پر مشتمل پارلیمان بھی موجود ہے تو پھر کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد چہ معنی دارد؟؟؟
اس کانفرنس کا انعقاد تو یہ نتیجہ دیتا محسوس ہو رہا ہے کہ اب کسی پارلیمان کی چنداں ضرورت نہیں۔ جب کوئی معاملہ درپیش ہو، ضمانتیں اور حکومتیں بخشنے والے ضامن بادشاہ کی چوکھٹ پر سجدہ ادا کرکے کل جماعتی کانفرنس بلوا لی جائے، سر جوڑے جائیں، جوؤں کا تبادلہ کیا جائے اور مدِمقابل فریق سے مذاکرات کا اعلامیہ جاری کر دیا جائے۔ اس طرح سے اسمبلیوں، ارکانِ پارلیمان، سینیٹ، سینیٹرز، افسران و ملازمین کی فوجِ ظفر موج کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
مثال کے طور پر طالبان کی قتل و غارت گری اور دہشت گردی ایک طرف، اس ملک کو بھتہ خوروں کے مافیا سے بھی اتنا ہی خطرہ لاحق ہے۔ اب بھتہ خوروں کے خلاف آپریشن کرنا، ان کے ساتھ ایک یقینی ناانصافی ہوگی، چنانچہ انکو بھی مذاکرات کی میز پر لا کر آسان اور ہموار راہ مہیا کی جانی چاہیے۔ اسی طرح منشیات فروشوں، ڈاکوؤں، عزتوں کے لٹیروں، اغوا کاروں، چوروں، بدمعاشوں، اسمگلروں اور سیاہ کاروں کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ ہاتھ باندھ کر مذاکرات کی میز پر لے آنا چاہیے کہ نااہل حکمرانوں اور بے اثر اداروں کے پاس ایٹم بم بھی ہو تو وہ ایک گلی کے غنڈے کے تلوے چاٹنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
اب جبکہ کسی قسم کا کوئی جرم، جرم ہی نہیں رہا تو پولیس کی ضرورت خود بخود ختم ہوگئی۔ اسکے بعد عدالتوں کا وجود بھی اپنے معنی کھو بیٹھتا ہے۔ ویسے بھی پولیس کے پاس چند پرانی رائفلوں اور کمزور سیلوں والی ٹارچوں کے سوا ہے ہی کیا کہ جنکے رعب سے یہ عام عوام کو مسخر کرکے خوش ہوتی ہے اور عدالت۔۔۔ عدالتوں نے تو اپنی کارروائی کرکے انوکھے لاڈلوں کو باعزت بری تو کرنا ہی ہوتا ہے۔ لیکن عدالتی کارروائی کے دوران معصوم دہشت گردوں کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ جب پولیس اور عدالتیں ہی نہیں ہوں گی تو وقت کی بہت بڑی بچت ہوجائیگی۔
مذاکرات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ فارغ عوام کی تفریح کے لئے کوئی نہ کوئی شوشہ ضروری چاہیئے۔ مذاکرات ہوتے رہیں گے تو افلاطونوں کے طوفان کو اپنی قابلیت جھاڑنے کا موقع بھی ملتا رہے گا۔ دیکھئے ناں۔ ابھی چند روز قبل کراچی میں مذاکرات ہوئے، جن کے نتیجے میں ایک قاتل فی سبیل للہ معافی پاکر معصوم قرار پایا۔ ٹی وی، اخبارات اور گلی محلوں میں اب تک اسکا چرچا جاری ہے۔ شاہرخ جتوئی وکٹری سائن بناتا ہوا میڈیا کے سامنے آیا۔ یہ وکٹری سائن ویسے تو ایک غلیل کی مانند اہلِ دل حضرات کے سینوں پر پتھر جڑ رہا ہے۔ لیکن نتیجہ کتنا مزیدار ہے ۔۔۔توقعات کے عین مطابق۔۔۔ ایک وڈیرے کا بیٹا نجانے کتنے راہگیروں کا خون بہانے کے لئے ایک بار پھر اس ملک کی سڑکوں پر دندنائے گا۔ میرے خیال میں مذاکرات کا اگلا دور میری اور آپکی پانچ سالہ بیٹی سنبل کے ساتھ زیادتی کرنے والے معصوم غنڈوں کے ساتھ ہونا چاہیئے، مذاکرات کے نتیجے میں غنڈوں کو ہوس مٹانے کے لئے کم از کم بالغ بچیاں پہلے سے ہی مہیا کردی جائیں کہ شاید اس طرح نابالغ بچیاں محفوظ ہوجائیں اور انکے والدین زندہ لاشیں بن کر نہ پھریں۔
مذاکرات کے نتیجے میں بننے والے نئے پاکستان کا جو نقشہ ذہن میں بنا ہے اس میں چہار جا سانپ، بچھو، گدھ، مگرمچھ اور اژدھے نظر آرہے ہیں، جو ایک دوسرے سے سر جوڑے جوئیں منتقل نہیں کر رہے بلکہ اپنی سرشت کے مطابق انسانی گوشت اور خون سے اپنی بھوک و پیاس بجھا رہے ہیں۔ اس منظر میں درندوں کی بھوک کا نشانہ بنے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ اے پی سی کے ارکان بھی نظر آرہے ہیں۔ یقیناً انہیں نہیں معلوم، لیکن ہر بچے نے بھی وہ کہانی پڑھی ہوتی ہے جسمیں ایک دیہاتی برف میں پڑے سانپ کو آگ کے پاس رکھ کر دودھ پلاتا ہے اور وہ معمولی سی توانائی بحال ہونے پر اپنے ہی محسن کو ڈس کے ہلاک کر دیتا ہے۔ اس میں سانپ کا کوئی دوش نہیں، ڈسنا تو اسکی فطرت ہے، چاہے اسکے ڈنگ کا شکارخود اسے دودھ پلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔۔ پچاس ہزار معصوموں کو ڈسنے والا اژدھا چند اے پی سی والوں کو بھی ضرور ڈسے گا۔
Add new comment