امریکہ بین الاقوامی برادری کی آرا کااحترام کرے ۔شنگھائی تعاون تنظیم
ٹی وی شیعہ ( میڈیا پینل)کرغیزستان کے دارالحکومت بشکیک میں ہونیوالی شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل ممالک نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام اور ایران کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کی آرا کااحترام کرے ااور دونوں ممالک سے مربوط مسائل کاسیاسی حل نکالے۔ شام پر امریکی حملے کی دھمکیوں کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم کا یہ اجلاس بلایا گیا ہے۔ اس ایک روزہ کانفرنس کے جاری اعلامیہ کے مطابق اس میں شریک رہنما¶ں نے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے تحت شام کے مسئلے کا حل نکالنے پر زور دیا اور امریکہ سے کہا کہ وہ شام پر حملے سے باز رہے۔ روس، چین، کرغیزستان، قازقستان اور تاجکستان کے رہنما¶ں نے کہا کہ عالمی اور علاقائی سطح کے مسائل غیر ملکی مداخلت کے بغیر سیاسی اور سفارتی طور پر حل کئے جائیں۔ ان رہنما¶ں نے پھیلنے والی بے چینی پر تشویش کا اظہار کیا۔ ممبر ممالک رہنما¶ں کے ساتھ ساتھ ایرانی صدر حسن روحانی، افغان صدر حامد کرزئی، منگول صدر سخی آجین الیگدورج، بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید، پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بھی شرکت کی۔ 400 میڈیا نمائندے بھی موجود تھے۔ روسی صدر پیوٹن نے تنظیم میں شام کی شمولیت کا خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس فیصلے کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ بشکیک میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس ہوا۔ روسی میڈیا کے مطابق اجلاس میں روس، کرغزستان، قازقستان، تاجکستان، چین اور ازبکستان کے لیڈروں نے باہمی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کیلئے اقدامات اور اہم ترین عالمی مسائل پر تبادلہ خیال کیا جن میں سے مسئلہ شام، افعانستان سے منشیات کی سمگلنگ کے خطرے کا مقابلہ اور ایران کا جوہری مسئلہ قابل ذکر ہیں۔ اجلاس کے آغاز سے قبل چھ ممالک کے سربراہوں کی تصویر بنائی گئی۔ کرغیزستان کے صدر الماز بیک اتم بائیو نے روس، قازقستان، تاجکستان، چین اور ازبکستان کے لیڈروں سے خطاب کیا جن کے بعد اجلاس بند دروازوں کے پیچھے ہوا۔ شنگھائی تنظیم کے مبصر ممالک پاکستان، افغانستان، ایران، منگولیا اور بھارت کے سربراہ و مندوبین بھی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں چین، ایران اور دوسرے ممالک نے روس کے اس موقف کی بھرپور حمائت کی کہ شام اپنے کیمیائی ہتھیار حوالے کردے۔ چین، ایران اور دیگر رکن ممالک نے روس کے اقدام کی حمائت کرتے ہوئے ان اقدامات کی مخالفت کی جن سے شام میں مزید ”ملٹرائزیشن“ ہو۔ چینی صدر شی جنگ پنگ نے کہا ہے کہ انکا ملک روس کے منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہے اور شام کی صورتحال پر ہونیوالی ڈویلپمنٹ کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ہم شام کے کیمیائی ہتھیار عالمی کنٹرول میں دینے کے حامی ہیں۔ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران روسی اقدام کی حمایت کرتا ہے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ ایران پر عائد پابندیاں غیرمہذب، خطرناک روایت اور انسان دشمن ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت نے پابندیوں کو سیاسی اور یکطرفہ قرار دیکر مسترد کردیا ہے۔ امریکی اور یورپی پابندیوں سے عام شہری متاثر ہورہے ہیں۔ ہمارا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کیلئے ہے، ایٹم بم نہیں بنا رہے۔ غیر جانبدارانہ تحریک کے 120 رکن ممالک نے بھی پابندیوں کو مسترد کیا ہے۔ ایران پرامن نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں یقین رکھتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی کے نامزد انسپکٹروں نے ایٹمی اثاثوں کا معائنہ کیا ہے۔ انکو ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے ظاہر ہو کہ ایٹم بم بنا رہے ہیں یا اسے ہم فوجی مقاصد میں منتقل کررہے ہیں۔ مغرب کو ایک بار پھر دعوت دیتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام پر باہمی احترام کے ساتھ بات چیت کی جائے۔ اس سلسلے میں اعتماد کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس معاملے کو حل کیا جا سکے۔ پابندیوں کے ذریعے ایران کے بے گناہ عوام کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں شام کے مسئلے کا سیاسی حل ہونا چاہئے اور غیر ملکی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1980ءکی دہائی میں عراق نے شام کیخلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کئے تھے۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ عالمی برادری کو شام کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرنا چاہئے کہ کیمیائی ہتھیار عالمی نگرانی میں دینے کو تیار ہے۔ شام کیخلاف طاقت کے استعمال کی مزاحمت کریں گے، سفارتی کوششوں سے غیرملکی مداحلت کا خطرہ کم ہوا، سائیڈ لائن پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات میں ایرانی صدر نے کہا کہ ایران ایٹمی پروگرام پر عالمی طاقتوں سے محاذ آرائی کا خاتمہ چاہتا ہے مگر ان مسائل کے حل کے لے اپنے حقوق یا مفادات کو قربان نہیں کریگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلے کے حل کیلئے اقدامات کرنے کیلئے اچھا وقت ہے، ہم یہ مسئلہ عالمی اقدار اور اصولوں کے مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔ روس نے ماضی میں اس حوالے سے اہم اقدامات کئے ہیں اور اب آپ کی جانب سے نئے اقدامات کا وقت ہے۔ اگر سیاسی خواہش پائی جاتی ہے، باہمی احترام اور باہمی مفادات پائے جاتے ہیں اور ایرانی عوام کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے تو ہم ایٹمی مسئلے کے پرامن حل کی ضمانت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر مذاکرات کے اگلے دور کے بارے میں طے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے روسی صدر سے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ ایرانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کتنے انٹرنیشنل معاملات اسکے گرد گھوم رہے ہیں ہم نے ہمیشہ تعاون کیا، ایران ہمارا اچھا ہمسایہ ہے۔ حسن روحانی نے خطے خصوصاً افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کی موجودگی کو خطے میں انتہاپسندی کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ ایرانی میڈیا کے مطابق انہوں نے یہ بات افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ ملاقات میں کہی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ خطے سے غیر ملکی فوجی چلے جائینگے اور افغانستان سمیت خطے کے ممالک کی تقدیر کا فیصلہ ان ممالک کے عوام اور حکومتیں کریں گی۔ حسن روحانی نے کہا کہ ایران افغانستان میں قیام امن کی خاطر اپنی تمام کوششیں بروئے کار لائے گا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو گا۔ ملاقات میں افغان صدر نے افغانستان سمیت خطے میں قیام امن کے سلسلے میں ایران کے کردار کو اہم اور م¶ثر قرار دیا۔ چین اور تاجکستان نے گیس منصوبے میں تعاون کے فروغ پر اتفاق کیا ہے۔ اس بات پر اتفاق رائے چین کے صدر ژی چینگ اور ان کے تاجک ہم منصب ایمویائل راخمون نے بشکیک میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر سائیڈ لائن ملاقات کرتے ہوئے کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہوں نے بشکیک اعلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے رکن ملکوں کے درمیان تعاون، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کے معاہدہ پر عملدرآمد کی غرض سے ایکشن پلان برائے 2013-17ءکی منظوری دےدی۔ ایس سی او کے رکن ملکوں کے درمیان ترقی اور عملی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ کے علاوہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رہنماﺅں نے 2013-17ءکیلئے ایکشن پلان کی بھی منظوری دےدی جس کے تحت رکن ملکوں کے درمیان تعاون، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کے معاہدہ پر عملدرآمد کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی۔ ایس سی او کے رہنماﺅں نے رکن ملکوں کے درمیان سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں تعاون سے متعلق معاہدہ کی بھی منظوری دی۔ اعلامیہ میں ایران کے اردگرد صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ایران کے خلاف بعض طاقتوں کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں اور فوجی کارروائی کی دھمکیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ رکن ملکوں نے شام کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اعلامیے میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے غیر قانونی سمگلنگ، دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے خلاف تعاون اور مشترکہ کوششیں کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ امور خارجہ کے مشیر سرتاج عزیز نے جو اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں کہا کہ پاکستان 2014ءکے بعد افغانستان میں مداخلت نہ کرنے اور کسی بھی افغان حکومت کو پسندیدہ قرار نہ دینے کی اپنی پالیسی کا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے۔ افغانستان کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی قیادت میں مفاہمتی عمل شروع کرے۔
Add new comment