تاریخ عزاداری اور تحقیق

 صفدر ہمدانی 

کربلا میں61 ہجری میں اسلام کو ملوکیت سے بچانے اور فاسق و فاجر یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے انکار پر اللہ کے آخری رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ و علیہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے خانوادے اور عزیز و اقربا کے علاوہ اپنے ساتھی جانثاروں کی جو لازوال قربانی پیش کی اسکی یاد لگ بھگ چودہ صدیوں سے دنیا کے کونے میں منائی جاتی ہے۔

فکری یزید کے مقابلے میں فکر حسینی کی ابدی فتح نے یزید کو ابد تک لے لیئے ایک گالی بنا کر رکھ دیا ہے۔

بلا تفریق مسلک ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا باعث‘ آئمہ معصومین اور خاص کر سید مظلومین سرکار سید الشہداء حضرت امام حسین کی مجالس عزاداری کے سیاسی مراسم ہیں اور یہی چیز تمام مسلمانوں اور خاص طور سے ملت شیعت کی محافظ ہے۔

سید المظلومین امام حسین کی ہمیشہ کے لئے عزاداری منانے اور اہل بیت رسول کی مظلومیت اور بنی امیہ ‘ کہ جن کا وجود نحس دنیا سے مٹ چکا ہے کے ظلم کی فریاد بلند کرنے کے سلسلے میں آئمہ مسلمین کی زبردست تاکید ‘‘مظلوم کی ظالم کے ظلم کے خلاف فریاد ‘‘ہے۔ جسے ہر حال میں زندہ رہنا چاہئے اور کربلا کا سب سے بڑا درس اپنے عہد کے یزید کی شناخت اور فکر حسینی سے اسے شکست دینا ہے

دنیا بھر میں کچھ شہر ایسے ہیں جنکا محرم تاریخی گردانا جانا جاتا ہے جن میں لکھنؤ کے علاوہ بغداد، کربلا، نجف، کاظمین، تہران، مشہد، قم،کویت،بحرین کے کچھ شہر،ترکی کے شہر ،لبنان ،یمن اور مغربی ممالک میں امریکہ کے شہر شکاگو،ہیوسٹن،لاس اینجلس،برطانیہ میں لندن،برمنگھم،بریڈ فورڈ،مانچسٹر،کینیڈا میں ٹورنٹو اور یورپ میں ہیگ،برسلز اور پیرس جیسے شہر شامل ہیں۔

تاریخ عزاداری کے بارے میں کوئی بہت زیادہ تحقیق کام نہیں ہوا ہے ماسوائے کچھ لوگوں نے انفرادی طور پر کوششیں کی ہیں۔ یورپ کی عزاداری کی تاریخ کے بارے میں میں خود برسلز کے عمران چوہدری اور سید علی رضا کے ساتھ کئی سال سے مل کر کام کر رہا ہوں لیکن ان دوستوں کے نزدیک ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی بہت زیادہ اہم بات نہ ہو اس لیئے یہ منصوبہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔

معروف ادیب، محقق اور صحافی حیدر طباطبائی نے کچھ عرصہ پہلے لندن کے عزا خانوں کے بارے میں ایک مختصر سا تحققیقی مضمون لکھا تھا اور اسی طرح امریکہ اور یورپ میں کچھ احباب نے اپنے اپنے طور پر کچھ مضامین لکھے ہیں لیکن مجموعی طور پر اس عزاداری کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا کوئی کام نہیں ہوا۔

اہلِ ایران نے اپنے ملک کے مختلف شہروں میں خاص طور پر مشہد،قم اور تہران میں عزادری کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کا قابل قدر کام کیا ہے لیکن یہ سارا کام فارسی زبان میں ہے جسے انگریزی کے علاوہ دیگر عالمی زبانوں میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اردو میں اس حوالے سے کچھ کتابچے اور مضامین گاہے بگاہے شائع ہوتے رہے ہیں لیکن برصغیر میں عزاداری کی تاریخ کے حوالے سے شائع ہونے والی تحقیقی کتابوں میں سب سے اہم کتاب میری نظر میں معروف شاعر اور مرثیہ نگار مرحوم شاہد نقوی کی
‘‘عزاداری۔۔تہزیبی،ادبی،اور ثقافتی منظر نامے‘‘ کے عنوان سے ہے جو مارچ 2002میں لاہور سے شائع ہوئی تھی اور عجب اتفاق ہے کہ شاید قدرت نے شاہد نقوی کو اسی کام کے لیئے زندہ رکھا تھا کہ ادھر یہ موقر تحقیقی کتاب شائع ہو کر مارکیٹ میں آئی اور ادھر شاہد نقوی گلے کے کینسر میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے سدھارے لیکن جانے سے پہلے ہم جیسے طالب علموں کو اس تحقیقی دولت کا ورثہ عنایت کر گئے۔

خالق لوح و قلم اس قلم کے صدقے میں انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے کہ اس تحقیقی کتاب کو جو دراصل ایک تنہا آدمی کا کام نہیں ایک مکمل جماعت کا کام ہے انہیں مکمل کرنے میں کوئی بارہ سال سے زائد کا عرصہ لگا تب جا کر 564صفحات کی یہ کتاب منظر عام پر آ سکی اور وہ بھی اس صورت میں کہ اس کے پس پشت معروف صنعت کار اور عاشق آل رسول سر مراتب علی مرحوم کے خانوادے کا مکمل تعاون شاہد نقوی کو حاصل تھا وگرنہ شاید یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکتا۔

‘‘عزاداری‘‘ نامی اس کتاب اور شاہد نقوی مرحوم کے بارے میں پھر کسی وقت تفصیل سے لکھوں گا کیونکہ اس وقت میرا موضوع لاہور میں عزاداری کی تاریخ ہے۔

نشریات کی دنیا میں ایک واحد تحقیقی دستاویزی پروگرام 1975میں خود میں نے اپنے والد مرحوم مصطفیٰ علی ھمدانی کی تحقیقی معاونت سے تیار کیا تھا جس کا نام تھا‘‘لاہور میں عزاداری کی تاریخ‘‘ اور یہ پروگرام اسوقت پاکستان بھر کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں سے نشر بھی ہوا تھا اور کئی برسوں تک ریڈیو پاکستان کی صوتی مرکزی لائبریری سنٹرل پروڈکشن میں بھی محفوظ رہا اور ہر محرم پر مختلف اسٹیشن اسے مقامی طور پر بھی نشر کرتے رہے تا ہم اب معلوم نہیں کہ یہ پروگرام محفوظ ہے یا نہیں کیونکہ ہمارے ہاں کسی قسم کی تاریخ کو محفوظ رکھنے کی نہ روایت ہے اور نہ رواج۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے لاہور مرکز نے بھی 80کے عشرے میں اسی موضوع پر ایک دستاویزی پروگرام تیار کیا تھا لیکن عہد حاضر میں ان ذرائع ابلاغ کے اداروں سے بھی ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔

برصغیر پاک و ہند میں جنوبی ہند وہ پہلا علاقہ ہے جہاں امام مظلوم کی عزاداری کی بنیاد رکھی گئی اور اس عظیم مقصد کے لیئے عزا خانے تعمیر ہوئے اور رثائی ادب تخلیق ہونے لگا اور پھر شمالی ہند میں دہلی کے بعد لکھنؤ اس تہذیبی روایت کا مرکز بنا۔ اس عزاداری کی ترویج میں صوفیا اور فقرا کا بہت بڑا کردار رہا ہے کہ وہ جہاں جہاں گئے ہیں انہوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا ہے۔

خود مجلس عزا کی تاریخ بھی ایک الگ اور نہایت وسیع موضوع ہے تاہم موجودہ تحقیقی وسائل کے ساتھ پہلی مجلس عزا کے ڈانڈے جنگ صفین سے ملتے ہیں کہ یہاں سے واپسی پر ارض نینوا پہنچ کر زبان حضرت امیر علیہ السلام کی زبان سے شہادت کا جو اظہار ہوا اسکی تفصیل مقاتل میں موجود ہے تا ہم کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی لازوال قربانی کے بعد پہلی مجلس عزا کی تاریخ امام حسین کے چہلم کے موقع پر 20صفر 61ہجری میں ملتی ہے جس میں صحابی رسول جابر بن عبداللہ انصاری کے علاوہ سید سجاد امام زین العابدین اور امام حسین کی شیر دل بہن سیدہ زینب سلام اللہ بھی شامل تھیں اور پھر امام زین العابدین کی وہ مجالس جو انہوں نے اپنے بابا کی یاد میں برپا کیں اور ایسی تما عزائی مجالس میں نثری بیان کہیں نہیں ملتا بلکہ یہ ساری تاریخ منظوم مجالس کی ہے۔

اس قسم کی تمام مجالس کو عزائی محققین نے مجازی مجالس کانام دیا ہے اور تاریخ کی کتب میں موجود ہے کہ جو مجلس عزا اہتمام کے ساتھ اور ذاکر کی ذاکری میں اور خواتین کو پس پردہ جگہ دیکر ہوئی اسکے بانی مدفون با ارض طوس اور شہنشاہ مشہد مقدس امام سید علی رضا ہیں اور اس میں ژاکری کا اعزاز دعبل خزاعی کو ملا تھا جنکی وفات 246ہجری میں ہوئی تھی۔

مجلس عزا کی اس نہایت مختصر تاریخ کے بعد ایک نظر محرم الحرام کے عزائی جلوسوں کی تاریخ پر ڈالیں تو پہلا جلوس تو دس محرم اکسٹھ ہجری کے بعد اگلے روز کوفہ وشام جانے والا وہ قافلہ تھا جس کے آگے آگے نوک سناں پر شہدا کے سر تھے اور انکے پیچھے پابند سلاسل خانوادہ اہلبیت۔ اور یہی جلوس جب دمشق میں دربار یزید میں پہنچا تو یہاں جناب زینب سلام اللہ اور امام سید سجاد نے جو دو تاریخی خطبے دیئے وہ پہلے احتجاجی خطبے تھے جنہوں نے دربار یزیز کو ہلا کر رکھ دیا۔

بشکریہ عالمی اخبار

Add new comment