ایران اور شیعت
ٹی وی شیعہ(ریسرچ ڈیسک)
ہم اس مضمون میں اختصار کے ساتھ یہ بیان کرناچاہیں گے کہ ایران میں شیعت کیسے داخل ہوئی اور ایران ایک شیعہ ملک کیسے بنا۔اس ضمن میں مندرجہ زیل نکات کو خاص اہمیت حاصل ہے:
۱۔پہلی ہجری صدی کے دوسرے حصہ میں ایرانی ،اسلام سے آشنا ہوئے کیونکہ وہ ساسانی حکمرانوں کے ظلم وجور سے تنگ آگئے تھے اور ایک مکمل اور عادلانہ نظام کے منتظر تھے۔
اس مرحلہ میں جناب سلما ن کا کردار نبیادی حیثیت کا حامل تھا جنھوں نے ساسانیوں کے سابق دارالحکومت مدائن کو اسلام کی نشر و اشاعت اور تشیع کا مرکز قرادے دیا تھا ،جناب سلمان نے اسلام کے تعارف کے لئے حضرت علی علیہ السلام کو اختیار کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو گم نہ کردیں اور ایرانیوں نے اسلام کی صحیح شناخت کے لئے جناب سلمان کا انتخاب کیا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماور حضرت علی علیہ السلام کو گم نہ کر دیں۔
۲۔حضرت علی علیہ السلام کی کوفہ میں عادلانہ حکومت جہاں ایرانیوں کا آناجانا ہوتا رہتا تھا آپ کے عدل پسند انہ طرز حکومت اور مساوات کے طریقوں نے ان ایرانیوں کو محبت آل رسول کی طرف جذب کر لیا اور وہ اس طرح سے حقیقی اسلام سے آشنا ہوگئے۔
۳۔ امام حسین علیہ السلام کا قیام اور ان کے پیغامات بھی ایسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ایرانیوں نے بنی امیہ کو اپنے ساسانی حکمرانوں سے الگ نہ پایا اور انھوں نے یہ جان لیاکہ یہ بھی ویسی ہی ظالم وجابر حکومت ہے لہٰذاوہ خود بخود اہل بیت علیہم السلام کی طرف کھینچتے چلے گئے اس کے بعد غم انگیز واقعہ کربلا ایک ایسے نور کی جھلک تھی جو ان کے دلوں کو اہل بیت علیہم السلام کی محبت سے منور کر گئی۔
۴۔امام جعفرصادق علیہ السلام کی عظیم علمی اور ثقافتی تحریک کہ جس میں چار ہزار شاگرد شامل تھے اور سب کے سب شیعیت کے عظیم مبلغ تھے ،یہ ایک اور مرحلہ تھا جس کی بنا پر ایرانیوں کے دلوں میں شیعیت کی بنیادیں مزید مضبوط ہوتی چلی گئیں کیونکہ کوفہ،مدائن سے نزدیک تھا اور بصرہ ،ایران کی سرحد تھی لہٰذ ا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے بہت سے شاگرد انھیں اطراف کے تھے جو کوفہ کی عظیم مسجد میں بیٹھ کر شیعی طرز تفکر کی تبلیغ کرتے تھے اور اس کی نشر واشاعت میں بڑی محنت کرتے تھے۔
۵۔قم وہ مرکز بن چکا تھا جہاں عراق کے جابر حکمرانوں سے بھاگ کر شیعہ پناہ لیتے تھے، ایران میں شیعیت کے پھیلاوٴ میں اس کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔
۶۔امام علی رضا علیہ السلام کا مدینہ سے خراسان کا سفر اور ان کی علمی و ثقافتی تحریک بھی انھیں اسباب میں سے تھی کیونکہ مامون شیعہ ہو چکا تھا اور اس نے امام علی رضا علیہ السلام کو سنیوں کو بڑے بڑے علماء سے بحث ومناظرہ کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام نے اسلامی بنیادوں کے بیان میں حدیث ”سلسلة الذہب “بیان کی تو بیس ہزار یا ایک روایت کے مطابق چوبیس ہزار راویوں نے یہ حدیث سنی اور اسے لکھا۔[129]
جب کہ اس زمانہ میں پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد نہ پڑھنے لکھنے والوں کے مقابلہ میں بہت کم تھی جب وہاں موجود مجمع میں ۲۴ ہزار افراد لکھنے پر قدرت رکھتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مجمع اس سے کئی گنا زیادہ تھا۔
۷۔حجاز سے مختلف امام زادے اور امام علی رضا علیہ السلام کے خاص احباب کا سفر بھی انھیں اسباب میں سے ہے ،یہ لوگ امام علی رضا علیہ السلام کے عشق میں مدینہ وغیرہ سے ہجرت کر کے ایران آگئے تھے اور بعد میں ایران کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے تھے، اور ان لوگوں کا دوسرے لوگوں سے حسن رابطہ تھا، ایران میں اس طرح بھی شیعیت بہت تیزی سے پھیلی۔
۸۔ایران میں شیعوں کے بزرگ علماء کا وجود جیسے شیخ کلینی ،شیخ طوسی،شیخ صدوق،شیخ مفیدوغیرہ یہ سب اسلام حقیقی یعنی شیعیت کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسے پھیلانے میں پورے خلوص اور جدوجہد سے عملی اقدامات کرتے تھے جس کی وجہ سے ایران میں مذہب جعفری کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں، اس کے علاوہ حوزہ علمیہ نجف کی تشکیل نے بھی شیعیت کو کافی فروغ دیا۔
۹۔آل بابویہ (دیالمہ)کی حکومت نے جو شیعہ تھا چوتھی اور پانچویںصدی کے دوران سیاسی اعتبار سے بہت اہم کردار ادا کیا ہے اس کی حکومت نے ایران میں شیعیت کو استحکام بخشا اور اس مذہب کے لئے بڑے نفع بخش کا م انجام دیئے۔
۱۰۔آٹھویں صدی کے اوائل میں سلطان خداوند کا علامہ حلی کے ہاتھوں شیعہ ہو جانا بھی ایران میں قانونی طور پر شیعیت رائج ہو نے کا سبب بنا ،اسی زمانہ میں شیعیت نے اپنے استحکام کی طرف ایک نہایت مضبوط قدم بڑھایا۔
اسی زمانے میں علامہ حلی کا حوزہ علمیہ اور ان کی مختلف کتابیں بھی اس مذہب کی تبلیغ میں حصہ دار تھیں ان کے اس اہم کردار کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔
۱۱۔دسویں اور گیارویں صدی میں صفوی حکومت کا ظہور اور ان کے ساتھ شیعہ کے مختلف بزرگ علماء کا وجود جیسے علامہ مجلسی ،میرداماد،شیخ بہائی ،یہ بھی شیعیت کے لئے ایک سنہرا زمانہ گزرا ہے۔
یہ تمام عوامل اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں جن کی وجہ سے ایران میں شیعیت کی بنیاد پڑی اور دیکھتے دیکھتے پورے ایران کو اس نے اپنے اثر میں لے لیا۔[130]
زرتشتی: ”ایرانیوں کے تشیع میں صرف بیرونی عوامل کا ر فرما تھے یاا ندورونی یا دونوں؟“
شیعہ: ”ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ دونوں عوامل اس میں شریک ہیں کیونکہ ایک طرف سے تو ایرانی عوام ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے بے چین تھی اور مختلف بادشاہوں کے ظلم وجور سے وہ پریشان ہو کر ایک عادلانہ نظام کے خواہاں تھے ،ایک ایسا نظام ،جس میں استحصال و غارت گری کا وجود نہ ہو۔
لہٰذاان وجوہات کی بنا پر ایرانی ،اندورونی طور سے اس طرح کے نظام کے خواہاں تھے دوسری طرف خارجی طور سے انھوں نے عدل وپاکی سے آراستہ اور نہایت عالم ومقدس رہبروں کے سائے میں مذہب شیعیت دیکھا لہٰذا وہ اس کی طرف کھنچتے چلے گئے۔
ایرانی قوم ایک مکمل آئین اور ایک مکمل عادلانہ نظام کو امام علی علیہ السلام اور ان کے اہل بیت کے سائے میں دیکھتے تھے اور ان کے مخالفین کے پاس آئین ونظام کے خلاف نیا آئین پاتے تھے۔
لہٰذا اس بنا پر اندورونی اور بیرونی عوامل نے ایک ساتھ مل کر ایرانیوں کے درمیان ایک عظیم الٰہی انقلاب برپا کردیا اور ان لوگوں نے اسلام کی بہترین راہ یعنی شیعیت کو اختیار کیاچنانچہ پیغمبر نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
”اسعد العجم بالاسلام اہل فارس“۔[131]
”اسلام کے ذریعہ سب سے زیادہ کامیاب ہونے والے عجم اہل فارس ہیں“۔
اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:
”اعظم الناس نصیبا فی الاسلام اہل فارس“۔[132]
”مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ اسلام میں حصہ دار اہل فارس ہیں“۔
-------------------------------------
حوالاجات
[128] اس طرح کی باتیں دو گروہ کرتے ہیں ،متعصب سنی جو شیعوں کو ایرانی سیاسی گروہ بتانا چاہتا ہے اور ،ایرانی نیشنلزم ، جنھوں نے اس مذہب کی آڑ میں اپنے قدیم عقائد کو محفوظ کرلیا تھا۔
[129] اعیان الشیعہ ج۲، ص۱۸ ، نیا ایڈیشن۔
[130] اس چیز کی تفصیل کتاب ”ایرانیان مسلمان در صدر اسلام و سیر تشیع در ایران“ تالیف مولف میں پڑھیں۔
[131] کنز العمال،حدیث ۳۴۱۲۵۔
[132] کنز العمال،حدیث ۳۴۱۲۶۔
بشکریہ:۔شیعہ آرٹیکلز
Add new comment