صیہونی سازشوں کا ایران کے خلاف نیادور
امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کے دورۂ اسرائیل کے موقع پر ایران کے خلاف صیہونی لابی کی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہو گيا ہے۔
امریکہ میں صیہونی لابی جے ٹی اے نے ایک خط کے ذریعے امریکی صدر باراک اوباما سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے اور ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے گریز کرے۔
دریں اثنا صیہونی حلقوں کی بار بار کی درخواستوں اور صیہونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے بیانات کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی کانگرس کے بہت سے اعلی حکام ایٹمی پروگرام کے مسئلے پر مذاکرات کے قالب میں ایران کے نئے صدر کے ساتھ تعاون میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان میں نینسی پلوسی اور اسٹینسی ہوئر کے نام نمایاں ہیں۔ یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے امریکی دوستوں کو دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ ایران کے نئے صدر حسن روحانی کا اعتدال پسند ظاہری چہرہ بین الاقوامی دباؤ کم کرنے اور ایران کے لیے مزید وقت حاصل کرنے کا ایک ہتھکنڈا ہے تاکہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا مرحلہ عبور کیا جا سکے۔
نیتن یاہو نے جولائی کے وسط میں بھی ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ہمیشہ کی طرح دعوی کیا کہ ایران چند ہفتوں تک ایٹمی ریڈ لائن عبور کر لے گا اور یہ دھمکی بھی دی کہ ممکن ہے اسرائیل امریکہ سے پہلے ایران پر حملہ کر دے۔
امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے منگل کے روز صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ جبکہ اسرائیل کے وزیر جنگ موشے یعلون کے ساتھ ان کی ملاقات میں بھی یہی مسئلہ زیر بحث رہا۔
نیتن یاہو نے اس سے قبل بھی امریکی کانگرس کے ارکان کے اسرائیل کے دوروں کے دوران ان سے بات چیت کی تھی تاکہ امریکی حکام کو اس بات پر قائل کر سکیں کہ وہ ایران پر دباؤ میں مزید اضافہ کریں۔ لیکن بظاہر نیتن یاہو کو اس میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
امریکی کانگرس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ نینسی پلوسی کے دفتر کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگرچہ نینسی پلوسی کانگرس میں ایران کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرنے کے بل کی حامی رہی ہیں لیکن انہوں نے بھی ایٹمی تنازعہ ختم کرنے کے لیے ایران کے ساتھ مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔
امریکی کانگرس کے ایک سو تیس نمائندوں نے بھی دو ہفتے قبل باراک اوباما کے نام ایک خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ تعاون اور مذاکرات کریں۔ دوسری جانب امریکہ اسرائیل امور کی کمیٹی ایپک نے بھی باراک اوباما کو ایک خط لکھا ہےجس پر کانگرس کے چھہتر ارکان نے دستخط کیے ہیں۔ اس خط میں ایران پر پابندیاں سخت کرنے اور اسے فوجی کارروائی کی دھمکی دینے کا مطالبہ کیا گيا ہے۔
اگرچہ بعض تجزیہ نگاروں نے یہ کہا ہے کہ نیتن یاہو اور امریکی کانگرس کے ارکان کے درمیان اختلاف رائے ایک ایسا امر ہے کہ جس کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ ہر حال میں صیہونی حکومت کا اصلی حامی ہے اور امریکہ کے اندر انتہا پسند سیاسی گروپ اپنے انتہا پسندانہ اقدامات میں اسرائیل کی صیہونی لابی سے ڈکٹیشن لیتے ہیں۔ اس بنا پر ایران کے خلاف واشنگٹن اور تل ابیب کی پالیسی ایک ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ صیہونی لابی کی جانب سے امریکی صدر سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں کی پالیسی کو جاری رکھیں اور اسے فوجی کارروائی کی دھمکی دیں، اس نظریے کی تائید کرتا ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کا موقف ایک ہی ہے اور صیہونی حلقے جنرل مارٹن ڈیمپسی کے دورۂ اسرائیل کے دوران اس پر زور دے رہے ہیں۔
بشکریہ ابنا
Add new comment