شام کے خلاف طاقت کا استعمال اور ممکنہ نتائج
طاہر یاسین طاہر
طاقت کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ یہ اپنے لیے نئے زاویے تلاش کرتی ہے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے خود اپنے ’’مخفی جوہر‘‘ بروئے کار لاتی ہے۔ شام کا قصور کوئی بھی ہو، عالمی رائے میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو؟ اور اس مسئلے پر کتنے ہی اجلاس کیوں نہ ہوں؟ امریکہ وہی کرے گا جس کی وہ دل میں ٹھانے ہوئے ہے۔ شام پر حملے کی حمایت حاصل کرنے کے لیے امریکی صدر باراک اوبامہ نے جی20 اجلاس میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اس پر وہ عالمی برادری کی حمایت حاصل نہ کر سکے۔ مذکورہ اجلاس کے پہلے سیشن سے لے کر اس کے اختتام تک عالمی طاقتوں کے درمیان اختلافات کا سلسلہ جاری رہا۔ دو دن قبل روسی ایوانِ صدر کے ایک ترجمان نے کہا کہ شام پر حملہ بین الاقوامی قانون کے تابوت میں ایک اور کیل ثابت ہوگا۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے روس پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے شام کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو بار بار ویٹو کرکے ادارے کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شام کو جنگی جرائم کا ذمہ دار قرار دینے کا اب کوئی قابلِ عمل راستہ نہیں بچا۔ خیال رہے کہ امریکی صدر باراک اوباما شام کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم ابھی تک انھیں اس مسئلے پر ناکامی کا سامنا ہے، کیونکہ روس امریکی حملے کی راہ میں ابھی تک سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑا ہے۔
اب صدر اوباما کے سامنے ایک اور مشکل مسئلہ کانگریس کی جانب سے شام کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال کی پاداش میں فوجی کارروائی پر حمایت حاصل کرنا ہے۔ وہ اس سلسلے میں آج امریکی قوم سے خطاب بھی کریں گے۔ خیال رہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری پیرس میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں حمایت حاصل کرنے کے لیے عرب لیڈروں سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس سے قبل جان کیری کا کہنا تھا کہ شام میں امریکہ کی ممکنہ فوجی کارروائی کی حمایت کرنے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے بعد جان کیری پیرس سے لندن آئیں گے، جہاں وہ فلسطینی صدر محمود عباس اور برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ سے بھی ملاقات کریں گے۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت نے اکیس اگست کو کیمیائی ہتھیاروں کے ایک حملے میں ایک ہزار چار سو انیس افراد کو ہلاک کیا ہے۔ یورپی یونین نے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ذمہ دار بشار الاسد کی حکومت کو ٹھہرایا، لیکن یورپی برادری نے اس کے خلاف فوجی کارروائی کی بات نہیں کی ہے۔ یورپی یونین کا موقف ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ سے پہلے شام میں کوئی فوجی کارروائی نہ کی جائے۔
اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرنے پر خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اقوام متحدہ سے منظوری کے بغیر شام کے خلاف کوئی بھی فوجی کارروائی جارحیت ہوگی۔ بشار الاسد کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کے اہم حامی فرانسیسی صدر فرانسوا اولاند کا کہنا ہے کہ ان کی توقع کے مطابق اقوام متحدہ کے معائنہ کار اپنی ابتدائی رپورٹ آئندہ ہفتے کے اختتام تک جمع کروا دیں گے۔ ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی ثبوت نہیں، لیکن اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی شام کے خلاف فوجی کارروائی کی منظوری دے چکی ہے اور یہ منظوری ایک ایسے وقت دی گئی، جب امریکی صدر باراک اوبامہ شام کیخلاف فوجی کارروائی کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس امر میں کلام نہیں کہ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں۔ البتہ یہ کس نے استعمال کئے، اس پر شام، ایران اور روس کا مؤقف قریب قریب ایک ہی ہے کہ یہ حرکت باغیوں کی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب عالمی معائنہ کاروں کی ٹیم شام میں اسی معاملے کی تفتیش کرنے پہنچی تھی تو ایسے وقت میں بشار الاسد کی فوج کیمیائی ہتھیار استعمال کرکے خود کو مصیبت میں کیوں ڈالتی؟ جبکہ امریکہ سمیت یورپی یونین کا مؤقف یہ ہے کہ بشار الاسد حکومت نے ہی کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں اور اسے سبق سکھایا جائے گا۔ لیکن اس مرحلے پر یورپی یونین کا موقف ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ سے پہلے شام میں کوئی فوجی کارروائی نہ کی جائے، جبکہ روس بھی کہہ چکا ہے کہ اقوامِ متحدہ سے منظوری کے بغیر شام کیخلاف کوئی بھی کارروائی جارحیت ہوگی۔
ہمیں اس مرحلے پر تیار رہنا چاہیے کہ امریکہ فوجی کارروائی کرے گا۔ گرچہ امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ یہ کارروائی ٹارگٹڈ ہوگی اور امریکہ کی زمینی فوجیں شام میں داخل نہیں ہوں گی، امریکی صدر کو ایسی یقین دہانیاں کرانے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ اور کس کو؟ یہ امریکی قوم ہے جسے ان کا صدر کہہ رہا ہے کہ شام کیخلاف ایک مختصر آپریشن ہوگا۔ لیکن ہر جنگ کچھ دلاسوں اور تسلیوں کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ سوال مگر اس جنگ کے اخراجات کا ہے۔ امریکہ کھربوں ڈالر دفاعی بجٹ کی مد میں خرچ کر رہا ہے، مگر اس مرحلے پر عرب حکومتیں امریکہ سے بھی چند قدم آگے ہیں۔ وہ اس جنگ کا سارا خرچہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ عالمی رائے گرچہ منقسم ہے لیکن اس بارے کہ کارروائی اقوامِ متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹ آنے کے بعد کی جائے یا پہلے؟ سوائے اس کے امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں کوئی اختلاف نہیں۔
ایک سوال مگر یہ بھی ہے کہ کیا امریکی میزائلوں سے معصوم شہری نہیں مریں گے؟ یہ سوال عالمی رائے کاروں کے لیے بڑا ایم ہے کہ اگر بالفرض کوئی ریاست اپنے شہریوں کے حقوق پامال کرتی ہے تو کسی دوسری ریاست کو یہ کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس پر چڑھ دوڑے؟ کیا عالمی قوانین نام کی کوئی چیز بھی اس جدید دور میں ہے؟ یا صرف طاقت اور پروپگنڈے کا دور ہے؟
آخری تجزیے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی قرارداد روس ویٹو کر دے گا اور پھر حملہ نہیں ہوسکے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ روس ویٹو ضرور گرے گا، چین بھی ساتھ دے گا، لیکن عالمی انسانی حقوق نامی ایک چیز ہوا کرتی ہے، جس کی آڑ میں سپر طاقتیں اپنے سپر کھیل کھیلا کرتی ہیں۔ حملہ ہوتے ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان پر ہوں گی، جس سے مہنگائی بڑھے گی اور دنیا بھر میں عام آدمی کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ مگر اس کارروائی کے رکنے کا بھی تو کوئی اشارہ نہیں ہے نا! لیکن اہم سوال کہ اس کے بعد امریکہ اور اس کے ’’جنگجو‘‘ کس طرف کا رخ کریں گے؟ مشرقِ وسطٰی امریکی مفادات کا ہیڈ آفس بننے جا رہا ہے۔ اسرائیل شاداں ہے کہ اس کے راستے کی آخری رکاوٹ بھی لمحوں کی مہمان ہے۔ شام پر ہونے والا حملہ گرچہ ٹارگٹڈ کاررروائی کے اعلان کے ساتھ شروع ہوگا، مگر یہ لڑائی دیکھتے ہی دیکھتے لبنان اور اسرائیل تک پھیل جائے گی۔ اس کے بعد مشرقِ وسطٰی میں ایسی آگ لگے گی جو دنیا کے چہرے کو جھلسا کر رکھ دے گی۔
Add new comment