پاکستانی شیعہ ایک مرتبہ پھر نظر انداز

سردار تنویر حیدر بلوچ 

تمام پارلیمانی سیاسی جماعتیں پاکستان کو درپیش سکیورٹی مسائل کے حل کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے وزیراعظم ہاؤس میں جمع ہو رہی ہیں۔ کانفرنس کے ایجنڈے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی سکیورٹی پالیسی کی تشکیل اور طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے تجاویز پر بحث مباحثہ شامل ہے۔ جب پارہ چنار کا محاصرہ کرکے شیعہ نشین علاقوں کو پاکستانی غزہ میں تبدیل کر دیا گیا تھا، شیعہ تنظیمیں اپنے مظلوم بھائیوں کو خوراک اور ادویات کی رسد پہنچانے کے لیے ایک قافلہ لے جانا چاہتی تھیں، اس موقع پر سول انتظامیہ اور عسکری اداروں کا یہ موقف تھا کہ آپ یہ قافلہ نہیں لے جاسکتے۔ اس امدادی قافلے کو تین برس تک پارہ چنار کی جانب نہیں جانے دیا گیا، اداروں کا موقف یہ تھا کہ بے شک کرم ایجنسی میں شیعہ کیمونٹی تشدد کا شکار ہے لیکن آپ یہ فیصلے اکیلے نہیں کرسکتے بلکہ ہم بھی اس کے اسٹیک ہولڈر ہیں، لہٰذا کوئی بھی اقدام ہماری مشاورت اور اجازت کے بغیر نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اگر یہ درست ہے کہ ملک شدید بحران کا شکار ہے اور تمام قوتوں کے درمیان اتفاق رائے ضروری ہے اور قومی سطح پر ہم آہنگی لازمی ہے تو آج اے پی سی میں ملت تشیع کو کیوں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ 

موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ ملک کو کسی بھی طرح حالیہ بحرانوں سے نکالنے کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ ملک اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کی نوعیت غیر معمولی ہے اور انہیں حل کرنے کے لیے بھی غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ دیکھنا یہ کہ کیا واقعی حکومت کوئی غیر معمولی اقدامات کرنے جا رہی ہے؟ قومی اسمبلی نے بارہا ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ قرار دادیں منظور کیں، لیکن ان کا نتیجہ یہی نکلا کہ حملے بدستور جاری رہے اور ملک کے عوام اور بیرونی دنیا کو یہی تاثر ملا کہ پاکستان کے منتخب نمائندوں کی رائے بالادست عالمی قوتوں اور ان کے مقامی حامیوں کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ شاید اسی لیے جمہوری نظام کے نتیجے میں حکومت فرائض کو پورا کرنے کے لیے قوت نافذہ کو استعمال نہیں کر پائی، جس سے اعتماد کا اظہار ہو، جو جمہوری حکومت کا خاصہ ہوتا ہے۔ ہماری اس ذہنی کیفیت کو پروان چڑھانے میں ملک کے اندر پے در پے فوجی ادوار کے تسلسل نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ ایک خدشہ یہ ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس کی جڑیں بھی فوجی ادوار میں پیوست ہیں۔ 

امریکی مفادات کو پورا کرنے کے لیے دہشت گردی کی عالمی جنگ نے پاکستان کو ایسے طوفان میں دھکیل دیا، جس کے اثرات نے حکومت کی قوت نافذہ کو ایک مذاق بنا کر رکھ دیا۔ اسی حکومتی کمزوری کی وجہ سے دشمن طاقتوں کے سہارے دہشت گردوں کو اپنی کارروائیوں کی شدت اور دائرہ کار کو وسعت دینے کا موقع ملا۔ گیارہ برسوں کے دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد نے انسانوں کو دہلا کر رکھدیا ہے۔ کوئٹہ میں عاشور اور قدس کے جلوسوں سمیت شیعہ آبادیوں کو پے در پے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، کراچی میں عاشور اور چہلم کے جلوسوں پر حملوں کے علاوہ شیعہ ٹارگٹ کلنگ روز کا معمول ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر اور پارہ چنار آج بھی لرز رہے ہیں۔ لاہور، راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان میں دھماکے کیے گئے، چند روز قبل گجرات میں بے دردی سے سادات کے خاندان کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ملت تشیع کی بے چینی یہ ہے کہ پاکستان کا کوئی کونہ ایسا نہیں، جہاں تکفیری دہشت گردوں کا نیٹ ورک موجود نہ ہو، لیکن یہ نکتہ اے پی سی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ 

ایوان وزیراعظم میں آج ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کے نتائج سے عوام کو بہت توقعات وابستہ ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں تمام عوامی حلقوں کی یہ خواہش ہے کہ ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات حاصل ہو۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کے تمام اسباب اور اس میں ملوث تمام قوتوں کے کردار کو زیر بحث لایا جائے اور ملک کے مختلف حصوں میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اگر مختلف قسم کی حکمت عملیوں کی ضرورت محسوس کی جائے تو اس پر غیر مبہم اور واضح طریقہ کار طے کرلیا جائے۔ 

بارہا ایسا ہوا ہے کہ حکمت عملی کو حتمی شکل دینے کے بعد جب اس پر عملدرآمد کا وقت آتا ہے تو ذمہ داران سیاسی مصلحتوں کے زیر اثر عملدرآمد کے تسلسل کو جاری نہیں رکھ پاتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں زیادہ شدت کے ساتھ تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اصل اہمیت اس بات کی نہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس میں کتنے اچھے اور مؤثر فیصلے کیے جاتے ہیں بلکہ اصل اہمیت اس بات کو حاصل ہوگی کہ ان فیصلوں پر کتنی دیانت داری اور عزم کے ساتھ عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس مرتبہ ان فیصلوں پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے، جن پر ملک کی تمام سیاسی قوتیں متفق ہوں۔ 

اس کانفرنس کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کانفرنس کے شرکاء کو اعلٰی فوجی حکام اور انٹیلی جنس افسران ملک میں سکیورٹی کی حالیہ صورت حال پر بریفنگ بھی دیں گے۔ اس بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ اگر صلاح مشورے کا عمل طوالت اختیار کرگیا تو یہ کانفرنس ایک سے زیادہ دنوں تک جاری رکھی جاسکے۔ حکومت کی ہدایت پر سکیورٹی سے متعلق حکام اور خفیہ اداروں کے نمائندے کراچی کے حالات پر بھی بریفنگ دیں گے، جس کے بعد سوال و جواب کا سیشن بھی ہوگا۔ جب مسلم لیگ نون کی قیادت نے عمران خان سے ہر حال میں آل پارٹیز کانفرنسز میں شرکت کے لئے زور ڈالا تو عمران خان نے کہا کہ وہ کانفرنس سے قبل وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف سے علیحدگی میں ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس سے صرف ایک گھنٹہ قبل وزیراعظم نواز شریف، چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام عباسی، عمران خان اور وزیراعلٰی پرویز خٹک کی علیحدگی میں ملاقات انتہائی اہم ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت کی نظر میں تحریک انصاف کے موقف کا کتنا وزن ہے اور تحریک انصاف کے دہشت گردی کے حوالے موقف کو حکومت نے غیر معمولی اہمیت دی ہے۔ عمران خان اور مسلم لیگ نون جب دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو واضح طور پر طالبان کا نام نہیں لیتے البتہ تحریک انصاف کے چیئرمین لشکر جھنگوی کو دو ٹوک انداز میں دہشت گرد قاتل گروہ کہتے رہتے ہیں۔ شیعہ سنی اتحاد اور وحدت پر یقین رکھتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ شیعوں کی نمائندگی کون کرے گا، نون لیگ، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی یا جے یو آئی؟ 

پاکستانی شیعہ دہشت گردی سے جس قدر متاثر ہیں، اس کہیں بڑھ کے پاکستان کی سلامتی میں ان کا کردار ہے۔ شمالی علاقہ جات، کرم ایجنسی، بلوچستان میں مملکت پاکستان کو بغاوت اور بیرونی طاقتوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کا سامنا ہے، وہاں ملت تشیع ملک کے فطری دفاع کے طور پر لازوال قربانیاں پیش کر رہی ہے۔ حکمران جماعت کے متعلق پہلے ہی شیعوں میں دہشت گردوں کی پشت پناہی اور حمایت کے متعلق شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ایک تو کانفرنس میں شیعہ قیادت کو شامل نہیں کیا جا رہا، دوسرا اس کانفرنس کا جو ایجنڈا بتایا جا رہا ہے اس میں فرقہ وارانہ دہشت گروہوں کے متعلق کسی حل کا ذکر نہیں کیا گیا، حالانکہ اگر ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اس کے خاتمے کی پالیسی کا محوری نکتہ یہ ہے کہ اس کا تدارک پہلے اندر سے کیا جائے۔ اپنے شہروں سے دہشت گردوں، انکے حامیوں اور فنڈنگ کرنے والوں کا خاتمہ کیا جائے اور اندر سے باہر کی طرف ملکی سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے۔ اندرون ملک ہمیں کسی بغاوت کا سامنا نہیں، لیکن ملک میں موجود مذہبی گروہوں میں فاٹا میں ہونے والی طالبان بغاوت کی جڑیں موجود ہیں۔ ملک میں ہونے والے خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے حملوں میں یہ جماعتیں اور گروہ ملوث ہیں۔ 

اے پی سی میں ایک ایسی جماعت بھی شامل ہے جن کی ذیلی تنظیم کے اقامت گاہ سے القاعدہ کے عالمی نیٹ ورک کا کمانڈر گرفتار ہوا ہے۔ اسکے پاس جامعہ منتظر کے نقشے تھے۔ پاکستان کی نمائندہ شیعہ طلبہ تنظیم نے اس حوالے سے بے چینی کا اظہار کیا ہے کہ جس طرح لاہور میں شیعہ وکیلوں، ڈاکٹروں اور عزادروں کو تسلسل کے ساتھ شہید کیا جا رہا ہے، اسی طرح ہماری تنظیم کے سالانہ اجتماع کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ اگر حکومت نے ملت تشیع کو اعتماد میں نہ لیا تو پاکستانی شیعوں میں محرومی اور عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوگا۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے تو ریاستی طاقت سے عوام کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے، جس کا نتیجہ انارکی کو صورت میں نکلتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ 25 فیصد آبادی کی حامل کیمونٹی کو پس پشت ڈال کر کئے جانے والے فیصلے کر دیئے جائیں، جبکہ انکی آبادیاں قتل گاہوں میں بدلتی جا رہی ہوں، بچے، بوڑھے، عورتیں، عبادت گاہیں، ہسپتال، تجارتی مراکز، علماء اور عام افراد روزانہ دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہوں۔ شیعہ قائدین کی طرف سے تحفظات کے اظہار کے باوجود تاحال حکومت نے اس حوالے سے کوئی موقف نہیں دیا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والے عوام کے نزدیک حکومت کی نیک نیتی مشکوک ہے۔ ملت تشیع یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں۔

Add new comment