یہ عشق نہیں آساں

علامہ عارف حسینی کی ۲۵ ویں برسی کی مناسبت سے خصوصی تحریر

نذر حافی

 

انسان اپنی فہم و فراست ، سوجھ بوجھ اور عقل و دانش کے مطابق ہی کسی نظریئے یاشخصیت کے بارے میں اظہارِ محبت یا نفرت کرتا ہے۔ کسی انسان کے علم و شعور کا دائرہ جتنا وسیع اور حکمت و دانائی کا معیار جتنا بلند ہو گا اُسی قدر اعلیٰ و ارفع نظریات اور بلند پایہ شخصیات سے اس کی وابستگی زیادہ ہو گی لیکن جو انسان جھالت اور تنگ نظری کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو گا وہ پست ترین نظریات اور گھٹیا ترین شخصیات کا گرویدہ ہوگا۔ چنانچہ اسلام نے آ کر بنی نوع انسان کو الٰہی تعلیمات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوںکی علمی سطح و فکری حدود کو بھی بلند اور وسیع کیا۔ پورے قرآن حکیم میں احکامِ شرعی صرف 513 آیات میں بند ہیں جبکہ تفکر اور تدبر کے لئے سات سو سے زائد آیات موجود ہیں۔
اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی انسان بغیر تحقیق کئے اسلام کو قبول کر لے یا بغیر تحقیق کئے اسلام کی ترجمانی کرنے لگے۔ پیغمبران الہیٰ اور معصومین کی سیرت یہی رہی ہے کہ وہ عوام النّاس کو " سلونی سلونی" کے ذریعے تحقیق اور باز پرس کے مواقع فراہم کرتے تھے۔ الٰہی رہبران نے کبھی بھی محض طاقت و غلبے کے ذریعے الٰہی احکامات کو نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ لوگ ڈر اور خوف کے بجائے افہام و تفہیم اور تحقیق کے بعد دل و جان سے اسلام کو قبول کریں۔ چونکہ جس شخص کی فکری سطح پست ہو وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بناءپر یا تو کسی کو اپنا آئیڈیل بنا لے گا ےاپھر کسی کے خلاف ہو جائے گا۔
جب ہم علمی و فکری بلندی کی بات کرتے ہیں تو انقلاب پیامبرِ اسلام اور انقلابِ امام خمینی کو سمجھے بغیر ہم علم و فکر کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔ جس طرح بعثت پیامبر سے پہلے اہلیانِ مکّہ ظلمت وگمراہی میں غرق تھے اُسی طرح اسلامی انقلاب سے پہلے اہلیانِ ایران ظلمت و گمراہی میں ڈوبے ہوئے تھے۔
یہ لوگ شراب و کباب کے عادی ہو چکے تھے، ان کے وسائل پر اغیار کا قبضہ تھا، ان کی دولت پر شہنشاہ ناگ بن کر بیٹھا ہوا تھا، ان کے ملک میں اسرائیلی و یہودی کمپنیوں کا جال بچھا ہوا تھا، ان کے تیل کے ذخائر پر امریکی تسلط تھا۔ بحیثیت قوم، عالمی برادری کے درمیان اِن کی کوئی حیثیت اور وقار نہ تھا لیکن جب دانشوران ملّت نے اپنی زبان کھولی، علماءِ کرام نے لوگوں کی عقلوں پر دستک دی تو خوابِ غفلت میں مست قوم بیدار ہونے لگی، عقل و دانش انگڑائیاں لینے لگی اور یوں ایک فکری انقلاب برپا ہونے لگا جس نے آگے چل کراڑھائی سو سالہ شہنشاہیت کی بنیادیں اکھاڑ ڈالیں۔
لوگ اسلامی انقلاب کی خاطر ایک دن کی با مقصد زندگی کو شہنشاہیت کے سائے تلے سو سالہ بے مقصد زندگیوں پر ترجیح دینے لگے۔ جنانچہ ایران کے گلی کوچوںمیں بے مقصدشہنشاہیت کے خلاف با مقصداسلامی انقلابیوں نے قیام کیا اور یہ قیام کیونکر برپا نہ ہوتا اس لئے کہ اسلامی انقلاب کی فکر نے بے مقصد ایرانیوں کو با مقصد بنا دیا تھا۔ جب لوگوںکی فکریں سوئی ہوئی تھیں تو شہنشاہ جیسے ڈکٹیٹر کی بے مقصد خدمت اور اطاعت کرتے تھے لیکن جب فکریںبیدار ہوئیں تو جس طرح امام خمینیؒ اسلام میں ضم تھے لوگ اپسی طرح امام خمینی میں ضم ہوتے جا رہے تھے۔
امام اور امّت کے درمیان عشق و محبّت کا یہ سفر ہزاروں شہیدوں کے لہو کی روشنی میں کئی زینے طے کر چکا تھا کہ 7جون 1989 ءکا وہ تاریخی دن آ گیا جس دن چشمِ ہستی نے عشق و محبت کے ایسے مناظر دیکھے جو پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔
عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کا ہجوم ایک کروڑ سے زائد افراد ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح تہران کے مصلیّٰ بزرگ کی طرف بڑھ رہے تھےزمین پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی آسمان پر جون کا سورج تپ رہا تھا شجر و حجر، چرند و پرند گرمی میں جھلس رہے تھے تہران ائیر پورٹ پر بین الاقوامی شخصیات کا تانتا بندھا ہوا تھاہر شخص سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ آیت اللہ گلپائیگانی نے نمازِ جنازہ پڑھائی پھر یہ جلوس بہشتِ زہراؑ کی طرف روانہ ہوا۔ ۰۳ کلو میٹر کا فاصلہ اس جلوس نے پا پیادہ طے کیا۔ سڑکوں پر عوام کا سمند رواں دواں تھا اور فضا میں ایک ہیلی کاپٹر تابوت کواُٹھائے ہوئے پرواز کر رہا تھا۔ ہیلی کاپٹر تابوت کو اتارنے کے لئے مدفن کے نزدیک مخصوص احاطے میں اتر گیا۔ جیسے ہی تابوت کو باہر لایا گیاایک کروڑ کے ہجوم نے آگے بڑھ کر انتظامیہ سے تابوت لے لیااب ایک کروڑ لوگوں کے ہاتھوںپر تابوت تیر رہا تھا
عینی شاہدین کے مطابق کافی دیر کے بعد تیرتے ہوئے تابوت کی سمت تبدیل ہو گئیتابوت اپنے مدفن کے قریب آنے لگالوگ رو رہے تھےگریہ کر رہے تھےتابوت کو چوم رہے تھےجیسے ہی تابوت مدفن کی حدودمیں پہنچاانتظامی اداروں کے اہلکاروںنے تابوت کو اپنی حفاظت میں لے لیاہیلی کاپٹر فضاسے نیچے اُتراابھی انتظامیہ تابوت کو ہیلی کاپٹر میں پوری طرح رکھ بھی نہ پائی تھی کہ عوام نے سمندری موجوں کی طرح ہیلی کاپٹر کو آ لیا۔ ہیلی کاپٹر نے فوری طور پر دوبارہ منظر یہ کی طرف پرواز کی۔ "منظریہ © " وہ مقام ہے جہاں سے یہ تابوت اٹھایا گیا تھا۔ دانشوروں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کسی تاریخ میں اہم شخصیت کا جنازہ دوبارہ واپس لانے کا یہ پہلا موقع ہے۔
7جون1989ءکو کروڑوں لوگوںکی آہ و بکا اور سسکیوں کے درمیان حضرت امام خمینیؒ کے مقدّس تابوت کو بہشت زہراؑ میں دفنا دیا گیا۔ یہ اس ہستی کا تابوت تھا جس نے لوگوں کے دلوں پر انبیاءؑ کی طرح حکومت کی اور لوگوں کو اہل بیتؑ کی طرح صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی۔ حضرت امام خمینیؒ کی فہم و فراست نے دنیا بھر کے تھنک ٹینکس کو ہرا دیا اور آپ کی عقل و دانش نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کی جڑیں اکھاڑ دیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت امام خمینیؒ جیسی دانا و بینا شخصیت علامہ عارف حسین الحسینی ؒکے بارے میں کیا کہتی ہے۔
علامہ عارف حسین الحسینیؒ کے چہلم کے موقع پر حضرت امام خمینیؒ نے پاکستانی قوم کے نام جو پیغام بھیجا وہ ہر دور کے انسانوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے کہ یہ پیغام کسی عام شخص کا نہیں اُس کا پیغام ہے جس کی دانش وبینش کا ڈنکا مشرق و مغرب میں بجتا ہے۔ اس پیغام کو پڑھتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں یہ بات رہنی چاہیے کہ ہر آدمی اپنی فہم و فراست کے مطابق کسی نظریے یا شخصیت کی حمایت یا مخالفت کرتا ہے۔ اگر ہم علامہ عارف حسینی کی شخصیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو حضرت امام خمینیؒ کی دانش و بینش کی روشنی میں سمجھنا ہو گا۔
اپنے پیغام کے پہلے پیراگراف میں حضرت امام خمینی نے علامہ عارف حسینی ؒ کو حضرت امام حسینؑ کا فرزند ِ صادق قرار دیا ہے۔ کچھ آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ عارف حسینیؒ جیسی شخصیت کو اور کیا بشارت ہو سکتی ہے کہ محرابِ عبادت حق سے ارجعی الیٰ ربک کے خونین عروج و کمال کا نظارہ کریں۔ اسی پیغام میں حضرت امام خمینیؒ نے پاکستانی قوم کو شہید کے افکار زندہ رکھنے کی تاکید بھی کی ہے۔
امام خمینیؒ کے دل میں علامہ عارف حسین الحسینیؒ کی محبت و عشق کا یہ عالم تھا کہ اپنے پیغام کے آخری حصّے میں آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک عزیز ترین فرزند کھو دیا ہے۔جس طرح علامہ حسینی ؒ سے حضرت امام خمینیؒ کی شدید محبت اور عشق دیکھنے میں آتا ہے اسی طرح علامہ عارف حسینیؒبھی امام ؒ سے انتہائی عشق رکھتے تھے۔ جیسا کہ ایک موقع پر علامہ عارف نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ امام خمینیؒ کے ذریعے دنیا کے تمام مسلمانوں پر حق کی حجت تمام ہو چکی ہے۔ میں آمادہ ہوں کہ اپنی جان و مال اور اولاد قربان کر دوں لیکن اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں کہ خطِ ولایت فقیہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹوں۔
جس طرح ایران کے شہید مطہریؒ، عراق کے باقرالصدرؒ اور لبنان کے راغب حربؒ ، حضرت امام خمینیؒ میں ضم تھے اُسی طرح عارف حسینیؒ بھی حضرت امام ؒ میں ضم تھے۔
علامہ عارف حسینیؒ کی تعلیمی دور میں اسلامی انقلاب سے وابستگی اور پھر پاکستان میں مجاہدانہ کردار کا مطالعہ کرنے کے بعد صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ علامہ شہید کو ہم لوگ پہچان نہیں سکے۔ ہم اپنی محدود فکر و علمی بے بضاعتی کے باعث اُس شخص کی عظمت و رفعت کو کیا سمجھیں ! جس کے کردار کی پاکیزگی کی گواہی دشمن بھی دیں۔ جس کی شرافت پر قاتل بھی رو پڑے، جس کے صبر و تحمل کی تصدیق حاسد بھی کریں اور جس سے عشق و وابستگی کا اظہار حضرت امام خمینیؒ جیسا رہنما کرے۔
عارف حسینیؒ کی شخصیت ہمارے عہد سے کئی برس آگے اور ہماری فکروں سے کئی گنا بلند تھی۔ آپ عملی طور پر اہل بیتؑ اور حضرت امام خمینیؒ کی طرح عشق الٰہی سے سرشار تھے اور عشقِ الٰہی کے ذریعے سے ہی بے مقصد لوگوں کی زندگیوں کو با مقصد بنا دینا چاہتے تھے۔ جیسا کہ نارو وال میں کئے جانے والے خطاب کے دوران آپ نے فرمایا تھاکہ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں دین اسلام کی سر بلندی کے لئے صرف کرنا ہو ں گی یقیناً راہ خدا میں گزرنے والا ایک دن، بے مقصد سو سالوں سے بہتر ہے۔۱
قائد شہید سے عشق کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال قائد شہید کی برسی منعقد کرتے ہوئے ہمارے ذہنوں میں بھی یہ بات رہے کہ راہِ خدا میں منعقد ہونے والی ایک با مقصدبرسی، بے مقصد منعقد ہونے والی سو برسیوں سے بہتر ہے۔
۱:اسلامی شخصیات کی نظر میں عارف حسینی صفحہ

Add new comment