دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 نذر حافی  

یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ذات کے اعتبار سے انسان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور شناخت کے اعتبار سے اپنے نظریات وعقائد کے باعث ایک دوسرے سے منفرد اور ممتاز ہیں۔ انسانی معاشرے میں اسی وقت امن و امان قائم رہ سکتا ہے جب تمام انسانی گروہ فراخدلی کے ساتھ اپنی انفرادیت اور شناخت کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ذات اور شناخت کو بھی تسلیم کریں۔

کسی کی ذات کا قتل حقِ زندگی چھین کر اور شناخت کاقتل نام و نشان چھین کرکیاجاتاہے۔ 

دنیا کے جس خطّے میں بھی کسی گروہ نے جب اپنے تسلط اور دھونس کی خاطر لوگوں کی ذات اور شناخت کے قتل کا سلسلہ شروع کیا تو اسے جلد یا بدیر منہ کی کھانی پڑی۔ مثال کے طور پر تاجِ برطانیہ کو ہی لے لیجئے اگر تاجِ برطانیہ ہندوستانیوں کی ذات اور شناخت کو نہ کچلتا تو برطانیہ کو اس ذلت و رسوائی کے ساتھ بر صغیر سے نہ نکلنا پڑتا۔
یہ اس دور کی بات ہے جب برطانوی سامراج اپنے عروج پر تھا، وہ اپنے سوا کسی کی ذات و شناخت کے احترام کا قائل نہیں تھا۔ چنانچہ فوجی چھاونیوں سے لے کرکچّی بستیوں تک ہر طرف ہندوستانیوں کی ذات و شناخت کا قتل عام ہورہا تھا، اگر ایک طرف جنرل ڈائر جیسے لوگ ہندوستانیوں کے کشتوں کے پشتے لگارہے تھے تو دوسری طرف کارتوسوں پر گائے اور سور کی چربی چڑھا کر ہندوستانیوں کی دینی شناخت کو ختم کیا جا رہا تھا۔ آج وقت کا قاضی تاجِ برطانیہ سے یہ سوال کررہا ہے کہ بتاؤ آخری فتح کس کی ہوئی۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کیا ہندوستانیوں کی ذات اور شناخت مٹ گئی۔
برصغیر میں جب تاجِ برطانیہ کمزور پڑ گیا تو اسے ہندووں کی مدد کی ضرورت پڑی، چنانچہ برّصغیر میں مسلمانوں کی افرادی قوت کو توڑنے کے لئے ایک طرف تو ہندو مسلم فسادات شروع کرائے گئے اور دوسری طرف "عظیم ہندوستان" اور انسانیّت سب سے بڑا مذہب ہے" کے نعرے لگا کر نیز ہندو مسلم بھائی بھائی جیسی سازشیں کرکے مسلمانوں کی ذات اور شناخت کو قتل کرنے کا بازار گرم کیاگیالیکن آج قیام ِ پاکستان کے ۶۵ سال گزرنے کے بعد تحریکِ پاکستان کے شہیدوں کا لہو "عظیم ہندوستان" کے دعوے داروں سے پوچھتا ہے کہ بتاو آخری فتح کس کی ہوئی۔ ۔ ۔ ؟کیا مسلمانوں کی ذات اور شناخت مٹ گئی؟
پاکستان بننے کے بعد جب اس مقدس سر زمین پر تسلط اور دھونس کی بساط بچھائی گئی تو بنگالیوں کی چیخیں بلند ہوگئیں، ایک طرف تو انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا گیا، انہیں غدّار اور ملک دشمن کہا گیا، ان پر شبیخون مارا گیا اور دوسری طرف "اللہ ہی اللہ اور اسلام ہی اسلام کے نعرے لگائے گئے چنانچہ قیامِ پاکستان کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے بنگالی اپنی ذات اور شناخت کی بقاء کے لئے ہمیشہ کے لئے ہم سے الگ ہوگئے۔ آج تاریخ کا مورّخ تسلط اور دھونس جمانے والوں سے پوچھتا ہے بتاو آخری فتح کس کی ہوئی۔ ۔ ۔ ؟ کیا بنگالیوں کی ذات اور شناخت مٹ گئی؟
آج باقیماندہ پاکستان میں لمبے عرصے سے برملا طور پر اہلِ تشیع کی ذات اور شناخت کا قتلِ عام جاری ہے۔ شیعوں کی انفرادیت کو کچلنے کے لئےایک طرف تو اعلی سرکاری عہدوں پر فائز شیعہ حضرات کی ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے، شیعہ قبائل کے خلاف مختلف قبائل کو متحد کروا کر لشکرکشی کرانا ملکی سیاست کا حصہ بن چکی ہے، شیعہ ادباء، وکلا، علما ، تاجر اور صحافی حضرات دہشت گردوں کی زد پرہیں، شیعہ مساجد غیر محفوظ، امام بارگاہیں ٹارگٹ پر اور عام شیعہ ہر وقت خطرے میں ہے، حتّیٰ کہ عام شیعہ اب پاکستان میں سفر بھی نہیں کرسکتا، شیعہ افراد کو گاڑیوں سے اتار کر تہہ تیغ کردیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف شیعہ شناخت کو مسخ کرنے کے لئے "شیعہ کافر " کے نعرے لگائے جاتے ہیں، میڈیا میں کبھی طالبان کو حضرت امام حسین (ع) کا اصلی وارث قرار دیا جاتا ہے اور کبھی یزید کو خلیفۃ الرسول اور امام حسین (ع) کو باغی کہا جاتا ہے، کبھی صحیفہ کاملہ کو کسی اور کے نام سے چھاپا جاتا ہے اور کبھی فرقہ وارانہ مواد کو چھاپ کر اس پر کسی شیعہ تنظیم یا شخصیت کا نام چسپاں کردیا جاتا ہے، کبھی بانی پاکستان محمد علی جناح کو وہابی یا دیوبندی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ قائداعظم شیعہ تھے لیکن پاکستان بنانے میں ان کا ساتھ شیعوں نے نہیں دیا تھا۔ یہ مختلف حیلوں اور حربوں کے ساتھ شیعہ شناخت کو مٹانے کی کاروائیاں ہیں۔
افسوس صد افسوس یہ کہ یہ باتیں وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کا ماضی اس بات پر شاہد ہے کہ انہوں نے پاکستان کو کافرستان کہا، قائداعظم کو کافر اعظم کہا اور آج بھی پاک فوج کو ناپاک فوج کہتے ہیں۔ یہ آج پاکستان پر اپنا دھونس جمانے کے لئے اہل سنّت والجماعت کو دھوکے کے ساتھ اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ کسی نہ کسی طرح اہل سنّت والجماعت کو اپنے ساتھ ملا کر اہل تشیع کے خلاف بنگالیوں کی طرح محاذ کھڑا کیاجائے۔ بفرضِ محال اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد وہ اہلِ سنّت کے ساتھ کیا کریں گے یہ بات بھی کسی سے مخفی نہیں، وہ اہلِ سنّت کے ساتھ وہی کچھ کریں گے جو انہوں نے افغانستان میں کیا اور جو کچھ وہ پاکستان میں اہل سنّت کے مزاروں اور مقدس مقامات کے ساتھ کررہے ہیں۔
پاکستان میں شیعوں کے خاتمے کے لئے جہاں بہت سارے لشکر اور ٹولے سرگرمِ عمل ہیں وہیں پر شیعہ شناخت کو مارنے کے لئے مجیب الرحمن شامی سمیت" بڑے بڑے شامی" اور" نامی گرامی کوفی سردار" قلمی میدان میں اترے ہوئے ہیں، جن کا یہ دعوی ہے کہ شیعوں کو قائداعظم کا رشتے دار ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تا ہم اس شامی و کوفی لشکر کو صرف ایک جملے میں اتنا جواب دینا چاہئے کہ اپنی شرمندہ تاریخ کے گریبان میں جھانک کر دیکھو اور اس حقیقت کو تسلیم کرو کہ اہل تشیع نے کبھی بھی اپنی حقّانیت کو ثابت کرنے کے لئے رشتے داری کا سہارا نہیں لیا۔
یزیدی بیت المال، سعودی ریالوں اور امریکی ڈالروں کی بیساکھیوں پر کھڑے ہو کر الجہاد ، الجہاد کے نعرے لگانے والے شامی و کوفی توحید پرستوں سے کہا جاسکتا ہے کہ تم چودہ سو سال میں اپنے تمام تر خون خرابے اور پروپیگنڈے کے باوجود حسین ابن علی علیہ السلام کو باغی ثابت نہیں کرسکے، یزید کو خلیفۃ الرسول (ص) نہیں منوا سکے، ہندووں اور انگریزوں کے ساتھ ملکر بھی پاکستان کو بننے سے نہیں روک سکے، پاکستان بننے کے بعد مسلمانوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر شیعہ اور سنّی میں تقسیم نہیں کرسکے اور بہت سے دوسرے اہداف اور عزائم جس میں تم کامیاب نہیں کرسکے۔
ان لوگوں کے لئے اس سے بڑی شکست اور شرمندگی کیا ہوگی کہ وہ جو تمام تر ڈالروں، ریالوں، فتووں، سازشوں اور حربوں کے باوجود قائد اعظم کو کافر ثابت نہیں کرسکے تو آج قائداعظم کو وہابی یا دیوبندی ثابت کرنے کے لئے زور لگارہے ہیں۔
اور انہیں ۔ ۔ ۔ انہیں تو وہابیت اور دیوبندی مکتب سے بھی کوئی ہمدردی نہیں، شامی و کوفی فوج تو کسی دین مذہب اور اصول کی پابند نہیں ہوتی، یہ فوج تو کرائے پر پلتی اور چلتی ہے، کرائے کے سردار اور کرائے کے قل مبردار۔ ۔ ۔ ضیاءالحق سمیت جو بھی مٹھی گرم کردے وہی امیرالمومنین اور جو اپنی آغوش میں بٹھا لے وہی آقا ہے۔ ۔ ۔
اےسپاہِ شام و کوفہ ۔ ۔ ۔ دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
شاید ان کو اتنا شعور بھی نہیں کہ وہ ذات اور شناخت کو قتل کرنے کے لئے جس گھناؤنے جرم میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اس کے نتیجے میں پھر کوئی بنگلہ دیش جنم لے سکتا ہے۔ ۔ ۔! پھر وقت کا قاضی ان سے ان سے یہ سوال کرسکتا ہے کہ بتاو آخری فتح کس کی ہوئی۔ ۔ ۔ ؟ کیا اہل تشیع کی ذات اور شناخت مٹ گئی؟
لشکرِ شام و کوفہ کے پاس اب بھی وقت ہے۔ ۔ ۔ اپنے ماضی سے عبرت حاصل کریں ۔ ۔ ۔ صبح کا بھولا اگر شام کو لوٹ آئے تو۔ ۔ ۔ اسے بھولا نہیں کہتے۔ ۔ ۔ نہیں کہتے۔ ۔ ۔ بشرطیکہ لوٹ آئے۔ ۔ ۔
nazarhaffi@yahoo.com

 

 

Add new comment