دو نمازیں اکٹھی کرکے پڑھنا
جمع بین الصلاتین
(دو نمازیں اکٹھی کرکے پڑھنا)
بقلم آیت اللہ مکارم شیرازی؛ ترجمہ:ف۔ح۔مہدوی
نماز خلق کا خالق کا ساتھ بہترین رابطہ، بہترین تربیتی حکمت عملی، تہذیب و تزکیۂ نفس اور خودسازی کا بہترین وسیلہ، فحشاء اور منکرات سے روکنے والا عظیم عمل اور قرب الہی کا بہترین سرمایہ ہے اور نماز جماعت مسلمانوں کی قوت و طاقت اور ان کی صفوف کی وحدت و استحکام کا سبب اور مسلمان معاشروں کی طراوت اور کمال و ترقی ک وسیلہ ہے۔
نماز ہر شب و روز میں پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے اور انسان کا قلب اور اس کی روح تسلسل کے ساتھ فیض پروردگار کے اس شفاف چشمے سے طہارت و پاکیزگی کے قطرے نوش کرتی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کو اپنی آنکھوں کی روشنی سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: "قرة عيني في الصلاة"، (1) (میری آنکھوں کی روشنی نماز میں ہے)؛ نماز کو مؤمن کی معراج سمجھتے ہیں اور "الصَّلَوةُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ" کی ندا دیتے ہیں (2) اور نماز کو اللہ کے ساتھ پرہیزگاروں کے قرب کا وسیلہ سمجھتے ہوئے فرماتے ہیں: "الصلاة قربان كل تقي"۔ (3)
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پانچ نمازوں کو پانچ الگ الگ اوقات میں جدا (اور تقسیم کرنا) ایک لازمی حکم ہے؟ اگر یہ نمازیں الگ الگ نہ پڑھی جائیں تو کیا "نماز قبل از وقت کی مانند"، باطل ہے؟ یا یہ کہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں بھی پڑھا جاسکتا ہے؟ (وہ یوں کہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر ادا کیا جائے)۔
شیعہ علماء ـ مکتب اہل بیت (علیہم السلام) کا اتباع کرتے ہوئے ـ سب کے سب متفق القول ہیں کہ پانچ نمازوں کی ادائیگی تین وقتوں میں جائز ہے اگرچہ افضل و برتر یہ ہے کہ پانچ نمازیں پانچ الگ الگ اوقات میں بجا لائی جائیں۔
تا ہم اہل سنت کے فقہاء کی اکثریت ـ قلیل فقہاء کے سوا ـ پانچ اوقات میں نماز کی بجاآوری کو واجب سمجھتے ہیں (اور وہ صرف عرفہ کے دن عرفات کے میدان میں نماز ظہر و عصر کو اور عیدالاضحی کی رات مشعرالحرام میں مغرب و عشاء کی نماز اکٹھی ادا کرنے کے قائل ہیں اور ان میں کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جو سفر یا ہجوم و ازدحام کے دنوں ميں ـ جب نماز جماعت کے لئے مسجد میں جانا دشوار ہوتا ہے ـ دو نمازوں کو جمع کرنا، جائز سمجھتے ہیں)۔
شیعہ فقہاء کی رائے ـ جیسا کہ کہا گیا ـ گو کہ پانچ نمازوں کی پانچ الگ الگ اوقات میں بجاآوری کی افضلیت اور برتری پر تاکید کرتے ہیں تا ہم وہ تین وقتوں میں پانچ نمازوں کی ادائیگی کے الہی جواز کو نماز کے مسئلے میں آسانی اور سہولت اور لوگوں کو رخصت اور وسعت دینے کے حوالے سے، خدا کا عطیہ سمجھتے ہیں جو اسلام کی روح سے ہمآہنگ ہے، کیونکہ اسلام شریعت "شریعتِ سہلہ و سمحہ" ہے (جس میں مسامحت، درگذر اور سہولت و آسانی ہے)؛ اور تجرے سے ثابت ہوا ہے کہ پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی ادائیگی پر اصرار کی وجہ سے کئی لوگ نماز کو بھول جاتے ہیں اور کئی لوگ نماز کو کلی طور پر ترک کردیتے ہیں۔
اسلامی معاشروں میں پانچ الگ الگ اوقاتِ نماز پر اصرار کے اثرات:
اسلام نے روز عرفہ کے ظہر و عصر کو عرفات کے میدان میں اور عیدالاضحی کی شب کو مشعرالحرام میں مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی اد کرنے کی اجازت کیوں دی؟ (4)
اہل سنت کے بہت سے فقہاء نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث کے حوالے سے سفر اور مطر (یعنی بارش) کے دنوں میں دو نمازیں اکٹھی کرنے کی اجازت کیوں دی ہے؟ یقیناً یہ امت کی سہولت کے لئے ہے۔
سہولت اور آسانی پیدا کرنے کے اسباب فراہم کرنے کا یہ اسلامی طریقہ اس امر کا متقاضی ہے کہ دوسرے مسائل و مشکلات میں بھی دو نمازیں اکٹھی کرنے کی اجازت دی جائے؛ ماضی میں بھی اور حال میں بھی۔
ہمارے زمانے میں لوگوں کی زندگی دگرگوں ہوچکی ہے اور ان کی زندگی میں تیزرفتار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کارخانوں کے مزدوروں، اداروں کے اہلکاروں اور ملازمین سمیت اسکولوں، کالجوں اور جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اور اساتذہ کے حالات، انہیں پانچ نمازیں الگ الگ اوقات میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتے؛ یعنی یہ کہ پانچ اوقات میں نماز ادا کرنا مشکل اور پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقولہ روایات کے مطابق لوگوں کو "جمع بین الصلاتین" کی اجازت دے دی جائے ـ جن پر اہل تشیع کے ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے بھی تاکید فرمائی ہے ـ تو لوگوں کو بڑی آسانی اور سہولت ہوگی اور نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور بصورت دیگر ترک نماز کا رجحان بڑھتا رہے گا اور تارکین نماز کی تعداد میں اضافہ ہوگا؛ اور یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ سنی نوجوانوں کی کثیر تعداد نے نماز ترک کردی ہے جبکہ تشیع کے پیروکاروں میں تارکین نماز کی تعداد کم ہے۔
حق تو یہ ہے کہ "بُعِثْتُ إلَى الشَّرِيعَةِ السَّمْحَةِ السَّهْلَةِ" (5)، کے تقاضوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی سے منقولہ متعد دوسری روایات کے تقاضوں کے مطابق، پانچ اوقات کی با جماعت ادائکي کی فضیلت پر تاکید کے ضمن میں، لوگوں کو تین اوقات میں ـ حتی فرادی نمازیں ـ ادا کرنے کی اجازت دیں تا کہ لوگوں کو آسانی ہو اور زندگی کے مسائل ترک نماز کا سبب نہ بنیں۔
اب ہم قرآن مجید، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور معصومین علیہم السلام سے منقولہ روایات کی طرف لوٹتے ہیں اور اس مسئلے کا غیرجانبدارانہ اور غیر متعصبانہ انداز سے جائزہ لیتے ہیں۔
جمع بین الصلاتین کے بارے میں منقولہ روایات
صحيح مسلم، صحیح بخارى، سنن ترمذى، موطّأ مالك، مسند احمد، سنن نسائى، مصنف عبدالرزاق الصنعانی اور دیگر کتب ـ جو اہل سنت کے مشہور، معتبر اور جانے پہچانے منابع حدیث سمجھی جاتی ہیں ـ میں سفر، بارش اور ضرر و زیاں کے خطرے کے بغیر بھی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کرنے کے حق میں، 30 کی لگ بھگ روایتیں نقل ہوئی ہیں اور ان میں سے اکثر روایات پانچ مشہور راویوں سے نقل ہوئی ہیں:
1ـ عبدالله ابن عبّاس
2ـ جابر بن عبدالله انصارى
3ـ ابوايّوب انصارى
4ـ عبدالله بن عمر
5ـ ابوهريره
ان تیس روایتوں میں سے بعض کو اگلے صفحات پر نقل کیا جائے گا:
1۔ ابوالزبیر کی روایت
ابوالزبیر نے سعید بن جبیر اور عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے:
"صلّى رسول الله(صلى الله عليه وآله) الظهر والعصر جميعاً بالمدينة فى غير خوف و لا سفر"
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کیں جبکہ (آپ (ص) اور ہم مدینہ میں تھے اور) نہ تو کسی قسم کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی سفر کی حالت میں تھے۔
ابوالزبیر کہتے ہیں: میں نے ابن جبیر سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کیوں کیا؟
سعید بن جبیر نے کہا: میں نے بھی یہی سوال ابن عباس سے پوچھا تو انھوں نے جواب دیا:
"أراد أن لا يَحْرَجَ أحداً من أمّته"۔
ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصود یہ تھا کہ آپ (ص) کی امت کا ایک فرد بھی زحمت و مشقت میں نہ پڑے۔ (6)
2۔ عبداللہ بن عباس کی روایت
ابن عباس سے روایت ہے:
"جمع رسول الله(صلى الله عليه وآله)بين الظهر و العصر و المغرب و العشاء فى المدينة فى غير خوف و لا مطر"۔
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں جبکہ نہ کوئی خوف تھا اور نہ ہی بارش ہورہی تھی۔
اس حدیث کے ذیل میں منقول ہے کہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصد کیا تھا؟ اور ابن عباس نے جواب دیا: "اراد ان لا يحرجَ"
ترجمہ: رسول اللہ (ص) نے چاہا کہ کسی مسلمان کو حرج اور زحمت سے دوچار نہ کریں۔ (7)
3۔ عبداللہ بن شقیق کی روایت
عبداللہ بن شقیق سے مروی ہے:
"خطبنا ابن عبّاس يوماً بعد العصر حتّى غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس يقولون الصلاة الصلاة! قال فجائه رجل من بنى تميم لا يفتر و لا يتنى : الصلوة، الصلوة فقال: ابن عبّاس أتعلمنى بالسنّة، لا أمّ لك ثمّ قال: رأيت رسول الله(صلى الله عليه وآله)جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء قال عبدالله بن شقيق: فحاك فى صدرى من ذلك شىء فأتيت اباهريرة فسألته، فصدّق مقالته"۔ (8)
ترجمہ: ایک دن ابن عباس نے عصر کے بعد ہم سے خطاب کیا (اور خطاب جاری رہا) حتی کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر ہوئے، لوگوں نے آوازیں دیں اور کہا: نماز نماز اور اس کے ایک تمیمی مرد آیا جو مسلسل نماز نماز کی صدائیں دے رہا تھا تو ابن عباس نے کہا: تم مجھے سنت سکھاؤگے اے بے ماں کے بیٹے! اور پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرتے ہوئے دیکھا۔
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں: میں نے ابن عباس کی بات سنی تو میرے دل میں شک سا ابھرا اور ابوہریرہ کے پاس پہنچا اور ماجرا سن کر ان سے حقیقت پوچھی تو ابوہریرہ نے ابن عباس کی تصدیق کی۔
4۔ جابر بن زید کی روایت
جابر بن زید کہتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا:
"صلّى النبى(صلى الله عليه وآله) سبعاً جميعاً و ثمانياً جميعاً" (9)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات رکعتیں ملا کر پڑھیں اور آٹھ رکعتیں ملا کر پڑھیں۔ (یہ مغرب و عشاء کی سات اور ظہر و عصر کی آٹھ رکعتیں اکٹھی کرکے پڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔
4۔ سعید بن جبیر کی روایت
سعید بن جبیر عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا:
"جمع رسول الله(صلى الله عليه وآله)بين الظهر والعصر و بين المغرب و العشاء بالمدينة من غير خوف و لا مطر قال : فقيل لابن عبّاس: ما أراد بذلك؟ قال: أراد أن لا يحرج أمّته"۔ (10)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی ادا کیں جبکہ آپ (ص) مدینہ میں تھا اور کسی دشمن کی جانب سے کوئی خوف نہ تھا اور نہ ہی بارش ہورہی تھی۔
ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصد کیا تھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ (ص) اپنی امت کو حرج اور مشقت میں نہيں ڈالنا چاہتے تھے۔
6۔ ابن حنبل کی روایت
حنابلہ کے امام، احمد بن حنبل اپنی "مسند" میں اس سے ملتی جلتی روایت ابن عباس سے نقل کی ہے۔ (11)
7۔ مالک ابن انس کی روایت
اہل سنت کے مشہور امام مالک بن انس نے اپنی کتاب ـ الموطأ میں مدینہ کا نام لئے بغیر ـ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ:
"صلّى رسول الله (صلى الله عليه وآله) الظهر والعصر جميعاً و المغرب و العشاء جميعاً فى غير خوف و لا سفر"۔ (12)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھ لیں جبکہ نہ (دشمن سے کوئی) خوف تھا اور نہ ہی آپ (ص) سفر میں تھے۔
8۔ عبدالرزاق الصنعانی کی روایت
عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی نے اپنی کتاب "اَلْمُصَنَفْ" میں روایت کی ہے کہ عبداللہ بن عمر نے کہا:
"جمع لنا رسول الله (صلى الله عليه وآله) مقيماً غير مسافر بين الظهر والعصر و المغرب فقال رجل لابن عمر: لم ترى النبى (صلى الله عليه وآله) فعل ذلك؟ قال: لأن لا يحرج أمّته ان جمع رجل"۔ (13)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے لئے ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھائیں جبکہ آپ (ص) مسافر بھی نہیں تھے۔
عبداللہ بن عمر سے پوچھا گیا: آپ کی رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کیوں کیا؟
انھوں نے کہا: اس لئے کہ اگر کوئی شخص دو نمازیں اکٹھی کرکے پڑھے تو آپ (ص) کی امت حرج و مشقت سے دوچار نہ ہو، (اور اس شخص پر اعتراض نہ ہو)۔
9۔ جابر بن عبداللہ کی روایت
جابر بن عبداللہ الانصاری کہتے ہیں:
"جمع رسول الله (صلى الله عليه وآله) بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء فى المدينة للرخص من غير خوف و لا علّة"۔ (14)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں اکٹھی کردیں تا کہ امت کے لئے اجازت اور رخصت ہو خواہ خوف یا دوسری کوئی دشواری نہ بھی ہو۔
10۔ ابوہریرہ کی روایت
ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ:
"جمع رسول الله (صلى الله عليه وآله) بين الصلوتين فى المدينة من غير خوف"۔ (15)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں (دشمن کے) خوف کے بغیر دو نمازیں اکٹھی ادا فرمائیں۔
11۔ عبداللہ بن مسعود کی روایت
عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ:
"جمع رسول الله(صلى الله عليه وآله)، بين الأولى و العصر و المغرب و العشاء فقيل له فقال: صنعته لئلاّ تكون أمّتى فى حرج"۔ (16)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ظہر و عصر کی نمازوں کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ ادا کیا کسی نے وجہ دریافت کی تو آپ (ص) نے فرمایا: میں نے یہ عمل انجام دیا تا کہ میری امت کو زحمت نہ ہو۔
اور دیگر احادیث۔
٭٭٭
یہاں دو سوال درپیش ہیں:
1۔ مندرجہ بالا احادیث کا لُبِّ لُباب:
اہل سنت کی مشہور کتب اور درجۂ اول کے منابع و مصادر میں منقولہ ان احادیث میں ـ جو اکابر صحابہ سے نقل ہوئی ہیں ـ دو نکات پر زور دیا گیا ہے:
پہلا نکتہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو نمازیں ایسے حال میں اکٹھی ادا کیں کہ بارش، سفر، دشمن سے خوف جیسے مسائل موجود نہ تھے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مقصد یہ تھا کہ امت کو وسعت اور رخصت ہو اور مسلمان عسرت اور حرج سے دوچار نہ ہو۔
اس کے باوجود کیا مناسب ہے کہ بعض لوگ تنقید برائے تنفید کی روش پر اصرار کرتے رہیں اور کہتے رہیں کہ "جمع بین الصلاتین" کا تعلق صرف اضطراری، غیرمعمولی (اور مجبوری کے) حالات سے ہے! سوال یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں حقائق پر کیوں بند کریں؟ اور اپنے متعصبانہ فیصلوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نصوص اور واضح و روشن و صریح بیانات پر کیوں مقدم سمجھیں؟
خدا اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو امت کو بخشا ہے مگر امت کے متعصبین اس کو نہیں بخشتے، آخر کیوں؟
یہ حضرات کیوں نہیں چاہتے کہ مسلمان نوجوان ہر حال میں اور ہر مقام پر، اسلامی ممالک کے اندر اور باہر، جامعات، دفاتر، ادارات اور کارخانوں میں اپنے اہم ترین اسلامی فریضے (نماز پنجگانہ) پر عمل کریں؟
ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام رہتی دنیا تک ہر عصر اور ہر مقام کے لئے آيا ہے۔
یقیناً پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی وسعت نگاہ اور بصیرت کی بنا پر ہر عصر اور ہر دہر اور ہر صدی میں مسلمانوں کا مشاہدہ کا مشاہدہ کررہے تھے اور جانتے تھے کہ اگر مسلمانوں کو پانچ الگ الگ اوقات میں نماز کی ادائیگی کا پابند بنادیں، تو مسلمانوں کا ایک گروہ تارک الصلاة ہوجائے گآ (جیسے کہ آج ہم یہی صورت حال دیکھ رہے ہیں)۔ اسی وجہ سے آپ (ص) نے امت پر احسان کیا اور اس کے مسئلے میں رخصت اور وسعت قرار دی تا کہ سارے مسلمان ہر زمان اور ہر مکان میں یومیہ نمازیں آسانی سے ادا کرسکیں۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے:
"وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔ (17)
ترجمہ: اور (خدا نے) دین میں تمہارے لیے کوئی دشواری اور زحمت قرار نہیں دی ہے۔
2۔ قرآن اور نماز کے سہ گانہ اوقات
اس مسئلے کی حیرت انگیزی یہ ہے کہ قرآن کی دو آیتوں میں جب اوقات نماز کے تعین کا موقع آتا ہے، صرف تین اوقات یومیہ نمازوں کے لئے قرار دیئے جاتے ہیں، اس کے باوجود باعث تعجب ہے کہ ان برادران میں سے بعض پانچ اوقات میں وجوب نماز پر زور دیتے ہیں؟
پانچ اوقات میں نماز کی ادائیگی کی فضیلت ناقابل انکار ہے۔ ہمیں جب بھی توفیق ملے پانچ اوقات کا لحاظ رکھتے ہیں، مگر بحث پانچ اوقات میں نماز کے وجوب کے حوالے سے ہے۔
پہلی آیت سورہ ہود میں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
"وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ"۔ (18)
ترجمہ: اور دن کے دو اطراف کے حصوں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز ادا کرو۔
"طَرَفَيِ النهارِ" سے نماز فجر کی طرف اشارہ ہے جو دن کے آغاز میں ادا کی جاتی ہے اور ظہر و عصر کی نمازوں کی طرف اشارہ ہے جن کا وقت غروب آفتاب تک ہے۔ بالفاظ دیگر اس آیت سے نماز ظہر و عصر کے وقت کا مغرب تک جاری رہنا، بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ "زُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ" سے کیا مراد ہے؟
اس بات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ "مختارالصحاح" اور "مفردات راغب" کے مطابق "زُلَف"، "زُلَفہ" کی جمع ہے جس سے ابتدائے شب کے کچھ حصے مراد لئے جاتے ہیں اور یہ درحقیقت نماز مغرب و عشاء کی طرف اشارہ ہے۔
چنانچہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یومیہ نمازیں معمول کے مطابق، پانچ الگ الگ اوقات ادا کرتے تھے تو یقینی طور پر فضیلت کا پہلو آپ (ص) کے مدنظر تھا، اور ہم پانچ اوقات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ پس ہم آیات کے ظاہری معنی و مفہوم کو نظرانداز کرکے دیگر تأویلات کا دامن کیوں تھامیں؟!
دوسری آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) میں ہے جہاں ارشاد ربانی ہے:
"أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوداً"۔ (19)
ترجمہ: نماز برپا کرو زوال آفتاب سے رات ڈھلنے تک اور صبح کا قرآن (یا صبح کا پڑھنا (نماز فجر) پڑھئے یقیناً صبح کا پڑھنا (نماز فجر) مشاہدہ کرنے والوں (رات اور دن کے فرشتوں) کے لئے مشہود ہے۔ [یعنی رات کے فرشتے بھی اور دن کے فرشتے بھی نماز فجر کا مشاہدہ کرتے ہیں]۔
"دُلوك" ایک طرف جھکنے اور مائل ہونے کو کہا جاتا ہے اور یہاں "دُلوك" سے مراد آفتاب کا نصف النہار کی فرضی لکیر سے مغرب کی طرف مائل ہونا اور زوالِ ظہر کا آغاز ہے۔
"غَسَقُ اللَّيْل" رات کے اندھیرے کو کہا جاتا ہے اور بعض لوگوں نے اس کو آدھی رات سے تعبیر کیا ہے کیونکہ جیسا کہ راغب نے مفردات القرآن میں لکھا ہے "غسق" سے رات کے اندھیرے کی شدت مراد ہے جو وہی نصف شب کا وقت ہے۔
چنانچہ "دلوك" سے وقت نماز کے آغاز اور ظہر کی طرف اشارہ ہے اور "غَسَقُ اللَّيْل" نماز مغرب و عشاء کے بعد کے اوقات کی جانب اشارہ ہے اور "قرآن الفجر" سے نماز صبح کی طرف اشارہ ہے۔
بہرحال اس آیت شریفہ میں یومیہ نمازوں کے لئے تین اوقات بیان ہوئے ہیں اور یہ تین اوقات پنجگانہ نمازوں کی بجاآوری کے جواز کی دلیل ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی کا بیان دلچسپ ہے؛ کہتے ہیں:
"إن فسرنا الغسق بظهور أوّل الظلمة ـ و حكاه عن ابن عبّاس و عطا و النضر بن شميل ـ كان الغسق عبارة عن أول المغرب و على هذا التقدير يكون المذكور فى الاية ثلاث اوقات وقت الزوال و وقت أول المغرب و وقت الفجر، و هذا يقتضى أن يكون الزوال وقتاً للظهر و العصر فيكون هذا الوقت مشتركاً بين الصلوتين و أن يكون أول المغرب وقتاً للمغرب والعشاء فيكون هذا الوقت مشتركاً أيضاً بين هاتين الصلوتين فهذا يقتضى جواز الجمع بين الظهر والعصر و المغرب و العشاء مطلقاً"۔ (20)
ترجمہ: ہرگاہ ہم "غسق" سے رات کے اندھیرے کا آغاز مراد لیں ـ جس کے ابن عباس، عطاء اور نضر بن شمیل بھی قائل ہوئے ہیں ـ غسق سے وقت مغرب کا آغاز ہے، اس لحاظ سے نماز کے لئے تین اوقات بیان ہوئے ہیں: وقت زوال، وقت مغرب اور وقت فجر۔
فخر رازی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: اس (بیان اوقات) کا تقاضا یہ ہے کہ زوال ظہر اور عصر (دونوں) کا وقت ہو۔ پس یہ وقت ان نمازوں کا مشترکہ وقت ہے۔ نیز اولِ مغرب "نماز مغرب اور نماز عشاء" کا وقت ہے۔ چنانچہ ان دو نمازوں کا وقت بھی مشترک ہے۔ اور ان سب کا نتیجہ یہ ہے: نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو جمع کرکے ادا کرنا، مطلقاً جائز ہے۔
فخر رازی یہاں تک کا راستہ اچھے انداز میں طے کرتے ہیں اور آیت کے مفہوم کا بخوبی ادراک کرتے ہیں اور اس کو خوب بیان کرتے ہیں مگر اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: چونکہ عذر اور سفر کے بغیر دو نمازوں کو اکٹھا پڑھنا جائز نہیں ہے، لہذا آیت کو حالت عذر سے محدود (و مشروط) کردیتے ہیں۔ (21) (اور اس عمل پر عمل نہ کرنے میں اپنے آپ کو معذور قرار دیتے ہیں)۔
فخرالدین رازی کو اس بات کی یادآوری کرانی پڑے گی کہ نہ صرف اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیت کو "حالت عذر" سے محدود و مشروط کیا جائے، بلکہ ہمارے پاس متعدد روایات موجود ہیں ـ جن کا ذکر گذر گیا ـ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو بغیر کسی عذر اور بغیر سفر کے، اکٹھا کرکے ادا کیا کرتے تھے، تا کہ امت کو وسعت و رخصت اور سہولت و آسانی ہو اور افراد امت اس رخصت و اجازت سے استفادہ کرسکیں۔ علاوہ ازیں آیت کے اطلاق کو کیونکر بہت ہی محدود مسائل سے مختص کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ علم اصول کے قواعد کے مطابق "اکثر کی تخصیص جائز نہيں ہے(اور ایک آیت میں اتنے تفصیلی حکم کو ایک چھوٹی سی چیز سے محدود ننہیں کیا جاسکتا)۔
اور بہرحال نماز کے تین اوقات کے بیان کے حوالے سے آیت کے واضح مفہوم کو کسی صورت میں نظر انداز نہيں کیا جاسکتا۔
٭٭٭
جو کچھ اس فصل میں کہا گیا، ہم اس سے نتیجہ لیتے ہیں کہ:
1۔ قرآن مجید نے پنجگانہ نمازوں کے لئے سہ گانہ اوقات کے جواز کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔
2۔ فریقین کی کتابوں میں مندرجہ اسلامی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے متعدد بار دو نمازیں اکٹھی ادا کی ہیں۔ بغیر اس کے، کہ سفر میں ہوں، یا کوئی عذر درپیش ہو اور اس عمل کو مسلمانوں کے لئے رخصت گردانا ہے تا کہ زحمت و رنج اور مشقت سے دوچار نہ ہوں۔
3۔ اگرچہ پانچ اوقات میں یومیہ نمازوں کی ادائیگی ایک فضیلت ہے تاہم اس فضیلت پر اصرار اور اس رخصت کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ ـ بالخصوص نوجوان طبقہ ـ نماز سے چشم پوشی کرتے ہیں۔ اور یہ امر رخصت و اجازت کے مخالفین کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کرتا ہے (اور یہ حضرات خدا کے سامنے جوابدہ ہیں)۔
کم از کم اہل سنت کے علماء کو قبول کرنا چاہئے کہ ان کے نوجوان اس مسئلے میں ہم پیروان اہل بیت (ع) کے فتوی پر عمل کریں۔ جس طرح کہ بزرگ عالم دین شیخ الازہر، "شیخ محمود شلتوت" نے جعفری مذہب کے فتاوی پر عمل جائز قرار دیا۔
٭٭٭
ہم ایک بار پھر تاکید کرتے ہیں کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کرلینی چاہئے کہ آج کی دنیا میں بہت سے مزدوروں، ملازموں، اسکولوں اور جامعات کے طلبہ اور دیگر طبقوں کے لئے پانچ اوقات میں یومیہ نمازوں کی ادائیگی نہایت دشوار عمل ہے، کیا ہمیں ـ ان حالات میں ـ اس رخصت و اجازت سے استفادہ نہيں کرنا چاہئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسے حالات کے لئے عطا فرمائی ہے؟ تا کہ نوجوان اور دیگر طبقات، ترک نماز کی جانب راغب نہ ہوں!؟
کیا سنت پر اصرار کے لئے "ترک فرائض کی قیمت" ادا کرنا صحیح ہے؟!
٭٭٭
حوالہ جات و توضیحات:
1. مكارم الاخلاق، صفحه 461 ۔ الطبقات الكبرى جلد 1 صفحہ 398۔
2۔ اگرچہ یہ جملہ مجھے روایات کے مجموعوں میں نظر نہیں آیا مگر اتنا مشہور جملہ ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنے بیانات میں اس سے استناد کیا ہے۔ (بحارالانوار، جلد 79، صفحه 248 و 303)۔
3۔ الکافى، کلینی، جلد 3، صفحه 265، حديث 26۔
4۔ عرفات اور مشعرالحرام میں نمازوں کی خاص فضیلت ہے سوال یہ ہے کہ جب اتنی اعلی فضیلت کی حامل نمازیں اکٹھی پڑھی جاسکتی ہیں اور اکٹھی پڑھنے سے ان کی فضیلت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو اس سے کم فضیلت کی نمازیں اکٹھی پڑھنے میں حرج کیوں؟
5۔ مجھے درگذر کرنے والی مسامحت پر مبنی آسان شریعت کی جانب بھیجا گیا ہے۔
6۔ صحيح مسلم، جلد 2، صفحه 151۔
7۔ صحيح مسلم، جلد 2، صفحه 152۔
8۔ صحيح مسلم، جلد 2، صفحه 152۔
9۔ صحيح بخارى، جلد 1، صفحه 140 (باب وقت المغرب).
10۔ . سنن ترمذى، جلد 1، صفحه 121، حديث 187
11۔ عن ابن عباس قال جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة في غير خوف ولا مطر قيل لابن عباس وما أراد لغير ذلك قال أراد ان لا يحرج أمته۔ مسند احمد ابن حنبل جلد 1 صفحه 223۔
12۔ موطأ مالک بن انس جلد 1 صفحه 144۔
13۔ مصنف عبدالرزّاق، جلد 2، صفحه 556 ۔ حدیث 4437۔
14۔ معانی الآثار احمد بن محمد الطحاوي الحنفي جلد 1 صفحه 161.
15۔ مسند البزّاز، جلد 1، صفحه 283۔
16۔ المعجم الكبير طبرانى، جلد 10، صفحه 219، حديث 10525.
17۔ سورہ حج آیت 78۔
18۔ سوره هود، آيه 114۔
19۔ سوره اسراء، آيه 78۔
20۔ تفسير كبير فخر رازى، جلد 21، صفحه 27۔
21۔ تفسير كبير فخر رازى، جلد 21، صفحه 27۔
Add new comment