معصومین (ع) کا پیغام شیعوں کے نام
جب ائمہ اہل بیت ؑ اسلامی حکومت کی باگ ڈور اپنےہاتھوں میں لینے سے محروم کردیے گئے تو انہوں نے اپنی پوری توجہ اور تدبیر صحیح معنوں میں مسلمانوں کے اخلاق کی درستی، پرورش اور تربیت پر لگا دی جیسا کہ خدا نے ان سے چاہا تھا۔ انہوں نے ایسے تمام لوگوں کی تربیت کا انتظام کیا جو اہل بیت رسول ؑ سے تعلق رکھتے تھے اور ائمہ کے بھروسے کے تھے۔ انہوں نے انتہائی کوشش کی کہ ان لوگوں کو اسلام کے تمام احکام، قوانین اور حقائق و معارف سکھائیں اور انہیں نفع و نقصان کی باتوں سے آگاہ کریں۔
وہ ہر ایک کو شیعہ یا اپنا پیرو نہیں سمجھتے ، ان کی نظر میں شیعہ وہ تھا جو ہر لحاظ سے خدا کے حکم کا تابع اور نفسانی خواہشات سے بچنے والا ہو اور رہبروں کی تعلیمات اور رہنمائیوں پر عامل ہو۔ اس آدمی کی طرح جو گناہ اور خواہشات میں ڈوبا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ ائمہ ؑ سے محبت اور دوستی کو اپنے عذر کے طور پر منتخب کرے۔ وہ بخشش کے لیے صرف ائمہ ؑ سے دوستی کافی نہیں سمجھتے تھے جب تک وہ نیک کرداری، درستی، امانت اور پرہیزگاری سے ملی ہوئی نہ ہو۔
خیثمہ کہتے ہیں کہ میں امام باقر ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ کو الوداع کہوں۔ آپ نے مجھ سے فرمایا :
یَا خَیثَمَۃُ ! اَبلِغ مَوَالِیَنَا اِنَّا لاَ نُغنِی عَنھُم مِنَ اللہِ شَیئاً اِلاّبِعَمَلٍ وَاَنَّھُم لَن یَّنَالُوا وَلاَ یَتَنَا اِلاَّ بِالوَرَعِ وَاِنَّ اَشَدَّ النَّاسِ حَسرَۃً یَومَ القِیَامَۃِ مَن وَصَفَ عَدلاً ثُمَّ خَالَفَہُ اِلیٰ غَیرِہ :۔ اے خیثمہ ! ہمارے دوستوں سے (ہمارا یہ پیام) کہنا کہ ہم صرف ان کے نیک عمل کی ہی بدولت خدا کی طرف سے ان کی نجات کا انتظام کرواسکتے ہیں، وہ لوگ یقینی طور پر تقویٰ اور پرہیزگاری ہی سے ہماری دوستی اور محبت پاسکتے ہیں قیامت کے د سب سے زیادہ وہ شخص پچھتائے گا جس نے دوسرو کے لیے تو عدالت کی تعریف کی اور خوبیاں بیان کیں لیکن خود اس کی مخالفت کی یعنی خود عدالت سے کام نہیں لیا ۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۱۷۶ باب زیارت اخوان)
بلکہ شیعوں کے رہنماؤں نے اپنے ماننے والوں سے عمل چاہا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ خدا کی طرف بلانے والے اور خوشحالی کی راہ دکھانے والے ہیں اور نیکیوں کی ہدایت کرتے ہیں، ائمہ اطہار ؑ کے نقطہ نظر سے عملی ترغیب زبانی ترغیب سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔
امام جعفر صادق ؑ فرماتے ہیں :
کُونُوا دُعَاۃً لِّلنَّاسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم لِیَرَوا مِنکُمُ الوَرَعَ وَالاِجتِھَادَ وَالصَّلاَۃَ وَالخَیرَ :۔ تم لوگوں کو اپنی زبانوں کے بغیر (یعنی عمل سے ) خدا کی طرف بلاؤ اور رہنمائی کرو۔ انہیں چاہیے کہ وہ تمہارا تقویٰ ، کوشش ، نماز اور نیک کام دیکھیں۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۷۸ باب ورع)
اب ہم اس جگہ ائمہ اطہار ؑ کی ان گفتگوؤں کے کچھ حصے جو انہوں نے اپنے ماننے والوں سے کی ہیں پیش کرتے ہیں تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ یہ محترم ہستیا لوگوں کی عادتیں سدھارنے کے لیے ترغیب و تاکید کو کتنی اہمیت دیتی ہیں۔
امام باقر ؑ کی جابر جعفی سے گفتگو:
اے جابر ! کیا اس شخص کا جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتا ہے یہ کہنا کافی ہے کہ اہل بیت اؑ سے محبت کرتا ہوں؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو پرہیز گار ہو اور خدا کی اطاعت کرتا ہو۔
ہمارے شیعوں کو ان صفات سے پہچاننا:
عاجزی اور انکساری والے ہیں۔
امامنت دار ہیں۔
خدا کو بہت یاد کرتے ہیں۔
نماز، روزے کے پابند ہیں۔
ماں باپ کی عزت کرتے ہیں۔
پڑوسیوں، غریبوں، حاجت مندوں، قرض داروں اور یتیموں پر مہربانی کرتے ہیں۔
سچ بولتے ہیں۔
قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
زبان سے لوگوں کی نیکیاں بیان کرتے ہیں۔
اور اپنے رشتہ داروں کی ہر شے کے امانت دار ہیں۔
خدا کے حضور میں پرہیزگار بنو، خدا کا انعام حاصل کرنے کے لیے نیک عمل کرو، خدا کی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے، خدا کی درگارہ میں سب سے پیارا بندہ وہ ہے جو تقویٰ اور اطاعت میں سب سے بڑھا ہوا ہے۔
(نوٹ، امیرالمومنین ؑ نے نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں جو خطبہ قاصعہ کے نام سے مشہور ہے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ فرماتے ہیں۔خدا کا حکم آسمان اور زمین والوں کے لیے ایک ہی ہے خدا نے جو چیزیں سب کے لیے حرام کر دی ہیں ان کے لیے کسی ایک شخص کو بھی چھوٹ نہیں دی جس سے اس کے مضبوط قانون پر چوٹ پڑے)۔
اے جابر! خدا کی قسم آدمی صرف اطاعت سے ہی خدا کی نزدیکی حاصل کرسکتا ہے اور ہمارے پاس دوزخ کی آگ سے آزادی کا پروانہ نہیں ہے اب اگر کوئی شخص اللہ کی اطاعت نہیں کرتا وہ خدا کے سامنے عمل نہ کرنے کا عذر نہیں رکھتا۔ جو خدا کی اطاعت کرتا ہے وہ ہمارا دوست ہے اور جو خدا کے حکم سے منہ موڑتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے لوگ صرف نیک عمل اور پرہیزگاری ہی سے ہماری ولایت اور دوستی تک پہنچ سکتے ہیں۔
(نوٹ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۷۴ باب طاعت و تقویٰ)
سعید بن حسن سے امام محمد باقر ؑ کی گفتگو
سعید بن حسن کہتے ہیں کہ امام باقر ؑ نے مجھ سے فرمایا:
امام: کیا تمہارے ہاں یہ دستور ہے کہ تم میں سے کوئی آدمی اپنے دینی بھائی کے پاس جائے، اس کی جیب میں ہاتھ ڈالے اور اپنی ضرورت کی رقم اس میں سے نکال لے اور جیب والا اسے منع نہ کرے؟
سعید: اپنے یہاں میں نے ایسا دستور نہیں دیکھا اور نہ مجھے اس کا پتا ہے ۔
امام : اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ لوگوں کے درمیان بھائی چارہ نہیں ہے۔
سعید: کیا ایسی صورت میں ہم ہلاک ہوگئے؟
امام: ان لوگوں کی عقل کامل نہیں ہوپائی ہے (یعنی عقل کے مختلف درجوں کے حساب سے فرض بھی مختلف ہوجاتا ہے ۔
(نوٹ ، اصول کافی جلد دوم صفحہ ۱۷۴ باب حق مومن علیٰ اخیہ)
ابوالصباح کعنانی سے
امام جعفر صادق ؑ کی گفتگو
ابوالصباح کنعانی کہتے ہیں : میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا:
آپ سے تعلق کے باعث لوگوں کی طرف سے ہمیں کیا کیا چیزیں (اور چوٹیں) ملتی ہیں۔
امام صادق ؑ : لوگو سے تمہیں کیا ملتا ہے ؟
ابوالصباح : جب تک ہمارے اور کسی شخص کے درمیان بات چیت ہوتی رہتی ہے وہ کہتا ہے : ""اے جعفری خبیث""
امام صادق ﷺ : کیا لوگ تمہیں ہماری پییروی کی وجہ سے ملامت کرتے ہیں؟
ابو الصباح : جی ہاں۔
امام صادق ؑ : خدا کی قسم ! تم میں کتنے کم لوگ ہیں جو واقعی جعفر ؑ کی پیروی کرتے ہیں میرے اصحاب وہ لوگ ہیں ج کا تقویٰ اور پرہیزگاری پکی ہے وہ اپنے پیدا کرنے والے کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کے صلے کے امیدوار ہیں۔ ہاں میرے اصحاب ایسے لوگ ہیں۔(اصول کافی جلد ۲ ۔ باب ورع)
امام جعفر صادق ؑ اس بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں ، اس میں سے کچھ ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔
لَیسَ مِنَّا وَلاَ کَرَامَتۃَ مَن کَانَ فِی مِصرٍ فِیہِ مِاۃُ اَلفٍ اَو یَزِیدُونَ وَکَانَ فِی ذٰلِکَ المِصِر اَحَدٌ اَورَعَ مِنہُ : وہ شخص نہ ہم میں سے ہے اور نہ فضیلت رکھتا ہے جو ایک لاکھ یا زیادہ انسانوں کے شہر میں رہتا ہے اور اس شہر میں اس سے زیادہ پرہیز گار ایک اور شخص ہو۔
اِنَّالاَ نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤمِناً حَتیّٰ یَکُونَ لِجَمِیعِ اَمرِنَا مُتبِعاً وَمُرِیدًا اَلاَ وَاِنَّ مِن اِتبَاعِ اَمرِنَا وَاِرَادَتِہِ الوَرعُ فَتَزَ یَّنُوا بِہِ یَرحَمُکُمُ اللہُ :۔ ہم اسے مومن نہیں گنتے مگر وہ جو تمام احکامات میں ہماری پیروی کرتا ہے اور ان سب احکام کو چاہتا ہے جان لو کہ تقویٰ اور پرہیز گاری ہمارے حکم کی پیروی کی شان اور اس کا تقاضا ہے اپنے آپ کو تقویٰ سے آراستہ کرو۔ خدا تمہیں اپنی مہربانی میں شاملا کرے گا۔
لَیسَ مِن شِیعَتِنا مَن لاَ تَتَحَدَّثُ المُخَدَّراتُ المُخَدَّرَاتُ بِوَرَعِہِ فِی خُذُورِھِنَّ وَلَیسَ مِن اَولِیآَئِنَا مَن ھُوَ فِی قَریَۃٍ فِیھَا عَشَرَۃُ اٰلاَفِ رَجُلٍ فِیھِم مِن خَلقِ اللہِ اَورَعَ مِنہُ :۔ وہ شخص ہمارا شیعہ نہیں ہے جسے پاک دامن عورتیں پردوں کے اندر پاکباز نہیں کہتیں، وہ شخص ہمارے دوستوں میں سے نہیں ہے جو دس ہزار نفری کے شہر میں رہتا ہے اور میں سے ایک یاکئی آدمی اس سے زیادہ پرہیزگار ہوں۔
اِنَّمَاشیِعۃُ جَعفَرٍ مَن عَفَّ بَطنَہُ وَفَرجَہُ وَاشتَدَّحِھَادَہُ عَمِلَ لِخَالِقِہِ وَرَجَاثَوَابَہُ وَخَافَ عِقَابَہُ فَاِذَا رَاَیتَ اُولٰئِکَ فَاُولٰئِکَ شِیعَۃُ جَعفَرٍ :۔ واقعی جعفر ؑ کا شیعہ وہ ہے جو اپنے پیٹ اور شرمگاہ کر حرام سے بچاتا ہے ۔ اس کا جہاد اور جانبازی دین کی خاطر پکی ہے وہ خدا کی خوشنودی کے لیے کام کرتا ہے اور اسی سے ﷺ کی امید رکھتا ہے اور اس کی سزاوں سے ڈرتا ہے جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ لوگ واقعی جعفر ؑ کے شیعہ ہیں۔
نام کتاب: مکتب تشیع
مصنف: محمد رضا مظفر
Add new comment