جنات پر گرفت اور اسلامی نقطہ نظر

 

قرآن مجید نے جنات کے وجود کی تصدیق کی ہے اور مندرجه ذیل خصوصایت بیان کی ہیں :

١۔ جنات ایک ایسی مخلوق هے جو آگ سے پیدا کی گئی ہے ،انسان کے بر عکس جو مٹی سے پیداکیا گیا هے ۔[1]

٢۔ جنات علم و ادراک کا حامل ، حق وباطل کو پهنچاننے والے اور منطق واستدلال پر قدرت رکھنے والے ہیں ۔[2]

٣۔ فرائض و ذمه داریاں بھی ان کے لئے ہیں ۔[3]

٤۔ان میں نیک ومومن بھی هیں اور کافر بھی ہیں ۔[4]

٥۔وه ان کے لئے بھی حشرو نشر او قیامت ہے ۔[5]

٦۔ آسمانوں پر نفوذ ، خبر چینی اور چھپ کر لوگوں کی باتیں سننے پر قدت رکھتے تھے لیکن بعد میں محروم کر دیئے گئے ۔[6]

٧۔ بعض انسان سے رابطه بر قرار کرتے تھے اور بعض ، اسرار پر اپنی محدود اطلاع کے ذریعه انسانوں کو اغوا کرتے تھے ۔[7]

٨۔ان میں ﮐﭽﮭ ایسے بھی هیں جو زیاده طاقتور هیں ، جیسا که انسانوں میں بھی اسی طرح هے ۔[8]

٩۔انسانوں کے بعض ضروری کاموں کے لئے انجام دینے کی قدرت رکھتے هیں ۔[9]

١٠۔ روئے زمین پر ان کی خلقت انسانوں کی خلقت سے پهلے رهی هے ۔[10]

١١۔ حضرت سلیمان کی داستان میں جب عفریت نامی جن یه دعویٰ کرتا هے که وه آپ کے اٹھنے سے پهلے تخت بلقیس کو آپ کی خدمت میں حاضر کر سکتا هے ،[11] تو حضرت سلیمان نے اس کی تکذیب نهیں کی اگرچه قرآن مجید میں یه نهیں آیاهے که وه جن تخت لے کر آیا۔[12]

ان تمام آیات سے معلوم هوتا هے که جنات کوئی خیالی مخلوق نهیں هے ایک حقیقتی مادی مخلوق هے جس سے رابطه برقرا ر کرنا بھی ممکن هے اور بعض نے رابطه قائم بھی کیا هے ، اگر چه زمانه ٔ قدیم سے انسان جنات کے درمیان رابطه کے مختلف طریقے تصور کئے جاتے تھے لیکن هم صرف انھیں طریقوں کو قبول کرسکتے هیں جو معتبر روایات میں ذکر هوئے هیں ۔

یهاںپر هم ان روابط کے بعض طریقوں کی طرف ، جو قرآن و روایات اور علماء نے بیان کئے هیں اشاره کر رهے هیں :

الف: جنات کی پناه میں جانا اور یقینا انسانوں میں سے بعض لوگ بعض جناتوں کی پناه لیتے تھے ، تو وه ان کی گمراهیوں میں اضافه کردیتے تھے ''۔[13]

عربوں کی یه سنت تھی که جب کسی خوفناک وادی میں پهنچتے تھے تو اس وادی کے جنات سے پناه طلب کرتے تھے ، اسلام نے انھیں اس کام سے منع کر کے انسان اور جنات کے خالق سے پناه مانگنے کا حکم دیا هے ۔[14]

ب: جنات کی تسخیر ، جنات کو مسخر کرکے ان سے خدمت لینا هر چند ممکن هے لیکن کیا یه کام جائز هے ؟ اس سلسه میں علماء کے درمیان بحث هے قدر مسلم یه هے که یه کام کم از کم ان طریقوں سے نهیں هونا چاهئے جو شریعت میں حرام هے، یا جناتوں کی اذیت کا سبب بنیں ، اس کے علاوه جو کام ان سے لیا جارهاهے وه شریعت میں حرام نه هو ، اس لئے غیر شرعی کاموں کا انجام دینا حرام هے ، چاهے با واسطه هو یا بلا واسطه ۔[15]

آیة الله العظمیٰ خامنه ای (دام ظله ) سے ان لوگوں کی طرف رجوع کرنے کے سلسله میں سوال کیا گیا جو جنات اور روحوں کے مسخر کر کے علاج کرتے هیں ، اس یقین کے ساﺘﮭ که وه لوگ صرف کار خیر انجام دیتے هیں ؛ آپه نے جواب میں فرمایا: اس کام میں ذاتی طور سے کوئی مضائقه نهیں هے ، اس شرط کے ساﺘﮭ که شریعت میں جائز راستے سے اقدا م کیا جائے ۔[16]

تفصیل کے لئے ذیل کے عنوانات کی طرف رجوع کریں :

1. جنات اور شیطان کی قدرت ، سوال نمبر883

2. شیطان ، جنات یا فرشته ، سوا نمبر857

3. کتاب جن و شیطان ، تحقیق قرآن ، روائی و عقلی ، رجالی تهرانی ، علی رضا

Add new comment