قرآن و سنت اور مہدویت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بلاشبہ قرآن مجید اللہ کی آاخری آسمانی کتاب ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔دنیا کا ہر مسلمان قرآن مجید کی صداقت اور رسول اکرم ﷺ کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھتاہے۔قرآن مجید اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر یقین اور ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کو سو فیصد اطمینان ہے کہ جو کچھ قرآن مجید اور اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بیان کردیاہے وہ سب کا سب سچ ہے اور ان کا کہا ہوا ہر لفظ اپنے وقت اور مقام پر سچ ثابت ہوکررہے گا۔
انسان جب اس یقین اور اطمینان کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کرتاہے تو اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ ابھی تک قرٓن مجید کی بہت ساری آیات ویسے متحقق نہیں ہوئی ہیں جیساکہ حق ہے۔اس لئے ہر مسلمان یہ یقین رکھتاہے کہ عنقریب وہ وقت ضرور آئے گا جب ان آیات کی صداقت اقوام عالم پر پوری طرح آشکار ہوجائے گی۔
ان آیات میں سے چند ایک مندرجہ زیل ہیں:
إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا
ترجمہ آیات ١۔٣
جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے اور لوگوں کو دیکھو کہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے خداوند کی تسبیح پڑھو اس کی حمد کے ساتھ، اور اس سے مغفرت مانگو۔ بے شک وہ بڑا ہی معاف کر دینے والا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ابھی تک دنیا میں بہت سارے لوگوں تک دین کا پیغام پہنچاہی نہیں اور بے دین لوگوں کی تعداد صاحبانٰ ایمان سے کئی گنا زیادہ ہے۔پس اس سے پتہ چلتاہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اللہ کی مدد سے لوگ فوج در فوج دین خدا میں داخل ہونگے۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ یہ آیہ مجیدہ فتح مکہ سے متعلق ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ جی ہاں اس آیہ مجیدہ کا ایک مصداق فتح مکہ کا دن بھی ہے اور اگر ہم اس سورہ کے لحن کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتاہے کہ اس سورہ کا مصداق کامل ابھی وجود میں نہیں آیا اور یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ جب اللہ کے دین کی ایسی شان ہوگی کہ لوگ ہر طرف سے جوق در جوق اس میں شامل ہوں گے۔
اسی طرح اگرآپ مندرجہ زیل تین ٓیات کو سامنے رکھیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب خدا کا دین دیگر ادیان پر غالب آکر رہے گا۔
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴿۔التوبة: ٣٣﴾
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴿۔الصف: ٩﴾
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَىٰ بِاللَّـهِ شَهِيدًا۔﴿الفتح: ٢٨﴾
اسی طرح مندرجہ زیل آیت سے پتہ چلتاہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کو وعدہ دیاہے کہ وہ انہیں زمین پر حکومت دے گا۔
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْ‌ضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْ‌تَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِ‌كُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٥٥﴾ نور
خداوند عالم نے سورہ قصص کی ٓیت ۵ میں یہ وعدہ بھی دیاہے کہ وہ مستضضعفین کو زمین پر حکومت دے گا اور انہیں پیشوا بنائے گا۔
وَنُرِ‌يدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِ‌ثِينَ
اگر ہم تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت کھل کرسامنے ٓجاتی ہے کہ اس ٓیت کے سب سے کامل مصداق اہل بیت رسول ﷺ ہیں کہ جن پر بے شمار مظالم ڈھائے گئے اور انہیں مستضعف کیاگیا۔پس اس آیت سے پتہ چلتاہے کہ اس کرہ زمین پر وہ وقت آکررہے گا کہ جب یہاں مکمل طور پر اہل بیت رسول ﷺ کی حکومت قائم ہوگی اور تمام لوگ انہیں اپنا پیشوا تسلیم کریں گے۔
اور سورہ اسرا کی ٓایت ۸۱ میں ارشاد فرمایاہے کہ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک باطل نابود نہیں ہوا بلکہ دنیا میں حق کو مٹانے کی سعی کی جارہی ہے۔کہیں پر سلمان رشدی جیسے لوگ حق کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور کہیں پر طالبان،القاعدہ اور سعودی عرب جیسے ناعاقبت اندیش اسلام دشمنوں کے کندھوں کے ساتھ کندھاملاکر حق کے خلاف کھڑے ہیں۔اہل بیت رسول ﷺ کی نشانیوں کو مٹایاجارہاہے،صحابہ کرام کی قبور کو اکھڑاجارہاے،مسجدوں میں نمازیوں کو شہید کیاجارہاہے اور بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔اگرچہ یہ سب کچھ ہورہاہے تو ایسے حالات میں جو چیز ایک مسلمان کو باامیدبناتی ہے وہ یہ ہے کہ قران مجید کی اس ا ٓیت مطابق ایک وقت آئے گاکہ جب مکمل طور پر حق آجائے گا اور باطل حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا اور یہ ظلم و ستم کے رسیا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔
اسی طرح سورہ انبیا کی آیت ۱۰۵ میں ارشاد پروردگار ہے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ
اس ٓیت کے مطابق اللہ نے زبور میں بھی عالم بشریت کو یہ پیغام دیاہے کہ زمین پر اس کے نیک بندے حکومت کریں گے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک زمین کے بڑے حصے پر اس کے دشمن حکومت کررہے ہیں۔
اس طرح کی متعدد آیات قرآن مجید میں موجود ہیں جن کے مطالعے سے انسان کے دل میں ایک الہی حکومت کا انتظار پیداہوتاہے اور اسے مکمل طور پر یہ یقین ہوجاتاہے کہ الہی وعدے کے مطابق اس زمین پر حق اور اللہ کے نیک بندوں کی حکومت ضرور قائم ہوکررہے گی۔
اہل سنت اور شیعہ حضرات کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ الہی حکومت جس کا خداوند عالم نے بنی نوع انسان کو وعدہ دے رکھا ہے وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی حکومت ہوگی۔
بحیثیت مسلمان ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگرچہ تمام مسلمان امام مہدی کے قیام کے قائل ہیں۔جیسا کہ سنی روایات میں اسی طرح درج ہے۔ ” حضور اکرم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت نہیں آئے گی جب تک میرے اہل بیت کا ایک مرد امور کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لے اور اس کا نام میر انام ہے۔“ ( مسنداحمد بن حنبل ج۱ ص۹۹) اور اسی طرح نمونے کے طور پر ایک شیعہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ” رسول اکرم نے فرمایا کہ قائمؑ میری اولاد میں سے ہے اس کا نام میرا نا م ہے۔ اکی کنیت میری کنیت ہے ۔ اس کے شمائل میرے شمائل اور اسکی سنت و روش میری سنت وروش ہے۔( اعلام الوری)
شیعہ روایات سے یہ بات قطعی طورپر ثابت ہے کہ آج سے تقریبا ساڑھے بارہ سو سال (15شعبان سن255 ھ) پہلے عراق میں حضرت امام حسن عسکری کے ہاں حضرت امام مہدی کی ولادت ہو چکی ہے۔ شیعہ چونکہ امام کے منصوص من اللہ اور معصوم ہونے کے قائل ہیں۔اسلئے ان کے نزدیک حضرت امام مہدی بھی معصوم اور منصوص من اللہ ہیں۔جیسا کہ احمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا اورآپ کے جانشین کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا۔میرے سوال کرنے سے پہلے ہی امام نے فرمایا کہ اے احمد! خداوند عالم نے جس وقت حضرت آدم کو پیدا کیا اس وقت سے آج تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا اور قیامت تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ حجت خدا کی بدولت زمین والوں سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔بارش ہوتی ہے۔اور زمیں سے برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔میں نے عرض کیا اے فرزند رسول ! آپ کے بعد امام اور جانشین کون ہوگا؟فورا حضرت اندرون خانہ تشریف لے گئے اور جب باہر تشریف لائے تو آپ کے مبارک ہاتھوں پر ایک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ہو ا تین سالہ بچہ تھا۔آپ نے فرمایا اے احمد بن اسحاق اگر خداوند عالم اور اس کی حجتوں کے نزدیک تم محترم نہ ہوتے تو یہ بچہ تمہیں نہ دکھاتا۔ جان لو کہ یہ بچہ پیغمبر اکرم کے ہم نام ہے۔اس کی کنیت پیغمبر کی کنیت ہے اور یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اے احمد بن اسحاق یہ بچہ اس امت میں ”خضر“ اور ”ذوالقرنین“ کی طرح ہے۔ خدا کی قسم۔ یہ نگاہوں سے پوشیدہ ہو جا کی غیبت کے زمانے صعف وہی لوگ نجات پائیں گے جن کو خدا اس کی امامت پع ثابت قدم ر کھے گا اور انہیں اس بات کی توفیق دے گا کہ اس کے ظہور میںتعجیل کے لیے دعا کریں ۔میں نے عرض کیا میرے آقا ایسی کوئی نشانی ہے جس سے میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ھو؟اس موقع پر بچہ نے فصیح عربی میں کہا ”میں زمین میںوہ بقیة اللہ ہوں جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لوں گا ۔اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے اثرات کی فکر میں نہ رہو“(اکمال الدین ج۲ ص55 ،57)
شیعی روایات کے مطابق آپ پندرہ (15) شعبان 255 ھ میں حسن عسکری کے ہاں پیدا ہو چکے ہیں ۔چونکہ روایات و احادیث کی روشنی میں عباسی حلفاءاس بات سے آگاہ ہو چکے تھے۔کہ حضرت امام حسن عسکری کے صلب سے امام مہدی کی ولادت ہونی ہے ۔چنانچہ خدا نے حضرت موسی کی ولادت کی طعح حضرت امام مہدی کی ولادت کو بھی مخفی رکھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت وقت نے امام حسن عسکری کو اپنے پایہ تخت سامرہ میں مقید کر رکھا تھا تا کہ آپ کی کڑی نگرانی کی جا سکے۔جب 260ھ میں حضرت امام حسن عسکری شہید کر دیئے گئے تو پھر 329ھ تک تقریباً 69 سال حضرت امام مہدی نے مشیت ایزدی کے تحت غیبت صغری اختیار کیئے رکھی ۔اگر آپ اس دوران غیبت اختیار نہ کرتے تو دیگر گیارہ اماموں کی طرح آپ کو بھی شہید کر دیا جاتا ۔غیبت صغری کا ایک اہم مقصد عوام الناس کو غیبت کبری کے لیے مشق کرانا تھا تا کہ لوگ ”امام مہدی “کی عدم موجودگی میں اپنے شرعی وظائفکو بطریق احسن ادا کر سکیں ۔غیبت صغری کے دوران آپ اپنے مخصوص نائبین جنہیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے ،ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے۔نواب اربعہ کی ترتیب حسب ذیل ہے ۔۱۔ابو عمر وعثمان بن سعید عمری ۔ ۲ ۔ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری۔۳۔ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی ۔۴۔ابو الحسن علی بن محمد سمری۔ آخری نائب ابو الحسن علی بن محمد سمری کی وفات ۹۲۳ھ میں ہوئی جنہیں امام مہدی نے کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔یوں ابوالحسن علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد غیبت کبری کا آغاز ہو گیا۔ غیبت کبری کے دوران لوگوسن کی ہدایت و رہنمائی کے بارے میں شیخ طوسی، شیخ صدوق، اور شیخ طبرسی نے کتاب احتجاج میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ” زمانے کے مسائل کے بارے میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔وہ میری جانب سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں ۔اسی طرح کتاب احتجاج میں شیخ طبرسی نے امامسے یہ روایت بھی نقل کی ہے۔ کہ ہر وہ فقیہ جو اپنے نفس کا مراتب ہو۔اپنے دین کا محافظ اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اسکی تقلید کریں۔اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غیبت صغری میں تو امام کا ہر نائب مخصوص اور متعین ہوتا تھا ۔جبکہ غیبت کبری میں امام زمانہ نے علماءحقہ کو اپنی طرف سے عوام پر حجت قرار دیا ہے۔لہذا عصر حاضر میں حضرت امام مہدی سے مربوط رہنے کے لیے عوام کے لئے لازمی ہے کہ وہ علماءدین کے اجتہاد کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اعمال انجام دیں۔
جہاں تک امام کے ظہور کا تعلق ہے تو اس بارے میں علامات تو بتائی گئی ہیں جن میں سے کچھ حتمی ہیںاور کچھ غیر حتمی لیکن وقت کا تعین نہیں کیا گیا جیسا کہ ” فضیل کے دریافت کرنے پر امام باقر نے تین مرتبہ فرمایا ہے کذب الوقاتون یعنی وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(غیبت شیخ طوسی) اسی طرح اسحق بن یعقوب نے محمد بن عثمان کے ذریعے امام زماں کی خدمت میں ایک خط لکھ کر کچھ سوال پوچھے توا مام نے اپنے ظہور کے وقت کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا۔”واما ظہورالفرج فانہ الی اللہ تعالی ذکرہ و کذب الوقاتوں “جہاں تک ظہور کا تعلق ہے تو یہ خداوند عالم کے حکم پر منحصر ہے اور وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(کمال الدین ج2ص140)
عصر حاضر میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کا فریضہ عقیدہ مہدویت تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے ۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہر قسم کی فرقہ بندی سے بلند ہوکر اپنے مشترکہ امام حضرت امام مہدی کے ظہور کے لیے جدو جہد اور کوشش کرنی چاہیے۔چونکہ ظہور امام کے دور میں شیطانی مکر اور طاغوتی شرزوروں پر ہوگا جس کی وجہ سے لوگ گمراہی اور فتہ فساد میں مبتلا ہو جائیں گے۔لہذا مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شیطانی قوتوں کے مقابلے میں دین اسلام کی تعلیمات کی نشرواشاعت کریںاور تبلیغ دین کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کریں۔تاکہ لوگ شیطانی شر سے ہلاک ہونے کی بجائے دین اسلام پر عمل کرکے نجات حاصل کرسکیں۔نتیجہ۔ ظہور امام مہدی علیہ السلام پر تمام مسلمان باالخصوص اور دیگر ادیان بالعموم عقیدہ رکھتے ہیں۔چونکہ اسلام آخری اور کامل دین ہے لہذا حضرت امام مہدی کی شخصیت ، اہداف اور اسلام کی حقانیت سے دیگر مذاہب اور عالم بشریت کو آگاہ کرنا امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

 

 

Add new comment