شام پر حملہ مگر کیوں؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی
کہا جاتا ہے کہ انسان بہت ترقی کرگیا۔ اس نے آسمانوں پر کمندیں ڈالیں، موسموں کو تسخیر کیا، ہواؤں پر اڑنے لگا، پانیوں کے رخ موڑے، پہاڑوں کے سینے چیر کر ان میں سے خزانے نکالے، ایٹم کا سینہ چیرا اور اس سے توانائی پیدا کی، کمپیوٹر ایجاد کئے، بجلی بنائی، زمین کے قطبوں کو آپس میں ملا دیا، سالوں کے سفر کو منٹوں میں طے کرنے والے کھٹولے بنائے۔ ایجادات کو گنتے جائیے، ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ابن آدم نے چھیڑ رکھا ہے۔ سوال پھر بھی یہ ہے کہ کیا واقعی انسان نے ترقی کی؟
وہ لوگ جو انسان کی ماہیت سے آگاہ ہیں بخوبی جانتے ہیں کہ انسان کی مادی ترقی کو اس وجود کی کلی ترقی نہیں کہا جاسکتا۔ اگر یوں ہوتا تو آج کا پڑھا لکھا اور مہذب انسان اپنے ہم جنسوں کے قتل کے لیے ایٹم بم، مدر آف آل بمبز، ہائیڈروجن بم اور طبی و کیمیاوی ہتھیار نہ بناتا۔ یہ ہتھیار جس پیمانے پر تباہی پھیلاتے ہیں اور جانوں کو تلف کرتے ہیں، کیسے کسی انسان کی ایجاد قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس خونخواری اور بربریت کی مثال تو درندوں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ آج کا یہ انسان نما اس حد تک رذیل ہوچکا ہے کہ پہلے ہتھیار بناتا ہے پھر ان کے استعمال کے خلاف قوانین اور پھر انہی قوانین کو بڑی جنگوں کے آغاز کا بہانہ۔ جھوٹ کی دنیا اور جھوٹوں کا راج۔ سچائی ملے بھی تو آخر کیسے اور کہاں سے۔؟
گذشتہ دنوں شام کے دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے الغوطہ الشرقیہ میں ایک کیمیاوی حملہ ہوا۔ متضاد اطلاعات کے مطابق اس واقعے میں 353 سے 1400 افراد لقمہ اجل بنے۔ حکومت کے خلاف لڑنے والے کہتے ہیں کہ یہ حکومت کا کام ہے جبکہ شامی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ حملہ باغیوں نے کیا، کیونکہ وہ اس سے قبل بھی حلب کے نواحی علاقے خان العسل میں اس قسم کے حملے کرچکے ہیں (یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شام میں لڑنے والوں کو باغی کہنا زیادتی ہے، کیونکہ باغی تو وہ ہوتا ہے جو پہلے ملک میں رائج قوانین سے کسی وجہ سے بغاوت کر دے۔ شام میں صورتحال سرے سے ہی مختلف ہے۔ یہاں مختلف ممالک کے شہری، بھات بھات کی بولیاں بولنے والے ایک حکومت کے خلاف نبرد آزما ہیں)۔
میری نظر میں ایک تیسری صورت بھی ممکن ہے کہ یہ حملہ حکومت اور شام میں لڑنے والے جنگجوؤں کی جانب سے نہ کیا گیا ہو بلکہ یہاں کوئی تیسری قوت اس حملے کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہو۔ بہرحال اصل صورتحال تو اسی صورت میں سامنے آسکتی ہے جب اس واقعہ کی آزاد ذرائع سے تحقیقات کروائی جائیں۔
مگر کیسی تحقیقات، وہ عالمی قوتیں جو شامی حکومت کو گرانے کے لیے سرگرم ہیں، اس واقعے کو جواز بنا کر ایک اور زخمی اسلامی ریاست کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ طبل جنگ بج رہا ہے، خطے کے میر صادق اور میر جعفر اس جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں اور جنگ جنگ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔ تحقیق کاروں کو جائے وقوعہ پر بھیجا گیا تو کہا کہ اب بہت دیر ہوگئی، تمام نشانات مٹ چکے۔ اب تو بس جنگ ہی ہوگی۔ یعنی 353 یا 1400 افراد کے قتل کا بدلہ ایک مسلم ریاست اور اس کے عوام سے لیا جائے گا۔
یہی کچھ عراق میں ہوا اور اسی سب کا مشاہدہ ہم افغانستان میں کر رہے ہیں۔ آج بھی امت مسلمہ کے لاکھوں خاندان عراق اور افغانستان کی آگ میں جل رہے ہیں جبکہ جنگ کے بہانے تو کب سے اپنا وجود کھو چکے۔ آج نہ عراق میں صدام کی حکومت ہے نہ کیمیائی ہتھیار اور نہ ہی افغانستان میں اسامہ بن لادن۔ اس کے باوجود ان ممالک میں مغربی قوتوں کے فوجی اڈے اصل ہدف و مقصد کی نشاندہی کرتے ہیں۔
بہر حال شام سے جڑے ہوئے حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ فوری طور پر شام پر حملوں کا آغاز نہیں ہوگا، جس کی وجوہات میری نظر میں درج ذیل ہیں۔
اول: یہ کہ وہ دعویٰ جس کو حملے کی بنیاد بنایا جا رہا ہے، اپنے اندر بہت سے سقم رکھتا ہے۔
دوم: یہ کہ اس جنگ پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے ابھی تک کوئی منافع بخش پیشکش سامنے نہیں آئی۔
سوم: یہ کہ وہ اہداف جن کو نشانہ بنایا جانا مقصود ہے، ابھی تک ان کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ان پر حملہ کارگر ہوگا بھی یا نہیں۔
چہارم: یہ کہ وہ قوتیں جو اس حملے کی مخالف ہیں، کے ردعمل کے بارے میں بھی کچھ یقینی نہیں ہے۔
پنجم: یہ کہ ہمسایہ میں واقع صہیونی اکائی کو اس جنگ سے باہر رکھنا اور محفوظ سمجھنا ممکن نہیں۔
پھر یہ طبل جنگ کیوں بجایا گیا اور اس سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔؟ میری ناقص رائے میں اس کے فوائد درج ذیل ہوسکتے ہیں:
وہ مسلم ممالک جو اس جنگ کے حامی ہیں اور شام کی جانب سے ہونے والے ردعمل کا شکار ہوسکتے ہیں، کو جدید ترین دفاعی نظام اور جنگی ساز و سامان کی فروخت،
اس حوالے سے ترکی، اردن اور سعودی عرب کے امریکہ اور نیٹو ممالک سے حالیہ دفاعی معاہدے قابل ذکر ہیں۔
عالمی ردعمل بالخصوص روس کے ردعمل کا اندازہ لگانا۔
مغربی ممالک میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے رائے عامہ کو ہموار کرنا۔
شامی افواج کی نقل و حرکت او ر ان کے اسٹریٹجک اثاثوں کے بارے میں معلومات کا حصول۔
حزب اللہ لبنان اور ایران کے ردعمل کا اندازہ لگانا۔
شام میں مختلف محاذوں پر ہزیمت اٹھانے والے جنگجوؤں کے حوصلوں کو بلند کرنا اور شامی افواج کو ایک نئے محاذ پر مصروف کرنا۔
اسرائیلی عوام کو کسی بھی متوقع بیرونی حملے کی صورت میں ذہنی طور پر جنگ کے لیے آمادہ کرنا۔
مصر میں ہونے والے واقعات، جو انسانی جانوں کے ضیاع کے اعتبار سے شام میں ہونے والے اس واقعے کی نسبت بہت بڑے درجے کے تھے اور وہاں چلنے والی تحریک پر سے عالمی اداروں بالخصوص میڈیا کی توجہ ہٹانا۔
میں نہیں کہتا کہ شام پر ہونے والا حملہ ٹل گیا ہے، بلکہ حالات و واقعات کی روشنی میں ابھی اس کا مناسب وقت نہیں آیا۔ مغربی قوتوں اور ان کے حواریوں نے بھرپور کوشش کی کہ بشار الاسد کی حکومت کو تکفیری جنگجوؤں کے ذریعے کمزور کیا جائے۔ اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ مغرب کی خواہش تھی کہ ہمیں اس معاملے میں بلاواسطہ مداخلت نہ کرنی پڑے۔ اس کے لیے انہوں نے اپوزیشن کا سیاسی اتحاد تشکیل دیا، جسے آج بھی مغربی قوتوں اور بعض مسلمان حکمرانوں کی بھرپور آشیر باد حاصل ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ تکفیری جنگجو بشار الاسد کی فوجی قوت کو کمزور کر دیں تاوقتیکہ بشار کو لیبیا کے قذافی کی مانند مار دیا جائے یا تیونس کے سربراہ زین العابدین کی مانند ملک سے فرارکرنا پڑے۔ اس سلسلے میں مغربی قوتوں کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ بشار، قذافی کی مانند تنہا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کروز میزائل بہت پہلے سے شام میں گر رہے ہوتے۔ خلیجی حکمرانوں کے شام میں مفادات کچھ بھی ہوں، مغرب کا ایک ہی مقصد ہے۔ صہیونی اکائی کے تحفظ کے لیے لڑی جانے والی اس جنگ میں مغرب اس اکائی کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔
Add new comment