انتظارِ امام کیاہے؟

امام صادق (ع) سے انتظار کے بارے میں اس وقت سوال کیا گیا جب حضرت حجت (ع) پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہم کیسے منتظرین میں شامل ہوں ؟وہی دستور جوامام صادق (ع) نے اس شخص کے سوال کے جواب میں بیان کیا ہے، وہ ہمارے لئے بھی ہے ۔ حدیث یہ ہے :
'' علی ابن ابراہیم عن ابیہ عن حماد ابن عیسیٰ عن حریز عن ز رارہ ''
سارے راوی جلیل القدر ، پاک، صاف اور منزہ لوگ ہیں ، انہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔
'' قال ابو عبد اﷲ علیہ السّلام : اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت لم یضرّک ، تقدّم ہذا الأمر أو تأخّر ''
اپنی امام کو پہچانوجب تم اپنے امام کو پہچان لو گے اس وقت تمہارے لئے ظہور کے تقدم یا تأخر کا کوئی فرق نہیں ہو گا
ابوعبد اﷲ امام صادق ـ کی کنیت ہے کہ حضرت امام صادق ـ یوں ارشادفرماتے ہیں :
'' اعرف امامک … ''
اپنے امام کو پہچانو …
'' فانّک اذا عرفت … ''
اگر تو نے اپنے امام کو پہچان لیا …
'' لم یضرّک تقدّم ھٰذاالامر او تاخّر … ''
پھر تیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ظہور پہلے ہو یا ظہور بعد میں ہو ۔ اگر تجھے اپنے امام (ع) کی معرفت ہے تو ظہور کی تاخیر ایسے ہی ہے جیسے ظہور تمہارے زمانے میں ہوا ہے۔
دوسری حدیث میں بھی تقریباً مضمون اسی قسم کا ہے، اس میں یوں ہے کہ:
'' سألت ابا عبد اﷲ عن قول اﷲ تبارک وتعالیٰ ''یوم ندعو کلّ اناس بامامہم '' فقال : یا فضیل اعرف امامک ، فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک ، تقدّم ھذا الأمر أو تأخّر ، و من عرف امامہ ثمّ مات قبل أن یقوم صاحب ھذا الأمر ، کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ، لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ ، قال : و قال بعض أصحابہ : بمنزلة استشہد مع رسول اللّہ ۖ ''
فضیل ابن یسار کہتے ہیں : میں نے حضرت امام جعفر صادق (ع) سے اللہ تبارک و تعالی کے اس قول کے بارے میں پوچھا کہ : '' قیامت کے دن ہم ہر انسان کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے '' تو امام ـ نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پہچانو جب تم اپنے امام کو پہچان لو گے تو پھر ظہور کی تعجیل اور تأخیر میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے صاحب الأمر کے ظہور سے قبل جو شخص بھی مرنے سے پہلے اپنے امام کو پہچان لے وہ امام کے لشکر میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہے ۔ نہ ، بلکہ وہ امام کے پرچم کے نیچے بیٹھا ہوا ہے اور بعض راویوں نے یہ نقل کیا ہے کہ : '' امام (ع) فرمایا '' بلکہ اس وہ شخص کی طرح ہے جو رسول اللہ ۖ کی معیت میں شہید ہوا ہے ۔
اصحاب حضرت امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں جاکر عرض کرتے ہیں قرآن کی اس آیت کے بارے میں کہ جس میں خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس دن ہم ہر آدمی کوا پنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ، اس سے کیا مراد ہے؟ راوی کی خواہش کیا تھی ؟ حضرت امام صادق ـ کے زمانے کا راوی جس کو پتہ ہے کہ یہ امام ہیں، امام کی موجودگی میں امام پر عقیدہ و یقین ہے لیکن اس کے باوجود امام ـ سے پوچھ رہا ہے کہ اس آیت کے معنی کیا ہیں ؟ کہ ہم قیامت میں ہر آدمی کو اپنے امام کے ساتھ اٹھائیں گے ۔ امام (ع) یوں جواب دیتے ہیں:
'' فقال یا فضیل اعرف امامک … ''
امام ـ نے فرمایا : اے فضیل اپنے امام کو پہچان ، فضیل سامنے بیٹھا ہوا ہے سوال کر رہا ہے اور امام صادق(ع) کہہ رہے ہیں کہ اپنے امام کو پہچان ،
'' فانّک اذا عرفت امامک لم یضرّک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر … ''
کہ پھر تیرے لئے مضر نہیں ہے یعنی تیرے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ظہور جلدی ہو یا دیر سے ہو ، تجھے اپنے امام کی پہچان ہونی چاہیے۔
فضیل امام (ع) کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے صحابی تھے اور امام کی امامت پر اعتقاد تھا لیکن فضیل کا جی یہ چاہتا تھا کہ اس کا حضرت حجت (ع) کے ساتھ شمار ہو ،با وجود اس کے کہ امام صادق (ع) بھی امام تھے اور حجت خداہونے کے لحاظ سے ائمہ (ع) میں کوئی فرق نہیں ہے ، سب حجتِ خدا ہیں، سب برگزیدگانِ خدا ہیں ،سب معصوم ہیں اور سب اولیاء ﷲ ہیں، لیکن فضیل اس کے باوجود خواہش کرتے ہیں کہ حضرت حجت (ع) کے ساتھ محشو ر ہوں ، فضیل کے زمانے میں تو حضرت حجت (ع) ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ، ولادت بھی نہیں ہوئی تھی ، پھر کس نے فضیل کو اتنا راغب کر دیا ؟ خود امام صادق (ع) نے حضرت حجت ـ کے اتنے فضائل بتائے کہ فضیل بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ک امام صادق (ع) جس شخصیت کو اتنا بڑھا کر بیان کر رہے ہیں تو پھر مجھے اس شخصیت کی معیت میں ہونا چاہئے ۔ امام (ع) یوں فرماتے ہیں کہ:
'' ومن عرف امامہ ثمّ مات قبل عن یقوم صاحب ھٰذالامر … ''
اگر تم نے اپنے امام(ع) کو پہچان لیا اور پھر تجھے موت آجائے ،اس سے پہلے کہ امام ظہور فرمائیں
'' کان بمنزلة من کان قاعداً فی عسکرہ ''
جو شخص اپنے امام کی معرفت پیدا کر لے اور اس معرفت پر اس کو موت آجائے اگرچہ اس موت کے زمانے میں ظہور نہ بھی ہوا ہو تو یہ شخص ایسے ہی ہے جیسے سپاہِ امام زمان (ع) میں شامل ہے ۔
اور امام (ع) فرماتے ہیں کہ سپاہ میں ہونا کوئی بڑی فضیلت نہیں ہے ، بلکہ امام ـ کی معرفت حاصل کر کے مرنا فضیلت ہے ۔
'' لا بل بمنزلة من قعد تحت لوائہ … ''
بلکہ یہ شخص جو انتظار کے ایام میں حضرت(ع) کے ظہور سے پہلے مرگیا ہے لیکن اس کے دل میں معرفتِ امام ہے یہ اس شخص کی طرح ہے جو امام زمانہ (ع) کی سپاہ میں ہے نہ صرف سپاہ میں ہے ، بلکہ امام زمانہ (ع) کے پرچم کے نیچے ہے ۔چونکہ سپاہ جب منتشر اور پراگندہ ہو جاتی ہے توپرچم کے نیچے بہت خاص لوگ رہ جاتے ہیں ۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ امام (ع) کے پرچم کے نیچے ہوگا ۔
'' قال : و قال بعض اصحابہ : ''
بعض اصحاب کا یہ کہنا ہے کہ امام ـ نے ایک اور جملہ بھی بیچ میں فرمایا تھا اور وہ جملہ اس طرح تھا:
'' بمنزلة من استشہد مع رسول اﷲ … ''
بلکہ یہ اس کی طرح ہے جو رسول اﷲ ۖ کی معیت میں شہید ہوا ہے، یہ اس کی طرح ہے جوجنگِ بدر میں یاجنگِ احد میں شہید ہوا ہے ، اس کے لئے شہدائے بدر کا مقام ہے، اگر وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ مرجائے ؟ لیکن شر ط اس کی یہ ہے کہ اپنے امام ـ کی معرفت رکھتا ہو۔
اس کے بعد کی حدیث جناب ابوبصیر سے ہے:
'' عن ابی بصیر قال : قلت لأبی عبد اللّہ ـ : جعلت فداک متی الفرج : فقال : یا أبا بصیر و أنت ممّن یرید الدنیا ؟ من عرف ھذا الأمر فقد فرّج عنہ لانتظارہ ''
ابو بصیر کہتے ہیں : '' میں نے حضرت امام جعفر صادق ـ کی خدمت میں عرض کیا میں آپ پر قربان ہو جاؤں فرج یعنی گرہ کشائی ( ظہور)کب ہو گی ؟ امام (ع) نے فرمایا : اے ابا بصیر کیا تم دنیا کے چاہنے والوں میں سے ہو ؟ جو بھی اس امر کو پہچان لے تو انتظار کرنے کی بنا پر اس کے لئے فرج حاصل ہو چکی ہے ۔''
حدیث دیگر میں ہے :
'' سأل ابو بصیر ابا عبد اﷲ ـ وانا اسمع ، فقال : ترانی أدرک القائم ـ ؟ فقال : یا أبا بصیر ألست تعرف امامک ؟ فقال : ای و اللّہ و أنت ہو ۔ و تناول یدہ ۔ فقال : و اللّہ ما تبالی یا أبا بصیر ألّا تکون محتبیاً بسیفک فی ظلّ رواق القائم صلوات اللّہ علیہ ''
راوی کہتا ہے کہ ابو بصیر امام صادق(ع) سے سوال کر رہے تھے اورمیں بھی پاس بیٹھا ہوا تھا ابو بصیر نے یوں سوال کیا:
'' فقال ترانی ادرک القائم علیہ السلام ؟ ''
ابوبصیر ،مولا (ع) سے یہ پوچھتے ہیںکہ آپ کی کیا رائے ہے ،کیا میں بھی اس وجود ِمبارک ِ حضرت قائم (عج) کو درک کر سکوںگا اور ان کی زیارت کر سکوں گا ۔
'' فقال : یا ابا بصیر … ''
امام (ع) نے جواب میں فرمایا کہ ''اے ابوبصیر!
'' الست تعرف امامک ؟ ''
کیا تو اپنے امام (ع) کو نہیں پہچانتا … ؟
'' فقال ای واﷲ … ''
ابو بصیر نے کہا کہ خدا کی قسم پہچانتا ہوں …
'' وانت ھووتناول یدہ … ''
اور نہ صرف پہچانتا ہوں بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کون ہیں ؟ وہ آپ ہیں اور اس کے بعد ابو بصیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا امام ـ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر کہا کہ خدا کی قسم وہ امام آپ ہیں ،،
'' فقال: واﷲ ماتبالی یا ابا بصیر ا لّا تکون محتبیاًً بسیفک فی ظل رواق القائم صلواة اﷲ علیہ ''
امام (ع) نے فرمایا : اے ابو بصیر اگرچہ تم ابھی حضرت ـ کے لشکر میں نہ بھی ہو اور تلوار نہ بھی چلا سکو لیکن اس کے باوجود تجھے پرواہ نہیں ہونی چاہیے تو ایسے ہی ہے جیسے حضرت قائم ـ کے لشکر
میں موجود ہے ۔
ایک اور حدیث میں اس طرح ہے کہ:
''عن ابی جعفر ـ قال:ماضرّمن مات منتظراً لأمرنا ألّا یموت فی وسط فسطاط المہدیّ و عسکرہ ''
حضرت امام باقر (ع) فرماتے ہیں : جو ہمارے امر کی انتظار کی حالت میں مرے وہ حضرت مہدی (ع) کی فوج اور خیمے کے در میان نہ بھی مرا ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے
جوحالتِ انتظار میں مر جائے اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ ظہور سے پہلے اس دنیا سے اٹھ جائے
'' عن فضیل ابن یسار قال : سمعت أبا جعفر(ع) یقول : من مات و لیس لہ امام فمیتتہ میتةجاہلیة ، و من مات و ہو عارف لامامہ لم یضرہ ، تقدم ہذا الأمر أو تأخر ، من مات و ہو عارف لامامہ ، کان کمن ہو مع القائم فی فسطاطہ ''
فضیل ابن یسار کہتے ہیں : '' میں نے امام باقر(ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا : جس انسان کو موت آئی اور اس کا امام نہ ہو تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو ظہور کی تعجیل اور تأخیر سے اسے کوئی نقصان نہ ہوگا اور جو اپنی امام کی معرفت کے ساتھ مرے تو وہ حضرت قائم ـ کی معیت میں حضرت ـکے خیمے میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہے
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا :
عن عمر ابن أبان قال : '' سمعت أبا عبد اللّہ ـ یقول : أعرف العلامة فاذا عرفتہ لم یضرّک ، تقدّم ہذا الأمر أو تأخر، انّ اللّہ عزّوجلّ یقول : '' یوم ندعو کل أناس بامامہم '' فمن عرف امامہ کان کمن کان فی فسطاط المنتظر ـ ''
عمر ابن أبان کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق(ع) سے سنا کہ آپ نے یہ فرمایا کہ : علامت کو پہچانو جب تم اپنے امام کو پہچان لو تو پھر ظہور کی تعجیل و تأخیر میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ہم قیامت کہ دن ہر انسان کو اپنے امام کے ساتھ بلائیں گے پس جس نے امام کو پہچان لیا وہ امام (ع) منتظر کے خیمے میں بیٹھے ہوئے شخص کی طرح ہے۔
امام فرماتے ہیں :
'' اعرف العلامة … ''
علامت کو پہچانو …
'' فاذا عرفتہ لم یضرّ ک تقدّم ھٰذالامر او تاخّر انّ اﷲ عزّ و جلّ یقول یوم ندعوکلّ اناس بامامہم … ''
امام صادق (ع) فرماتے ہیں :
'' فمن عرف امامہ … ''
جس نے اپنے امام کو پہچان لیا …
'' کان کمن کان فی فسطاط المنتظر علیہ السلام … ''
عصر غیبت کو عصر ظہور میں بدلنے کا راستہ
یہ شخص اس کی طرح ہے جو حضرت حجت (ع) کے خیمے میں ہو ، امام (ع) فرماتے ہیں : جب تمہیں اپنے امام کی معرفت ہوجائے تو تم ایسے ہو جیسے سپاہِ امام ـ میں شامل ہو ، جیسے تم لوائے امام ـ کے نیچے کھڑے ہو ، تم ایسے ہو جیسے رسول اﷲ ۖ کی معیت میں بدر میں شہید ہوئے ہو اور تم ایسے ہو جیسے حضرت حجت ـ کے مرکزی خیمے میں حضرت ـ کے ہمراہ ہو ،پس معلوم یہ ہوا کہ انتظار کس چیز کا نام ہے ، زمینی اور زمانی فاصلوں کو سمیٹنے کا نام ہے ، انسان یہ فاصلے سمیٹ سکتا ہے کہ اگر ظہور ہمارے عہد میں نہ بھی ہوا تو آج ہم اپنے آپ کو عصر ظہور میں پیش کر سکتے ہیں ، آج ہم اپنے آپ کو عصر ظہور میں لے جا سکتے ہیں، ظہور اگرہمارے زمانے میں نہ ہو ا تو بھی ہم ظہور کے زمانے میں پہنچ سکتے ہیں۔ کیسے پہنچیں گے ؟ حضرت امام صادق ـ نے بیان کر دیاکہ آپ اپنے امام ـ کی معرفت پیدا کریں ۔
معرفتِ امام (ع) سے کیا مراد ہے ؟
'' من مات و لم یعرف امام زمانہ مات میتة جاہلیّة … ''
'' جو شخص مر جائے اور اس کو اپنے زمانے کے امام کی معرفت نہ ہو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے ''
معرفت امام کی حقیقت
یہاں پر دو قسم کی معرفتوں کی طرف اشارہ ہوگا۔ اما م کے بارے میں دو قسم کی باتیںآپ کے سامنے آئیں گی ایک یہ کہ امام کون ہیں ؟ اور ایک یہ کہ امام کیا ہیں ؟ وہ معرفت جو علی ـ کے بارے میں لوگوں کو تھی، وہ صرف اتنی معرفت تھی کہ علی ـ کون ہیں ؟ لیکن انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ علی (ع) کیا ہیں ؟ اس لئے وہ سب جاہلیت کی موت مرے ، پس اپنی معرفت کو ذرا ورق الٹ کر دیکھ لیں اپنی معرفت کی بیاض الٹ کر دیکھ لیں کہ ہماری کتنی معرفت ہے ؟ اگر ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ علیـ کون ہیں ؟ یہ وہ معرفت نہیں ہے جو ہمیں جاہلیت کی موت سے بچا سکے گی بلکہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ علی (ع) کیا ہیں ؟
بعض مسلمان جب زیارات کے لئے جاتے ہیں تو ائمہ (ع) کی قبور پر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھتے ہیں ، اگر ان سے پوچھو کہ یہ کون ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ حضرت فلاں ہیں اوریہ حضرت فلاں ہیں ، تو آپ کیا کر رہے ہو ؟ ہم فاتحہ پڑھ رہے ہیں یہ فاتحہ کیوں پڑھ رہے ہو ؟ کہتے ہیں یہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتے ہیں ، اب آپ بتائیں انہیں معلوم ہے یا نہیں ہے کہ یہ کون ہیں ؟یقینا معلوم ہے کہ یہ کون ہیں ،لیکن جب با معرفت مؤمنین وہاں پر جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟ وہ وہاںجاکر ان کی بخشش کے لئے نہیں بلکہ اپنی بخشش کے لئے فاتحہ پڑھتے ہیں ۔ یہی فرق ہے جس کو یہ معلوم ہو کہ یہ کون ہیں ؟ وہ فاتحہ ان کی بخشش کے لئے پڑھتا ہے اور جس کو معلوم ہو کہ یہ کیا ہیں وہ ان سے اپنی بخشش کرواتا ہے ۔
امام کی پہچان کا طریقہ
وہ معرفت جو ہماری نجات کا وسیلہ بن سکتی ہے ،جو غیبت کی دوریاں سمیٹ سکتی ہے ، جو ہمیں حضرت مہدی ـ کی سپاہ کے خیمے میں لے جا سکتی ہے ، جو ہمیں اپنے امام ـ کی دوری کے باوجود امام کا قرب نصیب کر سکتی ہے وہ یہی معرفت ہے کہ امام کیا ہیں ؟ اور یہی سب سے اہم نکتہ تھا کہ جب ائمہ زندہ تھے تو اس وقت بھی انگلیوں پہ گنے ہوئے چند لوگوں کو معلوم تھا امام کیا ہیں ؟ آج بھی یہی المیہ موجود ہے ۔ آج بھی آپ کو انگشت شمار ملیں گے جن کو پتہ ہے امام کیا ہیں ؟
اب پھر حدیث کی طرف آتے ہیں کہ امام کیا ہیں ؟ خود معصوم ـ یہ فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو پہچاننا ہے تو ربوبیت سے پہچانو ہے اگر نبی کو پہچاننا ہے تو رسالت سے پہچانو اور اگر امام کو پہچاننا ہے تو امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے پہچانو یعنی امام (ع) یہ فرما رہے ہیں کہ خدا ربوبیت سے پہچانا جائے گا نبی رسالت سے پہچانا جائے گا اور امام اپنی امامت سے پہچانا جائے گا۔

Add new comment