تاریخ کی ورق گردانی

نذر حافی

تاریخ کی ورق گردانی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے بند دماغوں کو کھولنے اور جامد شخصیتوں کو حرکت دینے میں مدد ملتی ہے۔  اربابِ دانش جانتے ہیں کہ تاریخ مطالعے کی نہیں بلکہ تجزیہ و تحلیل کی چیز ہے۔باالفاظِ دیگرتاریخ حفظ کرنے کے بجائے تطبیق کرنے کی شئے ہے۔اگر انسان میں تجزیہ و تحلیل اور تطبیق کرنے کی صلاحیت نہ ہوتواس کی تاریخی معلومات فقط یاداشتوں کا مجموعہ کہلاتی ہیں اور اگر انسان تجزیہ و تحلیل اور تطبیق کے فن سے آشنا ہو تو تاریخ عبرتوں کا چراغ ہےاور مستقبل کے لئے قطب نما کی حیثیت رکھتی ہے۔
کسی بھی ملت کی تاریخ ایک طلاطم خیز دریاکی مانند بہتی ہے اور اس کے دونوں کناروں پر دومختلف دنیائیں آباد ہوتی ہیں۔اس کے ایک کنارے پر وفادار اپنا لنگر ڈالے رکھتے ہیں اور اس کے دوسرے کنارے پر غدار اور دشمن خیمہ زن رہتے ہیں۔
عقلمند قومیں اپنی  نئی نسلوں کو صرف وفاداروں کی معرکہ آرائیوں سے آگاہ نہیں کرتیں بلکہ غداروں کی تباہ کاریوں سے بھی باخبر کرتی ہیں۔
یوں تو دریا کے دو مستقل کناروں کی مانند وفادار اور غدار ہمیشہ ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے ہیں لیکن ملت پاکستان نے دریا کے ان دو کناروں کا مشاہدہ ۱۹۸۸ اور ۱۹۸۹میں بخوبی کیا۔
قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی  کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو،نوازشریف ،آفتاب شیرپاو اور چودھری شجاعت حسین نے اس خونِ ناحق کو چھپانے کے لئے جو کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپانہیں اور وقتا فوقتا تجزیہ و تحلیل کی صورت میں منظرِ عام پر آتا رہتاہے البتہ ملت جعفریہ کی مظلومی کا ایک سیاہ ورق ایسا بھی ہے جسے ملت کے داخلی غداروں نے رقم کیاہے اور اسے بھی منظر عام پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس امر کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ دور کوئی سا بھی ہو ،حکومت کوئی سی بھی ہو اور حکمران جو بھی ہو ہماری نوجوان نسل جب بھی غداروں سے ٹکرائے تو گھبرائے نہیں۔
یہ دو نومبر ۱۹۸۹کا وہ سیاہ ترین دن تھا جس روز فضل حق کوسپریم کورٹ نے رہاکردیاتھا۔فضل حق سمیت ہرچھوٹے بڑے شیطان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے بعد ملت جعفریہ مزید مشتعل ہوجائے گی چنانچہ حکومت نے اہل تشیع کی صفوں میں بکاو قسم کے روایتی شیعوں کو خریدنے کا کاروبار شروع کردیا ۔سرکاری خزانے کا منہ کھول دیاگیا ، لالچی و موقع پرست افراد کی تجوریاں بھرنے کا سلسلہ شروع کیاگیااورکئی لوگوں کو سرکاری ملازمتوں کے وعدے دئیے گئے ۔اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے کئی لوگ سرکاری ایجنسیوں کے آگے دم ہلانے لگے اور ان دم ہلانے والوں میں ایک  بڑا نام "باوا نفیس الحسن آف قصور" کا تھا۔"باوا صاحب"نے کئی مرتبہ اپنے اخباری بیانات میں فضل حق کو بے گناہ قرار دیا اور بالاخر  وہ اس سلسلے میں  شیزان ہوٹل لاہور میں پریس کانفرنس کرنے پر اتر آئے۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور آئی ایس او کے جوانوں کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے "باوا اینڈ کمپنی" کو آڑے ہاتھوں لیا۔صحافیوں کی موجودگی میں "چھترول" کی گئی اور بکاو شیعوں کو گھسیٹ کر مال روڈ پر لایاگیا۔بعض عینی شاہدین کے مطابق انہیں لاہور کی سب سے مصروف ترین شاہراہ  مال روڈ پر "مرغا"بنادیاگیا۔
اس کے بعد مرغوں کی جامہ تلاشی لی گئی تو نذیر حسین شاہ نامی ایک صاحب کی جیب سے وزیر اعلی پنجاب کے نام ایک درخواست نکلی۔یہ درخواست نذیر حسین شاہ کے بیٹے نے اے ایس آئی بھرتی ہونے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو لکھی تھی۔پروگرام کے مطابق فضل حق کے حق میں پریس کانفرنس کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس درخواست پر تقرری کا حکم صادر کرنا تھا۔
پٹائی اور چھترول کے بعد ملت جعفریہ کے ذمہ داروں نے جب ہوٹل کی انتظامیہ سے اس پریس کانفرنس کے انتظامات کے بارے میں پوچھ گچھ کی تو پتہ چلاکہ اس پریس کانفرنس کی بانی  وزارت اطلاعات و نشریات پنجاب تھی۔\[1]
وہ دور گزرگیالیکن اس طرح کے واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ ہردور میں ہماری ملت کے درمیان عمر ابن سعد جیسے مفاد پرست  اور غدار موجود رہے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عقلمند قومیں اپنی  نئی نسلوں کو صرف وفاداروں کی معرکہ آرائیوں سے آگاہ نہیں کرتیں بلکہ غداروں کی تباہ کاریوں سے بھی باخبر کرتی ہیں۔وفادار اور غدار تاریخ کے دریا کے دو مستقل مگر مخالف کنارے ہیں ۔حالات جیسے بھی ہوں"ناخدا" کے لئے دونوں کناروں پر نگاہ رکھنی ضروری ہے اور تاریخ کی ورق گردانی اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سے بند دماغوں کو کھولنے اور جامد شخصیتوں کو حرکت دینے میں مدد ملتی ہے۔

\[1] استفادہ از قتیل سحر ص ۲۱۲ و بعض عینی شاہدین سے گفتگو

Add new comment