حزب اللہ اور بت شکنی کا سفر
حزب اللہ نے ١٩٨٥ میں اپنے قیام کے باضابطہ اعلان سے لے کر اب تک بہت سے بڑے بڑے بت پاش پاش کئے ہیں اور بہت سے غباروں سے ہوا نکالی ہے جو دیو بن کر اردگرد کے لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ ان میں سب سے اہم بت جو حزب اللہ کے ہاتھوں پاش پاش ہوا وہ اسرائیل کا بت ہے۔ اسرائیل جسے ناقابلِ تسخیر قوت سمجھا جاتا تھا اور عرب ممالک اس سے خائف رہتے تھے، اس فرضٰ سپر ہیرو کو حزب اللہ نے پہلے تو لبنان سے مار بھگایا اور پھر مقاومت و دفاع کا ایسا پہاڑ بن کر کھڑی ہو گئی کہ اس کے بعد سے اب تک اسرائیل کو لبنان میں داخلے کی جرات نہیں ہوئی۔ ٢٠٠٦ میں طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے حزب اللہ پر اس نیت سے چڑھائی کر دی کہ اس دفعہ تو اسے ختم ہی کر دیں گے لیکن واحد چیز جو ختم ہوئی وہ اسرائیل کی رہی سہی ساکھ اور عزت تھی۔ یہ حزب اللہ کی مقاومت ہی ہے جس کے باعث لبنان، اسرائیل کے شر سے محفوظ ہے لیکن حزب اللہ سے بدلہ لینے کے لئے اب اسرائیل اور امریکہ نے کرائے کے فوجی یعنی وہابی تکفیری دہشت گرد میدان میں اتارے تاکہ حزب اللہ کو نقصان پہنچایا جائے لیکن حزب اللہ نے ان امریکی غلاموں کو بھی چھٹی کا دوددھ یاد دلا دیا اور اب جبکہ تمام دنیا سے جمع کئے گئے تکفیری اور وہابی دہشت گرد بھی کچھ نہ کرسکے تو ان کا مائی باپ امریکہ خود میدان میں کود رہا ہے۔ لیکن زمینی مداخلت سے ابھی بھی دور ہے بلکہ صرف دور بیٹھ کر میزائل مارنے کا پروگرام ہے۔ شام کا قضیہ درحقیقت حزب اللہ اور بالاخر ایران کو ختم کرنے کے لئے چھیڑا گیا ہے لیکن اس دفعہ بھی انشاء اللہ فتح نظامِ ولایت و امامت اور اس کے دست و بازو حزب اللہ کی ہو گی کیوں کہ مومنین کا سرپرست خدا ہے اور کافروں کا کوئی سرپرست و کارساز نہیں۔ اس دفعہ سب سے بڑا بت ٹوٹے گا جسے امام خمینی (رہ) شیطانِ بزرگ کہتے تھے یعنی امریکہ اور ساتھ ہی ان کے نمک خوار عرب بادشاہ بھی ڈوبیں گے۔ حزب اللہ کی بت شکنی جاری رہے گی، انشاء اللہ
“بے شک خدا کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے“
حزب اللہ -- ایک بت شکن قوت
حزب اللہ نے ١٩٨٥ میں اپنے قیام کے باضابطہ اعلان سے لے کر اب تک بہت سے بڑے بڑے بت پاش پاش کئے ہیں اور بہت سے غباروں سے ہوا نکالی ہے جو دیو بن کر اردگرد کے لوگوں کو ڈرایا کرتے تھے۔ ان میں سب سے اہم بت جو حزب اللہ کے ہاتھوں پاش پاش ہوا وہ اسرائیل کا بت ہے۔ اسرائیل جسے ناقابلِ تسخیر قوت سمجھا جاتا تھا اور عرب ممالک اس سے خائف رہتے تھے، اس فرضٰ سپر ہیرو کو حزب اللہ نے پہلے تو لبنان سے مار بھگایا اور پھر مقاومت و دفاع کا ایسا پہاڑ بن کر کھڑی ہو گئی کہ اس کے بعد سے اب تک اسرائیل کو لبنان میں داخلے کی جرات نہیں ہوئی۔ ٢٠٠٦ میں طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے حزب اللہ پر اس نیت سے چڑھائی کر دی کہ اس دفعہ تو اسے ختم ہی کر دیں گے لیکن واحد چیز جو ختم ہوئی وہ اسرائیل کی رہی سہی ساکھ اور عزت تھی۔ یہ حزب اللہ کی مقاومت ہی ہے جس کے باعث لبنان، اسرائیل کے شر سے محفوظ ہے لیکن حزب اللہ سے بدلہ لینے کے لئے اب اسرائیل اور امریکہ نے کرائے کے فوجی یعنی وہابی تکفیری دہشت گرد میدان میں اتارے تاکہ حزب اللہ کو نقصان پہنچایا جائے لیکن حزب اللہ نے ان امریکی غلاموں کو بھی چھٹی کا دوددھ یاد دلا دیا اور اب جبکہ تمام دنیا سے جمع کئے گئے تکفیری اور وہابی دہشت گرد بھی کچھ نہ کرسکے تو ان کا مائی باپ امریکہ خود میدان میں کود رہا ہے۔ لیکن زمینی مداخلت سے ابھی بھی دور ہے بلکہ صرف دور بیٹھ کر میزائل مارنے کا پروگرام ہے۔ شام کا قضیہ درحقیقت حزب اللہ اور بالاخر ایران کو ختم کرنے کے لئے چھیڑا گیا ہے لیکن اس دفعہ بھی انشاء اللہ فتح نظامِ ولایت و امامت اور اس کے دست و بازو حزب اللہ کی ہو گی کیوں کہ مومنین کا سرپرست خدا ہے اور کافروں کا کوئی سرپرست و کارساز نہیں۔ اس دفعہ سب سے بڑا بت ٹوٹے گا جسے امام خمینی (رہ) شیطانِ بزرگ کہتے تھے یعنی امریکہ اور ساتھ ہی ان کے نمک خوار عرب بادشاہ بھی ڈوبیں گے۔ حزب اللہ کی بت شکنی جاری رہے گی، انشاء اللہ
“بے شک خدا کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے“
بشکریہ شفقنا اردو
Add new comment