ولایت فقیہ سے کیا مراد ہے؟ مختصر اور علمی جواب دیں۔
"ولایت " عربی زبان میں " ولی " کے مادہ سے لیا گیا ھے ۔ یھ مادہ عربی زبان کے لغت شناس ماھروں کے اعتراف کے مطابق صرف ایک معنی رکھتا ھے " ولی " کے معنی " نزدیک" اور "قرب" کے ھیں [1] عربی زبان میں "ولی" کے تین معانی ھیں : دوست ، دوست رکھنے والا اور یاور اور لفظ " ولایت" کے ، ان تینوں کے علاوہ[2] دو اور معنی " سلطنت" اور حکومت کی رھبری بھی بیان کئے گئے ھیں۔ [3] فارسی زبان میں کلمھ " ولی " کے متعدد معنی بیان کئے گئے ھیں۔ جیسے، یار ،صاحب ، حافظ ، جو کسی کام میں کسی کی جانب سے نائب ھو اور ولایت کے معنی " حکومت کرنے " کے، بیان ھوئے ھیں۔ [4]
شیعھ نقطہ نظر سے ولایت فقیہ،غیبت کے زمانے میں ائمھ معصومین علیھم السلام کا سلسلہ ھے ، جس طرح ائمھ علیھم السلام کی ولایت نبی اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ولایت کے جاری رھنے کا نام ھے، اور اس کا ما حصل یھ ھے کھ اس نکتھ پر اعتقاد رکھنا کھ اسلامی معاشرے کی ذمھ داری اور اس کا انتظام چلانے ادارہ کرنے کے فرائض ایک اسلامی ماھر کے ھاتھوں رھیں رھے، اگر معصوم علیھم السلام حاضر ھوتے تو وھی ، اور اگر حاضر نھیں ھیں ، تو فقھاء اس ذمھ داری کو اپنے شانوں پر لیں گے۔
یھ نظریھ اس نکتے کو قبول کرنے کی وجھ سے ھے کھ اسلامی نقطھ نظر مین حکومت کی اصلی ذمھ داری الھی اقدار اور احکام کو معاشرے میں جاری کرنا اور اس مقصد کو متحقق کرنے کیلئے حکومت کے فیصلے، دین سے آگاہ شخص کے ھاتھہ میں رھیں۔ [5]
البتھ بے شک یھ شخص عالمی حالات سے مطلع اورمعاشرے کو منظم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ھو [6] ۔
شیخ صدوق (رح) نے معتبر سند سے اسحاق بن یعقوب سے روایت کرکے فرمایا ھے : محمد بں عثمان عمری (حضرت امام عصر کی غیبت میں دوسرے نائب خاص) سے میں نے چاھا کھ میرے ایک خط کو جس میں میں نے مشکل مسائل پوچھے تھے، حضرت امام زمانھ (عج) کی خدمت میں پھنچادیں ، میرے جواب میں مولا امام زمانھ (عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف ) کے مبارک قلم سے رقعھ آیا ، جس میں یھ لکھا تھا۔ " ۔۔۔۔۔ و اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ احادیثنا فانھم حجتی علیکم و انا حجۃ اللھ علیکم "[7] رونما ھونے والے حوادث میں ۔ ھماری حدیث کے راویوں کی جانب رجوع کریں، وہ آپ کے درمیان میری حجت ھیں اور میں آپ پر خدا کی حجت ھوں[8]
محقق کرکی(رح) فرماتے ھیں: سب شیعوں کا اتفاق ھے کھ عادل فقیہ ، امین ، فتوٰی میں جامع الشرائط کھ (جسے احکام شرعیھ میں مجتھد سے تعبیر کرتے ھیں) کو ائمھ ھدی کی جانب سے غیبت کے زمانے میں ھر (ان تمام چیزوں میں جن میں نیابت دخیل ھے) نیابت حاصل ھے ۔ [9]
آپ کے سوال کےدوسرے اور تیسرے حصے کے جواب میں بعض نکات کی جانب ھم اشارہ کرتے ھیں۔
شیعھ ثقافت میں مرجعیت ، افتاء اور ولایت کا آمیزہ ھے اور مراجع عظام جملھ احکام الھی میں لوگوں سے ارشاد کرتے ھیں اور سماج کے جزئی مسائل میں بھی لوگوں کی سرپرستی کرتے ھیں ، اور کبھی قضاوت بھی کرتے ھیں۔ [10]
اسی طرح مرجعیت کو رھبری سے الگ کرنے کے سلسلھ میں یھ بات واضح ھونی چاھئے کھ فقیہ دینی اقدار اور معیاروں کے مطابق اسلامی معاشرے کا انتظام کرنے کیلئے رھبری کا مقام پاتا ھے لیکن " مرجعیت" جس کے معنی فتوی دینے کے ھیں، اس سے مختلف ھیں۔
اس خصوصیت کو مد نظر رکھتے ھوئے فقیہ کی مرجعیت ، فقھ میں اس کی طھارت اور منابع شرعی سے احکام الھی کو استنباط کرنے میں اس کی صلاحیت کا نام ھے ، جبکھ رھبری اس صفت کے علاوہ اسلامی اقداراورقوانین کے مطابق معاشرے کا انتظام کرنے کی صلاحیت رکھنے کا نام ھے۔
اس لحاظ سے ممکن ھے کھ کوئی فقیہ ، علم فقھ میں زیادہ صلاحیت رکھنے کی وجھ سے مرجعیت میں دوسرے فقیہ پر ترجیح رکھتا ھو [11] لیکن دوسرا فقیہ معاشرہ کو منظم کرنے کی صلاحیت میں رھبری کے مسئلے میں پھلے فقیہ پر فوقیت رکھتا ھو۔[12]
اسلامی نظام میں رھبری اور ولایت فقیہ کا مسئلھ دو طرح مُتَصوَّر ھے۔
اول: اسلامی معاشرے کی ولایت اور رھبری بعض فقھاء کی جانب سے شورایی طریقھ پر انجام پائے یھ اُس صورت میں متصور ھے کھ ایک ففیہ رھبری کے پورے شرائط پر کھرا نھ اترتا ھو لیکن دوسری صورت میں اگر ایک فقیہ میں رھبری کے پورے شرائط موجود ھوں یعنی فقاھت کے علاوہ رھبری کے باقی شرائط بھی ھوں تو ولایت اور رھبری انفرادی صورت میں ھوگی۔
چونکھ رھبری اور اسلامی معاشرہ کو منظم کرنا سماج کے نظم سے متعلق ھے اور فیصلھ کرنے والوں کی کثرت ، معاشرہ میں بلوہ ھونے کا سبب بنتی ھے اور دوسری جانب رھبر کی فرمانبرداری سب لوگوں پر حتی کھ سبھی فقھا پر بھی لازم ھے قاعدہ اس بات کا متقاضی ھے کھ رھبر ایک ھی ھو خصوصا اسلامی نقطھ نظر سے ملک اور سرزمیں متعدد نھیں ھیں اور اسلامی سرزمین ایک ھی ملک کا تصور دیتی ھے[13]
اسی طرح توجھ کرنا چاھئے کھ حکومت کا منصب ، جو ملک اور حکومت کو چلانا اور شریعت کے قوانین کو جاری کرنا ھے عمومی طورپر سب فقھاء کیلئے ثابت ھے لیکن جب ان کے درمیان ایک فقیہ حکومت کو تشکیل دے تو باقی سب فقھا پر لازم ھے کھ اس کی اطاعت کریں اورجائز نھیں ھے کھ حکومت کے امور میں مداخلت کرکے ولی فقیہ کیلئے مزاحمت کریں ، اس کی دلیل یھ ھے کھ اسلام میں حکمراں صرف خدا اور اُس کا قانون ھے اور نبی اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم بھی خدا کے امر سے اللھ کے قانون کو نافذ کرنے پر معین ھیں ۔ جیسے کھ خداوند متعال ان سے خطاب فرماتا ھے " لتحکم بین الناس بما اریک اللھ " [14] تم کو مبعوث کیا گیا تا کھ لوگوں کے درمیان حکومت کرو ، لیکن اپنی خواھش کے مطابق نھیں بلکھ اس چیز کے مطابق جو تمھیں وحی کے ذریعے دکھائی گئی ھے اس لحاظ سے اسلامی نظام میں لوگوں کا صرف " ایک ولی" ھے، جو خدا اور اس کا دین ھے اورکوئی بھی دین میں ذرہ برابر کمی بیشی نھیں کرسکتا ، اور اگر ایک عادل فقیہ جو اپنے زمانے سے آگاہ اور با صلاحیت ھے ایک ملک کو چلانے کیلئے حکومت کرتا ھے تو وہ فقیہ خود حکومت نھیں کرتا بلکھ اس کی شخصیت جو فقاھت اور عدالت کے ساتھہ مدبر اور مدیر ھے اور جس میں رھبری کے نمایاں شرائط موجود ھیں ، حکومت کرتی ھے۔ [15]
آپ کے سوال کے اس حصے کے جواب میں جھاں آپ نے کھا ھے : اتنے مراجع کے ھوتے ھوئے حضرت آیۃ اللھ العظمی خامنھ ای ( مد ظلھ العالی ) ھی کیوں ولی فقیہ ھیں؟ اس سلسلے میں ھم یھ عرض کرتے ھیں کھ "ولایت فقیہ میں اعلمیت " اور "مرجعیت میں اعلمیت" کے درمیان فرق رکھنا چاھئے ، دوسرے الفاظ میں ولایت فقیہ میں اعلمیت مرجعیت میں اعلمیت کے معنی میں نھیں ھے حضرت علی فرماتے ھیں: " ایھا الناس ان احق الناس بھذا الامر اقواھم علیھ و اعلمھم با مر اللھ " اے لوگو! جان لو کھ اس حکومت اور ولایت پر سب سے شائستھ فرد وہ ھے جو اس کام میں خداوند متعال کے امر سے معاشرے کی رھبری میں سب سے زیادہ آگاہ ھو [16] اس بناپر اعلم سے مراد صرف فقھی اعلم نھیں ھے بلکھ اس زمانے میں اعلم ھے یعنی ملک اور دنیا سے کامل آگاھی رکھتا ھو تا کھ دقیق شرائط کے ساتھہ احکام الھی کو موجودہ زمانے کے مطابق کرکے مناسب احکام کا انکشاف کرسکے اسلام کے دشمنوں اور ان کی سازشوں سے خبردار ھو اور وہ مناسب وقت پر صحیح اقدام اور فیصلھ کرسکے۔
اسلامی جمھوریھ ایران کے آئین میں ایک سو ساتویں اصل کے مطابق ، مرجع عالی قدر تقلید اور رھبر انقلاب اسلامی اور جمھوری اسلامی ایران کے بانی حضرت آیۃ اللھ العظمٰی امام خمینی(رح) کے بعد جو لوگوں کی اکثریت سے رھبر اورمرجع مانے گئے تھے، رھبر کا تعین مجلس خبرگان جھاں کھ لوگوں کے منتخب ممبرھونے کے ساتھہ ساتھہ، اسلام کے ماھرین اور سب فقھاء ھیں وہ فقیہ جامع الشرائط کو رھبری کیلئے منتخب کرنے کی ذمھ داری رکھتے ھیں [17]
البتھ یھ بات ممکن ھے کھ خبرگان کے ممبران مختلف دور میں رھبری کے شرائط کسی خاص شخص میں پائیں گے لیکن عصر حاضر میں ان ممبروں کی بھاری اکثریت نے حضرت آیۃ اللھ العظمی خامنھ ای میں رھبری کے پورے شرائط پاکر انھیں ملک کی رھبری کیلئے سب سے بھترین اور شایستھ فرد کی حیثیت سے متعارف کرایا ھے۔
اس کے علاوہ خود امام خمینی (رح ) کی تاکید اس بات پر تھی کھ ان میں ملک کی سرپرستی اور رھبری کرنے کیلئے لیاقت موجود ھے ، جناب حجۃ الاسلام ھاشمی رفسنجانی ، اور باقی خبرگان کے ممبروں نے بھی امام کے قول کو نقل کیا ھے کھ: " آپ کے درمیان ایسا فرد موجود ھے جو رھبری کی لیاقت رکھتا ھے اور آپ مشکل میں نھیں پڑیں گے۔[18]
اور حجۃ الاسلام سید احمد خمینی ( رح) نے بھی امام سے نقل کیا ھے کھ انھوں نے فرمایا: انھیں ( آیۃ اللھ خامنھ ای ) کو رھبری کی لیاقت حاصل ھے ، ھم ان بیانات سے چشم پوشی نھیں کرسکتے ۔
حضرت آٰیۃ اللھ فاضل لنکرانی کے فتوی کے بارے مین آپ کا اشکال دور کرنے کیلئے تھوڑی وضاحت کرتے ھیں تا کھ "فتوی" اور "حکم" کے ما بین فرق واضح ھوجائے " فتوٰی" : کسی خاص موضوع کے بارے میں مجتھد کا اسلامی منابع سے حکم استنباط کرنے کو کھتے ھیں جو صرف اس مجتھد کے اپنے اوپر اور اس کے مقلدین پر لاگو ھوتا ھے۔
لیکن "حکم" اس وقت ھے جب رھبر ، خدا کے جملھ احکام اور اسلامی نظام کو مد نظر رکھہ کر ، خاص شرائط کے تحت کوئی ذمھ داری سب لوگوں یا بعض لوگوں کے اوپر مشخص کرتے ھیں۔
دین کی نظر میں ، فقیہ جامع شرائط کی اطاعت کرنا ، جیسے رھبر اورولی امر کے احکام لازم اور ضروری ھیں اس فرق کے ساتھہ کھ فقیہ کا فتوی خود اس کے لئے اور اس کے مقلدوں کیلئے لازم الاتباع ھے جب کھ رھبر کے حکم کی اطاعت سب پر واجب ھے۔[19]
[1] رجوع کرین ، مقائیس اللغۃ، ج ۶ ص ۱۴۱۔ القاموس المحیط ، ص ۱۷۳۲، المصباح المنیر ، ج ۲، ص ۳۹۶۔ الصحاح ج ۶ ، ص ۲۵۲۸، تاج العروس ج ۱۰ ص ۳۹۸۔
[2] بعض محققوں نے ولایت کے معنی کو دوستی یا مددگار ھونے سے انکار کیا ھے ، اور اس کا معنی صرف سلطنت یا رھبری مانا ھے۔ رجوع کریں، دراسات فی ولایۃ الفقیھ و فقھ الدولۃ الاسلامیۃ ، المنتظری، حسینعلی، ج ۱ ص ۵۵۔
[3] ر۔ ک۔ القاموس المحیط ، ص ۱۷۳۲۔ تاج العروس ، ج ۱۰ ص ۳۹۸۔ المصباح المنیر، ج ۲ ص ۳۹۶۔
[4] ھادوی تھرانی، مھدی، ولایت و دیانت ، ص ۶۴۔
[5] ر۔ک۔ ولایت و دیانت ، مبحث ادلھ ولایت فقیھ ، دلیل عقلی۔
[6] ولایت و دیانت۔ مبحث شرائط ، ولی فقیھ۔
[7] وسائل الشیع ج ۲۷، ص ۱۴۰۔
[8] اس روایت کے سلسلے میں مزید بحث کیلئے رجوع کریں، ولایت اور دیانت، ص ۹۴، ۔۔ ۱۰۲۔
[9] کتاب مبانی مشروعیت در نظام ولایت فقیھ، ، کواکبیان، مصطفی، ص ۶۸۔ سے منقول۔
[10] ھادوی تھرانی ، مھدی ولایت ودیانت ، ص ۱۳۸۔
[11] ھادوی تھرانی ، مھدی ولایت ودیانت ، ص ۱۴۱۔، ۱۴۰
[12] ولایت اور دیانت ص ۱۴۲۔۔
[13] ولایت اور دیانت ص ۱۴۱۔اور ۱۴۲۔
[14] سورہ نساء / ۱۰۵۔
[15] جوادی آملی، عبداللھ ، ولایت فقیھ، ص ۲۵۷۔ ۲۵۶۔
[16] بحار الانوار، ج ۳۴۔ ص ۲۴۹۔
[17] جوادی آملی، عبداللھ، ولایت فقیھ، ص ۲۳۱۔
[18] ھاشمی رفسنجانی، علی اکبر، ( گفتگو) روزنامھ کیھان، ( سوموار ۳۰/ ۱۱/ ۱۳۸۲ ھجری شمسی)
[19] ھادوی تھرانی، مھدی، ولایت و دیانت ، ص ۱۴۰۔ ۱۳۹۔
Add new comment