امریکہ ایک بڑی شکست کی طرف رواں دواں ہے

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
شام مشرق وسطٰی میں فلسطین پر ناجائز اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلمانوں کی جنگ میں فرنٹ لائن ہے۔ لبنانی شیعوں کی جماعت حزب اللہ اور فلسطینی سنی مسلمانوں کی تنظیم حماس دو ایسی قوتیں ہیں جو اسرائیل کے وجود کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں ہونے والی بے عزتی کا بدلہ برطانوی سامراج نے یہودی سرمایہ داروں کی مدد سے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کرکے لیا۔ سلاطین ترکی کی بادشاہت کے خاتمے میں سعود اور آل خلیفہ خاندان نے برطانوی سامراج کے ایجنٹ کا کردار ادا کیا۔ عالم اسلام کی مرکزیت ختم ہوگئی اور مسلم دنیا ٹکڑوں میں بٹ گئی، جس کے نتیجے میں فلسطین پر یہودی قابض ہوگئے۔ اس وقت سے ناجائز صہیونی ریاست عالم اسلام میں سامراجی مفادات کی محافظ بن گئی۔ دنیا کی اہم گذر گاہوں، تجارتی رستوں، گرم پانیوں اور تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود امریکہ اور مغربی دنیا کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالم عرب اسرائیلی افواج کے ساتھ جنگ میں کئی بار شکست کھا چکا ہے۔ مصر کے آمروں سے لیکر خلیجی ممالک کے شہنشاہوں تک اسرائیل سے سمجھوتہ کرچکے ہیں۔

عرب خطے میں فقط حزب اللہ اور حماس ایسی طاقتیں ہیں جو بار بار اسرائیلی افواج کو ہزیمت سے دوچار کرچکی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے شیعہ سنی مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی حلیف اور مفادات کی محافظ قوت کو زوال پذیر دیکھ کر مغربی طاقتیں مایوسی اور بے چینی کا شکار ہیں۔ پچھلی نصف صدی میں امریکہ کی حلیف خلیجی ممالک میں عرب شہنشاہتیں مسلسل استعماری بلاک کا حصہ رہنے کی وجہ سے فلسطینی مسلمانوں کی حمایت سے دست کشی اختیار کرچکی ہیں۔ اپنے غیر جمہوری اقتدار کو باقی رکھنے کے لیے امریکہ کا سہارا لینی والی ان مسلمان ریاستوں کی باگ ڈور مکمل طور پر مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس کا سارا فائدہ اسرائیل اٹھا رہا ہے۔ امریکہ اور مغربی طاقتیں براہ راست اسرائیل کی حامی اور مدد گار ہیں، لیکن شام کے علاوہ تمام عرب ممالک حماس اور حزب اللہ کے مخالف ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف کامیاب جنگوں میں کسی عرب ملک کا ہاتھ نہیں۔ اقوام متحدہ کے ذریعے لبنان کے سیاسی راہنما رفیق حریری کے قتل میں شامی حکومت کو ملوث کرنے کی کوشش اس لیے کی گئی تھی کہ شام نے حماس اور حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف جنگوں میں کھل کر مدد کی۔ جزب اللہ اور حماس کے لیے شام کی سرحدیں ہر وقت کھلی رہتی ہیں۔ لبنان اور فلسطین کے مجاہدین شام کو اپنا ہی گھر تصور کرتے ہیں۔

امریکہ کی حلیف خلیجی ریاستوں اور امریکی بالادستی کی مخالف ایران کی مذہبی حکومت کے دو الگ الگ بلاک بن گئے، لیکن اس اختلاف کو ہمیشہ عرب ایران مخاصمت کے پیرائے میں دیکھا جاتا رہا۔ شام میں امریکہ کو عرب حکومتوں کے علاوہ ترکی نئے حلیف کے طور پر شامی حکومت کے خلاف اہم کردار کر رہا ہے۔ خلافت اور مسلمانوں کے لیے مرکزیت کی علامت رہنے والا ترکی اس وقت جماعت اسلامی طرز کی اسلامی پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ ترکی اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کا اہم مستقر ہے۔ ترکی نے کبھی عسکری طور پر فلسطینی مجاہدین کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی فلسطینیوں کو ترکی میں رہنے کے لیے مہاجرین کے کیمپ قائم کرنے دیئے، البتہ شام کے خلاف جب بھی بغاوت ہوئی ترکی نے باغیوں کی ہر ممکن امداد کی۔ شام میں باغیوں کو مدد فراہم کرنے کے علاوہ ترکی کے القاعدہ اور عرب ریاستوں کے ساتھ کبھی خوشگوار تعلقات نہیں رہے۔ اسی طرح اردگان پارٹی کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت ترکی کو ایک خالص اسلامی ملک بنانا چاہتی ہے اور مغربی طاقتوں کے دباو کو خاطر میں لائے بغیر سیکولر ترکی کو مذہبی شناخت دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ، عرب ممالک اور مغربی طاقتوں کے ساتھ ترکی کا شام مخالف اتحاد صاف دلی اور نیک نیتی کی بجائے فقط عارضی بنیادوں پر قائم ہے۔

شام اسرائیل کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی قوتوں کی پشت پناہی کرنے والی واحد عرب ریاست ہے۔ اسرائیل کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مغربی طاقتیں شام میں حزب اللہ مخالف حکومت قائم کریں۔ چاہے وہ عرب شہنشاہتوں کی طرح غیر جمہوری حکومت ہو یا کوئی فوجی آمرانہ حکومت ہو۔ عرب دوستوں کے تعاون سے امریکی انتظامیہ نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر عراق میں صدام حکومت کو ختم کر دیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کی گرفتاری کا بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ آج طالبان کے ساتھ امریکہ مذاکرات کر رہا ہے اور افغانستان سے واپس جانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکیوں کو زبردست نقصان سے دوچار کرنے والی قوتوں کے ساتھ اوبامہ انتظامیہ کی بات چیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان اور عراق میں امریکی مداخلت کا ہدف طالبان نہیں تھے، بلکہ امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا تھا کہ افغانستان میں القاعدہ نشانہ بنائے اور اسامہ بن لادن طالبان حکومت کے ذریعے ریاستی طاقت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکیں، اور اسکے ساتھ ہی ایران کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے پاکستان اور اٖفغان علاقوں میں جاسوسی کی سرگرمیاں جاری رکھی جاسکیں۔ عراق میں امریکی مداخلت کا ہدف بھی ایران اور شام کو کا گھیراؤ تھا۔

اوبامہ انتظامیہ نے مشرق وسطٰی اور افریقی عرب ممالک میں تبدیلی کی لہر کے ساتھ ہی شام پر حملوں کے لیے پر تولنا شروع کر دیئے تھے۔ شامی حکومت کا موقف ہے کہ امریکی میزائل حملوں کا مقصد شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو سپورٹ فراہم کرنا ہے۔ سمندر میں مستقر بحری بیڑوں سے امریکی میزائل داغیں گئے اور شام کی سرزمین پر موجود باغی عناصر اپنے حامی غیر ملکی جنگجووں کے ساتھ مل کر شامی افواج کے خلاف حملے تیز کریں گے۔ لیکن دوسری طرف شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ سلفی جنگجووں کی ممکنہ کامیابی کے خوف کی وجہ سے امریکہ نے شام میں براہ راست مداخلت کا قدم اٹھایا ہے، تاکہ سیکولر عناصر کو تقویت دی جاسکے۔ حالات جو بھی رخ اختیار کریں، شام سمیت دنیا بھر میں امریکی استعمار کی جارحیت کا مقصد اپنے مفادات کا تحفظ ہے اور مشرق وسطٰی میں اسرائیل کی سکیورٹی، امریکی مفادات کی فہرست میں سب سے پہلی ترجیح ہے۔ شام اسرائیل دشمن ملک ہے اور القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے غیر ملکی جنگجو شامی حکومت کے دشمن ہیں۔ جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ القاعدہ شام کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر اسرائیل کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔

اس وقت سب سے اہم سوال خطے میں حزب اللہ کے کردار کا ہے کہ مشرق وسطٰی کی طاقت ور ترین سیاسی و عسکری قوت کا ردعمل کیا ہوگا۔ حزب اللہ کا موقف ہے کہ شام ہمارا حامی ملک ہے اور ہمارے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل گذشتہ چند ماہ میں کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ حزب اللہ کا عسکری ونگ مکمل طور پر شامی افواج کی مدد کر رہا ہے۔ حزب اللہ کے مدمقابل فری سیرین آرمی کے علاوہ القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے عرب، ترکش، یورپی، افغانی اور پاکستانی عسکریت پسند گروہ ہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کو اس بات پر اختلاف ہے کہ اسرائیلی بمباری اور میزائل حملوں کا بھرپور جواب دینے والی حزب اللہ امریکی میزائل حملوں اور القاعدہ کے زمینی حملوں کا مقابلہ کر پائی گی یا نہیں؟ بی بی زینب(س) کے مزار پر راکٹ حملوں اور لبنانی سرحد پر شیعہ نشین علاقوں میں القاعدہ کی جارحیت نے شام کی خانہ جنگی میں فرقہ وارانہ چھاپ کو گہرا کر دیا ہے۔ لبنانی، عراقی اور غیر عرب شیعہ قوتوں کا موقف ہے کہ کربلا اور دمشق ہمارے لیے جان سے عزیز مقامات ہیں اور ان دونوں مقامات کے تحفظ کے لیے حزب اللہ کسی رکاوٹ کی پروا نہیں کرے گی۔ فرنٹ لائن پر حزب اللہ شیعہ لڑاکا دستوں کی قیادت کر رہی ہے۔ القاعدہ چونکہ سنی العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل عسکری گروہوں کی جماعت ہے، جو فقط سلفی اور برصغیر کے دیوبندی مسلک والوں کو مسلمان سمجھتی ہے، لیکن شیعہ مجتہدین نے کبھی القاعدہ کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا، جس کی وجہ سے عرب دنیا سمیت تمام اسلامی ممالک میں عوامی رائے عامہ ہمیشہ حزب اللہ اور حماس کے حق میں رہی ہے اور انہیں اسرائیل کے خلاف عربوں کے ہیرو ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

القاعدہ کے پکڑے جانے والے جنگجووں کی تفتیشی رپورٹوں میں اس بات کو تکرار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ سوڈان میں اسامہ بن لادن کے قیام کے دوران حزب اللہ کے آپریشنز کی منصوبہ بندی کرنے والے شیعہ گوریلا لیڈر عماد مغنیہ کی ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور ایسی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ امریکہ کے خلاف جہاد کا دعویٰ کرنے والی القاعدہ قیادت کو عماد مغنیہ نے اسرائیل کے خلاف جہاد کی دعوت دی، لیکن سوڈان میں اسامہ کی رہائش گاہ پر امریکی میزائل حملوں کی وجہ سے القاعدہ قیادت افغانستان میں منتقل ہوگئی۔ افغانستان میں طالبان اسامہ بن لادن کے میزبان بنے۔ حزب اللہ اور القاعدہ قیادت کے درمیان ہونے والی بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہی ختم ہوگئی۔ سوڈان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حماس قیادت نے بھی القاعدہ کو اسرائیل کے خلاف مشترکہ جہادی کارروائیوں کی دعوت دی، لیکن حماس کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کے بعد حماس نے محسوس کیا کہ القاعدہ قیادت اپنا مستقر افغانستان کو ہی بنانا چاہتی ہے اور بلاد حرمین یعنی مکہ اور مدینہ کو کفار سے پاک کرنے کا نعرہ لگانی والی القاعدہ قیادت کو اسرائیل کے خلاف جدوجہد سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جس سے حزب اللہ اور حماس کے حلقوں میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ القاعدہ کی ذہنیت یہ ہے کہ پہلے مسلم ممالک کی حکومتوں کے خلاف تخریبی کارروائیوں اور پروپیگنڈہ کے ذریعے شورش برپا کی جائے اور کسی نہ کسی ملک میں ریاستی طاقت حاصل کی جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ اسرائیل کے خلاف جہاد کی حمایت القاعدہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

فرقہ وارانہ رنگ غالب آجانے کی وجہ سے حزب اللہ، شامی حکومت، عراق، ایران اور عرب و غیر عرب شیعہ قوتوں میں مثالی طور پر مقصد کی یکسوئی اور اشتراک عمل پایا جاتا ہے، جس کی بنیاد ایک عقیدہ ہے اور شیعہ مسلک کے عقیدے کی بنیاد نظریہ امامت ہے اور شیعوں کے نزدیک آخری امام کا ظہور ہوگا، جس میں شام کے خطے کا اہم کردار ہوگا، جن کے ساتھ مل کر ان کے حامی یہودیوں اور دنیا کی باطل طاقتوں سے جنگ کریں گے اور کربلا میں مدفون امام حسین، شیعوں کے آخری امام کے جد امجد ہیں، اس لئے شیعہ عقیدے کے مطابق کربلا اور دمشق کی حفاظت کرنا اور ان علاقوں کی آزادی برقرار رکھنا، دنیا میں سچی اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ شیعہ مسلک کے تمام مسلمان امام حسین اور اپنے آخری امام کو نبی آخرالزامان کے اہلبیت ہونے کی وجہ سے اپنی جانوں سے زیادہ عزیز مانتے ہیں اور پوری دنیا سے کروڑوں کی تعداد میں کربلا اور دمشق میں حاضری دیتے ہیں۔ پوری دنیا کے شیعہ مسلمان عقیدے کے لحاظ سے کربلا اور دمشق کے تحفظ کے لیے حزب اللہ، لشکر مہدی اور شام میں حکومت کی طرف سے جنگ کرنے والے شیعہ عساکر کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ شیعہ مسلک کے مسلمان حزب اللہ کو آخری امام کی فوج سمجھتے ہیں اور انکی تائید و حمایت انکا مذہبی فریضہ ہے۔ ایسے میں حزب اللہ کے عسکری ونگ کو شیعہ نشین ملکوں کے سنگم پر واقع دمشق اور کربلا کی آزادی برقرار رکھنا آسان ہے، بہ نسبت اس کے متفرق العقیدہ اور ایک دوسرے کی تکفیر کے قائل القاعدہ عناصر امریکی عسکری ماہرین کی کمانڈ میں شام کو فتح کرلیں۔ القاعدہ کے لیے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ اردن، سعودی عرب اور ترکی شامی حکومت کی تبدیلی تو چاہتے ہیں، لیکن تینوں ممالک ایران کی شیعہ حکومت کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کرسکتے اور نہ ہی القاعدہ کی حمایت میں زبان کھول سکتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ سعودی عرب، سیرین فری آرمی، امریکہ اور القاعدہ کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا ناممکن ہے ۔

حزب اللہ عربوں کی تجربہ کار عسکری طاقت ہے، جنہیں سنی العقیدہ عرب قوتوں کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے، جیسا کہ فلسطین میں حماس نے حزب اللہ مخالف سلفی گروہوں کا صفایا کیا اور مصر کے تحریر اسکوائر میں حسن نصراللہ کی تقریریں سنی جاتی رہی ہیں، حماس اور اخوان المسلمون جب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے تو لبنان کے شیعہ مجتہدین نے انہیں سہارا فراہم کیا۔ حالیہ رمضان میں سید حسن نصراللہ نے حماس اور فلسطین کے تمام راہنماوں کو افطار کی دعوت دی اور برملا طور پر القاعدہ عناصر کو چیلنج کیا کہ وہ اکٹھے ہو کر شام آجائیں، ہم انہیں واپس نہیں جانیں دیں گے، نہ غیر ملکی مداخلت کو باقی رہنے دیں گے، لیکن القاعدہ کے جنگجو گروپوں کو عقیدے کی بنیاد پر دنیا میں کہیں بھی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے کسی مسلک کے جید علماء نے آج تک القاعدہ کے وجود، مقاصد اور طریقہ کار کی تائید کی ہے، بلکہ القاعدہ ایک بے گھر گروہ ہے، جو اسامہ بن لادن کی اپنے ہی ملک سعودی عرب میں ان کی شہریت ختم ہو جانے کی وجہ سے انتقامی جذبے کے تحت وجود میں آیا۔ اس وقت شام میں القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہونے والے سب گروہ غیر ملکی ہیں، لیکن حزب اللہ کے لیے جغرافیائی طور پر شام اور لبنان میں کوئی فرق نہیں۔ القاعدہ اور امریکہ شامی باغیوں کی حمایت کے لیے شام آ رہے ہیں، لیکن حزب اللہ لبنان، فلسطین اور شام کو تحفظ دے رہی ہے۔

شام مخالف دھڑوں کی سپورٹ میں امریکہ کی حلیف سعودی سلفی حکومت القاعدہ پر پابندی لگا چکی ہے، لیکن یہی سعودی حکومت اسرائیل کو اپنے علاقوں سے نکالنے اور پہلی بار شکست سے دوچار کرنے کی خوشی میں حزب اللہ کے ہزاروں جنگجووں کو سرکاری مہمان کی حیثیت سے مکہ اور مدینہ میں بلا چکی ہے۔ عرب ممالک اور ساوتھ ایشاء کے مسلم ممالک کی رائے عامہ شعوری طور اس سوچ کی حامل ہے کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے تمام گروہ امریکہ کے حلیف رہ چکے ہیں، کیونکہ وہ امریکہ کی تخلیق ہیں، لیکن حزب اللہ کی تخلیق کا مقصود ہی لبنان سے امریکہ سمیت تمام استعماری طاقتوں کی افواج کا انخلاء تھا، جس کی خاطر تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی میرینز کو خودکش حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ القاعدہ سے منسلک گروہ اپنے ہی ملکوں کی افواج سے بر سرپیکار ہیں اور عام مسلمان آبادیوں میں معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس حزب اللہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف فلسطینی اور لبنانی عوام کی سکیورٹی کے لیے صہیونی افواج پر حملے کرتی ہے۔

شام میں حزب اللہ ریاستی طاقت کا ساتھ اس لئے دے رہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف اہم حلیف عدم استحکام کا شکار نہ ہو، لیکن القاعدہ صرف مسلکی اختلاف کی بنیاد پر خطے میں طاقت کا توازن اس طرح بدلنا چاہتی ہے، جس کا نتیجہ صرف امریکی اور اسرائیلی بالادستی ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی مذہبی جماعتیں مسلکی تعصب کی وجہ سے شامی حکومت کی مخالف ہیں، لیکن تمام مذہبی جماعتیں پاکستانی طالبان یا شام میں لڑنے والے القاعدہ عسکریت پسندوں کی حمایت سے کترارتی ہیں، جس کے برعکس حزب اللہ کو پوری دنیا میں اعتدال پسند مذہبی جماعتیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔ القاعدہ نے ہمیشہ کسی نہ کسی غیر ملکی طاقت کی سرپرستی میں اپنے حلیفوں اور سرپرستوں کے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے کرایے کے دہشت گردوں کا کردار ادا کیا ہے اور پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں دہشت پسند کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان کی دیوبندی اور سلفی قوتیں مسلسل القاعدہ سے لاتعلقی پر اصرار کرتی ہیں۔ حزب اللہ نے پاکستان سمیت کسی اسلامی ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ حزب اللہ ایک عسکری قوت ہونے کے ساتھ پختہ ترین سفارتی مہارت رکھنے والی مضبوط جمہوری قوت ہے۔

پاکستان میں مغربی دنیا اور امریکہ سے دوستی کا دم بھرنے والے عربوں کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے سمجھوتوں کی بنیاد پر یہ دلیل قائم کرتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لینے میں کوئی عار نہیں، لیکن عربوں کے اسرائیل کے ساتھ سمجھوتوں کے باوجود بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا اسرائیل کے حوالے سے یہ موقف کہ اسرائیل مغرب کی ناجائز اولاد ہے، پاکستانی خارجہ پالیسی کے لیے بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ملت پاکستان بابائے قوم کے راستے پر قائم ہے، حزب اللہ پاکستانی عوام میں ایک ہیرو کے طور پر مقبول ہے۔

امریکہ اور اسرائیل ہمیشہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کے حملوں کا نشانہ بنتے ہیں، جبکہ القاعدہ ایسے عالمی مفرورں پر مشتمل ہے جو مختلف جرائم میں اپنے اپنے ملکوں کو مطلوب ہیں۔ حزب اللہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس اور اپنے مقابلے میں سینکڑوں گنا بڑے دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کی کامیاب جنگی تاریخ کی حامل ہے۔ القاعدہ نے ہمیشہ دہشت گردی کی کارروائیاں کی ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں فراریوں کی فوجیں تیار کی ہیں۔ حزب اللہ لبنان اور شام میں کسی کی پناہ میں نہیں بلکہ علاقے کے استحکام کی ضمانت، خطے میں عالمی طاقتوں کی بالادستی کے خلاف ایک مزاحمتی علامت کے طور پر موجود ہے۔ پوری دنیا کے امن پسندوں کو سید حسن نصراللہ کے وعدے پر یقین ہے کہ جلد ہی شام کو دہشت گردوں سے پاک کر دیا جائے گا اور امریکی حملے شام میں آنے والے شرپسندوں کی گردنیں ذوالفقار کی ضرب سے بچا لئے جانے میں بے سود ثابت ہوں گے، کیونکہ حزب اللہ جرائم پیشہ عناصر اور اغواء برائے تاوان کو تجارت سمجھنے والوں کا گروہ نہیں اور شام افغانستان نہیں بلکہ امریکہ کا قبرستان ثابت ہوگا۔

Add new comment