توجہ طلب مسئلہ

: نذر حافی 
nazarhaffi@yahoo.com

قرآن مجید میں جن دو دریاوں کا ذکر آیا ہے ان میں سے ایک دریائے نیل [1] ہے اور دوسرا دریائے فرات [2]۔ دریائے فرات کو واقعہ کربلا کی وجہ سے شہرت دوّام حاصل ہے جبکہ دریائے نیل کو فرعون کے غرق ہونے کی وجہ سے۔ برّاعظم افریقہ میں بہنے والا دریائے نیل دنیا کا سب سے لمبا دریا ہے جو دراصل نیل ابیض اور نیل ازرق سے مل کر تشکیل پاتا ہے اور یہ دونوں دریا سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے قریب آپس میں ملتے ہیں۔ اس کے بعد 6،695 کلومیٹر یعنی 4،160 میل کا سفر طے کرنے کے بعد بحیرہ روم میں جا گرتا ہے۔ 

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ قدیم مصر کے تمام آثار قدیمہ بھی دریائے نیل کے کناروں کے ساتھ ملتے ہیں۔ مصر کا دارالحکومت قاہرہ اور رقبہ 1،001،450 مربع کلو میٹر ہے یعنی رقبے کے اعتبار سے مصر دنیا کا اٹھائیسواں بڑا ملک ہے اور جغرافیائی اعتبار سے مصر کے مغرب میں لیبیا، جنوب میں سوڈان، مشرق میں بحیرہ احمر، شمال مشرق میں فلسطین اور شمال میں بحیرہ روم ہیں جبکہ آبادی کے حساب سے مصر دنیا کا پندرہواں اور افریقہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ 

19 سے 21 ھ ق کے دوران مصر کو مسلمانوں نے فتح کیا اور اس کے بعد مصر کا شمار اسلامی سلطنت کے اہم ترین مناطق میں ہونے لگا۔ یہیں پر طولونیوں نے پہلی اسلامی حکومت قائم کی، پھر اخشیدیوں، فاطمیوں، اور فاطمیوں کے علاوہ عباسیوں اور عثمانیوں نے بھی حکومت کی۔ اس سارے اسلامی دور میں مصر میں جامعۃ الازہر سمیت کئی شاندار دینی درسگاہیں اور ثقافتی و فلاحی مراکز قائم کئے گئے۔ بعد ازاں مصر پر برطانوی استعمار نے قبضہ کیا جو 18 فروری 1922ء تک برقرار رہا۔ 

1952ء میں ملک فاروق نامی بادشاہ کے خلاف بغاوت کے بعد مصر میں جمہوری سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ 2011ء میں مصر میں زبردست عوامی و اسلامی انقلاب کی لہر اٹھی اور یہ لہر حسنی مبارک کے تیس سالہ اقتدار کو لے ڈوبی۔ جس کے بعد 2012ء کے انتخابات میں اخوان المسلمین کی حکومت قائم ہوئی اور جناب محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے۔ 2012ء کو مصر کے صدر منتخب ہونے والے محمد مرسی کی حکومت کو صرف ایک سال بعد ہی فوجی مداخلت کے ذریعے برطرف کر دیا گیا اور اطلاعات کے مطابق اس وقت مصر میں ایمرجنسی نافذ ہے، جبکہ اپریل 2011ء کو حراست میں لئے جانے والے پچاسی سالہ سابق مصری صدر حسنی مبارک کو اس وقت جیل سے قاہرہ کے ایک فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اپریل سے اب تک عدالتوں میں حسنی مبارک کے خلاف تین مقدمات درج تھے، جن میں سے کرپشن کے دو جبکہ مظاہرین کے قتل عام کا ایک مقدمہ شامل تھا۔ 

حسنی مبارک کو ایک ایسے وقت میں رہا کیا گیا ہے کہ جب مصر میں اخوان المسلمین کی آئینی و دینی اور جمہوری حکومت برطرف ہوچکی ہے اور مسندِ اقتدار پر اس وقت ایسی حکومت قابض ہے، جسے آئین اور عوام کے بجائے مکمل طور پر امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی کھلم کھلا تائید اور واضح طور پر مدد حاصل ہے۔ اخوان المسلمین کے ایک سالہ دورِ اقتدار کی اگر چھان بین کی جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اخوان المسلمین کے ساتھ سعودی عرب اور امریکہ نے وہی کچھ کیا ہے، جو انہوں نے افغانستان میں جاری جہاد کے ساتھ کیا تھا۔ 

سب سے پہلے افغانستان میں تحریک جہاد کو جدید اسلحے، فوجی امداد اور سیاسی تعاون کے ذریعے اغوا کیا، جب اغوا کرچکے تو پھر مجاہدین کو ان کے اصلی ہدف سے منحرف کرنے اور انہیں کمزور کرنے کے لئے ان کے درمیان اختلافات کو ابھارا، اور پھر انہی مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے مجاہدین نما درندے تیار کئے، جنہوں نے نہتے اور بے گناہ انسانوں پر شب خون مارا۔ اس شب خون اور ظلم و ستم کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان ایک مستقل اور حقیقی اسلامی جمہوریہ بننے کے بجائے امریکہ کا دستِ نگر بن کر رہ گیا۔ 

بالکل ایسا ہی مصر میں اخوان المسلمین کے ساتھ بھی کیا گیا۔ دراصل امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب تینوں کو معلوم ہے کہ اگر دنیا میں اسلامی تحریکیں انقلاب لانے لگیں اور اقتدار بدلنے لگیں تو نہ صرف یہ کہ اسلامی ممالک امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں سے نکل جائیں گے بلکہ سعودی عرب میں قائم بادشاہت بھی نہیں چل سکے گی۔ چنانچہ اخوان المسلمین کے برسرِ اقتدار آتے ہی مذکورہ تینوں ممالک نے اخوان المسلمین کو نظریاتی طور پر اغواء کرنے اور حالات کو تیزی کے ساتھ افغانستان کی مانندخراب کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں مصری عوام کو اخوان المسلمین سے متنفر کرنے کے لئے افغانستان کی مانند قتل و غارت کا بازار گرم کیا گیا اور اس قتل و غارت کو بھی جہاد کا نام دیا گیا۔ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اس خون خرابے کے پیچھے اخوان المسلمین کے "مجاہدین" کا ہاتھ ہے۔ دنیا بھر سے دہشت گردوں کو مصر میں لانے کا منصوبہ بنایا گیا اور مصر کے صدر مرسی سے بھی پے درپے کئی غلطیاں کروائی گئیں، جن میں سے ایک بڑی غلطی یہ تھی کہ محمد مرسی نے سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کی ایماء پر شام میں سرگرم مسلح باغیوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ 

صدر مرسی سے یہ حمایت اس لئے کروائی گئی تاکہ اخوان المسلمین عالم اسلام کی رہنمائی، مصر کی فلاح و بہبود اور دیگر اسلامی تحریکوں کی سرپرستی کے بجائے فرقہ وارانہ اور علاقائی لڑائیوں میں الجھ جائے۔ مصر کو امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اس الجھاو میں پھنسانا تو چاہتے تھے لیکن اخوان المسلمین کی مضبوط نظریاتی بنیادیں اور لیڈرشپ اس سلسلے میں آڑے آرہی تھی، سو اخوان المسلمین کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کروایا گیا اور صرف چار روزہ جلسے جلوسوں کو بہانہ بنا کر مصر کی آرمی نے اخوان المسلمین کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ 

آرمی کے برسرِ اقتدار آتے ہی امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب نے مصری فوج کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور اس وقت تک ان ممالک کی آشیرباد کے باعث مصری فوج گذشتہ تین ہفتوں کے دوران 3 ہزار سے زائد نہتّے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے اور قتلِ عام کا یہ سلسلہ تادمِ تحریر جاری ہے۔توجہ طلب مسئلہ ہے  کہ اخوان المسلمین کو شدت پسندی اور دہشت گردی میں جھونکنے کے لئے تو سعودی عرب صدر مرسی کی کمر ٹھونک رہا تھا، لیکن اب صدر مرسی اور اخوان المسلمین کے خلاف فوج کی حمایت کر رہا ہے۔ 

صدر مرسی کے ہاتھوں اخوان المسلمین کے اقتدار ختم ہونے کے اس سانحے میں ہر باشعور انسان کے لئے یہ تین پیغام موجود ہیں۔ 
1۔ ایک شخص کوئی سسٹم بنا نہیں سکتا لیکن پورے سسٹم کو خراب کرسکتا ہے۔ 
2۔ تنظیموں کے سربراہوں کی غلطیوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 
3۔ سعودی عرب کی حکومت کسی اسلامی مسلک یا مکتب کی ترجمان نہیں بلکہ سعودی حکمران صرف اور صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے "جہاد" کے نعرے کو استعمال کرتے ہیں۔ لہذا سعودی عرب کے حکمرانوں کے اقدامات کو کسی دینی مسلک یا فرقے کی رائے نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ 

ایسے میں پاکستان میں موجود تمام دینی و نظریاتی نیز سیاسی و جہادی تنظیموں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مصری افواج کے مظالم کو رکوانے کے لئے سعودی، امریکی ا ور اسرائیلی حکمرانوں پر دباو ڈالیں۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں سعودی عرب کے سفارتخانوں کے سامنے نہ ختم ہونے والے مظاہروں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کیا جائے۔ خصوصاً وہ تنظیمیں اور جہادی گروہ جن کے سعودی عرب کے ساتھ خاص مراسم ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اپنا تمام تر اثر و رسوخ استعمال کرکے سعودی حکومت کو مصری فوج کی حمایت سے روکیں۔ 

اگر صرف سعودی عرب ہی مصری فوج کے سر سے اپنا دستِ شفقت اٹھالے تو مصری فوج کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی اور کئی بے گناہ مسلمانوں کی جانیں بچ جائیں گی۔ اسی طرح حسنی مبارک جیسے ڈکٹیٹر کی رہائی اور بہت سارے دیگر امریکی و اسرائیلی منصوبوں کو دھچکا لگے گا۔ لیکن اگر سعودی حکومت نے مصری فوج کی حمایت جاری رکھی تو نہ صرف یہ کہ اخوان المسلمین پر پابندی لگنے کا امکان ہے بلکہ اگلے چند دنوں میں مصر کے مسلمانوں پر نجانے ظلم و ستم کے مزید کتنے پہاڑ توڑے جائیں گے۔ 
-------------------------------------------------------------------------------- 
[1] سورہ انبیاء 
[2] سورہ فرقان

Add new comment