شام کے خلاف فوجی اقدام
محمد علی نقوی
اس وقت عالمی میڈیا کا سب سے برننگ ایشوشام کے خلاف فوجی اقدام ہے۔ ہر طرف سے حملے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، کیا حملہ یقینی ہے،؟ اس پر کوئی قطعی رائے نہیں دی جاسکتی۔ تاہم امریکہ سمیت مغربی نیز سعودی عرب اور ترکی کے اگر تیور دیکھے جائیں تو صورتحال انتہائی گھمبیر نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریۂ ایران کی وزرارت خارجہ کے ترجمان نے خبردار کیا ہے کہ شام میں ہر قسم کا فوجی اقدام پورے علاقے کے لئے خطرناک ثابت ہوگا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کی وزرارت خارجہ کے ترجمان سید عباس عراقچی نے ملکی اور غیر ملکی نامہ نگاروں کے ساتھ پریس کانفرنس ميں شام پر فوجی حملے اور اس سلسلے میں امریکہ کی دوغلی پالیسی پر مبنی مسائل کے منظر عام پر آنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ شام پر فوجی حملوں پر مبنی جو اظہار خیال بعض امریکی اور یورپی حکام کر رہے ہیں، ان میں ضروری حد تک عقل و شعور ہونا چاہئے۔
عباس عراقـچی نے اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ حالیہ دنوں میں امریکہ اور اس کے بعض اتحادیوں کے توسط سے شام کے خلاف حملے کے لئے بڑے پیمانے پر پروپگنڈے کئے گئے ہيں، کہا کہ ایسے دلائل و شواہد پائے جاتے ہيں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال دہشت گردوں نے کیا ہے اور ان دستاویزات کو روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اسی طرح اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے نائب برائے سیاسی امور "جفری فلتمن" کے دورۂ ایران کے بارے میں کہا کہ شام پر فوجی حملے کے سلسلے ميں فلتمن کو ایران کے موقف سے واضح طور پر آگاہ کر دیا گيا ہے۔
ادھر شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک کی شام میں فوجی مداخلت ناکامی سے دوچار ہوگی۔ روس کے ایک روزنامہ کے ساتھ انٹرویو میں بشار الاسد نے شامی باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی سختی سے تردید کی، ان کا کہنا تھا کہ اپنے ہی لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرنے کا الزام احمقانہ بات ہے اور مغربی ممالک کے پراپیگینڈہ کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا، انھوں نے یہ بھی کہا کہ مغربی ممالک کی شام میں جنگ کروانے کی سازش ناکام ہوگئی ہے۔ شامی صدر بشار الاسد نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ شام کیخلاف کسی بھی کارروائی کی غلطی نہ کرے، ورنہ اسے سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امریکہ شام کیخلاف جارحیت اور فوجی کارروائی کا ارادہ تبدیل کر دے تو اس کیلئے اچھا ہوگا ورنہ وہ اپنی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنے اور بدترین ناکامی کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہے۔ شام نے خبردار کیا ہے کہ اس ملک کے خلاف فوجی حملے کی صورت میں وہ اسرائیل کو بھی نشانہ بنائے گا۔ فلسطینی نیوز ایجنسی سما کی رپورٹ کے مطابق شام کی اطلاعات و نشریات کے ایک اعلٰی عہدیدار "خلف المفتاح" نے کہا ہے کہ اگر مغربی ممالک کیمیاوی ہتھیاروں کے بہانے سے شام پر حملہ کرتے ہیں تو اسرائيل بھی شامی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے گا۔
درایں اثنا امریکی وزیر جنگ چک ہیگل نے کہا ہے کہ شام کے خلاف فوجی حملے سمیت کئی آپشنز پر غور کر رہے ہیں، حملے سے متعلق صدر بارک اوباما کے فیصلے کا انتظار ہے، بارک اوباما کی جانب سے فیصلے کی صورت میں فوج کو حرکت میں لایا جائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی کمانڈروں نے دمشق پر حملے سے متعلق کئی آپشنز تیار کر رکھے ہیں شام کے خلاف ممکنہ کارروائی کے لئے امریکہ نے بحری بیڑے کو تیار رہنے کا حکم دے دیا، امریکی وزیر جنگ چک ہیگل کا کہنا ہے صدر اوباما مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں جبکہ امریکی فوج اور دوسرا ساز و سامان تیار کیا جا رہا ہے، تاکہ فوری طور پر اسے آگے بڑھایا جاسکے۔ دوسری جانب صدر اوباما نے ایک بار پھر کہا ہے شام میں فوجی مداخلت آسان نہیں، اس کے لئے اتحادیوں کی حمایت اور اقوام متحدہ کی اجازت چاہئے۔
ادھر خبریں ہیں کہ مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کی مانند شام پر جارحیت کے اخراجات بھی سعودی عرب برداشت کرے گا۔ شام کے خلاف محاذ آرائی کا واحد مقصد اسرائیل کے خلاف فرنٹ لائن کے واحد عرب ملک کا اقتدار امریکہ نواز حکمرانوں کے سپرد کرنا ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب نے حال ہی میں مصر میں اخوان المسلین کی قانونی حکومت کے صدر محمد مرسی کے خلاف فوجی بغاوت کے تمام اخراجات قبول کرکے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی رہائی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، جسے عرب اور
اسلامی حلقوں میں سعودی عرب کے شرمناک کردار سے تعبیر کیا جا رہا۔ تجزیہ نگاروں کے بقول شام میں ایک ایسی بڑی بریکنگ نیوز کی ضرورت تھی کہ مصر میں اخوانیوں کے قتل عام کو چھوڑ کر میڈیا شام کی جانب پھر سے رخ کرے، یا کم از کم شام کی خبر سرخیوں میں آجائے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عالمی میڈیا خاص طور پر عرب میڈیا میں مصری عوام کا قتل عام دب گیا اور شام میں کیمیکل حملے کی خبر چھا گئی اور اس خبر کو تازہ رکھنے کے لئے سکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلایا گیا، جس میں ہوا تو کچھ بھی نہیں، لیکن شام کی خبر کو سرخیوں میں رکھنے میں مدد ملی۔
دوسری جانب شام میں کیمیکل حملے کی حقیقت کھل کر سامنے آئی اور اس بات کا علم ہوا کہ یہ حملہ دہشتگردوں کی جانب سے ہوا تھا اور اس کے ثبوت بھی سامنے آئے تو امریکہ نے فوراً اپنے جنگی بحری بیڑے کو شام کی جانب دوڑا دیا، جس کے بعد گویا کہ عالمی منظر نامے میں آنے والے ممکنہ حالات سے متعلق اندازوں کے گھوڑوں نے دوڑنا شروع کر دیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ گھوڑے تخمین و ظن تک رہتے ہیں یا پھر حقیقت کا روپ بھی دھارتے ہیں۔
فی الحال امریکیوں کے مرکز جنگ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکہ شام پر ایسے حملے کرے گا جس میں امریکیوں کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو یعنی کہ کروز میزائیلوں کا حملہ ہوگا، جو مخصوص اہداف کو نشانہ بنائینگے جبکہ دوسری جانب خود امریکی یہ بھی کہتے ہیں کہ شام میں بری افواج کے داخلے کے بغیر حکومت کو نہیں گرایا جاسکتا۔ ادھر اردن میں بھی جو تیاریاں نظر آرہیں ہیں، وہ کسی ممکنہ بڑی جنگ کی خبر دے رہی ہیں۔
کیا امریکہ شام پر حملہ کرے گا؟ کیا حملے کے لئے ماحول سازگار ہے؟ اس حملے کے بعد صورتحال کیا ہوگی؟ کیا ایک بڑی جنگ کا آغاز ہوگا؟ اسکا جواب بہت جلد واضح ہو جائیگا۔ کیا امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لئے دنیا کو ایک اور جنگ میں جھونکنے کے لئے تیار ہے؟ حالانکہ تازہ ترین سروے کے مطابق امریکی شہریوں کی ساٹھ فیصد سے زیادہ تعداد شام میں امریکی فوجی مداخلت کی شدید مخالف ہے۔ اگر ماضی کے حالات کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے تو سعودی عرب میں امریکی افواج اتارنے سے قبل عراق کی کویت پر چڑھائی ہوئی تھی، افغانستان میں امریکی افواج اتارنے سے قبل بامیان کے بتوں کو توڑا گیا تھا، اور پاکستان میں ہمنوا حکومت لانے کے لیے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا، اور یوں یہاں ایک ایسی حکومت قائم کی گئی جو ہر طرح سے امریکیوں کی مددگار ہو۔ پھر گیارہ ستمبر کا واقعہ ہوگیا۔ اب مصر و شام کو کنٹرول کرنے اور اسرائیل کو تحفظ دینے کے لیے امریکی افواج کی موجودگی ضروری ہوگئی ہے۔
انسانی حقوق کے بہت سے حامی ادارے بھی امریکی فوج کو شام میں اتارنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ اگر امریکی افواج شام میں اتر گئیں تو اردن اور لبنان کے راستے ان کی پہنچ اسرائیل اور مصر تک ہوگی۔ یہ فاصلہ بھی محض ساڑھے سات سو میل ہے۔ اتنے قریب امریکی افواج کی موجودگی کا مقصد محض شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو روکنا نہیں ہوسکتا۔ امریکی افواج اس خطے میں موجود رہنا چاہتی ہیں، اس کے لیے ان کی موجودگی کا آدھا پونا جواز تو ہونا ہی چاہیے تھا۔ آنے والے دن بڑے اہم ہیں۔ سب مل کر شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر آنسو بہا رہے ہیں اور امریکہ کو اپنی فوج شام میں اتارنے کی اجازت دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ مصر میں اخوان کے خلاف کیمیائی گیس کے استعمال پر احتجاج نہیں کر رہے، مظاہرین کو ان کے حق سے محروم کرکے رابعۃ العدویہ پر ٹینک چڑھانے اور شہداء کی لاشیں جلانے پر خاموش ہیں۔
شام کی طرف سے عالمی ادارے کے انسپکٹروں کو کیمیائی حملے سے متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت دینے سے امید تھی کہ شام کی خانہ جنگی میں امریکہ، برطانیہ اور نیٹو کی مداخلت کا جواز کم ہو جائیگا مگر حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ و برطانیہ کے لب و لہجے میں کوئی نرمی نہیں آئی اور وہ کیمیائی گیس استعمال کرنے کے الزامات کی آڑ میں شام پر فوج کشی یا حملے کیلئے پرتول رہے ہیں، جس پر شام ایران اور روس نے سخت خطرناک نتائج اور مشرقی وسطٰی میں تباہی و بربادی کے علاوہ عالمی جنگ چھڑنے سے بھی خبردار کیا ہے۔ اس سے قبل عراق میں بھی کیمیائی ہتھیاروں کے نام پر تباہی و بربادی کا جو کھیل کھیلا گیا وہ سب کے سامنے ہے اور وہاں اب تک حالات ابتر ہیں۔ ان حالات میں امریکہ اور برطانیہ نے اگر شام میں فوجی مداخلت کی تو یہ دنیا بھر کے امن کیلئے خطرناک ہوگا۔ بہرحال اب مسلم ممالک، عرب لیگ، عالمی ادارے، اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جنگ کے شعلوں کو ٹھنڈا کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، ورنہ کئی ملک اس جنگ کی لپیٹ میں آجائیں گے۔
Add new comment