آنکھ اور دل کی نابینائی

آنکھ  اور دل کی نابینائی

عرف عام اور قرآن مجید کی تعیرف کے مطابق نابینائی کی دو قسمیں ہیں ایک آنکھوں کی نابینائی دوسرے دل اور عقل کی نابینائی۔وہ لو گ جو آنکھ سے محروم ہوتے ہیں وہ معصوم ہیں اور خدائے متعال کی رحمت و مہربانی ان کے شامل حال ہے۔قرآن مجید نے میں یہ عبارت دو مرتبہ تکرار ہوئی ہے کہ لیس علی الاعمیٰ حرج نابینا افراد کے لئے کوئی حرج اور کوئی گناہ نہیں ہے ۔اسی طرح سورۂ نساء کی 95 ویں آیت کے مطابق بھی دیگر معذور افراد کی طرح جہاد سے معا ف کر دیئے گئے ہیں۔
جب سورہء بنی اسرائیل کی 72 ویں آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم کے وہ اصحاب جو نابینا تھے آیت کےظاہری مطلب کو دیکھ غمگین ہوگئے آیت یہ ہے : و من کان فی ھٰذہ اعمیٰ فھو فی الاخرۃ اعمی و اضل سبیلا جو بھی اس دنیا میں نابینا ہو گا وہ آخرت میں نابینا ہو گا بلکہ اس سے بھی زیادہ گمراہ ہو گا ۔لیکن رسول خدا نے اپنے اصحاب کی دلنوازی فرمائی اور فرمایا کہ مذکورہ آیت سے خدا وند متعال کی مراد وہ لوگ ہیں جو دل کے اندھے ہیں نہ کہ وہ لوگ جو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔شاید سورۂ حج کی 46 ویں آیت اسی گلط فہمی کو دور کرنے کئے لئے نازل ہوئی تھی کہ افلم یسیرو فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او آذان یسمعون بھا فانھا ال تعمی الابصار و لکن تعمیٰ القلوب التی فی الصدور
کیا ان لوگوں نے زمین کی سیر نہیں کی ہے تا کہ ان کے دل اس کے ذریعہ حق باتو کو سمجھے۔یا ان کے کان ایسے ہو گئے ہیں کہ جس کے ذریعہ سچی باتوں کو سنتے کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں بلکہ جو دل سینے کے اندر ہوتے ہیں وہ اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔قرآن مجید میں اس مطلب کی تائید میں متعدد آیتیں موجود ہیں ۔ایک جگہ ارشاد ہوا :لھم قلوب لا یفقھون بھا و لھم این لا یبصرون بھا گمراہ اورحق سے مقابلہ کرے والے افراد دل تو رکھتے ہیں لیکن اس کے ذریعہ سمجھتے نہیں آنکھیں تو رکھتے ہیں لیکن اس سے دیکھتے نہیں۔واضح ہے کہ یہ دیکھنا اور اس آنکھ سے مراد ظاہری چشم اور ظاہری بینائی ہے بلکہ اس سے مراد بصیرت اور باطنی اور باطنی نگاہ ہے جو انسان کی کامیابی کا سر چشمہ ہے۔
قرآن مجید کا ایک سورہ جو مختصر سوروں میں شمار ہو تا ہے اورمکی سورے کے زمرے میں آتا ہے ایک نابینا کی حکایت ہے جو نا مناسب موقع پر رسول اکرم کی خدمت میں بھرے مجمع میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ کفار کی بعض بزرگ شخصیتوں کو صراط مستقیم پر ایمان لانے کی دعوت دینے کے معراجی مراحل کو طے کر رہے تھے لہذا آپ نے اس کی احوال پرسی نہیں اور اسے خوش آمدید نیہں کہا اوریہ امر سبب قرار پایا کہ خداوند متعال نے اس نابینا شخص کی دلجوئی کرے اور پیغمبر اکرم اور ان کے اصحاب سے سخت اور تنبیہ کے لہجہ میں گفتگو کرے۔اس سورہ کا نام عبس ہے اور وہ اس طرح شروع ہوتا ہے :
عبس وتولیٰ ان جاءہ الاعمیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تو اتنی بات پر چیں بر چیں ہو گیا اور منہ پھیر بیٹھا کہ اس کے پاس نابینا آگیا اور تم کو کیا معلوم شاید وہ تعلیم سے پاکیزگی حاصل کر تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر سورہ تک جو 42 آیتوں پر مشتمل ہے تقریباً اسی سلسلے میں گفتگو ہے ۔اہل سنت مفسرین نے اس آیت کے عتاب و خطاب کی نسبت خود پیغمبر اکرم کی طرف دی ہے کہ خود رسول اکرم نے ام مکتوم کو دیکھ کر اپنا منھ پھیر لیا تھا۔لیکن شیعہ مفسرین نے بالاجماع اس آیت کا روئے سخن بعض اصحاب کی طرف قرا ر دیا ہے کہ جنہوں نے ام مکتوم جسیسے بزرگ صحابی کو دیکھ کر اپنا منہ پھیر لیا تھا کہ جو نابینا تھے ۔نیز بعض تفسیروں میں یہ خطاب کی نسبت بعض مشرکین کی طرف دی گئی ہے جو نابینا افراد سے نفرت کرتے تھے۔ورنہ پیغمبر اکرم کہ جو خلق عظیم کے درجہ پر فائز ہو بھلا وہ اس طرح کے قبیح اور اخلاق سے عاری عمل کو کیسے انجام دے سکتا اس طرح کا برتاؤ تو آپ کے غلاموں کی بھی شان کے برخلاف ہےبہر حال یہ پیغمبر اکرم کے سلسلے میں مفسرین کی اپنی اپنی معرفت اور بینش کا نتیجہ ہے۔اس سورہ کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ سورہ ایک نابینا کی دلجوئی اور دلنوازی کے لئے نازل ہوا اور تمام مخاطبان قرآن کے لئے ایک درس عبرت ہے تا کہ وہ کسی نابینا شخص کی توہین نہ کریں

Add new comment