والدين کا احترام
والدين کا احترام
سید تاجدار حسین زیدی
قرآن کریم اور اہل بیت اطہار نے ہم کو مخلتف مقامات پر مختلف طریقہ سے احترام والدین کی طرف توجہ دلائی ہے- يہ حکم قرآن کريم کے چار سوروں ميں مستقل طور پر مسئلہ توحيد کے بعد بيان ہوا ہے-
اس کے علاوہ قرآن مجید نے مختلف مقامات پر والدین کے احترام کے مسئلہ پر توجہ دی ہے اور ہم کو اسکا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے
ان آیات کے کلی پیغام کو ایک خلاصہ کے طور پر پیش کیا جائے تو یہ ہوگا: انسان کو زندگی کے ہر مرحلہ میں اپنے والدین کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئیے ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے لہجہ کا خیال رکھنا چاہئیے، اچھا سلوک کرنا چاہئیے حتی کی قرآن نے یہ بھی اجازت نہیں دی ہے کہ ان کا احکام اور ان دستورات پر اف بھی کیا جائے یعنی قرآن کہنا یہ چاہ رہا ہے کہ کم کم لفظ پو ان کی بے احترامی میں تمہاری طرف سے ہو سکتا ہے وہ ہے "اف" اور تم کو یہ کہنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔
ہم کو یہی روش ائمہ معصومین کی زندگی اور ان کے کلام میں بھی واضح طور سے نظر آتی ہے
نیچے ذکت کی جانے والی روایتیں والدین کے احترام کی اہمیت اور اس کی فظمت کو بیان کر رہی ہیں۔
منصور بن حازم کہتے ہيں: امام صادق عليہ السلام سے ميں نے پوچھا: اي الاعمال افضل؛
کون سا عمل افضل ہے؟
آپ نے فرمايا: الصلوۃ لوقتھا و بر الوالدين و الجھاد في سبيل اللہ؛
نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا، والدين کے ساتھ نيکي کرنا اور راہ خدا ميں جہاد کرنا
دوسري روايت ميں، ہم پڑھتے ہیں۔ ايک شخص نے رسول خدا [ص] سے حقوق والدين کے بارے ميں سوال کيا: آنحضرت نے فرمايا: لايسميہ باسمہ و لا يمشي بين يديہ و لا يجلس قبلہ و لا يستسبّ لہ
اپنے باپ کو اس کے نام سے نہ بلائے اس سے آگے راستہ نہ چلے اس سے پہلے نہ بيٹھے- اور سب و شتم کا زمينہ فراہم نہ کرے-
حد تو یہ ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے اقوال سے ہم کو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے حتی غیر مسلم والدین ے احترام کے بارے میں بھی بہت تاکید کی ہے، اور ہم کو تاریخ میں اس کے بے شمار نمونہ مل جاتے ہیں ہم یہاں پر کچھ کو نمونہ کے طور پر قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے تا کہ والدین کے احترام کی اہمیت اور اس پر ائمہ کی تاکید واضح ہو سکے۔
ايک جوان احتضار کي حالت ميں تھا شہادتين کو اپني زبان پر جاري نہيں کر پا رہا تھا- رسول خدا [ص] اس مشکل کي طرف متوجہ ہو گئے- اس کي ماں کو بلايا اور اس سے رضايت حاصل کي- اس کے بعد اس جوان نے شہادتين کو زبان پر جاري کيا- پيغمبر اسلام نے اسے دستور ديا کہ يہ دعا کرے: «يا من يقبل اليسير و يعفو عن الکثير اقبل منّى اليسير واعف عنّى الکثير إنّک أنت الغفور الرّحيم» اس جوان نے ديا دعا کي خدا وند عالم نے اس کے گناہوں کو بخش ديا۔
۲۔ امام سجاد عليہ السلام کا ماں کے ساتھ ايک برتن ميں کھانا کھانے سے انکار کرنا اہلبيت [ع] کے نزديک والدين کے احترام کا ايک نمونہ ہے- ايک شخص نے پوچھا: آپ تو احسان اور نيکي کے ميدان ميں بہترين لوگوں ميں سے ہيں پس کيوں اپني ماں کے ساتھ کھانا نہيں کھاتے؟ امام نے فرمايا: ميں نہيں چاہتا کہ جس لقمہ کو ميں اٹھالوں ماں نے اس کے اٹھانے کا ارادہ کر رکھا ہو۔
۳۔ ايک عورت پيغمبر اسلام [ص] کي خدمت ميں شرفياب ہوئي پيغمبر[ص] اس کو ديکھنے سے بہت خوش ہوئے اور اپني عبا اس کے پيروں کے نيچے بچھائي اس حال ميں کہ لبوں پر تبسم تھا اور اس سے گفتگو کرنے لگے۔
روایتوں اور اس میں اہلبیت علیہم السلام کے سلوک سے ہم کو پتا چلتا ہے کہ والدین کا احترام ایک بہت اہم موضوع ہے اور ہم کو اس کا خیار رکھنا چاہئیے اور ہم کو ان کے حکم کو بنا چوں و چرا عمل میں لانا چاہئیے۔ ہم اس موضوع کو معصومین کے کلام میں اور زیادہ واضح کرنے کے لئے کچھ احادیث ذکر کر رہے ہیں۔
۱۔ جب بھی دیکھو محبت سے دیکھو
قال رسول الله صلّي الله عليه و آله: نَظَرَ الوَلَد الي والدَيهِ حُبّاً لهُما عبادَة.
بحار الانوار، ج 74، ص 80۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: والدین کی طرف محبت کے ساتھ دیکھنا عبادت ہے۔
۲۔ جیسی کرنی ویسی بھرنی
قال الامام علي عليه السّلام: مَنْ بَرَّ والديهِ بَرَّهُ ولدُهُ.
تصنیف غرر الحكم، ص 407، ح 9341۔
ترجمہ: علی علیہ السلام نے فرمایا: جس نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی اس کے فرزند اس کے ساتھ نیکی کریں گے۔
۳۔ خدا کی نافرمانی کے سوا ہر چیز میں اطاعت کرو
قال الامام علي عليه السّلام: ... حقّ الوالِدِ أن يطيعَهُ في كلّ شئٍ الاّ في معصيةِ اللهِ سبحانَهُ.
نهج البلاغه، حکمت 339۔
ترجمہ: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: والد کا حق یہ ہے کہ فرزند ہر چیز میں اس کی اطاعت کرے سوائے اللہ سبحانہ کی نافرمانی کے۔
۴۔ والدین سے اف تک نہ کہو (تفسیر آیت)
قال الامام الصّادق عليه السّلام: وأما قول الله عزوجل " إما يبلغن عندك الكبر أحدهما أو كلاهما فلا تقل لهما اف ولا تنهرهما " قال: إن أضجراك فلا تقل لهما اف ولا تنهرهما إن ضرباك قال " وقل لهما قولا كريما (اسراء: 23) قال: إن ضرباك فقل لهما: غفر الله لكما فذلك منك قول كريم، قال: "واخفض لهما جناح الذل من الرحمة" (بني اسرائيل آيت 24) قال لا تمل عينيك من النظر إليهما إلا برحمة ورقة، ولا ترفع صوتك فوق أصواتهما، ولا يدك فوق أيديهما ولا تقدم قدامهما.
بحارالانوار، ج 71، ص 40۔
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اور اللہ تعالی کا یہ قول شریف کہ "اگر تمہارے پاس کبر سنی کی منزل تک پہنچ گیا ان میں سے ایک یا وہ دونوں تو ان سے اف بھی نہ کرو اور نہ ان کو جھڑکی دو" کا مطلب ہے کہ اگر والدین تمہیں اذیت دیں تو تم ان کو "اف" تک نہ کہو اور ان کو جھڑکی مت دو۔ اور ان سے اعزاز کے انداز میں بات کرو۔ امام صادق علیہ السلام نے مزید فرمایا: (خداوند متعال کے اس قول: ) " اور ان دونوں کے لیے تذلیل کے ساتھ اپنے بازو کو جھکائے رکھو مہربانی سے اور کہو کہ پروردگار! اپنی رحمت ان دونوں کے شامل حال فرما" سے مراد یہ ہے کہ اپنی ان کو گور گور کر نہ دیکھو مگر محبت اور نرمی کے ساتھ، اور اپنی آواز ان کی آواز پر بلند نہ کرو اور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر مت لے جاؤ اور ان سے سبق نہ لو۔
۵۔ والدین کا شکر کرو ورنہ...
قال الامام الرضا عليه السّلام: انَّ اللهَ عزّوجلّ ... أمر بالشّكر لهُ و بالوالدين فمن لم يشكر والديه لم يشكرُ الله.
بحارالانوار، ج 71 ص 77۔
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: بے شک خداوند متعال نے والدین کا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جس نے اپنے والدین کا شکر ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔
۶۔ تین چیزیں کبھی ترک نہ کرو
قال الامام الباقر عليه السّلام: ثلاث لم يجعل الله لاحد فيهن رخصة: أداء الامانة إلى البر والفاجر، والوفاء بالعهد للبر والفاجر، و بر الوالدين برين كانا أو فاجرين..
وسائل الشیعه، ج 21، ص 491۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: خداوند سبحان نے کسی کو بھی تین چیزیں ترک کرنے کی اجازت نہيں دی ہے:
1۔ امانت کو صاحب امانت کو لوٹانا خواہ صاحب امانت نیک انسان ہو خواہ فاجر اور گنہکار۔
2۔ عہد پورا کرنا چاہے تم نے عہد نیک انسان سے کیا ہو چاہے برے انسان سے۔
3۔ والدین کے ساتھ نیکی کرنا چاہے وہ اچھے اور نیک ہوں چاہے گنہگار اور فاجر ہوں۔
Add new comment