حضرت حمزہ کی مختصر سوانح حیات

حضرت حمزہ کی مختصر سوانح حیات

سید تاجدار حسین زیدی

حمزہ بن عبد المطلب پیغمر اسلام کے چچا تھے اور آپ کی ولادت سے دو سال پہلے اس دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں۔
قریش کے جوانوں کے بیچ آپ بہادری، بزرگواری، اونچی سوچ والے اور ظلم کے خلاف لڑنے والے انسان کے طور پر معروف تھے
آپکے کہ بہادری اور دلیری آپ کی جوانی کے ساتھ ہی دکھائی دینے لگی تھی۔
انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی مشرکوں کی اذیت اور تکالیف کے مقابلہ میں رسول کا دفاع کیا اور آپ کا اسلام قبول کرنا، اسلام کی ترقی اور پیشرف کا سبب بنا کیوں کہ آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد اب اسلام کو ایک بہادر اور دلیر محافظ مل گیا تھا، اور جب قریش نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی پیغمبر{ص} کو ستانا کم کر دیا تھا۔
آپ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کی اور فوجی و عسکری طور پر اسلام کی بہت خدمت کی۔
پیغمبر اسلام {ص}، اسلام کی نو ظہور فوج کے دفاعی مسائل پر بہت توجہ دہتے تھے اور آپ نے مختلف گروہ بنا کر مدینہ کی محافظت کا انتظام کیا تا کہ وہ مشرکین کے حملہ سے محفوظ رہ سکے۔ آپ نے مسلمانوں کو ان سے مقابلہ کے لئے تیا کیا۔ اور اسی غرض سے ہجرت کے سات مہینہ بعد حضرت حمزہ کی قیادت میں پہلا گشتی دستہ تیار کیا اور بھیجا اگرچہ اسمیں کوئی جنگ نہیں ہوئی لیکن یہ مشرکین کے مقابلہ میں اسلام کی قدرت کا مظاہرہ تھا
رسول اسلام {ص} نے سن دو ہجری کو ربیع الاول کے مہینہ میں غزوہ "ابواء" کے لئے فوج کو تیار کیا اور جمادی الاول کے مہینہ میں "ذات العشیرہ" کو قریش کے کاروان کی تعقیب کے لئے آمادہ کیا۔ اور ان دونوں غزوں میں بھی اسلام کے پرچمدار حضرت حمزہ ہی تھے
آپ نے بدر کی جنگ میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اور اس جنگ میں خدا کی مدد حضرت علی علیہ السلام کی ہمت سے اسلامی فوج فتح سے ہمکنار ہوئی۔ اس جنگ میں قریش کے کئی سرداروں کو حضرت حمزہ نے واصل جہنم کیا، "طعیمہ بن عدی" اور "ابو قیس بن فلکہ" انہیں  میں سے تھے اور "اسود بن عامر" کو آپنے اسیر کیا۔ آپ غزوہ "بنی قینقاع" میں بھی اسلام کے پرچمدار تھے۔ بنی قینقاع کے ہیودیوں وہ پہلا گروہ تھا جس نے اسلام سے جنگ کی۔ اسلامی فوج نے ان کے قلعہ کو گھیر لیا، اس کے بعد رسول اسلام {ص} نے ان کو مدینہ بدر کر دیا اور ان کے مال کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
غزوہ بدر کے ایک سال بعد احد کی جنگ کا آغاز ہوا جس میں مشرکین  بدر کی شکست کا بدلہ لینے اور مسلمانوں سے اپنے کشتوں کا انتقام لینے کے لئے آئے تھے حضرت حمزہ اور کچھ دوسرے مسلمان اس بات کے قائل تھے کہ ان سے مدینہ کے باہر جنگ کی جائے۔ حضرے حمزہ نے رسول اسلام {ص} نے عرض کی":قسم ہے اس خدا کی جس نے قرآن کو آپ پر نازل کیا میں کھانا نہیں کھائوں گا مگر یہ کہ مدینہ کے باہر دشمنوں کے سر پر اپنی تلوار لیکر ٹوٹ پڑوں"۔  
شهادت
بدر کی جنگ میں دشمنوں سےلڑنے میں اور رسول کا دفاع کرنے میں آپ ثابت قدم تھے اور آپ نے تیس مشرکوں کو واصل جہنم کیا، ایک مشکر جسکا نام وحشی تھا ایک درخت کے پیچھے آپکی کمین میں پیٹھا تھا آپ نے اسکو دیکھا اور اس پر حملہ کرنا چاہا بیچ میں ایک دوسرا سامنے آ گیا آپ نے اس پر حملہ کیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا، پھر آپ وحشی کی طرف بڑھے لیکن آپ کا پیر کیچڑ میں پھنس گیا اور آپ زمین پر گر پڑے اور موقع کو غنیمت جان کر وحشی نے آپ پر حملہ کر دیا اور اسلام کا ایک سچا سپاہی میدان جہاد میں ملکوت اعلی کی طرف کوچ کر گیا۔
رسول اسلام {ص} نے آپ کی فضیلت میں فرمایا:
قیامت کے دن خدا کے نزدیک حمزہ سید الشہداء ہونگے
"السلام علیك یا عم رسول الله السلام علیك یا خیر الشهداء السلام علیك یااسد الله و رسوله‏" .

Add new comment