چشم بصیرت

چشم بصیرت

قرآن کریم وہ عظیم نعمت ہےجسے خدائے متعال نےعالم بشریت سے مخصوص کیا ہے ۔ابتداے نزول ہی سے یہ کتاب انسانی معاشرے میں نور کا محور اور اخلاق و معنویت ک امنبع رہی ہے۔ہر زمانے میں اس کتاب نے انسانیت کے خیل عظیم کو چاہے مرد ہوں یا عورت،تقرب الٰہی کے عالی ترین درجہ تک پہنچایا ہے او اس راستہ تک رسائی کےلئے بدگان خدا کی تربیت کی ہے۔قرآن مجید درحقیقت ایک ایسی مضبوط رسی اور مستحکم دستاویز ہے جسے خدائے متعال نے عالم ملکوت سے عالم مکل کی طرف اس لئے نازل کیا ہے تا کہ بندگان خدا اس سے متمسک رہیں اور اسی کے وسیلہ سے تقرب الٰہی کی جنت کی طرف گامزن ہوں۔
    قرآن کریم ایسا خوشگوار چشمہ ہے جو تفتیدہ جگر افراد کو سیراب اور بے جان دل کو روح حیات عطا کرتا ہے۔جس نے بھی قرآن مجید کے خوشگوار جام سے ایک گھونٹ نوش فرمایا تو اس کا گوہروجود نور معرفت سے درخشاں ہو گیا اور وہ خیر وصلاح کے راستے پر گامزن ہو گیا۔
    قرآن کریم،معارف کا بحر بیکراں،اور جو بندگان حقیقت کے لئے مشعل فروزاں ہے ۔قرآن مجید ایسا وسیع و عریض دسترخوان ہے جو حق پذیر قلوب کو ظاہری و باطنی رنگا رنگ نعمتوں سے سیر کرنے والا ہے ۔جو بھی پیغامات قرآنی کو دل کی گہرائیوں میں اتار کر اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جاتا ہے تو وہ اس امت کی سر بلند شخصیتوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔
    قرآن کریم ایسا نور ہے کہ جس کے قلب پر اس کی تابش ہو جاتی ہے وہ جہنم کی آگ سے محفوظ ہو جاتا ہے یہ وہی درخشاں نور ہے کہ جس گھر میں اس کی چمک نظرآتی ہے تو فرشتے اس گھر کو دوسرے کو دکھاتے ہیں جس طرح اہل زمین ستاروں کو ایک دوسرے کو اسی طرح دکھاتے ہیں۔
    قرآن مجید کلام خدا او رانسان کے دل اور فطرت کی آواز ہے اور بڑی آسانی سے دلوں کو مسخر کر لیتا ہے اور آدمی کی عقل اور اس کے قلب کو بلندی و کمال عطا کرتا ہے۔
    قرآن مجید ایسا چراغ ہدایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:کوئی بھی قرآن کا ہمنشین نہیں ہوا مگر یہ کہ جب اٹھا تو زیادتی یا کمی کے ساتھ اٹھا ،راہ راست تک پہنچے میں زیادتی اور کور دلی و گمراہی میں کمی۔
اما زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:خدایا!محمد اور ان کی آل پر درود نازل فرما اور قرآن کی برکت سے گناہوں کے بوجھ کو ہم سے دور کر دے اور اس کی پاکیزگی کے صدقے میں رجس و پلیدی سے دور فرما اور ہمیں ان لوگوں کے نقش قدم پر گامزن رکھ جنہوں نے اپنے راستے کو قرآنی نور سے منور فرمایا ہے۔
قرآن ایسا انیس و مونس ہے کہ امام سجاد علیہ السلام اس کے سلسلے میں فرماتے ہیں:اگر اہل مغرب و مشرق سب کے سب مر جائیں اور قرآن میرے ہمراہ ہو تو میں تنہائی کی سجہ سے وحشت محسوس نہیں کروں گا۔
قرآن کریم،زندگی کی راہ میں انسان کو کبھی بھی اکیلا نہیں چھوڑتا ہے بلکہ آسمان و زمین  کے فرشتوں کو اس کے ہمراہ قرار دیتا ہے۔قرآن،غم و اندوہ کے غبار کو دل سے صاف کر دیتا ہے زندگی کے بند دروازوں کو کھول دیتا ہے۔یہ انسان کو روشن راستہ،پر نشاط قلب ،مایوسی سے دور روح اور امید سے سرشار وجود عطاکرتا ہے اور ہمیشہ اسے خدائے متعال کے سایہ رحمت اور اس کی عنایت کی پناہ میں رکھتا ہے۔
ہاں !یہ قرآن کی ہم نشینی کا شف ہے جو شخص اس ہدایت کے چراغ فروزاں میں اپنی جگہ بنر قدر دانی کا حامل ہو جاتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ دنیائے مادی کے فراز پر نگوار حادثات کے ہمراہ حرکت کرتے ہوئے سعادت کی معراج پر پرواز کرنے لگتا ہے اور ایسا انسان اپنی بابرکت زندگی سے لطف اندوز ہو کر بہرہ مند ہوتاہے۔
قرآن کریم کے شجرہ طیبہ پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے انسان اس بات کو محسوس کر لیتا ہے کہ سب سے اچھی زندگی یہ ہے انسان قرآن کریم کی آغوش میں رہ کر اسی کے حقائق سے بہرہ مند ہو نیز روحانی سکون،ابدی سعادت اور معنوی و اخروی کمال تک رسائی حاصل کرے۔
اس لحاظ سے نابینا افراد اپنی امتیازی شخصیت کے پیش نظر اس مقصد سے زیادہ نزدیک ہیں کیونکہ وہ سیاہی و تاریکی جو چشم اور بینائی کے راستہ سے انسان کے روح و دل کو تیر و تار کردیتی ہے وہ اس سے امن و امان میں ہے وہ لوگ پاک قلب اور سالم روح کے حامل ہیں۔وہ لوگ اپنے دو پردوں اور مرکز قوت کے پیش نظر عالی ترین معنوی درجات کت بڑی آسانی سے پرواز کرنے لگتے ہیں اور شایان شان کملا سے نزدیک ہو کر لطف الٰہی اور قرآنی عنایات کے سایہ میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں ایسی صورت میں یقیناً ایک نابینا انسان قرآن کی ہمنشینی میں کامیاب اور با نشاط قلب کے ساتھ ابدی عزت حاصل کر تے ہوئے اپنی زندگی کو سر فرازی کے ساتھ گزار سکتا ہے۔
مجلۂ چشم بصیرت نے اسی مقصد کے پیش نظر اور اسی نشاط و حرکت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان پاک دل عزیزوں کی خمدت گزاری کے لئے آستین ہمت چڑھائی ہے اور قرآنی معارف کے دسترخوان کو صاحبان چشم دل کے آگے ملکی میڈیا کے میدان مین قدم رکھا ہے اور اس کے خدمت گزاروں کو یہ امید ہے کہ قرآن کریم کے روح افزا پیغاموں کو ان روشن دل نابینا افراد تک پہنچاتے ہوئے ہر اآن یہ کوشش ہو کہ بہار کے یہ شاداب پھول کبھی بھی پژمردہ نہوں اور ہدایت کے راستہ سے دور ہو کرکبھی بھی گمراہی کے گرداب میں گرفتار نہ ہوں ۔
مجلۂ ‘‘چشم بصیرت’’کو شائع کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے جذبہ کوبھی یہاں تلا ش کیا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیھم السلام ان افرا د کے لئے ایک مخصوص احترام اور خاص قدر و قیمت کے قائل ہیں۔
صدر اسلام میں جب ایک شخص نے ایک نابینا شخص سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فقط اپنے منہ کو اس کی طرف سے پھیر لیا اور ناراضگی کے سبب اپنے ماتھے اور آبرو پر بل ڈالے توخدائے متعال نے اس نابینا کے احترام میں پورا ایک سورہ نازل کیا جو ہمیشہ کے لئے اس کے حق میں سند ہو گیا اور دوسرں پر یہ واضح ہو گیا کہ خدائے متعال نابینا افراد کا سب سے بڑا مدافع و حامی ہے۔
خدائے متعال نے سورئہ عبس نازل کر کے اس شخص کو مورد عتاب قرار دیا کہ آخر ایک نابینا کو دیکھ کر تم نےا اپنا منھ کیاں بنایا۔اس سورہ کے نزول سے انسان یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ نابینا افراد کی چھوٹی سے چھوٹی اہانت یا اس سے پہلو تہی خدائے متعال کو غضبناک کر تی ہے اور ایسے افراد ہمیشہ مہر و محبت الٰہی کے سایہ میں رہتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ صدر اسلام میں مدینہ آنے سے پہلے پیغمر اکرم نے قرآن پڑھنے ،توحید اور دین اسلام کی دعوت دینے کے لئے ایک مسلمان جوان مصعب بن عمیر اور ایک نابینا شخص عبد اللہ بن مکتوم کو شہر یثرب میں روانہ کیا تاکہ مصعب کے ہمراہ ایک نابینا شخص بھی لوگوں کو قرآن و اسلام کی دعوت دے۔
    یہ بات بھی قابل تعجب ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی زندگی کے دوران تیرہ جنگوں میں بہ نفس نفیس شرکت کی ہے اور لشکر کی سربراہی خود اپنے ذمہ رکھی ہے لیکن جب آپ مدینہ سے جنگ کے لئے عازم ہوتے ہیں تو ایک نابینا شخص کو مدینہ میں اپناجانشین قرار دیتے ہیں بے تردید پیغمر اکرم کے اس عمل کو تاریخ رہبری اور جنگی سر براہی کے باب میں ایک قابل اہم اور غیر معمولی کارنامہ قرار دینا چاہے۔آیا سیاسی اور عسکری کارنامہ میں کوئی بھی قوم کسی ایسے صاحب اختیار اوررہنما کا بتہ بتا سکتی ہے جو ایک نابینا شخص کو تمام اختیارات سونپ کر اسے اپنا جانشین قرار دے؟

چشم بصیرت کے اغراض و مقاصد

کے نابینا افراد کے ذاتی امتیازات قرآن و سنت اور ائمہ علیھم السلام کے نزدیک ان کی خاص اہمیت‘‘چشم بصیرت’’وجود کے دو بنیادی محرک ہیں امید ہے کہ یہ نو ظہور مجلہ مندرجہ اغراض و مقاصد کے ہمراہ نابینا اور کم بینا افراد کی خدمت گزاری کا شرف حاصل کر سکے۔
1۔ سماج و معاشرے میں نابینا افراد کی برتر صلاحیتوں کو پہچنواتا ہے اور ان کے درمیان توفیقات سے سرشار افراد سے آشنا کرانا۔
2۔ قرآنی معارف کے  بحر بیکراں کا ایک دریچہ وا کر کے نابینا افراد کی علمی صلاحیتوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا۔
3۔ نابینا افراد کے درمیان موفق شخصیتوں کو آشکار کر کے اسے نابینا ؤں کے درمیان پیش کرنا۔
4۔ قرآنی ہدایات و اقدار کی نشاندہی کرنا تا کہ نابینا افراد کی فردی و اجتماعی زندگی قرآنی اقدار کے معیار پر قائم و دائم رہے۔
5۔ نابیناؤں کے درمیان قرآن مجید کے معنوی اقدار کی نشر و اشاعت تا کہ معنوی سیر و سلوک ،کمال مطلق کی طرف حرکت اور خدائے متعال سے تقرب کے راستے ان کے لئے آسان ہو سکیں۔
6۔ نابیناؤں کے سلسلے میں اپنے معاشرے کی فکروں کو تبدیل کرنا اور ان پاک طینت افراد کے باطن میں چھپے کمالات کو آشکار کرنا تا کہ ان کے حقوق کی رعایت اور معاشرے میں ان کی کھوئی ہوئی حیثیت کی واپسی ہو سکے نیز ا ن کے معنوی رشد و کمال کا راستہ فراہم ہو سکے۔
7۔ نابیناؤں کے درمیان قرآنی ذوق و شوق کے فقدان کو دور کرنا اور ان کے معنوی جذبہ اور نشاط کی حفاظت کرنا۔
8۔ نابیناؤں کے تجربے ،ان کے ذوق سرشار،اچھوتے پن اور ان کی تخلیقی صلاحیت نیز زندگی کے واقعات اور اس کی قرآنی سرگرمیوں سے فائدہ حاصل کرنا۔
9۔ مذکورہ اہداف کے حوالے سے اسلامی دانشوروں سے تبادل نظر نیز ہم فکری کی فضا ایجا د کرنا اور دنیا بھر کے نابیناؤں سے رابطہ بر قرار کرنا ۔
10۔ قرآنی سر گرمیوں اور قرآن کریم کے معنوی اقدار سے استفادہ کے لئے نابیناؤں کو رغبت دلانا۔
11۔ کتاب ہدایت و سازندگی کے عنوان سے قرآن کریم سے انس پیدا کرنے کے لئے نابیناؤں کے لئے موقع فراہم کرنا۔
    12۔ خانوادہ اور بچو ں کی تربیت کے لئے قرآن مجید کے قوانین اور س کے اہداف و مقاصد سے نابیناؤں کو آشنا کرنا۔

Add new comment