عظیم نابینا شخصیتں

عظیم  نابینا شخصیتں

حجۃالاسلام والمسلمین محسن قرآئتی

جابر بن عبد اللہ انصاری :

جابر،رسول خدا کے نمایاں اصحاب میں سےتھے۔ پیغبمر اکرم {ص} کے گھر آپ کی رفت و آمد تھی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے بھی بہت سارے اسرار سے آپ کو آشنا کیا تھا۔
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جابر سے فرمایا : میرا سلام امام محمدباقرتک پہونچا دینا،مقصود یہ تھا کہ اے جابر ! تم اتنی مدت تک زندہ رہو گے کہ سلسلہ امامت کی پانچویں فرد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا دیدار کر و گے۔
جب آپ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنی تو آپ اپنے غلام کے ہمراہ مدینہ سے کوفہ تک آئے۔90 سال کے اس پیر فرزانہ نے یہ تمام راستے کوفے تک پیدل طے کئے پھر وہاں سے عطیہ جو ایک مفسر تھےکو اپنے ہمراہ لیا اور نینوا کی طرف روانہ ہوئے ۔جب امام حسین علیہ السلام کی قبر تک پہنچے تو فرمایا:میرا ہاتھ قبر پر رکھ دو،عطیہ،‘‘ایک بزرگ عالم ’’کا بیان ہے میں نے جابر کا ہاتھ امام حسین کی قبر پر رکھ دیا تو انہوں نے تین مرتبہ کہا :یا حسین یا حسین یاحسین ۔
پھر سلام کیا اور فرمایا : آپ میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ اورپھر بیہوش ہو گئے ۔
عطیہ کا بیان ہے کہ میں نے جابر کے اوپر پانی کا چھیٹا مارا۔ تو ان کو ہوش آیا،پھر انہوں نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کو سلام کیا اور عرض کیا :اے اصحاب امام حسین علیہ السلام میں ضعیف و نایبنا ہوں،میں کربلا میں نہیں تھا لیکن میں بھی تمہارے ثواب میں شریک ہوں،عطیہ نے کہا : آپ ان کے ثواب میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں ؟ یہ لوگ تودرجہ شہادت تک پہونچنے کے لئے اپنے خون میں نہائے ہیں۔
جابر نے کہا : جس کسی کی بھی روح کسی کے ساتھ ہو وہ اس کے اجر میں شریک ہوتا ہے اگر میری آنکھیں ہوتی اور میں ضعیف نہ ہوتا تو میں بھی یہاں آتا۔میرا دل انہیں لوگوں کے ہمراہ تھا لہذا ان کے اجر میں شریک ہوں۔

عبد اللہ بن عفیف

عبد اللہ بن عفیف اپنے زمانے کے ادیب،شجاع،شاعر اور برجستہ سخنروروںمیں شمار ہوتے تھے ۔ آپ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے شیعوں اور ان کے اصحاب میں سے ایک تھے جنگ جمل میں امیرالمومنین کی رکاب میں رہ کر آپ نے جہاد کیا جس میں آپ کی بائیں آنکھ شہید ہو گئی۔ جنگ صفین میں شامیوں سے بر سر پیکار کے درمیان ایک ضربت آپ کے فرق مبارک پر اور دوسری ضربت آپ کی ابروپر لگی جس کے نتیجے میں آپ کی دوسری آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی۔نابینا ہوجانے کی وجہ سے جنگ صفین کے بعد آپ ہمیشہ مسجدوں میں نماز و عبادت میں مشغول رہتے تھے۔آپ زندگی کی آخری سانس تک حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت رسول کے عقیدہ و راستہ پر باقی رہے اور خاندان اہلبیت اور اس راہ میں لمحہ بھر کے لئے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ سید الشہدا ٔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے با وفا اصحاب کی کربلامیں شہادت کے بعد جب اہل حرم کو کوفہ لایاگیا تو عبیداللہ بن زیادشہر کی جامع مسجد میں وارد ہوا،لوگوں کو نماز کے لئے بلایا اور پھر منبر پر جا کر انتہائی جرات و بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ خدا کا کشر ہے کہ ہم نے فتح پائی اور امام حسین مارے گئے ۔ابھی ابن زیاد کی تقریر تمام بھی نہیں ہونے پائی تھی کہ عبد اللہ بن عفیف کھڑے ہوگئے اور عبید اللہ بن زیاد کی بات کا منھ توڑ جواب دیا۔اور بھر مجمع میں با آواز بلند فرمایا : اے مرجانہ کے بیٹے ! تجھ پر خدا کی لعنت ہو ! تجھے کچھ سمجھ میں آرہا ہے کہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟
ابن زیاد کو چونکہ یہ توقع نہیں تھی کہ کربلا کے بعد کہ جسے وہ بظاہراپنی فتح تصور کر رہا تھا کسی میں اتنی ہمت ہو گی کہ وہ مجھے بھرے مجمع میں اس طرح ذلیل کرے گا لہذا انتہائی غیظ و غضب کے عالم میں یہ حکم دیا اس مرد کو گرفتار کر کے میرے پاس حاضر کیا جائے کہ ابن زیاد کے سپاہی آپ کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لے جانے لگے تو آپ کے قبیلہ کو لوگ کہ جن کی تعداد اس وقت مسجد میں سات سو تھی اٹھ کھڑے ہوئے اور ابن زیاد کا کارندوں سے آپ کو نجات دلا کر آپ کے گھر پہونچا دیا۔لیکن ابن زیاد اپنے غیظ و غضب پر کنڑول نہ کر سکا لہذا اپنے قصر میں آیا اور حکم دیا کہ آپ کو گرفتار کیا جائے۔ابن زیاد کے کارندے جب عبد اللہ بن عفیف کے گھر میں داخل ہوئے تو آپ کی بیٹی نے اس بات سے آپ کو باخبر کیا آپ نے اپنی شمشیر سنبھالی اور فرمایا: اے میری بیٹی فقط تو یہ بتا کہ دشمن کس طرف سے آرہا ہے اور میں تلوار کدھر چلاؤں!!
آپ نابینا ہونے باوجود زبر دست جہاد کیایہاں تک کہ آپ جنگ کرتے کرتے شہید ہو گئے۔واقعہ کربلا کے بعد آپ سب سے پہلے وہ شخص ہیں جو آل محمد علہھم السلام کی محمایت و مدافعت میں شہید کئے گئے۔آپ اپنی غیر معمولی شجاعت و شہامت کے حامل تھے کہ جو دوسروں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے۔

Add new comment