اسلام عالمی امن و انسانیت کا احترام
امت کے آپسی اختلافات، مذہبی ومسلکی جھگڑے ، ملکی و قومی لڑاءیاں ، غیرفطری سماجی تقسیم اس پر مستزاد اسلام مخالف طبقات کی تخریبی ریشہ دوانیاں، معاندانہ اقدامات اور معاشی،اقتصادی، جنگی، ابلاغیاتی، تعلیمی، اخلاقی، معاشرتی اور سیاسی استحصال (Exploitation) یہ ایسے اسباب و پس منظر ہیں جس کی بناء پر اسلام صحیح معنوں میں مجروح ہوا ان تمام تر معاندانہ، مخالفانہ اور دشمنانہ سازشوں اور کاروائیوں کے پس پردہ جو جذبہ کارفرما ہے وہ ہے اسلام دشمنی اور تقابلی عصبیت افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عصبیت اور دشمنی کے مظاہرہ میں اسلام دشمن اقوام ان تمام حدود کو پھلانگ گئی ہیں جو فطری رموز کے حوالے سے غیرانسانی اقدام کہلاتے ہیں اس ضمن میں ان مساعی کو سراہنے کی کوشش کی گئی جس میں مسلمانوں اوراسلام کی تحقیر و تذلیل اور اسے بدنام کرنے کا کوئی بھی جواز ہاتھ آتا ہو۔
تاریخ کے گنجلک صفحات میں ایسے سیکڑوں واقعات کی بھرمار ہے جس کی منفی تشہیر صرف اس غرض سے ہوئی تاکہ اسلام کو بدنام کیا جاسکے، اسلام دشمنی کا یہ سلسلہ چلتا رہا تاآنکہ ان اسلام دشمنوں کے ہاتھ ”دہشت گردی اور اسلام“ کا ایک فتنہ خیز عنوان آگیا اس عنوان کے سہارے اسلام کی جتنی تحقیر کی گئی اوراس کے بنیادی عقائد ونظریات کو جس قدر نشانہ بنایاگیا وہ ہر مسلم فرد کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا اس صورت حال سے پوری امت تڑپ اٹھی۔ دراصل آج اسلام اور دہشت گردی بین الاقوامی سطح پر ایک ایسا معروضی عنوان بن گیا ہے جو سراسر حقائق مخالف ہونے کے باوجود، طاقتور اور تیز ترین ترسیلی ذرائع کی بناء پر ایک سچا اورحقیقی بلکہ مشہور زمانہ معروضہ بن گیا اور شاید اسلام دشمن یہ چاہتے بھی تھے کہ اسلام کی امن پسند شبیہ مجروح ہوجائے اور یقینا اس غیرواقعی الزام سے انکا ناپاک مقصد پورا ہوگیا۔
اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے کہ اس کی دوبارہ وضاحت ضروری ہوجائے جو طبقہ اور جو قوت اس طرح کا پروپیگنڈہ کررہی ہے وہ ہماری نظروں کے سامنے ہے، جن بنیادی مقدمات کو سامنے رکھ کر دہشت گردی کا الزام ثابت کیاجارہا ہے اس کی جہتیں بھی واضح و نمایاں ہیں اور جن اسلوب و مناہج کے سہارے یہ اقدامات کئے جارہے ہیں وہ بھی ہمیں صاف نظر آرہے ہیں۔ اگر کچھ نظر نہیں آرہا ہے تو وہ ہے ایمانی ہمت وجرأت، اسلامی شجاعت و بہادری وہ روح، وہ جذبہ اور مسلمانوں کے وہ فطری تیور جن کے سہارے ان باطل قوتوں کی دسیسہ کاریوں کا منھ توڑ جواب دیا جاتا۔ اور اسلام پر لگنے والے ان الزامات کا تدارک اور مسلمانوں کے عرصہٴ حیات کو تنگ کرنے کے حوالے سے رچی جانے والی سازشوں، معرض وجود میں آنے والی تخریبی کاروائیوں اور مسلم مخالف اقدامات کا تصفیہ ہوسکتا اس جہت سے امت کے لئے جوامر لمحہٴ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ اس حوالے سے مضبوط تر ملکی و فوجی نظام ترسیلی سہولیات، صلاحیت و قابلیت اور پھر بنیادی وسائل کے باوجود ہم اس فکر اور نظریہ کے انسداد کا کامیاب عمل انجام نہیں دے پارہے ہیں اور ہماری یہ ناکامی اسلام کی ذاتی اسپرٹ، فطری معصومیت اور مسلمانوں کے موجودہ جغرافیے کے لئے کافی خطرناک ہے۔
یہ بات تقریباً حتمی ہے کہ اسلامی اسٹرکچر و انفراسٹرکچر کی اندرونی و بیرونی ساخت انتہاپسندی، دہشت گردی اور تشدد پسندی کے جراثیم اور اس کی آمیزش سے بالکل محفوظ ہے گویا یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اسلام ایک امن پسند، فطرت سے ہم آہنگ اور قدرتی مظاہر سے بھرپور مذہب ہے اس کی نرم پالیسیوں، انسانیت کے احترام اور ایسے بنیادوں اور طریق کار کی بناء پر جس میں بنی نوع انسان کے حقوق کو تحفظ ملتا ہے اسے دین انسانیت کہا جاتاہے اورپھر اس کی پوری تاریخ انسانیت کے احترام ان کے حقوق کی رعایت اور انسانی اقدار کی حفاظت سے معمور ہے بایں طور کہ پورا اسلام جن بنیادوں پر استوار ہے وہ قرآن وحدیث ہے اس کا ہر منشور دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی سراسر مخالفت کرتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو مجرم اور شرعی حدود و تعزیرات کا سزاوار ٹھہراتا ہے لیکن پھر بھی اس مفروضے کا عام ہونا کہ اسلام دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سبق دینے والا اور اس کی پذیرائی کرنے والا، متشدد اور سخت گیر مذہب ہے تو انسانی دنیا کے لئے شرم سے ڈوب مرنا چاہئے پوری دنیا میں اگر اس مفروضے کو حقیقت کے شاکلہ میں عام کیاجارہا ہے تو وہ سچی انسانیت کا کھلواڑ اوراس کی صداقت پسندی کا کھلا مذاق ہے کیا انسانی دنیا اخلاقی طورپر اس پست ترین مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں جھوٹ کو سچ سمجھنا ایک معمولی امر ہوگیا ہو کیا یہ انسانی دنیا کے لیے لمحہٴ فکریہ نہیں ہے؟ کیا انسانی آبادی کو اس حوالے سے غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے؟ عالم اسلام کے لیے یہ واقعہ اس سے زیادہ سنگین اور افسوسناک ہے کہ اسلام کے ماننے والوں اور اس کے پیروکاروں کی اتنی کثیر تعداد بے تحاشا مادی و سائل، مضبوط و مستحکم نظریات اور ٹھوس عقائدی امور ہونے کے باوجود مغربی سازشوں کا شکار ہوجانا اور ان کی شیطانی طاقتوں سے زیر ہوجانا بڑی ندامت کی بات ہے۔
ان کے وہ الزامات، جن میں اسلام کے سخت گیر اور انسانیت کا احترام نہ کرنے والے ایک دہشت گرد مذہب ہونے کی عالمگیر تشہیر کی گئی ہے اپنا بھیانک رنگ دکھارہی ہیں، اس کے ملت اسلامیہ پر کافی برے اثرات پڑ رہے ہیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس کوئی ٹھوس لائحہٴ عمل بھی نہیں ہے جس کی بناء پر اس کی ضرر رسانیاں اور تباہ کاریاں مزید تباہ کن ہوتی جارہی ہیں؛ مملکت ہند میں بھی اسلامی دہشت گردی کا اچھا خاصا غلغلہ ہے اوراس کو بنیاد بناکر مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ان دس سالوں میں مسلمانوں کی امن پسند شبیہ بالکل بدلی جاچکی ہے اورانہیں دہشت گرد ہونے کے پختہ سرکاری القابات نوازے جاچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے میں مسلم افراد مطلوب بھی ہوتے ہیں اور ماخوذ بھی امت اسلامیہ کا سواد اعظم ان سنگینیوں کو محسوس کرتا ہے لیکن اس کے تدارک کے لئے موثر دفاعی لائحہٴ عمل اور حکمت عملی تیار کرنے کی موٴثر سعی نہیں کرتا آج ضرورت یہ ہے کہ پوری دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام دین فطرت ہے، امن و امان کی پاسداری اوراسے اولین ترجیح قرار دینے والا آفاقی مذہب ہے ایک ایسا دین ہے جہاں انسانیت نوازی کا درس دیا جاتا ہے اور اخلاقیات کا سبق پڑھایا جاتا ہے انسانیت کے احترام کی ہدایات دی جاتی ہیں۔
اس مقالے میں قرآن وحدیث کے تناظر میں احترام انسانیت کی تشریح کو محور بناکر ان گوشوں کو واضح اور نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بدیہی اور عام ہونے کے باوجود غیرمسلم طبقات کے لئے ناقابل فہم اور ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تشریح بن چکے ہیں۔
دراصل اسلام میں دہشت گردی انتہاپسندی اور ناجائز سخت گیری کا کوئی جواز ہی نہیں ملتا اور نہ اس کے کسی مذہبی حکم سے انسانیت مخالف عناصر کی حمایت ہوتی ہے بلکہ اسلام کے ہر شعبے میں نرم خوئی، امن و سلامتی، انسانیت پسندی اورحقوق کی رعایت وحفاظت کا ایک طویل ترین باب ملتا ہے حقوق العباد کے عنوان سے اسلام کا شرعی کلیہ بھی موجود ہے جس کا توسیعی مظہر امن وسلامتی ، رحمت و رأفت اوراحترام انسانیت ہی سے ماخوذ ہوتا ہے اوراسی بنیاد پر اسے دین رحمت بھی کہاجاتا ہے ہاں البتہ بعض ایسی چیزوں کی وضاحت ضروری ہے جن میں چنداں شبہات کی گنجائش ہے اور جو بادی النظر میں غیرموزوں معلوم ہوتی ہیں اورانہی معدودے امور کی بناء پر اسلام پر سنگین الزامات لگنے کی راہ ہموار ہوتی ہے حالانکہ وہ امور جو مبینہ اشتباہی منظر و مظہر کی بناء پر اسلام پر دہشت گردی اور امن وسلامتی کی عدم محافظت کے الزامات کی بنیاد بنتے ہیں وہ صرف محتملات اور متشابہات کے زمرے میں آتے ہیں ان پر حتمیت کے ساتھ کوئی رائے غیرمعقول ہے لیکن عالمی پروپیگنڈہ اور اطلاعاتی مراکز کے بھرپور سازشوں کے طفیل وہ تمام تر پروپیگنڈے اور افواہیں حقائق کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور اسے دنیا کی اکثریت سچاہی یا سچا جیسا تسلیم کرنے لگی ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے ان حالات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم کمیونٹی کو اس پر کوئی قابو نہیں ہے اور نہ ان کے رد عمل سے ایسا لگتا ہے کہ وہ مثبت طریقے سے اس ”نظریہ“ کے سدباب کی کامیاب کوشش کرسکیں گے کیونکہ مسلم دنیا نے تحریری، تقریری اور تشہیری صلاحیت اور مذاکرات کے ذریعے ان دشمنانہ سازشوں کو سبوتاز کرنے کی کوشش کا بھرپور مظاہرہ اب تک نہیں کیا پھر بھی ان کی معدودے مدافعانہ مساعی جزئی طور پر مفید ثابت ہورہی ہیں۔
”اسلام احترام انسانیت اور اس کا تحفظ کرنے والا مذہب ہے“ اگر یہ مفروضہ سوالیہ ضمن میں مذکور ہوتا تو واقعتہً حیرت انگیز اور تعجب خیز سوال ہوتا آخر اسلام سراپا امن وسلامتی ہے اس کا پورا ڈھانچہ جن بنیادی ستونوں پر قائم ہے وہ خود انسانیت پسندی، رحم دلانہ کیفیت اور فطرت کی پاسداری سے معمور ہے پھر بھی اگراسلام کے حوالے سے یہ سوالیہ ایشو کھڑا کیا جائے کہ کیا اسلام انسانیت کا احترام کرتاہے؟ تو یہ سوال معروضیت مخالف ہونے اورحقائق سے ناواقفیت یا اسلام کے حوالے سے تعصب آمیز اقدام کی غمازی کرے گا یہ تو واقعاتی اور تاریخی تناظر میں قابل قبول ہے کہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ وہ دین رحمت ہے لیکن اگر ہم موجودہ عالمی رائے عامہ کے تناظر میں اقوام عالم کے خیالات کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہوگی کہ موجودہ عالمی افکار، خیالات اور نظریات واقعیت وحقیقت کے منافی اور ضد ہیں اسلام کی انسانیت نوازی اوراس سے جڑی زمینی حقائق کے منکر ہیں اس پر مستزاد دہشت گردی کے الزامات، اتہامات اور مفروضات جوکہ خودساختہ اور مغربی مفکرین کی زائیدہ ہیں۔
یہ حالات کب پیدا ہوئے؟ کن عناصر کے تعاون سے صورتحال سنگین تر ہوتی گئی؟ اس کے مضرات ومضمرات کیا ہیں؟ اور اس پروپیگنڈہ کے پس پردہ کون سا داعیہ کارفرما ہے؟ یہ ایسے تشنہ سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہونے کے باوجود طوالت طلب ہے اسلئے ان سے تعرض نہ کرتے ہوئے ایک ایسا خاکہ پیش کرنا ہے جس میں اسلام کے انسانیت نواز، انسانیت پسند اور احترام انسانیت کے پابند ہونے کے واضح اور نمایاں شواہد، دلائل اور حقائق مل سکیں گے گرچہ یہ عنوان مزید تحقیق و تفتیش کا محتاج نہیں تھا کیونکہ ان چودہ سو سالوں میں اسلام کی انسانیت نوازی عملی، تاریخی، واقعاتی اورمعروضی میزان میں ایک ایسا بدیہی امر بن گیا ہے کہ اسکی حقیقت کو جھٹلانا سورج کو جھٹلانا ہے، لیکن چونکہ نامناسب اور غیرسازگار فضاء اور عالمی طاقتوں کی طاقتور تخریب کاریوں کی بناء پر اسلام کا یہ شعبہ سخت مجروح ہوا ہے اس بناء پر آج پھر اس بات کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے کہ اسلام کی انسانیت نوازی کو اس درجہ مشہور کیا جائے اوراسے اس طرح برتا جائے کہ ایک بار پھر تاتاریوں کی طرح اسلام سے سخت بیر رکھنے والے معاندین اسلام پاسبان کعبہ بن کر نکلتے نظر آئیں۔
دین رحمت ہونے کا جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دین، جو رحم دلی کے اسلوب اور اس کے مظاہر پر استوار و برقرار ہے سارے عالم کے لئے ایک پرامن اور انسانیت پسند مذہب بن سکے اور تمام انسانوں کے حقوق کی صحیح پاسداری اور رعایت ہوسکے مظلوموں اور ظلم وستم کے شکار معصوم لوگوں کو عدل وانصاف مل سکے، ایک صاف ستھرا پاکیزہ معاشرہ بن سکے، ایک ایسی فضا تیار ہوسکے جس میں انسانوں کے لئے جنت زار کی سرمستیاں ہوں، انسانی نسل کے ہر دائرے اور زمرے کے لوگوں میں ہم آہنگی، توازن اور آپسی معاونت کا نیک اورانسانی جذبہ پیداہوسکے اور ایک ایسی تہذیب کی داغ بیل ڈالی جاسکے جو بہرصورت انسانیت کی مسیحائی کا بہترین اور عمدہ نمونہ بن سکے۔ درحقیقت قرآن وحدیث، سیرت نبوی اور خلفائے راشدین کی حیات کا بنیادی مقصد اور اساسی ہدف اور ان کے لازمی ترجیحات ایک ایسی سوسائٹی کی تشکیل ہے جہاں انسان امن وسکون اور طمانیت کے ساتھ زندگی گذارسکیں اور سچ یہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے کی بنیاد اسلام جیسا دین رحمت ہی ڈال سکتا ہے بس یہی ایک ایسا ممتاز اور منفرد مذہب ہے جس میں وہ تمام تر خوبیاں اور مصالح موجود ہیں جو صحیح انسانی معاشرے کی تعمیر کے ترکیبی عناصر ہوتے ہیں۔
قرآن وحدیث میں امن وسلامتی، انسانی حقوق واقدار کی رعایت اور عدل و مساوات کے حوالے سے اچھا خاصا مواد ملتا ہے جو ان تمام چیزوں کو برتنے اور اسے ترجیح دینے کو لازمی اور ضروری قرار دیتا ہے اور یہی وہ ہدایات جو وسیع پیمانے پر نرمی، رحمت، محبت، انسانیت کا احترام، حقوق و اقدار کی رعایت اور تخریب و فساد سے گریز کرنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے اسلام کے دین رحمت ہونے کے بین ثبوت ہیں مثلاً زمین میں امن وامان کی توسیع اور پھیلاؤ کی غرض سے فاسد مادے اور تخریبی عناصر پر سخت نکیر کی گئی ہے ارشاد ربانی ہے ”لاتفسدوا فی الارض“ اس میں استعمال ہونے والا لفظ فساد امن کا متوازی لفظ ہے اور اسکی مراد اینٹی پیس (Anti Peace) یعنی امن مخالف اقدامات کرنے کی سختی سے ممانعت ہے اسی بناء پر فقہاء نے مفسدین کی تعزیرات اور ان کی سزائیں بڑی سخت تجویز کی ہیں۔
اسلام کے حوالے سے ایک مفروضہ بڑی شہرت رکھتا ہے یعنی ”اسلام جنگ اور تلوار“ یہ وہی مفروضہ اور خودساختہ پروپیگنڈہ ہے جس کی دوسری شق ”اسلام اور دہشت گردی“ کے نام سے مشہور ہے مغربی مصنّفین اور مستشرقین نے اسلام کی اشاعت شمشیر وسنان اور جنگ وجدل پر منحصر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے ان تحریروں سے ہمارے بعضے ہم مذہب بھی متاثر نظر آتے ہیں اس پروپیگنڈہ سے اسلام کی وہ شبیہ جو دین رحمت اور احترام انسانیت سے عبارت ہے، کافی مجروح ہوئی گرچہ اس کا معروضی اثر یعنی فطرتاً اسلام کا پھیلنا اور اس کی اشاعت عملی میدان میں بحسن وخوبی اسی رفتار سے جاری و ساری ہے لیکن اس اشتہاری الزام سے کچھ نہ کچھ رائے عامہ ضرور متاثرہوئی جو ان مسلم شہسواران علم و قلم کیلئے ضرور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جن کی خامہ فرسائیوں کو انقلاب آفریں گردانا جاتا ہے۔ اس موقع پر علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم کا ایک اقتباس نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس میں مغربی مفکرین کے اس نظریے کی تردید اور اسلام کی اشاعت کے بنیادی اسباب مذکور ہیں فرماتے ہیں ”اگر یہ سچ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا تو کارلائل کے اس سوال کا کیا جواب ہے کہ ”اگر محمد نے تیغ زن سپاہیوں کے زور سے اسلام کو پھیلایا تو پہلے ان تیغ زن سپاہیوں کو کس تلوار سے مسلمان بنایا“ اس اصول کی بناء پر تو چاہئے تھا کہ ان ملکوں میں اسلام کا سایہ تک نہ پڑتا جہاں تلوار نے اس کا ساتھ نہیں دیا حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ ملک حبشہ (ایتھوپیا) میں مسلمانوں نے اس کے اس احسان کے بدلے کبھی تلور نہیں اٹھائی کہ اس نے ایک دفعہ اسلام کے ابتدائی سخت ایام میں مسلمانوں کو اپنے یہاں پناہ دی تھی تاہم آج وہاں نصف آبادی مسلمان ہے افریقہ کے ان خطوں میں جہاں مسلمان سپاہیوں کا گذر بھی نہیں ہوا وہاں حلقہ بگوشان اسلام کی اتنی بڑی تعداد کیوں کر نظر آتی ہے چین پر مسلمانوں نے فوج کشی نہیں کی مگر کروڑوں مسلمان وہاں کہاں سے آگئے؟ جزائر ملایا مسلم سلاطین کے تخت وتاراج سے ہمیشہ محفوظ رہا مگر آج وہاں کروڑوں مسلمان کس طرح پیدا ہوگئے؟ تھائی لینڈ، فلپائن اور مشرق اقصیٰ کے دوسرے ملکوں اور جزیروں میں جہاں کسی مسلمان سپاہی کا قدم بھی نہیں پہنچا اسلام کا قدم وہاں کیونکر پہنچ گیا؟ ترک وتاتار نے تو خود مسلمان پر تلوار چلائی تھی ان پر تلوارکس نے چلائی ان کو مسلمان کس نے بنایا؟ یہ ایسی زمینی سچائیاں ہیں جن کا انکار یا جن کو نظر انداز کوئی اندھا اور کورچشم ہی کرسکتا ہے۔ اسلام دین رحمت ہے یہ کوئی ایسا دعویٰ نہیں جسے دلیل کی ضرورت پڑے یہ ایک ایسا بدیہی وجود رکھتا ہے جس کیلئے شواہد اور دلائل کی قطعی حاجت نہیں ہے۔
اسلام انسانوں پر چیرہ دستی کرنے والے کی سخت مخالفت کرتا ہے اور ظلم و ستم کرنے سے منع کرتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یا عبادی انی حرمّت الظلم علی نفسی فلا تظالموا“ اسلام میں انسانی حقوق کی اہمیت اور اس کا احترام جتنا ہے شاید ہی کسی مذہب میں اس کا عشر عشیر پایا جاتا ہو۔ دراصل اسلام میں کلمہٴ توحید زبان سے ادا کرنے کے ساتھ ہی انسانی حقوق کی رعایت کے ہدایات جاری ہوجاتے ہیں احترام انسانیت کے لئے اخلاقیات کا کافی بڑا درس دیا جاتا ہے اور معاشرتی و سماجی سطح پر حقوق انسانی کی تحدید بھی حقوق انسانی کی محافظت کی غرض سے ہے، انسانیت کو فرعونیت سے محفوظ رکھنے کے لئے شورائیت پر انتہائی زور دیاگیا ہے اور حکمرانوں کو اس کا پابند بنایاگیا ہر انسان کے تحفظ اور اس کے حقوق کی رعایت و حفاظت کے لئے واضح قانون بنائے گئے تاکہ انسانیت کا احترام برقرار رہے اور منصفانہ نظام عدل کی تو اسلام میں اتنی اہمیت ہے کہ کسی بڑے سے بڑے امیر کو بھی اس کے جرم کی بناء پر قانون کے حصار میں بڑی آسانی سے لایا جاسکتا ہے۔ اس نوعیت کے واقعات تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے سامنے ان کے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے دردی کے ساتھ قتل کرنے والا حبشی اسلام قبول کرنے کی غرض سے آیا تو آپ نے اس کے ساتھ کوئی برا سلوک نہیں کیا۔ حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو دور جاہلیت میں ان کے برادر کے قتل میں ملوث تھا پھر وہ اسلام لے آیا تھا حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے ان سے فرمایا ”خدا کی قسم میں تمہیں پسند نہیں کرتا“ اس نے کہا ”امیر المومنین! کیا اس کی وجہ سے میں اپنے حقوق سے محروم کیا جاؤں گا“ حضرت عمررضي الله تعالى عنه نے فرمایا ”نہیں“ اس شخص نے کہا ”تب تو کوئی حرج نہیں پسند اور محبت کی فکر تو عورتوں کو ہوتی ہے۔“
یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ کی سنت اور سیرت اور صحابہٴ کرام کی زندگی انسانیت کے احترام، اس کے حقوق کی حفاظت اور انسانیت پسندی کا اعلیٰ نمونہ ہے خود حضور صلى الله عليه وسلم لوگوں سے فرماتے تھے کہ ”اگر میں نے کسی پر ظلم کیا ہے تووہ اس کا بدلہ لے لے“ خلفاء راشدین بھی اسی نہج پر روبہ عمل رہے، حضرت عثمان نے محصور ہونے اور جان کے خطرے کے باوجود اپنے دفاع کے لئے اہل مدینہ کو بلوائیوں سے مقابلہ کی اجازت نہیں دی۔
دنیا کے سارے انصاف پسند اور تاریخ اقوام عالم پر گہری نظر رکھنے والے دانشوران یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام امن وشانتی کا مذہب ہے اسلام دین رحمت وفطرت ہے، اس کے فطری تقاضے ہمیشہ انسانیت کی حفاظت کرتے ہیں اسلام اپنے آغاز سے ہی سراپا رحمت ہے پیغمبر صلى الله عليه وسلم کے انوار اخلاق کے سامنے ظلم و عدوان کی تاریکیاں کافور ہوگئیں۔ تاریخ کے وسیع اور گنجلک صفحات میں ایسے اخلاقی نمونوں اور اس کے بہترین مظاہر کی بھرمار ہے جس میں انسانیت نوازی، رحم دلانہ کیفیت اور نرمی و آشتی کے واضح نقوش ثبت ہیں۔ فتح مکہ کا وہ واقعہ ناقابل فراموش ہے۔ قیدیوں کا ایک ایسا گروہ جس میں مسلمانوں پر تشدد کرنے والے بھی تھے، پھبتیاں کسنے والے بھی، قاتل بھی تھے اور ظالم بھی فتح مکہ کے دن وہ تمام اسیران اپنے متعلق فیصلے کے منتظر تھے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فقط انسانیت کے ناطے ان کے وہ تمام جرائم جو ناقابل عفو تھے معاف کردئیے اور یہ اعلان کردیا کہ جاؤ تم پر کوئی الزام نہیں؟ تم آزاد ہو۔ ظالموں کے لئے امن و امان کا دروازہ کھولنے اور رحمت کی بارش کرنے والا مذہب اسلام ہی ہے۔ انسانوں کو بخشنا اور انہیں تحفظ فراہم کرنا دین اسلام نے ہی سکھایا۔ سچ یہ ہے کہ دین اسلام نے ایسے تمام راستوں کو بند کردیا جس سے انسانیت پر سنگین صورتحال کے پیدا ہونے کا اندیشہ تک ہوتا ہے۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ ”کسی مسلم کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے کو ڈرائے اور دھمکائے“ سنن ابوداؤد میں یہ حدیث بھی ہے ”جس نے اپنے انسانی بھائی کی طرف لوہے سے اشارہ کیا تو فرشتے اس وقت تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آجاتا۔“
انسانی تعلقات کی استواری اوراستحکام کا مکمل لحاظ اسلام نے کیا ہے بھوک سے شکستہ حال لوگوں کو کھانا کھلانے، پیاسے کو پانی پلانے، بیماروں کی عیادت اوراس کی مزاج پرسی کا سبق دیا ہے مشکوٰة شریف کی روایت ہے کہ جس نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، پیاسے کو پانی پلایا اور بیمار کی عیادت کی گویا اس نے اللہ کو کھلایا اللہ کو پلایا اور اللہ کی عیادت کی۔ اسلام نے یہ درس مذہب سے بلند ہوکر دیا اور مسلم اور غیرمسلم کی کوئی تحدید نہیں کی اور یہ محض تلقین زبانی نہیں بلکہ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عمل بھی کیا غیرمسلموں کے ساتھ رواداری، حسن سلوک اور حسن معاشرت کے بہتیرے نمونے ”سیرت رسول“ میں ملتے ہیں، غیرمسلموں کے ساتھ زبانی وعملی ہمدردی، خیرخواہی اور ان کے حقوق کا خاص خیال آنحضور صلى الله عليه وسلم کا معمول تھا۔ اکثر مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے غیرمسلموں کو مالی وجانی تعاون فراہم کیاہے اور یہ تعاون صرف انسانیت کے ناطے ہوا کرتا تھا۔چ
اولاد آدم کی تکریم اور عزت کا قرآنی اصول اس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تمام بنی نوع انسان کی حرمت کے متعلق مذہب اسلام مساوی موقف رکھتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اللہ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے“ نبی صلى الله عليه وسلم کے پاک ارشادات میں سچے مومن اوراس کے ایمان کی ترقی کے حوالے سے یہ صراحت ملتی ہے کہ مومن ہمیشہ نیک کام میں ترقی کرتا ہے اور کرتا رہے گا جب تک وہ ناجائز اور حرام خون نہ بہائے اور جب وہ حرام خون بہاکر زمین میں فساد برپا کرے گا تو وہ تھک کر مایوس بیٹھ جائے گا بلکہ اس کی ترقی رک جائے گی (ابوداؤد) قرآن وحدیث میں ناجائز خونریزی کی سخت ممانعت آئی ہے اور جس جگہ خونریزی ناگذیر سمجھی گئی وہاں بھی انسانیت کی حفاظت ہی پیش نظر ہے۔ قرآن نے بڑی سچائی کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ جس نے کسی جان کو قتل کیا نہ جان کے بدلے نہ زمین پر کسی مجرمانہ سورش کی بناء پر تو گویا اس نے قتل کرڈالا سب لوگوں کو (المائدہ) قرآن کا یہ منشور اسلام کی انسانیت پسندی کے موقف کی تائید کے لئے کافی ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ اسلام میں امن وامان، انسانیت کے احترام اور اس کے حقوق کی حفاظت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنا ایک غیرمعقول بات، غیرمنصفانہ عمل ہے اور ایک عالمگیر مذہب اور اس کے ماننے والوں کی صریح حق تلفی ہے۔
Add new comment