فلسطین، مصر اور عراق کی صورتحال اور آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا اظہار تشویش
ہر سال کی مانند اس سال بھی اسلامی جمہوریہ ایران میں ماہ مبارک رمضان کے اختتام پر تہران میں ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی امامت میں انتہائی پرشکوہ انداز میں نماز عید سعید فطر برگزار ہوئی۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نماز عید کے خطبات میں خطے اور دنیا کے بعض اہم مسائل پر اظہار خیال فرمایا۔ آپ نے گذشتہ چند ماہ کے دوران مشرق وسطی میں رونما ہونے والے واقعات پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے مصر میں جاری سیاسی کشمکش اور فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان شروع ہونے والے امن مذاکرات کو اپنی گفتگو کا محور قرار دیا۔ اس رپورٹ میں آیت اللہ العظمی امام سید علی خامنہ ای کے نقطہ نظرات کو انتہائی مختصر انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اسرائیل فلسطین امن مذاکرات اور اسلامی جمہوریہ ایران کا اصولی موقف:
امریکہ میں براک اوباما کا دوسری بار صدر منتخب ہونے اور جان کری کو وزیر خارجہ کے عہدے پر منصوب کئے جانے کے بعد نام نھاد مشرق وسطی امن مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششوں میں تیزی آ گئی۔ جان کری 2004ء میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں امیدوار کے طور پر سامنے آ چکا ہے لیکن القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی جانب سے شدید اللحن دھمکیاں باعث بنیں کہ اس کا رقیب یعنی جرج بش جونیئر صدارتی انتخابات میں کامیاب قرار پائے۔ اس نے امریکی وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالتے ہی فلسطین اتھارٹی اور اسرائیلی حکام کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع کروانے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں۔ مشرق وسطی میں امن مذاکرات کے احیاء کیلئے امریکہ کی جانب سے یہ پہلی کوشش نہ تھی بلکہ جب ہیلری کلنٹن امریکی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز تھی اس وقت بھی امریکہ نے اس سلسلہ میں کافی کوششیں انجام دیں۔ لیکن 1967ء کی فلسطینی سرزمین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے سلسلے کو جاری رکھے جانے کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے غیرمعقول اور شدت پسندانہ موقف اپنائے جانے کی وجہ سے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے مذاکرات سے کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔ جبکہ اس بار مشرقی بیت المقدس اور کرانہ باختری میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود محمود عباس امریکی دباو کے تحت مذاکرات کی میز پر واپس لوٹ آئے ہیں۔
امریکہ نے اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور ابومازن محمود عباس کے ساتھ گفتگو کو ازسر نو شروع کرنے پر مجبور کرنے کیلئے دھمکیوں اور لالچ دینے کی پالیسی سے کام لیا ہے۔ اگرچہ اوباما کی حکومت نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو مذاکرات میں شرکت کرنے کی صورت میں وسیع پیمانے پر مدد کا وعدہ کیا ہے لیکن دوسری طرف یورپی یونین نے اسرائیلی بستیوں میں تیارکردہ مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے لالچ پر مبنی امریکی پالیسی کی تکمیل کر دی ہے۔ دوسری طرف محمود عباس کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے امریکہ کو کسی تگ و دو کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ محمود عباس اس لئے مذاکرات کو جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے 1993ء میں اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کا آپشن ترک کر کے اپنے سامنے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے ساتھ مذاکرات جیسے تحقیر آمیز راستے کے علاوہ کوئی اور راستہ باقی نہیں چھوڑا۔ جس دن ابوعمار یاسر عرفات نے وائٹ ہاوس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر اسرائیل کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کے خاتمے کی علامت کے طور پر اپنا ذاتی اسلحہ امریکی صدر بل کلنٹن کے حوالے کر دیا، اسی وقت واضح ہو گیا تھا کہ جناب یاسر عرفات اور ان کی جماعت پی ایل او جس کے موجودہ وارث ابومازن محمود عباس ہیں اپنی عزت اور اعتبار کھو چکے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ جناب ابومازن یقینا آنے والے مذاکرات میں کم ترین امتیازات پر راضی ہو جانے کی پالیسی اپنائیں گے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو جو بین الاقوامی سطح پر امریکہ اور مغربی قوتوں جیسی مضبوط بیک کا حامل ہے کی پوری کوشش ہو گی کہ ان مذاکرات میں اپنے فلسطینی رقیب سے زیادہ سے زیادہ مراعات وصول کرے۔ ابھی سے یہ پیش بینی بھی کی جا سکتی ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کسی حالت میں فلسطینی مہاجرین کی اپنی آبائی سرزمین میں واپسی کو قبول نہیں کرے گا بلکہ اس کی کوشش ہو گی کہ 1967ء کی جنگ میں ہتھیانے والی فلسطینی سرزمین خاص طور پر وہ علاقے جہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں پر اپنا دائمی قبضہ جما لے۔ اس کے علاوہ چونکہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اسرائیل کی قومی سلامتی پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہوا نظر آتا ہے لہذا اس سے یہ توقع بھی نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ فلسطینیوں کو ایک ایسی آزاد اور خودمختار مسلح فورس بنانے کی اجازت دے گا جو فلسطین کی جغرافیائی حدود کا معقول دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ اور ایسی ریاست جو حتی اپنی جغرافیائی حدود کا دفاع کرنے پر قادر نہ ہو اس کی حاکمیت اور رٹ کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟
فلسطین کے نام نھاد امن مذاکرات کے بارے میں ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا موقف درحقیقت وہی اسلامی جمہوریہ ایران کا اصولی موقف ہے جو اس نے گذشتہ 34 سال سے اپنا رکھا ہے۔ امام خامنہ ای عید سعید فطر کے خطبے میں اس بارے میں فرماتے ہیں:
"یقینا ماضی کے مذاکرات کی طرح حالیہ مذاکرات کا نتیجہ بھی مظلوم فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی پامالی اور مزید ظلم و ستم کرنے کیلئے ظالم اسرائیلی رژیم کی حوصلہ افزائی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا"۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ان مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"امریکہ کھلم کھلا غاصب صہیونیستی رژیم کی حمایت کر رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عالمی استعماری قوتوں کی جانب سے انجام پانے والے مذاکرات کا نتیجہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کے نقصان پر ہی منجر ہو سکتا ہے"۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے مزید فرمایا:
"عالم اسلام کو چاہئے کہ وہ اس واضح ظلم و ستم کے مقابلے میں اٹھ کھڑا ہو اور صہیونیست بھیڑیوں کے شرمناک جرائم اور ان کے بین الاقوامی حامیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرے"۔
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے اس واضح اور حق طلبانہ موقف کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ماضی کی مانند اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کے مقابلے میں مسلح جدوجہد پر مبنی مظلوم فلسطینی قوم کے جائز حقوق کے دفاع کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔ اس پالیسی کی روشنی میں نام نھاد امن مذاکرات کی بنیاد ہی باطل پر استوار ہے جس کی وجہ سے یہ مذاکرات کوئی قدروقیمت نہیں رکھتے۔
مصر اور خانہ جنگی کا خطرہ:
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے عید سعید فطر کے خطبے میں مشرق وسطی کے ایک انتہائی اہم اسلامی ملک مصر کی صورتحال پر بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
"مصر میں خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور یہ ایک انتہائی بری خبر ہے"۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مصر کی عظیم قوم، سیاسی گروپس اور اہم شخصیات کو ملک میں جاری حالیہ کشمکش کے خطرناک نتائج کی جانب توجہ کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
"کیا شام کی صورتحال، خانہ جنگی کے انتہائی ہولناک نتائج اور عالم اسلام کے مختلف خطوں میں دہشت گرد عناصر اور مغربی قوتوں اور اسرائیل کے ایجنٹس کی موجودگی کے شدید منفی اثرات مصری عوام کیلئے سبق سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کیلئے کافی نہیں؟"
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے مصر میں فوج کے ہاتھوں نہتے عوام کے قتل عام کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
"مختلف گروہوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر ملک میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں بیرونی قوتوں کو مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بہترین جواز فراہم ہو جائے گا جس کے باعث مصری قوم شدید مشکلات اور مسائل کا شکار ہو سکتی ہے"۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے جمہوریت کی جانب توجہ دینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
"مصر کا موجودہ بحران صرف اور صرف عوام، سیاسی و مذہبی گروہ اور سیاسی و مذہبی شخصیات کے ہاتھوں حل ہو سکتا ہے اور انہیں چاہئے کہ وہ بیرونی قوتوں کو مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دیں"۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے خطبہ نماز عید سعید فطر میں مصر میں جاری بحران کے بارے میں بیان کئے گئے بعض اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
1. مصر میں شروع ہونے والی برادر کشی اور جنم لینے والی شدت پسندی کی لہر کی مخالفت جو ان دنوں اکثر سیاسی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ مصر میں فوج اور اخوان المسلمین کے درمیان خانہ جنگی کی صورت میں وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کا مشاہدہ ماضی میں الجزائر میں کیا جا چکا ہے۔ مصر آرمی کی فوجی طاقت، بعض عوامی گروہوں کی جانب سے مصر آرمی کی حمایت کا اعلان، عوام کے اندر اخوان المسلمین مصر کی مقبولیت اور اخوان المسلمین مصر کی عسکری صلاحیتوں کے پیش نظر مصر میں قومی مفاہمت پیدا نہ ہونے کی صورت میں خانہ جنگی کا خطرہ انتہائی شدید نوعیت کا ہے۔
2. مصر کے حالیہ سیاسی بحران میں مغربی قوتوں اور اسرائیل کی شیطنت نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔
3. دہشت گردانہ اقدامات کی مخالفت۔ مصر کے بعض سلفی گروہوں کی جانب سے دہشت گردی اپنائے جانے کا امکان موجود ہے۔ وہ گروہ جو فکری اور سیاسی اعتبار سے شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں سے نزدیک ہیں اور شام میں جاری بحران میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار کے حامل رہے ہیں۔
4. مصر میں جمہوریت کی جانب لوٹ جانے پر تاکید اور یہ کہ اس ملک میں جمہوریت صرف اور صرف تمام مصری گروہوں کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
5. مصر میں جاری بحران کے حل میں سیاسی و مذہبی گروہوں، اہم شخصیات اور علمای گرامی کے مرکزی کردار پر زور اور یہ کہ الازہر یونیورسٹی اس کام میں سب سے زیادہ بنیادی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس شرط پر کہ قومی اتحاد کو اپنا نصب العین بنائے اور بعض مخصوص گروہوں کی طرفداری نہ کرے۔
6. اس بات پر تاکید کہ مصر کی تقدیر کا فیصلہ بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہئے ورنہ مصر کا انقلاب ناکامی کا شکار ہو جائے گا اور سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک جیسا دور واپس آ جائے گا۔
ان نکات کی روشنی میں واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف یہ ہے کہ مصر کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف مصری عوام کو ہی حاصل ہے۔ لہذا سیاسی اور مذہبی رہنماوں کو چاہئے کہ وہ کسی قسم کی بیرونی مداخلت کے بغیر اور شدت پسندی سے مکمل طور پر اجتناب کرتے ہوئے ایک پرامن راہ حل تلاش کریں۔ اسلامی جمہوریہ ایران مصر میں نہتے عام شہریوں کے قتل عام کا شدید مخالف ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے۔
عراق کی جمہوری حکومت عالمی طاقتوں اور خطے کی ڈکٹیٹر عرب حکومتوں کی آنکھ میں کانٹا ہے:
ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ عراقی حکومت انتخابات میں بھاری اکثریت سے برسراقتدار آئی ہے اور اس کو عوام کا بھرپور مینڈیٹ حاصل ہے لیکن خطے کی بعض ڈکٹیٹر عرب حکومتیں اور عالمی طاقتیں اس کی مخالفت میں مصروف ہیں۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا:
"اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق میں انجام پانے والے خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ اقدامات خطے کے بعض ممالک اور عالمی طاقتوں کی جانب سے مالی اور سیاسی مدد سے انجام پا رہے ہیں، ان دہشت گردانہ اقدامات کا مقصد عراقی عوام کی زندگی اجیرن کرنا اور ملک میں بدامنی پیدا کرنا ہے"۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر نے عید سعید فطر کے خطبے کے آخر میں یہ تاکید کرتے ہوئے کہ اسرائیل مصر، عراق اور خطے کے دیگر ممالک میں ناگفتہ بہ صورتحال اور بدامنی سے انتہائی خوشحال ہے فرمایا:
"عراق کی سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتوں اور عوام، چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ یا کرد یا عرب، کو چاہئے کہ اپنے اندرونی اختلافات کے بھیانک نتائج کی جانب متوجہ ہوں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ خانہ جنگی ملک کے قیمتی اساسوں کی نابودی اور قوم کے مستقبل کی تاریکی کا باعث بنتی ہے"۔
عراق میں سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی حکومت ختم ہونے اور ملک سے قابض افواج کے انخلاء کے بعد معرض وجود میں آنے والی جمہوری حکومت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ عراق کی جمہوری حکومت دو بڑے خطرات سے روبرو ہے۔ پہلا خطرہ ملک میں سلفی گروہوں کی جانب سے دہشت گردانہ سرگرمیاں ہیں۔ عراق میں انجام پانے والے خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ اقدامات روزانہ دسیوں عراقی شہریوں کی شہادت اور بڑی تعداد میں زخمی ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہ انہی عرب خیلجی ریاستوں کی حمایت اور مدد سے برخوردار ہیں جو شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی مدد اور سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں۔ خطے کی بعض متعصب عرب حکومتیں عراق میں شیعہ اکثریت کو برسراقتدار نہیں دیکھ سکتی۔ دوسری طرف عراقی حکومت کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی ان عرب حکومتوں کے غیض و غضب میں اضافے کا باعث بنے ہیں لہذا ان عرب حکومتوں نے عراق میں شیطانی اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ یہ متحجر اور متعصب عرب حکومتیں سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین سے شدید اختلافات رکھنے کے باوجود صرف اس وجہ سے اس کی حمایت میں مصروف تھیں کیونکہ تصور کر رہی تھیں کہ صدام حسین ایران کی طاقت کو محدود کرنے میں بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اب جب دو شیعہ اکثریتی ممالک یعنی ایران اور عراق کے درمیان برادرانہ تعلقات استوار ہو چکے ہیں تو ان عرب حکومتوں کیلئے یہ امر قابل قبول نہیں۔
عراق کی موجودہ جمہوری حکومت کیلئے دوسرا بڑا خطرہ اعراب اور کردوں کے درمیان پائے جانے والے دیرینہ اختلافات ہیں۔ کردوں میں بعض ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو عراق سے الگ ہو کر نئی کرد ریاست کی آرزو دل میں لئے ہوئے ہیں اور اس مقصد کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آزادی خواہی پر مبنی یہ رجحانات کردستان کے علاقے میں اسرائیل کے جاسوسی اداروں کے نفوذ اور سرگرمیوں کے ساتھ مل کر عراقی حکومت کیلئے ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گذشتہ چند سال کے دوران کردستان کے صدر اور عراقی وزیراعظم میں بھی اختلافات کا سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان اختلافات کی بنیادی وجہ ملکی آئین کی مختلف تفسیر اور تشریح بیان کی جاتی ہے۔ اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے بعد عراق مغربی قوتوں اور اسرائیل کی فتنہ انگیزی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ فرضیہ موجودہ حالات اور پائے جانے والے قرائن کی روشنی میں زیادہ بعید نظر نہیں آتا۔ لہذا ولی امر مسلمین جہان آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے عراق کے بارے میں اظہار تشویش مکمل طور پر بجا اور حق بجانب ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران عراقی حکومت اور بعض کرد گروہوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے کے ناطے اس ملک میں قومی مفاہمت پیدا ہونے میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قائد انقلاب اسلامی ایران کے اس سال عید سعید فطر کے خطبات سے امت مسلمہ کے بعض اسلامی ممالک میں بحرانی صورتحال کی بابت تشویش ظاہر ہوتی ہے۔ ملت فلسطین کے جائز حقوق کی پامالی کا خطرہ، عراقی عوام کی قتل و غارت اور مصر میں جاری سیاسی بحران سے پائی جانے والی وہ تشویش جو ولی امر مسلمین جہان کے خطبات عید سعید فطر میں ظاہر ہوئی ہے درحقیقت مشرق وسطی میں بسنے والی تمام مسلمان اقوام میں بھی قابل مشاہدہ ہے۔
مآخذ: اسلام ٹائمز
Add new comment