آٹھ برس کا بچہ اور شہرہ آفاق قاضی
خلیفہ مامون الرشید نے ایک عظیم الشان مناظرے کا اہتمام کیا اور عام اعلان کرادیا۔ ہر شخص اس عجیب اور بظاہر غیر مساوی مناظرے کو دیکھنے کا مشتاق ہوگیا جس میں ایک طرف ایک آٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک آزمودہ کار اور شہرہ آفاق قاضی۔ ارکان حکومت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علما وفضلا کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دارالسلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کھنچ کر جمع ہوگئے تھے ۔اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی۔ مامون الرشید نے حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لئے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی جبکہ سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ہر طرف سناٹا تھا، مجمع ہمہ تن چشم و گوش گفتگو شروع ہونے کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا تھا حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر علیہ السّلام سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟ مامون نے کہا تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہئے۔
یحیٰی یحییٰ ابن اکثم امام علیہ السّلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:
کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں ؟
فرمایا، تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہویحیٰی نے پوچھا کہ
حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
اب لوگ یحی بن اکثم کے مد مقابل آٹھ سالہ بچے کی طرف متوجہ ہوئے، آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا سوال بالکل مبہم اور مجمل ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں؟ شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف؟ اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا دھوکے سے؟ ، وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کر چکا تھا؟ شکار پرندےکا تھا یا چرندے کا؟ چھوٹا یا بڑا ؟ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن دہاڑے اوراعلانیہ؟ احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائی جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نہیں دیا جا سکتا۔ یحییٰ فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر بھی تھی، وہ ان کثیر التعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ یہ مناظرہ میرے لئے آسان نہیں ہے، لہذااس کے چہرے پرایسی شکستگی کے آثار پیداہوئے جن کاتمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا، اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا۔ مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچھ کہنا بیکار سمجھا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام سے عرض کی کہ پھر آپ ہی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجئے، تاکہ سب کو استفادہ کا موقع مل سکے۔ امام علیہ السّلام نے تفصیل کے ساتھ جو احکام تھے بیان فرمائے جن کو سن کر نہ صرف یحی بن اکثم بلکہ مجمع میں موجود ہر شخص اہلبیت علیہم السلام کے گھرانے کے اس کمسن فرد کی قابلیت اور علمیت کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا اور خلیفہ مامون نے تو اسی وقت اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد آپ کے ساتھ کردیا۔
Add new comment